ریمنڈ ڈیوس کیس کا ڈرامائی اختتام

بدھ 16مارچ کی سہہ پہر اچانک قوم کو پتہ چلا کہ لاہور کے مزنگ چوک پر دو پاکستانی نوجوانوں کو قتل کرنے والا امریکی جاسوس اور سی آئی اے کا اہلکار ریمنڈ ڈیوس رہا کردیا گیا ۔ یہ خبر مجھ سمیت تمام ہی پاکستانیوں پر بجلی بن کر گری ہے ،اور لوگ سکتے میں رہ گئے کہ یہ کیا ہوگیا؟ آج تو اس پر فرد جرم عائد کی جانی تھی اور آج ہی اچانک کیس نمٹا دیا گیا۔ایک ہی دن میں تمام مقتولین کے ورثاء نے ایک ساتھ جمع ہوکر جج کے روبرو پیش ہوکر ریمنڈ ڈیوس کو معاف کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے ساتھ ہی تمام کے تمام ورثا خون بہا (دیت ) لینے پر بھی راضی ہوگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملزم ریمنڈ ڈیوس پر ناجائز اسلحہ رکھنے کا کیس بھی نمٹا دیا گیا اور اس کی قید کی مدت کو سزا میں تبدیل کرکے تیس ہزار روپیہ جرمانہ کرکے وہ کیس بھی ختم کردیا گیا۔ اور اس کے چند گھنٹوں بعد ہی قوم کو پتہ چلا کہ امریکی جاسوس اور سی آئی اے کا اہلکار ریمنڈ ڈیوس پاکستان سے روانہ ہوگیا۔، ذرائع کے مطابق امریکی ایئر فورس کا طیارہ 4 بجکر 45 منٹ پر لاہور سے بگرام ایئر بیس کیلئے روانہ ہوا۔ طیارے میں 12افراد سوار تھے طیارہ ایک دن پہلے ہی رات سے ایئر پورٹ پر موجود تھا امکان ظاہر کیا گیا کہ ریمنڈ ڈیوس بھی اس طیارے میں موجود تھا تاہم ان 12افراد کی شناخت کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا۔یا حیرت یہ اچانک کیا ماجرا ہوگیا؟

فی الوقت کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی کہ ریمنڈ ڈیوس کے کیس کے اس پر اسرا ر اور ڈرامائی انداز میں اختتام کے پس پردہ کیا حقائق ہیں؟ کون کون سے کرداروں نے اس میں اپنا حصہ ڈالا؟ اور کس نے کتنا ’’حصہ ‘‘ وصول کیا؟ حکومتِ پنجا ب کا موقف ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کیس میں تمام کے کے تمام اٹھارہ ورثاء کوٹ لکھپت میں ایڈیشنل جج کی عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے فرداً فرداً جج کے سامنے ریمنڈ کو معاف کرنے کا اعلان کیا اور معافی نامے پر دستخط کرتے گئے۔ جبکہ اس موقع پر مقتولین کے ورثا کو 20کروڑروپے دیت بھی ادا کی گئی ( بعض اطلاعات کے مطابق دیت 37کروڑ روپے ادا کی گئی ہے)۔حکومت پنجاب کے مطابق مقتولین کے ورثا پر کوئی دباؤ نہیں تھا اور انہوں نے بہ رضا و رغبت اور بلا جبر و اکراہ دیت کے معاملے کے تحت ملزم کو معاف کردیا ہے۔ جبکہ میڈیا کے رابطہ کرنے پر مسلم لیگ ن کے سعد رفیق صاحب نے کہا کہ اس معاملے میں پنجاب حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ مقتولین کے ورثا نے ہی اپنے مقتولین کا خون بیچا ہے اور پوری قوم کا سر جھکا دیاہے۔ دوسری جانب مرکزی حکومت کی ترجمان فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے بھی یہ فرمایا کہ اس معاملے میں مرکزی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے اور معاملہ عدالت کے ذریعے ختم ہوا اور عدالت نے ہی ریمنڈ کو قانونی کاروائی کے بعد ہی بری کیا ہے۔

یہ ایک موقف ہے ۔ تاہم ڈیوس کی رہائی پر فیضان اور فہیم کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ان سے زبردستی دیت کے کاغذات پر دستخط کرائے گئے اور ڈیوس کیس کی سماعت کے دوران 4 گھنٹے تک انھیں جیل میں رکھا گیا۔جبکہ دوسری جانب مقتولین کے ورثا کے وکیل اسد منظور بٹ نے الزام عائد کیا کہہ فیضان اور فہیم کے ورثاکو رات کو ہی گھروں سے اٹھایا گیا تھا جن سے کیس کی سماعت کے دوران زبردستی دیت کے کاغذات پر دستخط کرائے گئے ہیں جس کے بعد ڈیوس کو جیل سے فرار کرادیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو میں اسد منظور بٹ نے مزید کہا کہ ڈیوس کیس کی سماعت ہوئی اور نہ ہی ہمیں پیش ہونے دیا گیا جیل انتظامیہ نے ڈیوس کیس کی سماعت روک دی اور جیل سے امریکی سفارتخانے کی 4 گاڑیاں نکلنے کے بعد ورثاکو باہر نکالا گیا مقتولین کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ ریمنڈ ڈیوس کو فرار کرایا گیا ورثاسے دیت کے کاغذات پر زبردستی دستخط کرائے گئے اسد منظور بٹ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مقتولین کے ورثاکا ریمنڈ ڈیوس سے براہ راست رابطہ کرایا گیا ورثاکو صبح سے بلا کر طویل انتظار کروایا گیا۔

جبکہ ریمنڈ ڈیوس کی روانگی کے بعد امریکی وزیر خارجہ کا بیان میڈیا پر آیا کہ ’’امریکی حکومت نے ریمنڈ کی رہائی کے لئے کوئی ادائیگی نہیں کی۔اور ریمنڈ ڈیوس کو معاف کرنے پر مقتولین کے ورثاء کے شکر گزار ہیں۔یہ متضاد قسم کی باتیں اس وقت سامنے موجود ہیں اور اس طرح کی صورتحال میں کوئی درست تجزیہ کرنا بہت مشکل ہے لیکن ہم چند باتوں کو سامنے رکھیں تو تصویر کچھ واضح ہوجاتی ہے۔ دیکھیں اس معاملے میں بدھ 16مارچ سے پہلے تک مقتولین کے تمام ورثا کا یہی موقف تھا کہ وہ کسی بھی صورت کیس سے دستبردار نہیں ہونگے اور دیت کے بجائے قصاص ( خون کا بدلہ خون ) لیں گے اور اپنے پیاروں کے خون کا سودا نہیں کریں گے لیکن اچانک ان تمام لوگوں کا یکایک تصفیہ کرلینا بہت معنیٰ خیز بات ہے۔پھر دیکھیں کہ ایڈیشنل سیشن کورٹ لکھ پت جیل سے قبل یہ کیس کھلی عدالت میں چلایا جارہا تھا اور اس کو چند دن قبل ہی یہاں ایڈیشنل سیشن کورٹ میں منتقل کیا گیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ لاہور سے بگرام روانہ ہونے والا امریکی طیارہ بھی گزشتہ روز سے ہی وہاں موجود تھا ۔ اور کیس کے فیصلے کے بعد فوری طور پر ریمنڈ ڈیوس کو اس میں سوار کرکے پاکستان سے روانہ کردیا گیا۔ دوسری جانب یہ بات بھی سامنے آئی کہ کیس کے فیصلے والے دن سے قبل ورثا کبھی ایک ساتھ عدالت میں پیش نہیں ہوتے تھے بلکہ الگ الگ ہوکر آتے تھے لیکن گذشتہ روز یہ تام ایک ساتھ وہاں موجود تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقتولین کے ورثا کا یہ کہنا کہ ان کو چار گھنٹے تک غیرقانونی حراست میں رکھا گیا ،اور ورثا سے جبری طور پر دراضی نامے پر دستخط کرائے گئے تھے انتہائی اہم ہے کیوں کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کا یہ کہنا ہے کہ مقتولین کے ورثا کو دیت ادا کی گئی ہے لیکن امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’’کوئی ادائیگی نہیں کی گی‘‘ معاملہ کو مشکوک بنا رہا ہے( اور ہمارے حکمرانوں کے ماضی کو سامنے رکھیں شبہ یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں کیوں اس سے قبل یہ لوگ امریکی میزائل اور ڈرون حملوں پر بھی قوم کو عرصے تک گمراہ کرتے رہے اور امریکی حملوں کو اپنی کاروائی کہتے رہے۔) ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم بات ہے کہ آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے کے بگڑے تعلقات میں بہتری آتی جارہی تھی اور دونوں ایجنسیوں میں ورکنگ ریلشن شپ کے حوالے سے معاملات طے پاگئے تھے۔جس کے بعد خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ جلد یا بدیر امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈڈیوس کو رہا کردیا جائے گا۔

ان تمام باتوں سے بات ظاہر ہوتی ہے کہ امریکی اور پاکستانی حکومت یا خفیہ اداروں کے درمیان معاملات طے پاگئے تھے اس کے بعد تمام ہی تیاری مکمل کی گئی،طیارہ تیار تھا،مقتولین کے ورثا کو بھی ایک ساتھ جمع کرکے جج کے سامنے پیش کیا گیا اور فوری طور پر ریمنڈ کو پاکستان سے فرار کرادیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں عدالتی کاروائی بھی مشکوک لگتی ہے ۔بہر حال قصہ مختصر یہ کہ حکومت پاکستان نے امریکی دباؤ یا لالچ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور امریکی جاسوس اور قاتل کو فرار کرادیا ،یہاں ہمارا حکومت کو مورود الزام ٹھہرانا اور عدالتی کاروائی کو مشکوک کہنا اس بنیاد پر ہے کہ ٹھیک ہے قتل کی صورت میں تو مقتول کے ورثا تصفیہ کرسکتے ہیں لیکن ریاست کے خلاف جاسوسی کا معاملہ تو قابل تصفیہ نہیں ہوتا اور امریکی جاسوس سے حساس جاسوس آلات،کیمرہ،وائرلیس اور حسا س مقامات کی تصاویر بھی برآمد ہوئیں تھیں اور اس کے بعد تو تصفیہ کی گنجائش ہی نہیں تھی لیکن ریمنڈ پر جاسوسی کی فرد جرم عائد نہ کرنا اور نہ ہی جاسوسی کا کیس قائم نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ملزم کو دیت کی بنیاد پر بری نہیں کیا گیا بلکہ امریکی دباؤ یا لالچ پر فرار کرایا گیا ہے اور پوری دنیا میں یہ پیغام دیا گیا کہ ہم ایک بے حس اور بے غیرت قوم ہیں۔ پہلے دنیا ہمارے بارے میں یہ جانتی تھی کہ ہم اپنے ہی لوگوں کو بیچتے ہیں لیکن اب ان کو پتہ چلے گا کہ صرف لوگوں کو ہی نہیں بلکہ ان کا خون بھی بیچتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ اس معاملے کو شرعی قانون ’’دیت ‘‘ کے ذریعے حل کیا گیا ہے ۔مقتول کے ورثا اپنے مقتول کا خون تو معاف کرسکتے ہیں لیکن جاسوسی کے معاملات پر تو تصفیہ نہیں ہوسکتا تھا لیکن پنجاب اور وفاقی حکومت نے صرف ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ ورثا نے معاف کردیا تو معاملہ ختم ہوگیا حالانکہ ریاست کے خلاف جاسوسی، جعلی کاغذات،ناجائز اسلحہ اور حساس مقامات کی تصاویر کے بعد تو یہ معاملہ قومی سلامتی کا تھا لیکن افسوس کہ حکمرانوں نے قومی سلامتی کا سودا کرلیا۔یہاں معاملہ عدالتی کاروائی کا بھی ہے کہ اگر چہ یہ سارا کیس عدالت کے ذریعے حل کرایا گیا ہے لیکن قومی سلامتی کے معاملہ پر تو عدالت بھی از خود کسی کو نہیں چھوڑ سکتی ،اب اگر سپریم کورٹ واقعی فعال ہے تو وہ اس ایڈیشنل سیشن جج ،جس نے اس کیس میں ریمنڈ کو بری کیا ،حکومتی ادارے،اور تفتیشی افسران کو بھی عدالت میں طلب کرے کہ انہوں نے اس پر جاسوسی کے مقدمات کیوں قائم نہیں کئے؟

ایک حیرت انگیز بات یہ بھی سامنے آئی کہ وہ بابراعوان،قمر زمان کائرہ جہانگیر بدر اور عاصمہ جیلانی جو سپریم کورٹ تک کے فیصلوں پر پریس کانفرنسیں کرکے تنقید کیا کرتے تھے کل ان میں سے کوئی بھی ایک لفظ نہیں بولا ہے۔ کراچی میں کسی روڈ ایکسیڈینٹ میں کسی کے زخمی ہونے پر بھی لندن سے بیان جاری کرنے والے محترم الطاف حسین صاحب خاموش رہے۔ چوہدری شجاعت صاحب کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا کہ زندہ بھی ہیں یا گزر گئے؟ رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق نے بھی عوام کو گمراہ کرنے کے لئے مقتولین کے ورثا پر ساری بات ڈالی کہ ورثا نے بیس کروڑ روپے دیت وصول کرلی لیکن یہ نہیں بتایا کہ ریمنڈ ڈیوس کے اوپر جاسوسی کا مقدمہ نہ قائم کرنے والے نے ، خفیہ ایجنسیوں نے،اور ان کے لیڈران کرام نے اس سارے معاملے کو ہینڈل کرنے کا کتنا معاوضہ وصول کیا ؟ اور آیا یہ معاوضہ پاکستانی روپوں میں تھا یا امریکی ڈالروں میں ؟

لیکن کیا اس طرح معاملہ کرنا امریکہ اور پاکستانی معاشرہ کے لئے سود مند ثابت ہوگا؟ حکومت کا تو شروع ہی سے یہ موقف ہے کہ ’’ ایک ایشو کی بنیاد پر امریکہ سے تعلقات نہیں بگاڑ سکتے ‘‘ اور حکومتی ارکان و ریمنڈ ڈیوس کیس میں امریکی موقف کے حامیان کا یہ کہنا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے پاک امریکہ تعلقات بہتر ہونگے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح دراصل پاکستان کے اندر امریکی غیر محفوظ ہونگے کیوں کہ کیس کے اس طرح کے انجام سے لوگوں تک یہ پیغام گیا کہ عدالت وغیرہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور جس طرح کچھ عرصے قبل لوگوں کے اندر ایک خطرناک رجحان پیدا ہوا تھا کہ موبائل چھیننے والوں اور ڈاکوؤں کو زندہ جلایا جارہا تھا ،جس طرح سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا۔ یہ سارے واقعات دراصل انصاف نہ ملنے اور سسٹم پر سے اعتماد ختم ہونے کے باعث پیش آئے اور اب ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بعد آپ کچھ کہہ نہیں سکتے کہ قوم کا ذہنوں میں کیا رجحان فروغ پائے۔ امکان یہی ہے کہ اب لوگ ایسے کسی بھی مجرم یا ملزم کو بھی اگر موقع پر گرفتار کریں گے تو وہ عدالتی سسٹم یا پولیس کاروائی پر انحصار کرنے کے بجائے موقع پر ہی انصاف کا فیصلہ کریں گے اور معاشرے میں ایک افراتفری اور انتشار پیدا ہوگا لیکن شائد حکمرانوں کو اس کی پرواہ نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے تو پاکستان کو ایک سرائے سمجھ لیا ہے جہاں وقتی طور پر حکومت کرنے آجاتے ہیں اور اس کے بعد دوبارہ غیر ممالک کو سدھار جائیں گے ۔لیکن عوام کہاں جائیں گے؟
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520425 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More