کارگل کے بٹالک سیکٹر کی ارشد پوسٹ پر بھارتی فوج کا
قبضہ ہوچکا تھا ۔ لیفٹیننٹ فیصل گھمن اپنے ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش
کرچکے تھے ۔(جن کا تذکرہ پچھلے کالم میں ہوچکا ہے) ۔چونکہ کچھ ہی فاصلے پر
اﷲ اکبر پوسٹ پر کیپٹن جواد اکرام اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دشمن سے برسرپیکار
تھے چنانچہ انہیں حکم ملا کہ وہ دشمن فوج سے ارشد پوسٹ کا قبضہ واپس لیں
اور شہداء کی میتوں کو عزت و احترام سے پیچھے بھجوائیں ۔بھارتی فوج کو علم
تھا کہ پاک فوج قرض اتارنے کے لیے ضرور حملہ آور ہوگی ۔سینئر کا حکم ملتے
ہی کیپٹن قاضی جواد آٹھ جوانوں کے ساتھ ارشد پوسٹ کی جانب بڑھے اور پہلے ہی
کمانڈو ایکشن میں آدھے سے زائد بھارتی فوجی جہنم واصل کردیئے۔ جابجا بکھری
ہوئی نعشوں سے خوفزدہ ہوکر بھارتی فوج نے ارشد پوسٹ کو از خود خالی
کردیا۔ارشد پوسٹ پر ایک بار پھر سبزہلالی پرچم لہرادیا اور وہاں چند جوان
چھوڑ کر کیپٹن جواد اپنی پوسٹ اﷲ اکبر پر واپس آگئے۔ پھر وہ دن بھی
آپہنچاجب انڈیا کے دباؤ میں امریکی صدر کلنٹن نے وزیر اعظم نواز شریف کو
کارگل کی وہ تمام پوسٹیں خالی کرنے کا حکم دے دیا جن پر پاک فوج نے قبضہ
کرلیاتھا۔دشمن کے سامنے سینہ سپر جوانوں کو جب پسپائی کا حکم ملا تو نظم و
ضبط جذبات پر حاوی ہوگیا ۔ واپسی کا سفر شروع ہوا تو کیپٹن جواد نے اپنے
کمانڈنگ آفیسر سے کہا قومی پرچم ہماری آن اور شان ہے ‘ دشمن جب اس پوسٹ پر
قابض ہوں گے تو وہ ہمارے پرچم کی توہین کریں گے ۔اجازت ملنے پر کیپٹن جواد
ایک سپاہی کے ساتھ آسمان تک بلند برف پوش پہاڑی پر چڑھنے لگے ۔بھارتی فوج
مسلسل گولہ باری کررہی تھی ۔ جیسے ہی کیپٹن جواد نے سبز ہلالی پرچم
اتارکرسینے سے لگایا تو بھارتی توپ کا ایک گولہ بالکل قریب گرا جس کے ٹکڑے
کیپٹن جواد کے جسم میں پیوست ہوگئے ۔چھاتی کندے اور بائیں آنکھ پر گہرے زخم
آئے یہی زخم کیپٹن جواد اکرام کی شہادت کا باعث بنے ۔بیٹے کی شہادت سے
پندرہ دن پہلے قاضی ریاض حسین نے ایک انوکھا خواب دیکھا۔ مسجد نبوی کے
کشادہ ہال میں نورانی چہرے پرسکون انداز میں ہمہ تن گوش بیٹھے ہیں ۔ہرشخص
نے سرپر سفید دستار پہن رکھی ہے۔ کیپٹن جواد کے والد نے خود کو ان مقدس
ہستیوں کے درمیان کھڑا ہوا پایا ۔اچانک صدا بلند ہوتی ہے قاضی ریاض آپ بھی
دستار پہن لیں ۔جو دستار پہننے کے لیے انہیں دی گئی وہ سرخ رنگ کی تھی جسے
پہن کر وہ سب سے نمایاں دکھائی دینے لگے۔اک احساس تفاخر سے ان کا دل بھرآیا۔
اطمینان وسکون کی اک خوشگوار لہر نے ان کے وجود کوگھیر لیا۔بیداری کے بعد
اس خوشگوار خواب کااثر کئی دن تک ان کے دل و دماغ پر چھایا رہا۔جس روز جی
ایچ کیو سے کرنل سجاد کا فون آیا کہ آپ کا بیٹا کیپٹن جواد کارگل جنگ میں
زخمی ہوگیا ہے تو قاضی ریاض پر سرخ دستار پہننے کے اسرار و رموز کھلنے لگے
۔آگہی کے ان لمحوں میں انہوں نے خود کو یہ کہتے ہوئے سنا ۔قاضی ریاض آج تک
تم نے جواد کواپنے جسم سے الگ نہیں سمجھااگر بیٹے کی جدائی کی خبر صحیح
نکلی تو تمہارے دل کی دھڑکن بندہوجائے گی تم جواد کے بغیر جی نہیں سکوگے ۔
صرف دو دن پہلے سب گھر والوں نے کارگل کے شہیدوں کے نام پر ایک ٹی وی
پروگرام اکٹھے بیٹھ کر دیکھااس لمحے کسی کو بھی خبر نہیں تھی کہ ان کے حصے
میں بھی یہ سعادت آنے والی ہے۔والدہ کے بقول کیپٹن جواد نے اپنی شہادت کے
دن گھر میں ایک طویل کال کی ۔اس دن اس کی آواز میں مسرت و شادمانی اور سکون
واضح طور پرمحسوس ہورہا تھا ۔شاید اسے پتہ چل چکا تھا کہ وہ جلد ہی شہیدوں
کے اس قافلے میں شامل ہونے والے ہیں جس کی قیادت روز قیامت سید الشہداء
حضرت امام حسین ؓ کریں گے ۔28جولائی 1999ء کو سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا
کیپٹن قاضی جواد شہید اپنے گھر کی د ہلیز پر موجود تھا حد درجہ گرمی کا
موسم تھا لیکن آسمان کو بادلوں نے ڈھانپ رکھاتھااورجنت کی خوشگوار ٹھنڈی
ہواچل رہی تھی ۔آرمی بینڈ سوگوار دھنیں بجارہے تھے۔جونہی لکڑی کے تابوت
کوکھلا گیا ایک دل پذیر خوشبو نے سارے ماحول کو اپنے سحر میں جکڑ لیا یوں
محسوس ہورہا تھا جیسے شہید نے عرق گلاب سے غسل کیاہے۔شہید کے چہرے پر
مسکراہٹ اور تبسم کو ہر کسی نے دیکھا۔کیپٹن جواد کی ٹوپی ‘چھڑی ان کے والد
کے سپرد کردی گئی ۔بعدازاں شہید کو گارڈن ٹاؤن لاہورکے قبرستان میں پورے
فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کردیا گیا۔گارڈن ٹاؤن چوک کا نام اسی شہید کے نام
سے منسوب کیاگیا۔ بعداز شہادت انہیں تمغہ بسالت سے نوازاگیاجو ان کے والد
قاضی ریاض نے وصول کیا۔کیپٹن جواد 5اگست 1975ء کو سعودی عرب کے شہر ریاض
میں پیدا ہوئے ۔1994ء میں کمیشن حاصل کرکے فوج کوجوائن کیااور 26جولائی
1999ء کو جام شہادت نوش کیا۔
|