ٹیلی فون کی گھنٹی

پوپ کہانی-2

شیخ مقصود الٰہی نے ’’پوپ کہانی‘‘ کے نام سے ایک نئی صنف متعارف کروائی ہے۔ یہ ایک انتہائی دلچسپ اور لذیذ کہانیوں پر مشتمل تجربہ ہے جسے چھوٹے چھوٹے خیالات و احساس کو دوسروں تک پہنچانے کا موثر زریعہ قرار دیا گیا ہے، (علی سفیان آفاقی)۔

پوپ کہانیوں کا اولین مجموعہ جو کے ’’پوپ کہانیاں‘‘ کے عنوان سے ابھی حال ہی میں شائع ہوا ہے، اور ہم اِسں سے برادرم ارشد اشرف کی فیس بک پر بپا فروغ ِ علم و ادب کی کاوشوں کے توسط سے متعارف ہوئے اور اس مجموعے میں شامل محترم جناب احمد صفی صاحب کی چار عدد عمدہ و اعلیٰ پوپ کہانیاں پڑھنے کو ملیں اور اٌن کو پڑھ کر ہمارے دل میں بھی اس نئی صنف پر طبع آزمائی کا خیال آیا اور یہ تازہ ترین کوشش تمام احباب سے اپنی گرانقدر رائے فراہم کرنے کی مودبانہ درخواست کے ساتھ پیش ِخدمت ہے ۔

میں پورے انہماک کے ساتھ اپنے فرائض ِمنصبی کی انجام دہی میں مصروف تھا کہ اچانک سامنے رکھے ٹیلی فون کی گھنٹی زٌور زٌور سے بجنا شروع ہوگئی، جس نے نہ صرف مجھے بٌری طرح سے چونکا دیا بلکہ میرے تمام تر انہماک کو بھی توڑ کر رکھ دیا۔

میں نے قہر آلود نگاھیں فون پر ڈالیں اور سوچا کہ کاش میری آنکھوں سے سٌپر مین کی طرح سے شعاعیں نکلیں اور اس شٌور مچاتے فون کو جلا کر بھسم کردیں۔

میں ہمیشہ سے ہی فون کی گھنٹی سے شدید کوفت کا شکار ہوجاتا ہوں، بطور ِخاص وہ عین اس وقت بج اٹھے جب میں کسی اہم کام، مطالعہ ِکتاب، ٹی وی دیکھنے، اہم گفتگو یا گہری سوچ میں مشغول ہوں اور فون پر گفتگو کرنا ہمیشہ ہی سے اپنے قیمتی وقت کی بربادی کے مترادف ہی محسوس ہوتا ہے۔

فون کی گھنٹی مجھے کبھی بھی اچھی نہیں لگی، بلکہ سچ پوچھئیے تو اس فون کی گھنٹی سے مجھے ہمیشہ ہی سے نفرت سی رہی ہے، بس نہ جانے کیوں مگر میرا اس سے اللہ واسطے ہی کا بیر ہے! جہاں یہ بجی وہاں ہوا میرا موڈ آف!!!۔

کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان نحوست مارے ناس پیٹے فونوں میں یہ چیختیں چنگاڑتیں گھنٹیاں محض مجھ جیسوں کو ذہنی اختلاج میں مبتلا کرنے ہی کے لیے تو نصب کی گئیں ہوں اور جب جب وہ بجتیں تب تب مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا کہ جیسے ہزاروں ہتھوڑے میرے دماغ پر برس رہے ہوں اور جی چاہتا کہ یا تو دنیا سے سارے فون یا پھر کم از کم ان کی گھنٹیوں ہی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا جائے۔

بحرحال اپنے دل ہی دل میں فون کے موجد اور اسکی سات پشتوں کو سلواتیں سناتا بادل ناخواستہ فون کا ریسیور اٹھا کر اپنی آواز میں شامل تمامتر ناگوار تاثرات کو پیشہ ورانہ شائستگی کی ملمہ کاری کی متعدد تہوں میں چھپا کر گویا ہوا: ’’میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟‘‘

دوسری جانب سے ایک خاتون کی آواز ابھری: یہ سماعت و گویائی سے محروم افراد کی خصٌوصی فون سروس ہے، آپکی کسٹمر گفتگو کرینگی اور میں ترجمان کے فرائض انجام دونگی، وہ اپنے فون پر نصب کی بورڈ پر جو پیغام ٹائپ کر کے ارسال کرینگیں میں آپکو پڑھ کر سناؤں گی اور اِسی طرح آپ کی بات میں ان تک پہنچاؤں گی جسے وہ فون پر نصب اسکرین پر پڑھ سکیں گیں، کیا آپ اس گفتگو کا حصہ بننے پر رضامند ہیں؟

مجھے فوراً ہی سماعت و گویائی سے محروم اپنی کسٹمر یاد آگئی، وہ جو کہنا چاہتی کاغذ پر لکھ دیا کرتی اور میں جو کہنا چاہتا اسے کاغذ پر لکھ کر دکھا دیا کرتا۔ بحرطور میری رضامندی کے بعد ترجمان خاتون نے گفتگو کا آغاز کروا دیا میری کسٹمر کو محض اپنی ایک جملے پر محیط بات کو مجھ تک پہنچانے میں منٹوں صرف ہورہے تھے اور میرا جواب پڑھ کر دوبارہ مجھ تک اپنی بات پہنچانے میں تو اکثر پانچ سے دس منٹ تک لگ رہے تھے اور محض چند مختصر سوالات و جوابات ہر مشتمل گفتگو کا دوانیہ کم و بیش پینتالیس منٹوں تک جا پہنچا اور مجھے اس وقت شدت سے اپنی کسٹمر کی بےچارگی کا احساس ہورہا تھا۔

دوران ِ گفتگو مجھے برسوں پہلے دیکھی ایک بھارتی فلم ’’شور‘‘ مسلسل یاد آتی رہی جسمیں فلم کا ہیرو منوج کمار جسے شور سے شدید نفرت ہوتی ہے اور وہ ہر قسم کے شور سے شدید بیزار رہتا ہے۔ لیکن فلم کے آخری منظر میں جب وہ ایک حادثے کا شکار ہوکر قوت ِسماعت سے محروم ہوجاتا ہے تو اسے آسمان پر اڑتے ایک ہوائی جہاز کو، جسکی آواز سے بھی اسے کبھی شدید نفرت تھی، کی آواز نہ سن سکنے کے سبب انتہائی حسرت بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔

نہ جانے کیوں ہم انسانوں کو ہر نعمت کی قدر اسکے چھن جانے کے بعد ہی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 55116 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.