اور وہ رہا کرا لیا گیا

پوپ کہانی-3

شیخ مقصور الٰہی نے ’’پوپ کہانی‘‘ کے نام سے ایک نئی صنف متعارف کروائی ہے۔ یہ ایک انتہائی دلچسپ اور لذیذ کہانیوں پر مشتمل تجربہ ہے جسے چھوٹے چھوٹے خیالات و احساس کو دوسروں تک پہنچانے کا موثر زریعہ قرار دیا گیا ہے، (علی سفیان آفاقی)۔

پوپ کہانیوں کا اولین مجموعہ جو کے ’’پوپ کہانیاں‘‘ کے عنوان سے ابھی حال ہی میں شائع ہوا ہے، اور ہم اِسں سے برادرم ارشد اشرف کی فیس بک پر بپا فروغ ِ علم و ادب کی کاوشوں کے توسط سے متعارف ہوئے اور اس مجموعے میں شامل محترم جناب احمد صفی صاحب کی چار عدد عمدہ و اعلیٰ پوپ کہانیاں پڑھنے کو ملیں اور اٌن کو پڑھ کر ہمارے دل میں بھی اس نئی صنف پر طبع آزمائی کا خیال آیا اور یہ تازہ ترین کوشش تمام احباب سے اپنی گرانقدر رائے فراہم کرنے کی مؤدبانہ درخواست کے ساتھ پیش ِخدمت ہے۔

گاؤں کے چوپال میں تل تک دھرنے کی جگہ نہ تھی اور لوگوں کا ایک عظیم اژدھام بیچینی کے ساتھ پنچوں کا انتظار کررہا تھا جو کے چوپال سے ملحقہ کمرے میں بند دروازے کے پیچھے مسلسل صلاح و مشورے میں مصروف تھے۔

پاک پورہ گاؤں کے پنچوں کے سامنے یہ معاملہ آج ہی رکھا گیا تھا حالانکہ اس معاملے کے مرکزی ملزم رحمت عرف رحمو کو آج سے دو ماہ قبل وقوع پزیر ہونے والے اس واقعے والے دن ہی رنگے ہاتھوں پکڑ کر حوالہ ِ پولیس کردیا گیا تھا اور اب اس پر باقاعدہ عدالت میں کیس بھی چل رہا تھا لیکن اب فریقین کی جانب سے یہ معاملہ گاؤں کے پنچوں کے سامنے پیش کردیا گیا تھا۔

رحمت عرف رحمو پاک پورہ گاؤں کے چودھری دولت دار کے انتہائی قریبی دوست ملک مبارک دبدبہ کا بیٹا تھا، جو کہ پچاس دیہاتوں کا چوہدری تو تھا ہی بلکہ اس سارے ضلع و تحصیل کا ’’وڈا چودھری‘‘ بھی مانا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ چودھری دولت دار کو الیکشن میں کامیاب کروا کر حکومتی ایوانوں تک پہنچانے میں بھی اسی کا ہاتھ تھا اور چودھری دولت دار ٹھرا محض چھوٹے چھوٹے چار دیہاتوں کا چودھری، کہلاتا تو وہ اسکا دوست ہی تھا لیکن درحقیقت وہ اسکے زیر ِنگیں ہی تھا۔

شٌنید ہے کہ اٌس روز رحمت اپنی گاڑی میں سوار پاک پورہ گاؤں کے پنگھٹ پر پانی بھرتی خواتین سے چھیڑ خانیوں میں مصروف تھا اور اسکی یہ حرکات دیکھ کر اسے گاؤں ہی کے دو نوجوانوں نے للکارا اور اس بدبخت نے اپنی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی اپنے ریوالور کے پے درپے فائر کر کے دونوں کو موقعے ہی پر ہلاک کردیا لیکن آس پاس کھیتوں میں کام کرتے مزارعوں نے آگے بڑھ کر اسکی گاڑی کو گھیر لیا اور گھسیٹ کر باہر نکال لیا۔

رحمت کی گاڑی کے پیچھے اسکے حواریوں نے جو کہ ایک دوسری گاڑی میں سوار تھے جب یہ منظر دیکھا تو وہ رحمت کی مدد کو آگے بڑھے لیکن وہاں موجود مشتعل لوگوں نے اس گاڑی کو بھی گھیرنے کی کوشش کی جس پر گاڑی تیز رفتاری سے ریورس کرنے کی کوشش میں ایک سائیکل سوار پر چڑھ دوڑی اور اسے روندتی وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔

بعد ازاں رحمت عرف رحمو نے پولیس کو یہ بیان دیا کہ ان دونوں نوجوانوں نے اسے اغوا اور لوٹنے کی کوشش کی تھی جس پر اسنے اپنے دفاع میں ان پر فائر کردیا۔

اس واقعہ کے بعد سے گاؤں بھر میں مسلسل رحمت اور ملک مبارک دبدبہ کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری تھا اور رحمت کو سخت سے سخت سزا دیے جانے کا مطالبہ کیا جارہا تھا اور ان مظاہروں میں یہ باتیں بھی سننے میں آرہی تھیں کے گاؤں کا چودھری دولت دار اپنے دوست کے بیٹے کو بچانے اور حق ِنمک کی ادائیگی کے لیے پولیس اور مقامی انتظامیہ سے ساز باز کر رہا ہے۔

اور پھر اچانک آج یہ معاملہ گاؤں کے پنچوں کے سامنے رکھ دیا گیا اور وہ اس وقت صلاح و مشورے میں مصروف تھے اور گاؤں بھر کے لوگ گاؤں کی چوپال میں جمع تھے اور اس سے ملحقہ کمرے کے بند دروازے پر اپنی نگاہیں جمائے ہوئے تھے۔

اچانک وہ بند دروازے کھلا اور اسمیں سے گاؤں کے پانچ بڑے بزرگ یکے بعد دیگرے برآمد ہوئے اور چوپال کے عین مرکز میں ایک بڑے تخت پر براجمان ہوگئے۔

پنچوں میں سے ایک جو کہ ان میں سب سے معمر و معتبر دکھائی دیتا تھا، اٹھا اور اسنے چوپال میں بکھرے ہوئے ہوئے مجمع کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر مخاطب کیا: سنو سنو سنو گاؤں والوں سنو، گاؤں چودھری دولتدار کا، معاملہ رحمت عرف رحمو کا انصاف اور فیصلہ پنچوں کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!۔

گاؤں پاک پورہ کے عظیم تر مفاد میں ہم پنچوں کے متفقہ فیصلہ کے مطابق رحمت عرف رحمو ولد ملک مبارک دبدبہ اور جملہ مقتولین کے ورثاء کے درمیان خٌون بہا کی ادائیگی کے عوض صلح نامہ کروایا گیا ہے اور ویسے بھی ملک مبارک دبدبہ کے ہمارے گاؤں پاک پورہ پر بے پناہ احسانات ہیں اور ان ہی کی امداد پر یہ سارا کا سارا گاؤں پل رہا ہے اور اس فیصلے پر انہوں نے مزید امداد کا وعدہ بھی فرمایا ہے، لٰہذا خٌون بہا کی ادائیگی اور صلح نامے کی دستاویزات عدالت میں داخل کر کے رحمت عرف رحمو کو باعزت بری کروا لیا جائے گا اور پنچوں کے اس مثالی فیصلے کے بعد یہ پنچایت برخواست کی جاتی ہے۔

پنچوں کے فیصلے کی منادی ہوچکنے کے بعد وہاں موجود ملک مبارک دبدبہ اور چودھری دولت دار بڑی دیر تک ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر زیر ِلب مسکراتے ہوئے مسلسل اپنی مونچھوں کو تاؤ پر تاؤ دیتے رہے۔ ۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 55112 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.