پوپ کہانی
شیخ مقصور الٰہی نے ’’پوپ کہانی‘‘ کے نام سے ایک نئی صنف متعارف کروائی ہے۔
یہ ایک انتہائی دلچسپ اور لذیذ کہانیوں پر مشتمل تجربہ ہے جسے چھوٹے چھوٹے
خیالات و احساس کو دوسروں تک پہنچانے کا موثر زریعہ قرار دیا گیا ہے، (علی
سفیان آفاقی)۔
پوپ کہانیوں کا اولین مجموعہ جو کے ’’پوپ کہانیاں‘‘ کے عنوان سے ابھی حال
ہی میں شائع ہوا ہے، اور ہم اِسں سے برادرم ارشد اشرف کی فیس بک پر بپا
فروغ ِ علم و ادب کی کاوشوں کے توسط سے متعارف ہوئے اور اس مجموعے میں شامل
محترم جناب احمد صفی صاحب کی چار عدد عمدہ و اعلیٰ پوپ کہانیاں پڑھنے کو
ملیں اور اٌن کو پڑھ کر ہمارے دل میں بھی اس نئی صنف پر طبع آزمائی کا خیال
آیا اور یہ تازہ ترین کوشش تمام احباب سے اپنی گرانقدر رائے فراہم کرنے کی
مؤدبانہ درخواست کے ساتھ پیش ِخدمت ہے ۔
سمندر سے اٹھتیں دیو ہیکل موجوں نے ساحل کا رٌخ کرلیا اور پھر دیکھتے ہی
دیکھتے موجیں ساحل کو روندتے ہوئے ساحل اور اسکے ساتھ گزرتی متوازی سڑک کو
تقسیم کرنے والی دیوار کو کئی میٹر کی بلندی سے پھلانگتیں سڑک پر جا پہنچیں۔
سڑک کے کنارے، دیوار کے ساتھ قطار اندر قطار کھڑی سینکڑوں کاریں ان بھپری
ہوئیں موجوں کے بے پناہ زٌور کے سامنے کسی معصوم بچے کی ننھی منی کھلونا
کاروں کی طرح سے بےقابو ہو کر بھپرے ہوئے پانیوں میں ایک دوسرے سے ٹکراتیں
اِدھر اٌدھر بہنے لگیں۔
اس خوفناک منظر کو دیکھ کر اسکی آنکھیں پھٹیں کی پھٹیں رہ گئیں اور وہ ابھی
کچھ اور سوچ ہی نا پایا تھا کہ اچانک ایک اور منظر دیکھ کر تو اسکا سانس
اسکے سینے میں ہی اٹک کر رھ گیا۔
ایک کافی بڑی بوٹ انتہائی تیزی کے ساتھ موجوں کے بہاؤ میں ڈولتی چلی آرہی
تھی اور پھر اس بڑی سی بوٹ کا پیندا پانی میں ڈوبی ہوئی دیوار کی منڈیر سے
جا ٹکرایا جس سے بوٹ اٌلٹ گئی اور بارش کے پانی میں بہتے ہوئے خزاں رسیدہ
پتوں کی مانند اِدھر اٌدھر ڈولتیں کاروں پر آن پڑی اور ان سے ٹکراتی ہوئی
بے قابو موجوں میں ڈوبکیاں لگاتی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگی۔
اسی طرح کی چند مزید لانچیں، بوٹیں اور کاریں جو کے اٌن دیو ہیکل موجوں میں
بہتی ہوئیں اب اٌس سڑک کے کنارے ایک پٌل کے نزدیک پہنچ چکیں تھیں اور پانی
کے زٌور اور اوٌنچائی کا یہ عالم تھا کہ وہ اس بلند و بالا پٌل کی چھت کو
چٌھو رہا تھا اور پھر یک بعد دیگرے وہ تمام لانچیں، بوٹیں اور کاریں اس پٌل
کی چھت اور ریلینگ سے ٹکراتیں پٌل کے نیچے سے گزرنے لگیں اور اٌن کے زٌور
سے پانی فواروں کی مانند پٌل کی ریلینگوں سے فضاء میں دٌور تک بلند ہورہا
تھا۔
اس ہیبتناک منظر نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ موجوں کی نذر ہوجانے
والیں ان گاڑیوں، بوٹوں اور لانچوں کےمسافروں کا آخر کیا انجام ہوا ہوگا؟
یہ تمام دلخراش مناظر دیکھ دیکھ کر اب اسکی برداشت کی انتہا ہوچکی تھی، اس
نے سوچا کہ کیا وہ اسی طرح سے ایک خاموش تماشائی بنا محض یہ تماشا ہی
دیکھتا رہیگا؟ اسے کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہوگا اور اگر وہ یونہی ایک تماشبین
کی طرح سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھتا ہی رہا تو شدید ذہنی اختلاج سے اسکی دماغ
کی تمام رگیں پھٹ جائیں گیں۔
اور پھر آخر اس نے فیصلہ کر ہی لیا کے وہ اب مزید ایک خاموش اور بے حس
تماشائی بنکر یہ سب کچھ دیکھتے رہنا ہرگز گوارا نہ کریگا، اس نے کئی گہرے
گہرے سانس لے کر خود کو پرٌسکون کرنے کی کوشش شروع کردی۔ چند لمحوں بعد جب
اسے اپنے حواس مجتمع ہوتے محسوس ہوئے تو اس نے اِدھر اٌدھر دیکھا اور اپنی
مسہری کے بالکل ساتھ لگی ہوئی چھوٹی سی میز پر رکھا ریموٹ اٹھا لیا اور
اسکا رٌخ ٹی وی کی طرف کر کے اسے بند کردیا اور پھر اسی میز پر لگے ٹیبل
لیمپ کو بجھا کر سونے کے لیئے دراز ہوگیا۔
چند ہی لمحوں بعد اسکے فلگ شگاف خراٹے بیڈ روم کے سناٹے کو چیر رہے تھے۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ |