سیاسی مرغوں کی یومیہ لڑائی

مردُم خیز ہونے کا دعویٰ تو شاید مبالغہ آرائی اور تَعلّی پر محمول کیا جائے مگر ہاں، ہمارا خطہ سیاسی اعتبار سے خاصا ”مُرغم خیز“ ہوتا جارہا ہے! بٹیر بازی، کبوتر بازی اور دوسری بہت سے بازیوں کی طرح مُرغ بازی بھی ہمارے مزاج کا حصہ رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں آج بھی لوگ کبوتر بازی اور بٹیر بازی کے ہاتھوں وقت کی بازی ہارتے رہتے ہیں! دیہی کلچر میں چونکہ وقت کو صَرف کرنا بھی ایک کام ہے اِس لئے دیگر بازیوں کے ساتھ ساتھ مُرغ بازی یعنی مُرغے لڑانا بھی مزاج میں شامل ہے۔ شہروں میں البتہ اب یہ بازی اپنی بازی ہار چکی ہے! ایسا نہیں ہے کہ مُرغے میدان چھوڑ گئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ میدان بدل گیا ہے۔ قدرتی مُرغوں کے لئے اب صرف دستر خوان کا میدان رہ گیا ہے!

میڈیا کی ترقی نے مُرغوں کی اوقات بدل دی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مُرغوں کی لڑائی انسانوں کے درمیان تصادم تک جا پہنچتی تھی۔ مُرغے کی شکست اُس کے مالک کی شکست تصور کی جاتی تھی۔ وہ زمانے اب لد گئے۔ مُرغوں کی لڑائی ہمارے کلچر سے غائب ہوتی جارہی ہے۔ سبب اِس کا یہ ہے کہ اب مُرغے نہیں لڑتے بلکہ (بُھنے ہوئے) مُرغوں پر ہم لڑتے ہیں! رہ گئی لڑائی تو وہ اب سیاسی مُرغوں کے درمیان کرائی جاتی ہے!

سیاسی مُرغوں کی یومیہ لڑائی آپ نے ضرور دیکھی ہوگی۔ اگر نہیں دیکھی تو پرائم ٹائم میں ٹی وی سیٹ آن کیجیے، ہر نیوز چینل پر چند سیاسی مُرغے چونچم چونچ یعنی لڑتے ہوئے ملیں گے! کرنٹ افیئرز کے پروگراموں میں اب سیاسی جماعتیں مُرغے بھیجتی ہیں جو جان لڑا کر لڑتے ہیں اور ناظرین کو بھرپور تفریح بہم پہنچاتے ہیں!

سیاست اور کاروبار اب ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اب مارکیٹ کے ٹرینڈ کو دیکھ کر پالیسی اور حکمت عملی بدلتی ہیں۔ مارکیٹ میں جو چیز چل رہی ہو وہی چیز وہ پیش کرتی ہیں۔

ٹی وی کے نیوز چینلز نے اپنے وجود کا بھرم رکھتے ہوئے بہت سی نامعقول روایات کو جنم دیا ہے۔ حالاتِ حاضرہ پر بحث کی آڑ میں سیاسی مُرغوں کی لڑائی اِن روایات میں سرفہرست ہے۔ سیاسی جماعتیں حالاتِ حاضرہ پر بحث کے لئے بندے خوب تیار کرتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب سیاسی ضرورت کے تحت چند غنڈے پالے جاتے تھے۔ سیاسی جماعتوں میں اب پرورش کے دائرے میں سیاسی مُرغے بھی آگئے ہیں! پرائم ٹائم میں بکواس کی بازی جیتنے کے لئے خوب چھان پھٹک کر ایسے مُرغے لائے جاتے ہیں جن کی چونچ لمبی ہو اور ککڑوں کوں کی آڑ میں، موقع کی مناسبت سے، بھونک بھی سکیں! اِنہیں خوب کھلا پلا کر لائیو منی اسکرین دنگل کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ لوگ دیکھتے اور حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ کرنٹ افیئرز کے ٹاک شو میں حصہ لینے والی سیاسی مخلوق ایک گھنٹے کے لائیو پروگرام میں ارتقاء کے کئی مراحل طے کرتی ہوئی کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے! ٹاک شو میں شریک سیاسی مُرغے کبھی شیر کی طرح غُرّاتے اور دہاڑتے ہیں، پھر گوٹ پَھنسنے پر بھیگی بلی کی طرح میاؤں میاؤں کرنے لگتے ہیں، اینکر کی سپورٹ نہ ملنے پر چُوں چُوں کے پنجرے میں بند ہو جاتے ہیں اور سپورٹ ملنے پر ہاؤ ہو کرنے پر تُل جاتے ہیں! یہ ارتقائی مراحل اگر چارلس ڈارون بھی دیکھ لے تو دانتوں تلے انگلیاں دبا کر رہ جائے!

ٹی وی چینلز کا یومیہ سیاسی دنگل اب ہماری نفسیاتی ساخت کا حصہ بن چکا ہے۔ لوگ اِس دنگل سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ سیاسی دنیا میں رہتے ہوئے کس طور غیر سیاسی حرکتیں کرنی ہیں، کتنی ڈِھٹائی سے سچ کو جھوٹ اور سیاہ کو سفید قرار دینا ہے، حریف کے تمام نکات کو مرحلہ وار تسلیم کر کے آخر میں کس طرح اپنی تمام باتوں سے یکسر مُکر جانا ہے! سیاسی مُرغوں کی لڑائی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن جانا کیا ہوتا ہے! اب خواتین خانہ پڑوسنوں کو یہ طعنے دینے لگی ہیں کہ تم تو پرسوں کی بات سے ایسے مُکر رہی ہو جیسے کسی ٹاک شو میں بیٹھی ہو!

کون سی تفریح ہے جو سیاسی مُرغوں کے ڈیلی فیسٹیول میں نہیں پائی جاتی؟ کئی ممالک میں ٹماٹر، مالٹے اور دوسرے پھلوں سے ایک دوسرے کو مارنے کا تہوار سال میں ایک بار منایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ تہوار ٹی وی پر روزانہ منایا جاتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ سڑے ہوئے انڈے، گلے ہوئے پھل اور اِسی قبیل کی دوسری چیزیں ماری تو جاتی ہیں، دکھائی نہیں دیتیں! ٹاک شو کے ڈیلی فیچرز میں تُھوک سے جھاگ اُڑانا اور ایک دوسرے پر باتوں کا کیچڑ پھینکنا بھی شامل ہے! دنیا اگر یہ ٹاک شو دیکھنا شروع کرے تو جذباتی اداکاری کے بہت سے اسرار و رموز آسانی سے سیکھ سکتی ہے! یہ ٹاک شو آپ کو غیر ارضی مخلوق کی ممکنہ طرز عمل سے شناسا ہونے میں بھی خاصی مدد دے سکتے ہیں کیونکہ اِن کے بیشتر شرکاء کسی اور دنیا کی مخلوق معلوم ہوتے ہیں!

کبھی آپ نے فٹ پاتھ پر شعبدے بازوں کا فن ملاحظہ کیا ہے؟ وہ مجمع کو خالی ہاتھ دکھاتے ہیں اور پھر فضا میں ہاتھ لہراتے ہی مٹھی میں انڈا یا سکّہ آ جاتا ہے۔ بس کچھ کچھ ایسا ہی تماشا سیاسی مُرغوں کی لڑائی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے! جس بات کا سارے فسانے میں کہیں ذکر نہیں ہوتا اُسی بات کو یہ بہت خوبصورتی سے بحث کے موضوع میں تبدیل کردیتے ہیں! خوبی یہ ہے کہ ایک گھنٹے کی طویل بحث کے دوران بولنے والے کو اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا اور کیوں بول رہا ہے اور سُننے والے بھی محظوظ ہونے کے بعد دامن جھاڑ کر اُٹھ جاتے ہیں، یعنی کچھ یاد نہیں رہتا! روزانہ ایک سی باتیں کی جاتی ہیں اور مجال ہے کہ کوئی بیزاری محسوس کرے! بولتے بولتے کہیں سے کہیں نکل جانے کا فن اگر سیکھنا ہے تو سیاسی مُرغوں سے سیکھیے! نان اِشو کو اِشو بنانا اِن کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سیاسی جماعتوں کا احسان ماننا پڑے گا کہ اُن کی مہربانی سے ہمارے ہاں اب تک مُرغ بازی کی روایت سلامت اور تابندہ ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 487070 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More