امیر عمارت میں غریب گھرانہ اور حکمران

سچی بات ہے لکھنا چاہتا ہوںمگر لکھا نہیں جاتا، سیاہی قلم کی نوک پر انجذاب نہیں کرتی، ہاتھوں میں وہ سکت نہیں کہ الفاظ کو تحریر میں لایا جاسکے، دل اجڑا ہو ا دیار سا لگتا، جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار معلوم ہوتا ۔ سبب کیا ہے؟ جس دھرتی پر جنم لیا وہ پھولوں کے گلدستے کی طرح پیش نہیں کی گئی بلکہ اس کے حصول کے لیےآبائو اجداد کٹ گئےتھے، بزرگوں کے جسم چھلنی ہو گئے تھے،جن کپڑوں میں ملبوس تھے وہ خون سے لت پت ہو گئے تھے، ماووٗں اور بہنوں کے سروں سے ڈوبٹے کھینچ لیے گئے تھے، دودھ پیتے بچوں کو چھاتیوں سے جدا کر دیا گیا تھا، عورتیں بیوہ ہو گئیں تھیں، بچے یتیم ہو گئےتھے ،جمع پونجی اور گھر لٹ گئے تھے۔

اتنے ظلم جھیلنے کا مقصد کیا تھا؟ لہو میں تر بتر ہونے کا مطلوب کیا تھا؟ تیز دھار تلواروں کا سامنا کرنے کافلسفہ کیاتھا؟۔ صرف ایک ہی مقصد تھاکہ ایک ایسی اسلامی ریاست مل جائے گی جس کا سایہ ایک ماں کی طرح ہوگا،جو جان و مال کی محافظ بن جائے گی، غریب کے لیے چاردیواری اور چھت کا بندوبست ہو جائے گا، کو ئی بھی غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی نہیں کرے گا، کوئی مسکین بچوں کوموت کے گھاٹ نہیں اتارےگا ،یتیم کی زندگی سہل ہو جائے گی، بوڑھی مائیں بچوں کاپیٹ پالنے کے لیےدر بدر کی ٹھوکریں نہیں کھائیں گی،بیت المال کا نظام قائم ہو جائے گا، ہر کوئی دوسرے کے غم میں برابر کا شریک ہو جائے گا،ہرسو خوشحالی آجائے گی اور ہر چہرے پر مسکراہٹ چھا جائے گی۔

مگر آج دل خون کے آنسو روتا ہے جب ایک دوست کے ہمراہ اندھیری رات میں ایک غریب گھرانے کا رخ کیا مگر راستے میں لگے قمقموں نے چراغاں کیا ہوا ، متعلقہ گھر کے حوالے سے فراہم کردہ معلومات اسی دوست کی تھیں ۔چلتے چلتے ایسی تنگ گلی سے گزر ہوا کہ کوئی دوسرا راہ گیر گلی کےمخالف کنارے کھڑا انتظار کرنے لگتا بہر حال گلیوں سے کیا لینادینا،مگر اب گلی کی تنگی کشادگی میں بدلنے لگی۔
دوست نے ایک ایسے گھر کے سامہنے ٹھہرنے کا کہا جو بظاہر تو ویل فرنشڈ گویا کہ امیر عمارت کا منظر پیش کرتا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے دوست سے مخاطب ہوا لگتا آپ غلط جگہ لے آئے، دوست مسکرایا اور دروازے پر دستک دی، دو بچے دروازے پر آئے اور اندر آنے کا کہا۔بہر کیف ایک کمرے میں داخل ہوے جس کے درودیوار پکار پکار کر کہ رہے تھے کہ ہمارے مالک نے ہم پر ظلم کیا، ہمارا حق ادا نہ کیا، ہماری خوبصورتی کی لاج نہ رکھی، ہمیں ایسے گھرانے کے حوالے کیا جو اس کے قابل نہ تھا۔ حالانکہ میں ایک امیر عمارت کا امیر کمرہ۔
سبب کیا تھا؟ اب حالات کچھ مختلف تھے۔

امیر عمارت کے اس چھوٹے سے کمرے میں ۳ سادہ چارپائیاں ، بستروں کے لیے ۱ یک پیٹی اور اسی کمرہ میں ایک ٹھنڈا چولہا، برتنوں کا ٹوکرا فرش پر ہی سجھایا گیا تھا،کھانا پکانے کےلیے علیحدہ سے کچن نہ تھا، ہو گا مگر اس گھرانے کو کیوں کردیا جائے یہ تو کرایہ پر مکین تھے،افلاس کی زندگی بسر کررہے تھے،ہائے گرمیوں میں کیا حال ہوتا ہوگا، گرمی کی شدت اور چولہے میں جلتی ہو ئی آگ کی حدت سےکمرے کا کیا ٹمپریچر ہو تا ہوگا، بدلتے موسم سے لطف اندوز ہونےکے لیے چھت تک رسائی حاصل نہ تھی ،ہاں ہاں حالت مفلسی میں موسم کو انجوئے کرنے گلی میں کھڑے ہو جاتے،پس ایک غریب گھرانہ معلوم ہوتا تھا۔، سوچا تصویر لے لو مگر الفاظ میں تصویر کشی کو ہی بہتر جانا۔ ہاتھ تو نہ پھیلائے کسی غیر کے آگے مگر آئینہ نقش نگاری کررہاتھا۔
لوگو! کس کا جی نہیں چاہتاکہ وہ سہولیات سے آراستہ زندگی بسر نہ کریں۔
شاعر کے الفاظ میں

جرأت شوق تو کیا کچھ نہیں کہتی لیکن
پاؤں پھیلانے نہیں دیتی ہے چادر مجھ کو

بچوں کی ماں کی درد بھری آواز، آنکھوں میں آنسو مگر زبان پر الحمدللہ ، عرصہ دراز سے ٹائیفائیڈ اور پتے میں پتھری، گھروں میں کام کاج کرکے بچوں کا پیٹ پالتی مگر اب تھک ہار گئی ہے ۔بچوں کا باپ ٹی بی جیسی مہلک بیماری کا شکار، جسم اتنا لاغر کہ مزدوری کے قابل نہ رہا، کمرے کا ۵۰۰۰ کرایہ قرض کی صورت میں سر کا بوجھ بن گیا، سبب کیا ہے؟ کئی ماہ سے کرایہ کی ادائیگی نہ کر سکے،سب سے بڑے بچے کی عمر ۱۳ سال برسر روزگار نہیں یقینا کھیلنے کودنے اور پڑھنے کے دن ، اکیلی ماںکرے تو کیا کرے؟،بچوں کی دیکھ بھال میں وقت صرف کرے یا حصول روزگار کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھائے ؟،بچوں کی فرمائشیں پوری کرے یا گھریلوضروریات؟۔ ہائے بچوں کا دل تو للچاتا ہوگاجب محلے کے بچوں کو کھیل کے سامان سے لیس اور دیگر سہولیات سے استفادہ دیکھتےمگر
شاعر کے الفاظ میں

اپنے بچوں کو میں باتوں میں لگا لیتا ہوں
جب بھی آواز لگاتا ہے کھلونے والا

سچ تو یہ ہے طرح طرح کے سوالات ذہن میں جنم لے رہے تھے،قوت برداشت جواب دے رہی تھی ، اب مزید ٹھہرنے کاحوصلہ نہ تھا، پس دوست کے ہمراہ واپس کی راہ لی ۔یہ تو ایک مثال تھی ،ہزاروں مثالیں موجو د ہیں ۔مگرکوئی سرکاری باشندہ سر پر ہاتھ رکھنے نہیں آتا، کوئی وزیر برائے قومی اسمبلی حالات کا جائزہ لینے نہیں پہنچتا، کو ئی وزیر برائے صوبائی اسمبلی بچو ں کو گود میں نہیں لیتا۔اسمبلی ممبران کی کیا بات کرتےہو، علاقائی سطح پر نامزد چیئرمین اور جنرل کونسلر ایسے گھرانوں کی دیکھ بھال کے لیےزمہ داری اپنے سر نہیں لیتے۔ حق تو یہ تھا کہ علاقائی سطح پرعوام کی فلاح وبہبود کےلیے کمیٹیاں تشکیل دی جاتیں مگر عوام کوسوشل میڈیا پر زبردست سیاسی ناقدین بنا دیا،ہو گئے سب کیچڑ اچھالنے میں مصروف ،اور خود شہنشاہ سلطنت بنے بیٹھے ہیں۔ اسی لیے کہے دیتا ہوں
شاعر کے الفاظ میں

آشنا ہو چکا ہوں مَیں سب کا
جس کو دیکھا سو اپنے مطلب کا

یہ سیاست دان جو جمہوریت کے علمبردار بنے بیٹھے ہیں، کس جمہوریت کی بات کرتے ہو؟ ایسی جمہوریت سے غریب پناہ چاہتے جس سے ان کی زندگی آسانی میں نہ بدل سکے۔روزنامہ نوائے وقت میں چھپا “ قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۴ جولائی ۱۹۴۷ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ جب آپ جمہوریت کی بات کرتےہیں تومجھے شبہ ہوتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا،ہم نے جمہوریت تیر ہ سو سال پہلے ہی سیکھ لی تھی”۔
شاعر کے الفاظ میں

جلال پادشاہی ہوکہ جمہوری تماشاہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

یہ سیانے، یہ وڈیرے، یہ نمبردار ،یہ بڑے بڑے بنگلوں کے مکیں ،یہ سیاست دان تو ووٹوں کے حصول کے لیےمارےمارے پھرتے تھے، گلی گلی چکر لگاتے تھے، معاملہ یہاں تک نہیں رکا ہر خاص و عام کے دروازے پردستک دیتے تھے،طرح طرح کے بہانے بناتے تھے، الیکشن سے قبل کھانوں کا بندوبست کرتے تھے، غریب کے بچوں کو روزگار مہیا کرنے کے لیےعہد کرتے تھے،غریب گھرانوں کے لیے وظیفہ مقرر کرنے کا یقین دلاتے تھے۔
جھوٹ پر جھوٹ بولے جاتےیا اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ بھول جاتےسمجھ سے بالاترہے ،شاید انھو ں نےاپنی تاریخ کو جاناہی نہیں،خلیفہ ثانی کو پڑھا ہی نہیں،فاروق کے کردار کو سمجھا ہی نہیں۔
یہ بھی اک حاکم تھا ، محمدﷺ کی سیرت کو جاننے والا تھا، خاتم انبیین ﷺ کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنے والا تھا۔
جس کے بارے میں سرور کونینﷺ نے کہا تھا “میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہو تا”
کم وبیش ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم تھا۔جس کے دور میں عراق، مصر ، سرزمین شام ، ایران جیسی بڑی بڑی ریاستیں اور علاقے فتح ہو چکے تھے۔مگر رات کے اندھیروں میں گلی گلی گشت کرتے ، حالات کا جائزہ لیتےکوئی مستحق تو نہیں ہے،دوران گشت ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آوازیں آرہی ہیں، معلوم ہواکہ کھانے کے لیے کچھ نہیں ، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں ،بڑھیا ما ں نے بچوں کو دلاسہ دینے کے لیےخالی پانی کی ہنڈیا کو چولہے پر چڑھا رکھا،حیران و ششدر رہ گئے عمرؓ کا دور اور بھوک سے پریشان گھرانہ۔
پھر عمرؓ سکون سے نہ بیٹھے، آرام کی نیند نہ سوئے، سیر وتفریح کے لیے نہ نکلے، سیدھا گئے تو بیت المال گئے، راشن کا بنڈل اپنے کندھوں پرا ٹھایا اور چل دیے ، غلام خالی ہاتھ ساتھ چلتا جارہاہے، اس گھر تک پہنچے جہاں سے بچوں کے رونے کی آواز یں آرہی تھیں،دروازے پر دستک دی اور بڑھیا ماں کو راشن دے دیا۔بات انسانیت پر ختم نہیں ہوتی، عمرؓ فرمایاکرتے تھے۔
“اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر جائے گا تو قیامت کے دن عمرؓ سے اس کے بارے میں سوال ہوگا” ۔
بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ یہاں لوگ بھوک سے مررہے ،غریب کو انسان ہونا میسر نہیں اور امراء کے پالتو جانور عیش کی زندگی گزار رہے مگر کسی کو کوئی پرواہ نہیں،کوئی وزیر ٹس سے مس نہیں ہوتا،کسی صاحب اقتدار کی آنکھ اشکبار نہیں ہوتی۔
شاعر کے الفاظ میں

ان کو آنکھیں مت کہو، چہرے پر دو دھبے کہو
ورنہ اتنا ظلم کب آنکھوں سے دیکھا جائے ہے

کہے دیتا ہوں کیا یہ وزراحضرت عمرؓ سے بھی بڑے ہو گئے ہیں؟ کیا ان مشیروں نے اپنی عزت کو ان کی عزت سے بہتر جان لیا ہے؟ کیا انھوں نے اپنے مقام و مرتبت کو عمرؓ کے مقام سے بھی اعلٰی سجمھ لیاہے؟اگر عمرؓ اندھیر ی راتوں میں گلیوں میں چکر لگا سکتے تھے تو ان کو کیا مسئلہ ہے؟ یہ عوام کو کونسا فلسفہ سیاست سمجھانا چاہتے؟۔ ،یہ تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام روشن کرنے نکلے تھے،یہ تو عوام کی خدمت کے لیے منتخب ہو ئے تھے ۔
افسوس سے کہتا ہوں اگر سیاست کو دین سمجھ کر کیا جاتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ، پھر لوگوں کی نظروں میں برا بننے کے ڈر سے خدمت نہ ہوتی بلکہ ہر سیاست دان نیکی کے اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔
یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں عوام بھی دل چھوٹاکرنے والے نہیں ۔ سبب کیا ہے؟ اس امید کے ساتھ ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک عملی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان بن جائے گا،جب خلفائے راشدین کی سیرت پر عمل ہو جائے گا تو غریبو ں کے ان کے حقوق مل جائیں گے اور قرآن کے اس فرمان پر بھی عمل ہو جائے گا۔

ویُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا
اور وہ اسکی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔

Irfan Qayyum
About the Author: Irfan Qayyum Read More Articles by Irfan Qayyum: 12 Articles with 13482 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.