ملک کے موجودہ حالات ہوں یا دنیا کے متغیر حالات دونوں
ہی صورتوں میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کا تذکرہ آج کے کالم میں کیا
جاسکتا تھا۔لیکن چونکہ ایک اہم فریضہ، فریضہ قربانی ان شاء اﷲ ہم جلد ہی
ادا کرنے والے ہیں۔لہذا مناسب سمجھا کہ قبل از وقت اس موضوع پر چند باتیں
پیش کی جائیں۔آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کا اﷲ رب العزت کے حکم سے
حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی پیش کرنے کا واقعہ دنیا کا ایک ایسا لازوال واقعہ
ہے جو رہتی دنیا تک زندہ و تابندہ رہے گااور اہل ایمان کے حوصلوں کو تازگی
بخشے گا،باربار دہرایاجائے گا،اور اﷲ کی راہ میں ہر سطح پر قربانی پیش کرنے
والوں کے جذبہ کو تقویت بہم پہنچاتا رہے گا۔یہ وہی واقعہ ہے جس نے ایک نبی
کو خلیل اﷲ کادرجہ عطا کردیابلکہ رہتی دنیا تک اس قربانی کو ایک نمونہ بھی
بنا دیا۔قرآن حکیم اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے:"اور ہم نے انہیں ندا
دی کہ اے ابراہیمؑ ! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم وفادار بندوں کو
ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی"(الصافات:۱۰۶-۱۰۴)۔آزمائش؟
آزامائش اﷲ پر یقین کی اورآزمائش اس رزق کی جو اﷲ کا فراہم کردہ تھا۔لہذا
جب آزمائش میں ثابت قدمی دکھائی تو کامیابی بھی ایسی ملی جس کا قبل از وقت
تصور تک نہیں کیا جاسکتاتھا۔حضرت اسحاق اوریعقوب کی ایک طویل تر انبیاء
ورسل پر مبنی نسل تو وہیں حضرت اسماعیل کی نسل سے نبیوں کے سردار حضرت محمد
صلی اﷲ علیہ وسلم کا مبعوث ہونا۔معاملہ جہاں ایک جانب اﷲ رب العالمین کو ہر
مرحلہ میں رب جاننے اور ماننے کا تھاوہیں اس کے ہر حکم کی بجاآوری میں مکمل
حوالگی کا بھی تھا،اور یہی وہ دو بنیادیں تھیں جن پر قائم ہونے والی عمارت
سراپا قربانی ٹھہری۔توحید کے لیے پہلے باپ کی محبت و شفت کی قربانی،اس کے
بعد اﷲ کی کبریائی کو سربلند کرنے کی پاداش میں اپنی جان کی قربانی اور آتش
نمرود میں کود جانا،پھر ٍوطن اور اہل سے جدائی کی شکل میں قربانی ،اور آخر
میں وہ عظیم ترین قربانی پیش کرتے ہوئے معصوم بچے کی زبان سے ادا ہوتے
کلمات:"اے ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے،آپ انشااﷲ
مجھے صابروں میں سے پائیں گے(الصفت:۱۰۲)۔درحقیقت یہ قربانی قیامت تک کے لیے
محفوظ کردی گئی ہے،خصوصاً اُن مومنین و صالحین کے لیے جو ابراہم ؑ اور اس
کے رب پر مکمل اور حد درجہ اعتماد قائم کرنا چاہتے ہوں۔
امت مسلمہ آج جس دور سے گزر رہی ہے اِس دور میں بھی ہر محاذ پر قربانی کی
ضرورت ہے۔ یہ قربانی کس طرح سے ادا کی جاسکتی ہے اور اﷲ کی نصرت کیسے حاصل
ہوگی ؟اس کا مختصر تذکرہ کیا جا رہا ہے۔i)دنیا میں موجود عقائد و نظریات کو
اسلامی تناظرمیں سمجھنے ،ان سے نتیجہ اخذ کرنے کے لیے جس تگ و دو اور انتھک
جدوجہد کی ضرورت ہے اس کے لیے اپنے وقت کی قربانی ۔ii)اسلام کا جامع علم
حاصل ہو جائے ،اس کے لیے شب و روز میں مخصوص وقت کا تعین اور طویل منصوبہ
بندی کے تحت بتدریج آگے بڑنے کا عمل۔ iii) اسلامی عبادات کو اختیار کرنا
اور ان کو اپنی ذات،گھر، محلہ اور جہاں تک ممکن ہو قائم کرنا۔iv)معاشرہ میں
موجود غیر اسلامی رسم و رواج ترک کرتے ہوئے اسلامی شعائر پر قائم
ہونا۔v)"اسلام ایک مکمل نظام ِ حیات ہے "،نہ صرف اس عقیدہ پر یقین
رکھنابلکہ اس نظام کے قیام کے لیے منصوبہ بند اور منظم سعی و جہد میں شامل
ہونا۔ یہ وہ پانچ باتیں ہیں جن پر عمل کے لیے ہر سطح پر اپنے افکار و
خیالات،نظریات اور روّیوں کوقربان کرنے کی ضرورت ہوگی۔کیونکہ قربانی اس بات
کا نام نہیں کہ جانور خریدیں اور ذبح کردیں بلکہ ظاہر و باطن ہر دوسطح پر
درپیش چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے روح قربانی سے سرشاری ہی اصل قربانی ہے۔یہ
حقیقت ہے کہ آج بھی ہر مذہب کے ماننے والے مختلف انداز میں رب اعلیٰ کے لیے
قربانی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔اور یہی بات قرآن حکیم میں اﷲ رب العزت
بھی فرماتا ہے:"ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے
تاکہ (اس امت کے)لوگ ان جانوروں پر اﷲ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے
ہیں۔(ان مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے)پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے
اور اسی کے تم مطیع فرمان بنو"(الحج:۳۴)۔آیت کی روشنی میں یہ بات واضح ہو
جاتی ہے کہ جس طرح نماز اور روزہ دوسری امتوں میں پر فرض رہا ہے ٹھیک اسی
طرح قربانی بھی امت مسلمہ سے قبل کی امتوں پر فرض کی جاتی رہی ہے۔اور آج ہم
اُسی عبادت کا عہد کرتے ہے جو ابراہیم ؑ، اسحاقؑ،موسیٰؑ اور عیسیٰ ؑ انجام
دیتے آئے ہیں۔اب یہ الگ بات ہے کہ مختلف ادوار میں دین حنیف میں تبدیلیوں
کی وجہ سے قربانی کے تصور اور طریقہ میں بھی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔اس کے
باجود آج بھی قربانی وہی قبول ہوگی جو خالص اﷲ کے لیے ہو اور اسی کے بتائے
طریقہ کے مطابق۔
جس طرح ایک انسان کی صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے کہ اس کو بھرپور غذا
ملے ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان کے دین، اس کی فکر، اس کی نظراور اس کے اعمال
کو صحیح رخ پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُن ایمانی غذاؤں سے فیض
یاب ہوجو اس کو وقتاً فوقتاًتقویت پہنچانے والی ہیں۔ یہ ایمانی غذا اُس
صورت ہی سود مند ثابت ہوگی جبکہ اس کا اہتمام بھی شعوری طور پر کیا جائے۔
اس کے لیے جہاں دن میں پانچ مرتبہ اﷲ رب العزت کے سامنے حاضری ایک ذریعہ ہے
وہیں اﷲ کا ذکر اور اُس کی عبادات کو ہر لمحہ بجا لانا بھی معاون ثابت
ہوتاہے۔ یہ اہتمام بندہ مومن کو خوشی اور غم کے ہر موقع پر کرنا چاہیے۔
اوریہی وہ عظیم مقصد ہے جس کی جانب عید الاضحی کا واقع ہماری رہنمائی کرتا
ہے۔ اس کے ذریعہ ایک جانب جہاں مسلمان ربِ اعلیٰ کی کبریائی بیان کرتے ہیں،
اس سے تعلق برقرار رکھنے اور اس کے بتائے طریقہ پر عمل کرنے کا اظہار کرتے
ہیں وہیں اُن لوگوں کے ساتھ مل کر عید کی خوشیاں بھی تقسیم کرتے ہیں جو عام
دنوں میں عسرت و عاجزی کاشکار رہتے ہیں۔یہ وہ موقع ہے جب کہ جانور کی
قربانی اورخوشی جو اس کے بعد حاصل ہوئی،میں ایک عزم مصمّم پوشیدہ ہے۔اسی
موقع پر حضرت ابراہیم ؑ کے ذریعہ ادائیگی قربانی کے اعلیٰ ترین نمونہ کو
یاد کرتے ہوئے اپنی جان اور مال اور صلاحیتوں کو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے
کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ یہ عہد صرف زبانی حد تک ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے
اثرات انسان کے ظاہر و باطن دونوں پر پڑنے چاہیے۔ اس سے اقامت دین کی
جدوجہد میں مصروف مسلمانوں کو قوت حاصل ہوتی ہے جو ان کے اندر خدا پرستی کی
توانائیاں تازہ بہ تازہ داخل کرتی رہتی ہیں تاکہ وہ برابر چست وفعال رہیں
اور ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے صراط مستقیم پر قائم ہو جائیں۔
جس طرح کائنات اور اس کی ہر شے مستقل حرکت پذیر ہے ،اُس میں ٹھہراؤ نہیں
،اوراگر ٹھہراؤ آ جائے تو یہ دنیا تباہ و برباد ہو سکتی ہے ۔ٹھیک اسی طرح
بندہ مومن ہر آن اپنے ایمان کو تازہ دم رکھنے میں فکر مند اور متحرک نظر
آتاہے ۔یہ اس بات کی بھی نشانی ہے کہ مومن کی فکر وعمل منجمد نہیں
ہے۔کیونکہ فکر و عمل کا منجمد ہونا ہی دراصل زوال و ہلاکت کا پیش خمیہ
ہے۔حضرت ابرہیم ؑ کی زندگی سے استفادہ کے ساتھ ہی نبدہ مومن اﷲ کے رسول
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی سے بھی بھر پور استفادہ کرتا ہے ۔کیونکہ
آپؐ کی زندگی تحریکیت کی غماز ہے۔آپؐ کے سامنے سیاسی حالات نے آنکھیں
دکھائیں،وطنی مفاد آڑے آئے،وقت اور ماحول نے ساتھ دینے سے انکار
کیا،مصلحتوں نے دامن پکڑا، مشکلات نے راستہ روکا،ہلاکتوں کا طوفان
برپاہوا۔لیکن آپ ؐ نے اپنی آواز میں کبھی کوئی پستی نہ آنے دی۔پس یہ ثابت
کرتا ہے کہ ہمارا عقیدہ جب دیگر عقائد پر اثر انداز ہوتا ہے تو مسلمان کی
راہ ہموار ہوتی ہے اور رکاوٹیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔یہی بات دوسرے انداز
میں اﷲ تعالیٰ مومنین کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:"اور جو کافر ہیں ان کے
لیے دنیا کی زندگی خوشنما بنا دی گئی ہے اور وہ مومنین سے تمسخر کرتے
ہیں۔لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر غالب ہوں گے اور خدا جس کو
چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے"(البقرہ:۲۱۲)۔یہی وہ قربانی کا جامع تصور ہے
جو ہمارے ایمان کو تازہ رکھنے میں مدد گار ہے۔ آئیے عہد کریں کہ عزم ِ
مصمّم کے ساتھ اﷲ کی خوشنودی کی خاطر زندگی کے شب و روز میں حددرجہ
قربانیاں دیں گے ۔تاکہ ایک بار پھر اﷲ ہم سے محبت کرے اور ہم اس کو راضی
کرنے والوں میں اِس صدائے بلند کے ساتھ شامل ہو جائیں: لبیک اللھم لبیک لا
شریک لک لبیک ان الحمد والنعمتہ لک والملک لا شریک لک۔"حاضر ہوں اے اﷲ !
حاضر ہو ں میں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ حاضر ہوں، تمام حمد تیرے ہی لیے ہے
اور تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں، ملک تیرا ہی ہے اور تیرا کوئی شریک
نہیں" !!! |