مجاہد ملت مولانا عبدالستار ؒخان نیازی کو 1953 کی تحریک
ختم نبوت ﷺ میں پھانسی کی سزا ہوئی،جیل کی کال کوٹھڑی میں7دن 8راتیں رہے،
اﷲ کے حکم سے رہائی ہوئی،جیلر نے ریکارڈ مرتب کرتے ہوئے پوچھا آپ کی عمر
کتنی ہے؟فرمایا 7دن اور 8 راتیں،آفیسر نے کہا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ
کیسے ہوسکتا ہے؟
فرمایا زندگی تو بس یہی ہے جوحرمتِ رسول ﷺ کی خاطر کال کوٹھڑی میں کٹی تھی
دن و رات کو اصل زندگی ایک مجاہد ہی کہہ سکتا ہے۔ مولاناعبدالستارؒ نیازی
کے حوالہ سے ہی ایک دوست نے ایک واقعہ سنایا یہ واقعہ ایک ایسے سخص کا ہے
جوکبھی منشیات فروش تھا اس کا کہنا تھا آج مجھے جیل میں آئے دو سال مکمل ہو
چکے تھے۔دسمبر 1951 کی ایک شام تھی جب میں منشیات اسمگل کرتے پکڑا گیا
تھا۔دس سال کی قید سن کر بھی میں گھبرایا نیں۔۔مجھے امید تھی کہ میرا گروہ
مجھے یہاں سے چھڑوا لے گا لیکن آج دو سال ہو چکے ہیں مجھے چھڑوانے کوء نہیں
آیا۔اب میں اکثر تنہاء میں روتا ہوں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا
ہوں۔نہ جانے کیوں اب اس کال کوٹھری سے میرا دل گھبرانے سا لگا ہے۔اب تو جیل
سپریڈنٹ کو بھی مجھ پر ترس آنے لگا ہے۔وہ بھی اکثر مجھ سے حال احوال پوچھنے
آجاتا ہے۔
1953 کا ہی ایک روشن دن تھا جب جیل میں ایک نیا قیدی آیا۔۔وہ باقی سب سے
بہت مختلف تھا۔۔اس کا دراز قد،روشن چہرہ اور سر پر عمامہ اس کی شخصیت کو
متاثر کن بنانے کیلئے کافی تھا۔۔اس کے چہرہ کا اطمینان دیکھ کر مجھے بہت
حیرت ہوا کرتی تھی۔۔جیلر نے بتایا کہ اسے ریاست کے خلاف بغاوت کے جرم میں
سزائے موت ہو چکی ہے۔۔لیکن میرا دل قطعی ماننے کو تیار نہ تھا کہ ایسا شخص
باغی بھی ہو سکتا ہے۔اسے میرے ساتھ والی بند کوٹھری میں رکھا گیا تھا۔۔اس
کے اور میرے کمرے کے درمیان ایک چھوٹا سا روشن دان تھا جس سے میرے لئے اس
پر نظر رکھنا مشکل نہ تھا۔میں اکثر اس کے معمولات دیکھ کر حیرت زدہ رہ
جاتا۔۔پانچ وقت نماز پڑھنے کے علاوہ ہر وقت وہ درود شریف کا ورد کر رہا
ہوتا۔دو دن ایسے ہی گزر گئے۔ تیسرے دن شور کی آواز سن کر میری آنکھ کھل
گئی۔اور سامنے کا منظر دیکھ کر میری چیخ نکل گئی۔
پانچ چھ افراد جو شکل سے کسی محکمے کے افسران لگتے تھے وہ اس شخص پر
لاٹھیوں کی برسات کر رہے تھے اور وہ ہر لاٹھی پر الحمدﷲ کہ اٹھتا۔تھوڑی دیر
گزری تھی کہ ایک افسر کے اشارے پر وہاں سانپ لائے گئے۔اور اس کے برہنہ جسم
پر سانپوں کو چھوڑ دیا گیا۔۔وہ سانپ اس قدر زہریلے تو نہ تھے کہ اس کی جان
لیتے تاہم وہ اس کا جسم نوچ رہے تھے۔
افسر نے چلا کر کہا"نیازی!تم! کس مٹی کے بنے ہوئے ہو اورکتنی تکلیفیں اٹھاؤ
گے۔۔ہم تجھے رہا کرنے کو تیار ہیں۔قادیانیوں کے خلاف سرگرمیاں بند کر
دے"۔۔قیدی نے غضبناک آنکھوں سے افسر کو دیکھا اور چلا کر کہا
"اگر میں رہا ہو گیا تب بھی باہر جا کر پہلی بات یہی کرونگا کہ قادیانی
کافر ہیں"۔میرے ذہن میں کئی سوالات اٹھ رہے تھے کہ یہ شخص کون ہے؟؟؟اور یہ
افسر اسے کس جرم میں مار رہے ہیں؟؟؟اور یہ اب تک ڈٹ کر کیوں اور کیسے کھڑا
ہے؟؟؟۔ان کے جانے کے بعد مجھ سے رہا نہ گیا میں نے صدا لگائی
"اے اﷲ کے نیک بندے!!تو کون ہے اور یہاں کیوں آیا ہے؟؟؟یہ لوگ تجھے کیوں
مار رہے ہیں؟؟؟"۔۔اس شخص کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ بولا
"قادیانی رسول اﷲ کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے۔تمام مسلمان یہ مطالبہ کر
رہے کہ ان کو کافر قرار دیا جائے۔۔ملک میں تحریک ختم نبوت کی ابتداء ہو چکی
ہے اور انشاء اﷲ ہم تب تک امن سے نہ بیٹھیں گے جب تک قادیانی آئینی طور پر
کافر قرار نہیں دے دیا جاتا"
میرے تن بدن میں آگ سی لگ چکی تھی۔میں گناہگار ضرور تھا لیکن سرور کائنات
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے انتہا کی عقیدت رکھتا تھا۔۔۔اب مجھے رہ رہ کر خود
پر غصہ آنے لگا کہ میں منشیات کے برے کام میں کیوں پڑا ورنہ آج میں بھی ان
کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا۔میں نے اس سے نام دریافت کیا
تو اس نے مختصر سا جواب دیا"عبدالستار خان نیازی"
یہ نام سن کر میرے جسم پر سکتہ طاری ہو گیا۔میں کچھ اور کہنے کی جسارت نہ
کر سکا۔۔میری آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔میں زور سے چیخنا چاہتا تھا لیکن آواز
میرے حلق میں ہی اٹک گئی تھی۔میں اس شخص کو جانتا تھا۔میں نے اپنے بچپن میں
ہر ایک کی زبان پر اس کا نام دیکھا تھا۔یہ وہی تھا جس نے قائداعظمؒ کو
پنجاب کے کئی اضلاع سونپے تھے۔۔۔۔یہ وہی تھا جسے قائد اعظم بھی کہا کرتے
تھے
"مولانا آپ کی تحریکوں سے پاکستان معرض وجود میں آیا"
یہ وہی تھاا جس کا شمار مسلم لیگ کے قائدین میں ہوتا تھا۔۔اور آج یہ میرے
سامنے ایک تاریک کوٹھری میں موجود تھاااا۔۔۔اﷲ رسول کی محبت اسے کہاں لے آء
تھی۔۔۔۔اور پھر بیاختیار میری زبان سے اس کیلئے دعائیں نکلنے لگیں۔۔
اگلے دن وہ ایمان فراموش افسر پھر آ ٹپکے اور اب کی بار میں چلا اٹھا
"او ظالمووو!تمہیں شرم نہیں آتی تم کسے مار رہے ہو؟؟؟کیا تمہیں نار جہنم
نہیں ڈراتی؟؟"
لیکن ان سنگدلوں پر اثر نہ ہوا اور مولانا کو آج گھنٹوں برف کے بلاکوں پر
لٹایا گیا اور جب مولانا بے ہوش ہو گئے تو انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔میں رو رو
کر مولانا کو آواز لگا رہا تھا۔جب تشدد بڑھنے لگا تو مولانا پر کھانا پانی
بھی بند کر دیا گیا لیکن مولانا کو نہ پیچھے ہٹنا تھا نہ وہ ہٹے۔وقت تیزی
سے گزر گیا
چند سال بعد مولانا رہا ہو چکے تھے لیکن یہ بات میں ہی جانتا تھا کہ کونسا
ایسا ظلم ہے جو ان کے جسم پر نہ ڈھایا گیا۔۔
مجھے اب مولانا کی یاد بیقرار رکھتی تھی۔۔۔میں بھی ختم نبوت کی عظیم
المرتبت تحریک میں شامل ہونا چاہتا تھاا۔۔آج 5 جنوری 1961 ہے۔۔کل صبح مجھے
رہا کر دیا جائے گا اور میں ابھی سے تصورات کی دنیا میں خود کو مولانا کے
شانہ بشانہ تاجدار ختم نبوت کی صدا بلند کرتے دیکھ رہا ہوں۔اﷲ کی ان پہ
کروڑوں رحمتیں ہوں اور انکے صدقے ہماری مغفرت ہوآمین۔ اس سے اندازہ
لگایاجاسکتاہے کہ قادیانی ایسے ھی کافر قرار نہیں دئیے گئے!’’تاریخ بتاتی
ہے کہ عقیدہ ختم ِنبوت ﷺ کو اجاگر کرنے کے لئے بر ِصغیر میں سب سے پہلے
اعلیٰ حضرت امام احمدرضا ؒ خان بریلوی نے ایک رسالہ لکھ کر اس فتنے کا چہرہ
بے نقاب کیا پھرپیر مہرؒعلی شاہ آف گولڑہ شریف نے مرزا غلام احمدقاویانی
اور اس کے حامی قادیانیوں کوللکارا اور مناظرہ اورمباہلہ کا چیلنج دیا لیکن
وہ اس سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے پھر جب قادیانیوں کی ریشہ دیوانیاں حد سے گذر
گئیں تو 1952ء میں تحریک ِ ختم نبوت ﷺ شروع ہوئی اس کے لئے مسلمانوں نے
اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے سینکڑوں گرفتار کرلئے گئے اسی اثناء میں
مولانا ابوالاعلی مودودیؒ نے فتنہ ٔقادیانیت پر ایک کتاب لکھ کر داد ِ
تحسین حاصل کی مجاہد ِ ملت مولانا عبدالستارؒ خان نیازی اورجماعت اسلامی کے
بانی مولانا ابوالاعلی مودودیؒ کو گرفتا رکرلیا گیا بعدازاں انہیں اس کیس
میں سزائے موت سنادی گئی لیکن ان شخصیات کے پایہ ٔ استقلال میں جنبش تک
نہیں آئی پھر عوامی رد ِ عمل کے پیش ِ نظر حکومت نے یہ سزا ختم کردی گئی
کمال ہے کچھ لوگ مسلمانوں کے بنیادی عقیدہ ختم ِ نبوت کو مسلمانوں اور
قادیانیوں کے درمیان معمولی سا اختلاف قراردے رہے ہیں حیف صد حیف۔ ذوالفقار
علی بھٹو دور میں ایک بار پھر تحریک ِ ختم نبوت ﷺ شروع ہوئی اس وقت قومی
اسمبلی کے قائد ِ حز ب اختلاف مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا مفتی
محمودؒ، مجاہد ِ ملت مولانا عبدالستارؒ خان نیازی اور دیگرعلماء کرام اور
ارکان ِ اسمبلی کی کوششوں سے عقیدہ ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے والوں اور
مرزا غلام احمدقادیانی کو نبی ماننے والوں کو غیر مسلم قراردے دیا گیا جس
پر امت ِ مسلمہ نے اﷲ کے حضور سجدہ ٔ شکر ادا کیا لیکن آج بھی مرزائی ذہن
رکھنے والے اسے معمولی اختلاف کہہ کر اﷲ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں انہیں
چاہیے کہ وہ سچے دل سے توبہ کریں اور احمدیوں‘ لاہوریوں اور قادیانیوں سے
کسی قسم کی ہمدردی نہ کریں‘‘۔
|