پی پی اور ن لیگ امریکی
پٹھو،غداروں اور چوروں کا ٹولہ ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار
غور کیجیے یہ لاہور بار ہے اور بیان ہے قانون کے اداروں سے منسلک وکلاء کا
جو دن رات قانونی جنگیں لڑتے ہیں اخبار جنگ کی خبر کچھ یوں ہے کہ ۔’’ لاہور
ہائی کورٹ بار نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پی پی
اور نون لیگ کو امریکی پٹھو ، غداروں اور چوروں کا ٹولہ قرار دیا اس میں
صوبائی ، وفاقی حکومتوں، آرمی چیف، وفاقی وزیر داخلہ، ڈی جی آئی ایس آئی،
وفاقی وزیر داخلہ اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی
کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس اقدام کی پرزورمذمت کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم
کورٹ سے اس واقعہ کا از خود نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا‘‘۔
اس احتجاج میں ان تمام افراد کو مورد الزام ٹھرایا گیا ہے جو کسی نہ کسی
صورت میں اس ملک کے نظام کے قیام اور اس کی بحالی کے براہ راست ذمہ دار ہیں
کیا ملک ایسی غیر زمہ داری کا متحمل ہو سکتا ہے اور اس کے نتائج ملک و قوم
پر کیا اثرات مرتب کریں گے ۔ میں تو شکر گزار ہو اس میڈیا کا جو ہر خبر تک
عوام کی رسائی کو ممکن بناتے ہیں اور حقائق سے آگاہ کرتے ہیں۔
لگتا ہے ریمنڈ ڈیوس کیس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور لواحقین
کے وکلاء کو بھی پیروی سے روکا گیا اور مقتولین کے لواحقین کو مجبور کیا
گیا کہ وہ ریمنڈ کو معاف کر دں کیا خون بہا زبردستی کی بنیاد پر دیا جاتا
ہے۔ تمام لواحقین کو ایک ساتھ پیش کر کے بیان صبح صبح لے لیا گیا اور
اجتماعی بیان کیا جج صاحب اس معاملے میں اپنی ذمہ داری کا تعین کرنے میں حق
بجانب ہو سکتے ہیں۔
لواحقین کے وکلاء کو کوٹ لکھپت جیل میں چار گھنٹے محبوس رکھ کر کیس کی پیرو
ی کرنے سے روکا گیا ۔
لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر اصغر علی گل نے کہا کہ لاہور بار ایسوسی ایشن
ورثہ کو بیس کروڑ روپے دیت کی ادائیگی اور زبردستی دستخط کرانے اور وکلاء
کو کاروائی میں شریک نہ کرنے اور انہیں چار گھنٹے گن پوانٹ پر محبوس رکھنے
پر پرزور احتجاج کرتی ہے ۔ ( آ زاد عدلیہ جس کے لئے وکلاء نے جدوجہد کی)
مقررین نے کہا کہ پی پی اور نون لیگ امریکی پٹھو ہیں ، یہ غداروں اور چوروں
کا ٹولہ ہیں ان جماعتوں کے کرتا دھرتاؤں کے تمام اثاثے بیرون ملک ہیں یہ
ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتے یہ ملک چلانے کے اہل نہیں ہیں اس لئے صوبائی
اور وفاقی حکومتوں سے مستعفی ہو جائیں ۔ ان خبروں میں یہ خبر بھی شائع ہوئی
کہ اس رہائی کی تیاری ایک ہفتہ پہلے سے شروع کر دی گئی تھی اور لاہور ہائی
کورٹ کے چیف جسٹس بھی ایک روز پہلے سے رابطے میں تھے ، کیا انکو اس کیس میں
رابطہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے، اسی لئیے بار کے عہدے داران نے چیف
جسٹس سپریم کورٹ نے انکے خلاف ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے جو اس
تناظر میں جائز بھی لگتا ہے۔
یہ مطالبہ بار ایسوسی ایشن کر رہی ہے کوئی قانون سے نابلد لوگ نہیں ہیں ان
کے بیانات اور احتجاج اصل حقائق کی خبر د ے رہے ہیں کہ انصاف کے تقاضے کیسے
پورے کیے گئے ہمارے حکمرانوں اور قومی اہمیت کے حامل اہم اداروں کے عہدہ
داروں کا گھناؤنا کردار سامنے آ چکا اور قوم ان حکمرانوں سے اس ملک کو پاک
کرنے کی جدوجہد کریں ۔
اس قوم کی بد قستی رہی کہ جب بھی کڑا وقت آیا ہمارے حکام جانے کیوں اپنے
موقف پر ڈٹ جانے کی بجائے پیرونی احکامات کی پابندی اختیار کر لیتے ہیں اور
جو ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے، اور اسٹیٹ سے غداری کی سزا بھی ہوتی
ہے۔
ان حکام اور اعلی عہدہ داران کو ملک کے ضابطہ اخلاق کی پیروی کی تعلیم حاصل
کرنے کی ضرورت ہے اور اس سے روگردانی پر سزا کا انعقاد بھی اشد ضروری ہے،
چونکہ ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی روایت بھی پڑ چکی ہے فوری دوسرے پر ڈال
کر خود کو تمام ذمہ داریوں سے مبرہ قرار دینے کا رواج بھی فروغ پا گیا ہے
جو قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ اب وقت آ چکا کہ انصاف کا بول بالا ہو چوروں
لٹیروں اور غداروں کا احتساب ہو قانوں کی بالادستی کے لئے اہل افراد اس ملک
کے نظام سے منسلک ہوں۔ |