تحقیق و تخلیق ایسا عمل ہے جس سے معاشرے میں ارتقا
اور تبدیلی کے عمل کو مہمیز ملتی ہے۔ترقی یافتہ معاشروں میں تحقیق و تخلیق
کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ وہاں تحقیق کے نظام کو وسعت ملتی ہے، وہاں تحقیق
کے مواقع نہ صرف دستیاب ہیں بلکہ تحقیق کے نتائج اور روشنی میں منصوبہ بندی
کے خدو خال واضح کیے جاتے ہیں۔ جہاں اقدار اور معاشرتی انصاف اپنی بلند
ترین سطح پر ہوتے ہیں۔جن معاشروں میں تحقیق اور منصوبہ بندی ناپید ہیں،
وہاں معاشرتی ترقی گرہن زدہ ہے اور ریاست کے امور ابتری کا شکار ہو جاتے
ہیں اور ترقی کا خواب شرمندہ ِ تعبیر نہیں ہوتا۔ہم جس معاشرہ کا حصہ ہیں،
یہاں تحقیق تو کجا مطالعہ کا جذبہ بھی ماند ہوتا جا رہاہے۔ تحقیق ہم سے
کوسوں دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی لکیر کے فقیر ہیں۔آج بھی رٹا سسٹم
ہے ٗ نمبروں کی دوڑ نے سب کچھ ختم کر دیا۔ قدرتی وسائل سے مالا مال وطن سے
ہم استعفاد ہ نہیں کر سکتے ٗ نئی چیزوں کی دریافت بہت کم ہیں۔ہماری تاریخ
بے توقع تجربات سے بھری پڑی ہے۔ فکر اور عمل انفرادیت کی بھینٹ چڑھے ہیں۔
ریاستی امور کی انجام دہی ہو یا معاشرے کو بلند ترین مقام کی طرف لے جانے
کی کاوشیں سب ناتمام ہیں۔پاکستان انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف یو نیورسٹیز کے
ورلڈ وائڈ ڈیٹا بیس برائے ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹس کے اعدادوشمار کے
تجزیہ کے مطابق ”دُنیا بھر میں جامعات کی 20 ویں بڑی تعداد کا حامل ملک
ہے“اور اقوام متحدہ کے مطابق ”دُنیا میں آبادی کے حوالے سے چھٹا بڑا ملک
ہے“۔اس کے باوجود 2017 ء میں وطن عزیز کے محققین کی 16897 تحقیقی دستاویزات
(Research Documents)شائع ہوئیں جو دُنیا میں شائع ہونے والی ریسرچ
ڈاکومینٹس کا (0.48) فیصد اور جنوبی ایشیاء کی دستا ویز کا 9.77 فیصد
ہیں۔اسپین کی نیشنل ریسرچ کونسل جسے (Consejo Superior de Investigaciones
Científicas) کہا جاتا ہے۔ اس کے SCImagoنامی ریسرچ گروپ جو کہ دُنیا بھر
کے سائنسی انڈیکیٹرز کی مدد سے تحقیقی اداروں، ریسرچ جرنلز اور تحقیقی
دستاویز کی اشاعت کے حوالے سے ممالک کی رینکنگ مرتب کرتا ہے، یہ اعدادوشمار
ہماری ریسرچ آؤٹ پُٹ کی واضح عکاسی کرتے ہیں جس کے مطابق تحقیقی دستاویزات
کی اشاعت کے حوالے سے اس گروپ کی ممالک کی مرتب کردہ درجہ بندی میں پاکستان
39 ویں نمبر پر ہے۔اگر اقوام ِ عالم کی درجہ بندی دیکھیں تو کچھ یوں ہے:
معیاری تعلیمی اداروں کے حوالہ سے جنوبی ایشیاء فیصد 0.9ٗ عالمی
0.02کوSCImago(2018) کی عالمی درجہ بندی (جنوبی ایشیاء کی صورتحال)بھارت
تحقیقی ادارے271ٗ جنوبی ایشیاء 82.9فیصد ٗ عالمی فیصد 4.81ٗ پاکستان تحقیقی
ادارے35ٗ جنوبی ایشیاء 10.7%ٗ عالمی 0.62فیصد ٗ بنگلہ دیش تحقیقی ادارے 13ٗ
جنوبی ایشیاء فیصد 4.0%ٗ عالمی 0.23فیصد ٗ سری لنکا تحقیقی ادارے 06 ٗ
جنوبی ایشیا ء فیصد 1.8%ٗ عالمی فیصد 0.11ٗ نیپال تحقیقی ادارے 02ٗ جنوبی
ایشیاء فیصد 0.6%ٗ عالمی فیصد 0.04ٗ جنوبی ایشیاء میں کُل تحقیقی اداروں کی
تعداد 327ٗ جنوبی ایشیاء فیصد 100%ٗ عالمی فیصد 5.80ہے۔ ملک ٗتحقیقی جرنلز
کی تعداد ٗ جنوبی ایشیاء فیصد ٗ عالمی فیصد: 1بھارت 525ٗ 79.4%ٗ عالمی فیصد
1.54ٗ 2پاکِستان تحقیقی جرنلز کی تعداد 103ٗ جنوبی ایشیاء فیصد 15.6فیصد ٗ
عالمی فیصد 0.30ٗ پھر بنگلہ دیش تحقیقی جرنلز 18ٗ جنوبی ایشیاء فیصد 2.7%ٗ
0.05فیصد ٗسری لنکا تحقیقی جرنلز 06ٗ جنوبی ایشیاء فیصد 0.9ٗ عالمی 0.02ٗ
نیپال تحیقی جرنلز06ٗ جنوبی ایشیاء فیصد 0.9ٗ عالمی 0.02ٗ افغانستان تحقیقی
جرنلز3ٗ جنوبی ایشیاء فیصد 0.5ٗ عالمی 0.01فیصد ہے۔ کُل جنوبی ایشیاء میں
تحقیقی جرنلز کی تعداد 661ٗ عالمی 1.93فیصد ہے۔
اگر معیاری تحقیقی جرنلز کے تناسب کو دیکھا جائے تو یوں ہے (SCImagoکی
عالمی درجہ بندی 2018میں جنوبی ایشیاء کی صورتحال) کو دیکھا جائے تووطن
عزیز کے اداروں میں اسی طرح تحقیقی کارکردگی، اختراعات اور معاشرے پر ان کے
اثرات پر مبنی پیمانے کی روشنی میں تعلیم اور تحقیق سے منسلک دُنیا کے 5637
انسٹی ٹیوٹ عالمی درجہ بندی میں پاکستان اِس وقت 35 انسٹی ٹیوٹس کی تعداد
کے ساتھ 29 ویں نمبر پر ہے۔ اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان کے 103 ریسرچ
جرنلز شامل ہیں۔ یوں اس تعداد کے ساتھ تو وطنِ عزیز دُنیا بھر میں 33 ویں
نمبر پر ہے۔ لیکن دُنیا کے صفر عشاریہ30 (0.30) اور جنوبی ایشیاء کی 15.6
فیصد تعداد پر مبنی پاکستانی ریسرچ جرنلز میں سے ”پلانٹ پیتھالوجی جرنل“
7616 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی دُنیا کے پہلے ساڑھے سات ہزار اعلیٰ تحقیقی
جرنلز میں ہمارا کوئی جرنل شامل ہی نہیں۔ اس کے بعد 11281 ویں نمبر پر
”پاکستان جرنل آف اسٹیٹسٹکس اینڈ آپریشن ریسرچ“ ہے۔ تیسرے نمبر پر ”پاکستان
جرنل آف میڈیکل سائینسز“ ہے جو عالمی درجہ بندی میں 11494 ویں نمبر پر ہے۔
جبکہ اس رینکنگ میں شامل ملک کا آخری جرنل ”پاکستان جرنل آف سائی پیتھا
لوجی“ 33586 ویں نمبر پر ہے۔پھر ہماری کوئی بھی یونیورسٹی عالمی
یونیورسٹیوں میں شامل نہیں۔
SCImagoکی ویب سائیٹ کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 1996 سے2017 تک
پاکستان کی شائع شدہ تحقیقی دستاویزات کی تعداد میں 1773 فیصد اضافہ ہوا۔
یہ 902 سے بڑھ کر16897 ہو چکی ہیں۔یہ اضافہ ایچ ای سی کے قیام کے
بعدہوا۔کیونکہ 1996 تا2002 کے دوران (2002 کو ملک کے اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے
کام کرنا شروع کیا) یہ اضافہ 69.6 فیصد رہا اور2002-2017 کے دوران 1004
فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح 1999 میں ملک کے10 ریسرچ جرنلز عالمی درجہ بندی
میں شامل کئے گئے تھے، اب ان کی تعداد بڑھ کر103 ہوچکی ہے۔ یوں اس عرصہ کے
دوران 930 فیصداضافہ ریکارڈ ہوا جس میں ایچ ای سی کے بننے کے بعد نمایاں
اضافہ ہوا۔ اسی طرح 2009 سے2018 تک انسٹی ٹیوٹس کی عالمی رینکنگ میں شامل
ہونے والے پاکستانی اداروں کی تعداد 11 سے بڑھ کر 35 ہو چکی ہے جو 218 فیصد
اضافہ کو ظاہر کرتی ہے۔
یونیسکو کے مطابق اس وقت دُنیا بھر میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے شعبہ پر1.7
ٹریلین ڈالر سالانہ خرچ کئے جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے یہاں اس شعبہ پر ورلڈ
بینک کے مطابق جی ڈی پی کا صفر عشاریہ 24 (0.24) فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ اس
تناسب کے ساتھ پاکستان دُنیا کے96 ممالک میں 79 ویں نمبر پر ہے۔ اقوام
متحدہ کی اسپشلائزڈ ایجنسی ورلڈ انٹولیکچوول پراپرٹی آرگنائزیشن کی ورلڈ
انٹولیکچوول پراپرٹی انڈیکیٹرز 2018 نامی رپورٹ کے مطابق2017 میں پاکستان
میں رہنے والے پاکستانی شہریت کے حامل ہم وطنوں نے Patent کے حصول کے لئے
193درخواستیں دیں جبکہ مذکورہ سال صرف 10 افراد کو سند ِ حقِ ایجاد یا سندِ
حقِ اختراع جاری ہوئیں۔ اور اگر ہم 1883 سے قائم دُنیا کے قدیم ترین U.S.
PATENT AND TRADEMARK OFFICE کے اعدادوشمارکو دیکھیں تو 2015 میں مذکورہ
آفس کو UTILITY PATENT(جسے سند ِ حقِ ایجاد بھی کہا جاتا ہے) کے لئے
پاکستانیوں کی 37 درخواستیں موصول ہوئیں۔ یہ تعداد دُنیا بھر کے ممالک میں
60 ویں نمبر پر تھی جن میں سے 16 کو یہ حق تفویض کیا گیا۔ یوں یہ تعداد بھی
دُنیا کی 60 ویں درجہ پر تھی۔تحقیق نیا علم، نئی مصنوعات اور نئے طریقہ کار
پیدا کرتی ہے اور تحقیقی اشاعتیں علم میں شراکت کی عکاس ہوتی ہیں جبکہ
PATENT کا حصول تحقیق کے نتیجہ میں ہونے والی ایجاد یا اختراع کی انفرادیت
کا مظہر ہے۔
ہم تیزی سے ترقی کرتی دُنیا میں اپنے لئے معزز اور با وقار مقام کے خواہاں
ہیں تو ہمیں اپنے ہاں تحقیق کے لئے موزوں ماحول کی آبیاری کرنا ہوگی اور
اپنی تحقیق کے معیاراور مقدارکو تخلیقی نقطہ نظر سے مضبوط کرنا ہوگا۔ہمیں
تحقیق کو صرف سند اور محکمانہ ترقی کے حصول کا ذریعہ نہیں بنانا۔بلکہ
ابتدائی تعلیم سے ہی نسل ِ نو کو تحقیق ٗ تخلیق ٗ ریسرچ کی طرف راغب کرنا
چاہیے۔جیسے ہمارا میڈیا کردار ادا کر رہا کئی اخبارات نے بچوں کی نظمیں ٗ
کہانیاں ٗ تخلیق کا کام شروع کر رکھا ہے جس سے بچے شوق سے نئی نئی کہانیاں
ٗ خود سے تحریر لکھنے کی سعی کرتے ہیں جو ایک بڑی کامیابی ہے۔ تحقیق ہی
قومی ترقی کی ضمانت ہے۔
|