کنزا خالق (ماہر نفسیات)
فقط باتیں اندھیروں کی‘ فقط قصے اُجالوں کے
چراغِ آرزو لے کر‘ نہ تم نکلے‘ نہ ہم نکلے
یہ محض شعر نہیں‘بلکہ روداد ہے میری‘ آپ کی‘ ہم میں سے بہت سے لوگوں کی جو
تبدیلی چاہتے ہیں۔ وہ تبدیلی جو مقصدیت کی کھوج میں بھٹکتے انفرادی جسموں
کو اجتماعیت کاپیرہن دیتی ہے۔اک ایسا پیرہن جو اہل نظر‘ اہل ذوق اور اہل
شوق سب کی تسکین کا باعث بنے۔ میں ایک سائیکالوجسٹ ہوں۔ لیکن میرا تعارف
مجھ سے زیادہ دوسرے لوگ بہتر کرواسکتے ہیں اور میرے لئے اس سے بڑا المیہ
کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ آج تک ہم سائیکالوجسٹ خود کو دوسروں کی آنکھ سے
دیکھتے‘ دوسروں کی زبان سے جانتے اور دوسروں کی ذہنوں سے سمجھتے آئے
ہیں۔حالاں کہ ہم تو وہ ہیں جو دوسروں کو شعور‘ ہمت ‘ حوصلہ اور شناخت دیتے
ہیں‘ لیکن بدلے میں ہماری شناخت مشکوک بنادی جاتی ہے۔ یہ سب تمہید باندھنے
کا مقصد کوئی گلہ یا خود ترسی نہیں ہے۔ یہ محض خودکلامی ہے۔ یہ جانچنے کے
لئے کہ کیا ہم سچ میں اتنے ارزاں ہیں جتنا ہم نے خود کو سمجھ لیا ہے؟ اور
اس کا ایک ہی جواب ہے:’’ یقینا نہیں‘بالکل نہیں!‘‘
یاد رکھئے جو یقین کی راہ پہ چل پڑے…… انہیں منزلوں نے پناہ دی…… جنہیں
وسوسوں نے ڈرا دیا…… وہ قدم قدم پہ بہک گئے۔ اور ہمارے قدم بہکے ہوئے کیوں
ہیں اس کا جواب بھی واضح ہے۔ اس کا ذمہ دار ہے ہمارا وسوسوں سے لبریز دل
ہے: مستقبل کو لے کر وسوسے‘ ہماری فیلڈ کا سکوپ کیا ہے؟؟ نوکری کے چانسز
کیا ہیں؟؟ میرا ماننا یہ ہے کہ ہماری فیلڈ نوکری کی حدود سے کہیں بڑھ کر
ہے۔ہمارے پاس حساس دل ہے۔ جو دوسروں کا درد سمجھتا ہے‘ انہیں دور کرنے کی
صلاحیت رکھتا ہے۔( اس حساس دل کا ہر دور میں بہت سکوپ رہا ہے) ہمارے پاس
حوصلوں کی وہ مشعل ہے جس سے ہم مایوسیوں میں گھرے لوگوں کی زندگی میں چراغ
جلاتے ہیں۔ وہی چراغ جو ایک دن سورج میں ڈھلتے ہیں اور اس سورج سے زندگیاں
روشن ہوتی ہیں۔
میرے بدن سے شعاعوں کے جال پھیلیں گے
کہ آج سوچ کا سورج نگل رہا ہوں میں
اس شعر کے مصداق فرید احمد(بانی وڈائریکٹر ینگ سائیکالوجسٹ ایسوسی ایشن)
اوران کے ساتھی ایک نئے سویرے کے پیامبر…… سوچ کے سورج کا منبع بنے۔ جس
سورج سے( ان شاء اﷲ) ہمارے آنے والا وقت روشن ہونے والا ہے۔یہ تو طے ہے کہ
مایوسیوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں جب کوئی ایک انسان بھی چراغِ آرزو لے کر
نکلتا ہے تو ہوائیں متحرک ہوتی ہیں‘ اس کا حوصلہ آزمانے کے لئے۔ یہی ہواؤں
کے رخ میں تبدیلی ان لوگوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کرتی ہے جو انفرادی طور
پر اپنی ذات کی بقا کے لئے برسرِ پیکار ہوتے ہیں۔
گزشتہ دنوں بیس جولائی کو پورے پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں سے چار سو
سے زائد نفسیات کے طلبہ چراغِ آرزو کے باعث ہواؤں کی تبدیلی کا رخ بھانپ کر
لاہور کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ لاہور کے ایک نجی ہال کی خوبصورت عمارت میں
اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے وقت سے پہلے داخل ہونے پر ایک خوش کن احساس
ہو۔تقریب میں پہنچنے سے پہلے جو پختہ عمر کے لوگوں کو میزبان کے روپ میں
دیکھنے کی توقع تھی۔ اپنی ہی طرح طالب علموں یہاں تک کہ ڈائریکٹر کو بھی
انتظامی امور کے لئے بھاگتے دوڑتے‘ متحرک دیکھ کر یک گونہ خوشی ہوئی۔
میزبانوں کی جانب سے جستجو کے سفر کے آغاز کی روداد سے لے کر مستقبل کی
حکمت عملی پیش کرنے تک’’ہم‘‘کا صیغہ استعمال کیا گیا۔
پوری تقریب کا کریڈٹ ایک شخصیت کے بجائے بیس لوگوں کے گروپ میں تقسیم کیا
گیا۔ مختلف سماجی و فلاحی تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداران کی موجودگی نے محفل
کا حسن بڑھایا۔ شخصیت اپنی ذات میں عزم‘ ہمت‘جہد مسلسل کی خوبیوں کا پیکر
تھی۔ معزز مہمانان میں اخوت فاؤنڈیشن پاکستان کے نمائندہ ڈاکٹر اظہار
ہاشمی‘ سول سوسائٹی پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر اکمل اویسی‘ قاسم علی شاہ
فاؤنڈیشن کی جانب سے ڈاکٹر صوفیہ‘گلوبل سائیکالوجی کے سی ای او جناب ڈاکٹر
ظفر ‘الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جرنل جناب مشتاق منگت شامل
تھے۔ساہیوال یونیورسٹی کے وائس چانسلر‘ ڈین اور لاہور کی مختلف یونیورسٹیوں
کے ڈین بھی اس موقع پر موجود تھے.. ان سب کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ سو کلینکل
سائیکالوجسٹس کی موجودگی اور ان کے تجربات کی روداد نے حوصلوں کو مزید
اُڑان دی۔
معزز مہمانان کے ساتھ پینل ڈسکشن کی مدد سے طالبعلموں کے ذہن کی گتھیاں
سلجھانے کی کوشش کی گئی۔پینل کی جانب سے ان کے شکوک و شبہات اور سوالات کے
تسلی بخش جوابات دیے گئے۔ تقریب میں حسب ضرورت موسیقی اور مزاح کا تڑکا
لگایا گیا جس نے محفل کا حسن دوبالا کر دیا۔ چند ایک انتظامی کوتاہیوں کے
باوجود یہ ایک بھرپور تقریب تھی جس کا مقصد چند سطحی غلطیوں سے بہت بڑا
تھا۔ ینگ سائیکالوجسٹس ایسوسی ایشن جس تیزی سے ارتقاء کی منازل طے کررہی ہے
امید واثق ہے کہ آنے والے کچھ عرصے میں ماہرینِ نفسیات کی سب سے بڑی
نمائندہ جماعت کے روپ میں اُبھرے گی۔ قانونِ قدرت ہے کہ پانی جیسی بظاہر بے
ضرر چیز کے تیز بہاؤ کو پتھر راستہ نہ دے تو یہی پانی کی تیز دھار اس پتھر
کا سینہ چیرنے اور اپنی راہ متعین کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ تسلسل
سے قطرہ قطرہ ٹپک کر بھی پتھر کے سینے پر اپنے عزم کا نشان چھوڑجاتی ہے۔
بالکل اسی طرح اپنے تشخص‘ اپنی بقا‘ اپنی پہچان کے لئے سرگرمِ عمل’’ہم‘‘
یعنی ’’سائیکالوجسٹس‘‘ بھی ان مرحلوں سے گزریں گے.. اور بالآخرآ ہنی رویوں
کے دیواریں زمیں بوس ہوں گی‘ لیکن اس کے لئے شرط ہے مستقل مزاجی۔
قافلے ریت ہوئے دشت جنوں میں کتنے
پھر بھی ہم آوارہ مزاجوں کا سفر جاری ہے
اور دشت جنوں میں نام کمانے کو سفرتو جاری رکھنا پڑتا ہے۔
میری دعا ہے کہ’’ینگ سائیکالوجسٹس ایسوسی ایشن‘‘کا یہ قافلہ جس جوش سے نکلا
ہے اسی جوش سے رواں دواں رہے اور منزل تک رسائی حاصل کرے کیونکہ
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
|