یکم اگست 2019ءکو سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف
جب اپوزیشن کے 64سینٹ ارکان نے تحریک عدمِ ِاعتماد پیش کی اور خفیہ ووٹنگ
میں اُنکے خلاف صرف50ووٹ آئے تو صادق سنجرانی صاحب تو بچ گئے لیکن اپوزیشن
نے بچ سکی اور پُر اُمید ہو نے کے باوجود اپنے14ارکان کے ہاتھوں شکست کھا
گئی۔
دِلچسپ یہ تھا کہ وہ 14ارکان کون تھے؟ کیونکہ چند گھنٹوں کے بعدجب اپوزیشن
دوبارہ اکٹھی ہوئی تو ارکان پھر64ہی تھے۔ دودِن پہلے تک پی پی پی اور ،مسلم
لیگ(ن)اور اپوزیشن کے دیگر حواری ایک دوسرے کے اعزاز میں کھانے دے کر
اراکین کو اکٹھا رکھنے کی کوشش کر رہے تھے تب ضمیر کی بات نہیں ہو رہی تھی
جسکا زیادہ تجربہ مسلم لیگ(ن) کے پاس ہے۔ جونہی بازی پلٹی ضمیر کا شور مچ
گیا جس میں پیش پیش الیکٹرونک میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر وہ
صحافی بھی تھے جنکو ماضی میں ضمیر کے متعلق تمام حقیقی معلومات ہیں ۔ حصے
دار کون تھا اور کس کا ضمیر ؟اوہ!
دُکھ تو پاکستان قوم کی ایک بڑی جماعت پی پی پی کے ووٹر کو تھا کہ30سال
پہلے جن سیاست دانوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف مہم چلائی اور تحریک
عدم اعتماد بھی پیش کی اُنکی جماعت 30سال بعد کن کے ساتھ کھڑی تھی؟ جبکہ
مارچ 2018ءمیںپی پی پی نے ہی صادق سنجرانی صاحب کو چیئر مین سینٹ منتخب
کروایا تھا۔
کہانی30سال پہلے کی:
میاں نواز شریف 1988ءکے صوبائی انتخابات میں کامیاب ہو نے کے بعد وزیر ِاعلیٰ
پنجاب بن گئے اور پہلے ہی دِن سے وفاق میں وزیر ِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو
کی حکومت ناکام کرنے کی کوششوں میں لگ گئے۔ چھانگا مانگا سے لیکر اُنکا جاگ
پنجابی جاگ کا نعرہ پنجاب بھر میں صوبائی پرستی کا باعث بن گیا۔
اس سلسلے میں صوبہ پنجاب کو پولیس اسٹیٹ بنا دیا اور پہلے اُنھوں نے
پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی لیڈر سلمان تاثیر کو گرفتار
کیا ۔ عدالت کے اس حکم پر کہ پنجاب حکومت سلمان تاثیر کو فوراً رہا کر دے
رات گئے جا کر رہا کیا اور گرفتاری کے دوران ان پر شدید نوعیت کا تشدد بھی
کیا۔ اس کے بعد 19 ِ ستمبر 1989ءکو جب ایف۔ آئی۔ اے کے چار افسران نے لاہور
میں رات کے وقت پیپسی کولا کی فیکٹری سے ٹرک نکلتے ہوئے پکڑنے کیلئے چھاپہ
مارا تو اس مثبت کارروائی پر بھی میاں نواز شریف نے پنجاب کی پولیس کی مدد
سے ان چاروں کو گرفتار کر لیا اور اس عمل کو وفاق کی صوبے میں مداخلت سے
منسلک کر دیا۔7 ِ اکتوبر کو ان افسران کو رہا کر دیا گیا لیکن اس دوران چار
وفاقی افسران کو جو صوبہ پنجاب میں اپنی ذمہ داریاں نبھا ر ہے تھے اور
پنجاب حکومت کا ساتھ دے رہے تھے فور اً مرکز بلا لیا۔
اگلا قدم تھا پنجاب بینک کا قیام اور میاں نواز شریف نے کہا کہ جلد ہی
پنجاب حکومت اپنا ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم کرے گی۔ یہ تمام حالات بے نظیر
حکومت کیلئے برداشت سے باہر ہو گئے تو بے نظیر نے ان کا فور اً کوئی حل
نکالنا چاہا لیکن اس دوران صوبہ بلوچستان کی حکومت اور کراچی میں ایم۔ کیو۔
ایم کے بھی مرکزی حکومت سے اختلافات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے متحدہ حزبِ
اختلاف جس کی پشت پناہی میاں نواز شریف اور زاہد سرفراز کر رہے تھے بے نظیر
کے خلاف تحریک ِعدمِ اعتماد کا باضابطہ نوٹس قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں پیش
کر دیا۔ اسی روز ایم۔ کیو۔ ایم نے بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے کیا گیا
معاہدہ ختم کر تے ہوئے قومی اسمبلی میں بے نظیر کے خلاف تحریکِ عدِمِ
اعتماد میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا۔
تحریکِ عدمِ اعتماد پر ووٹنگ کی تاریخ یکم نومبر 1989ءمقرر کی گئی اس دوران
جوڑ توڑ یعنی ہار س ٹریڈنگ کی خاطر حزب ِاختلاف نے اپنے اراکین کو ”ملکہ
کوہسار“ مری میں یکم نومبر تک رکھا اور ان کے اس رویے کی پیرو ی کرتے ہوئے
پاکستان پیپلز پارٹی نے ا راکین کو پہلے پشاور اور پھر سوات رکھا۔ یکم
نومبر 1989ءکو جب تحریک ِعدمِ اعتماد پر ووٹنگ ہوئی تو حزبِ اختلاف کی طرف
سے 107 ووٹ ڈالے گئے، جس کی وجہ سے تحریک ناکام ہو گئی اور بے نظیر وزیر
اعظم کے عہدے پر قائم رہیں۔ وزیر ِاعظم بے نظیر بھٹو نے ا س روز تقریر میں
کہا کہ اُنھیں اس تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کرنے والوں سے کوئی کینہ نہیں
کیونکہ یہ ایک جمہوری عمل تھا، لہٰذا مستقبل میں ان کی ایک دفعہ پھر کوشش
ہو گی کہ جمہوریت کے فروغ کے خواہاں تمام محبِ وطن عناصر سے مذاکرت کریں۔
و قت گزرتا رہا اور سلسلہ مخالفت تھم نہ سکا جسکے نتیجہ میں تقریباً 9 بعد
ایک دفعہ پھر وزیر ِاعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک ِعدمِ اعتماد لانے کا
اعلان جیسے واقعات و بیانات صدر ِپاکستان غلام اسحاق خان کیلئے یہ نتیجہ
حاصل کر نے کا باعث بنے کہ بے نظیر حکومت ہر سطح پر ناکام ہو گئی ہے اور
سوائے اپنے اور اپنی جماعت کے اراکین کے کسی اور قسم کا مسئلہ حل کرنے کے
قابل نہیں۔ لہٰذا اُنھوں نے 6 ِ اگست 1990ء کو آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل
کردہ ا ختیارات استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی توڑ کر بے نظیر کی و زارت کو
بر طرف کر دیا ۔ یہ تھی سچی کہانی پی پی پی کی موجودہ قیادت کو یاد کروانے
کیلئے جس میں مڈنائٹ جیکل کی اصطلاح تاریخی طور پر پاکستان کی تاریخ میں پی
پی پی کیلئے ناقابل ِفراموش رہے گی اور پاکستان قوم کیلئے الگ۔
کاش ! اُس وقت کے صحافی آج بھی حق سچ پر کھڑے ہو جائیں آج کے ضمیر بیچنے
والوں سے زیادہ ماضی کے ضمیر فراموشوں پر تنقید کریں تو پاکستان کی قوم اور
ووٹر کو مستقبل کی بہترین راہیں مل سکتی ہیں نہیں تو سلسلہ پھر ایسے ہی ہو
گا:
"آگے کھیلتے ہیں دیکھتے ہیں اور ملتے ہیں "۔
|