میرا رب وارث

میں ایک پکے مکان میں کچے دلوں کی دہلیز پر پیدا ہونے والی لڑکی اور اس مقام میں میرے لبوں کی سرسراہٹ بھی ہنگامہ آرائی میں تبدیل ہو جائے۔جس قدر میرے علاقے کی خوبصورت اور حسین وادیاں تھی اس کے برعکس ہمارے لوگوں کے دلوں میں وحشیانہ پن پایا جاتا۔۔جہاں تک میرا خیال ہے ہندو اور پاکستان علیدگی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ دونوں کی رسم و رواج مذہب سب الگ تھا۔۔لیکن آج بھی پاکستان کی آزادی کے باوجود یہاں لوگ ہندوانہ رسموں کو اپنائے ہوئے ہیں۔۔اس کے بارے میں، میں آپ کو آگے بہترین طریقے سے آگاہ کروں گی کہ کیسے ہم ہندوانہ رسموں کو اب تک اپنے گلے میں باندھے ہوئے ہیں۔۔میں اپنے علاقے کی بات کروں تو یہاں کے لوگ اپنی رسم و رواج کے اتنے پابند ہیں کہ مرنے مرانے پر اتر آتے ہیں۔۔کلر کہار کی میں رہائش ہوں۔۔ہماری وادی کو دیکھنے ہزاروں لوگ ہمارے علاقے میں آتے ہیں۔۔ہمارے علاقے کے لوگوں کے دل جتنے بڑے ہیں سوچ اتنی ہی چھوٹی ہے۔۔ہمارے ہاں رواجات کی سولی پر لٹکی یہ کہانی ہے۔۔جہاں ذات پات کو اس قدر اہمیت ہے کہ لوگ یہاں اپنی ذات کو اپنی اپنی عزت انا اور فخر کا درجہ دیتے ہیں۔۔مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہم آج بھی ان رسموں کو اپنائے ہوئے ہیں جو صدیوں پہلے اسلام کی تحت مٹی میں دفنا دی گئی تھیں۔۔میں پنجابی خاندان سے تعلق رکھنے والی وہ لڑکی ہوں جو اپنے اندر ہزاروں خواہشات کا گلا گھونٹے رہتی ہے۔ا۔کہانی کا آغاز میں اپنے خاندان سے کرتی ہوں۔۔ہمارے خاندان کی رسم رواج کے حساب سے لڑکیاں صرف اپنے خاندان میں بیاہی جاتی ہیں۔۔مجھے یہ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے خاندان میں موجودہ لڑکیوں کی خاندان کےلڑکوں سے شادی کی جاتی اس کے برعکس اگر کسی کی عمر کا لڑکا موجود نہ ہوتا تو اس لڑکی کی کبھی شادی ہی نہ ہوتی۔۔اور میں نے تقریبا اپنے ہوش میں اپنے خاندان کی دو لڑکیوں اس رسم کی بھینٹ چڑھتے دیکھا ہے۔۔جس میں میری ایک پھپھو اور کزن تھی۔۔خاندان میں ان کی عمر کا کوئی لڑکا نہ ہونے کی وجہ سے ان کی شادی نہیں ہوئی تھی میری پھوپھو کی عمر تقریبا پنتالیس سال ہے جبکہ کزن کی عمر 35 تک ہے۔میری کزن جو 35 سال کی ہے دراصل اس کی عمر کا کزن بھی تھا۔مگر جب وہ کام کے سلسلے سے باہر چلا گیا تو اس کے بعدانہوں نے دس سال تک اس کا انتظار کیا اور جب خبر آئی تو پتہ چلا کہ وہ باہر شادی کر چکا ہے اور وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔اس وجہ سے ان کی شادی نہ ہو سکی۔میں نے اپنے اس آرٹیکل کو پوسٹ کیا اور اس کے بعد میں اپنے کمرے سے باہر نکلی۔۔۔
میری کہانی کا آغاز کچھ اس طرح سے ہوتا ہے میرے گھر میں بھی میری ایک بہن ہے جس کی عمر کا کوئی لڑکاخاندان میں موجود نہیں۔۔میں اپنی بہن سے چھوٹی ہوں اس لیے میری عمرکے دو لڑکے ہونے کی وجہ سے میرا رشتہ ایک سے ہو چکا ہے۔اور میری بہن مجھے کہتی تھی کہ میں بہت خوش نصیب ہوں۔مگر میں کہتی ہوں یہ کیسی خوش نصیبی ہے جس میں آپ اپنی ہزاروں خواہشات کا گلا گھونٹ کے اَنچاہےشخص کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہیں اور ساری زندگی بھر کسی بے زبان جانور کی طرح خاموشی اختیار کرنے کا حکم دے کر رخصت کر دی جاتی ہیں۔اور ہم لڑکیاں کسی ایک معجزے کی تلاش میں ساری زندگی کاٹ دیتی ہیں کہ کوئی تو آئے اور ان رسومات کا خاتمہ کرے۔۔
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے خاندان میں تعلیم نہیں ہے اس وجہ سے یہ رسومات پروان چڑھی ہوئی ہیں۔۔بلکہ ہمارے خاندان میں جو ہما رے بڑے ہیں وہ کسی نہ کسی شعبے سے تعلق رکھے ہوئے ہیں تعلیم یافتہ ہے۔۔ہمارے خاندان میں لڑکیاں وہی تعلیم یافتہ ہیں جو کسی رشتے میں بندھ چکی ہیں۔۔میں اپنے علاقے کے سکول میں ایک ٹیچر کا کام سرانجام دے رہی ہوں۔۔میں روز گھر سے نکلتی ہوں اور چھٹی کے بعد وقت کی پابندی کے ساتھ گھر آ جاتی ہوں۔۔۔ہم تین بہنیں ہیں اور میرے امی ابو اور ہمارا ایک بھائی شان ہے۔۔سب سے بڑا میرا بھائی ہے دوسرے نمبر پر میری بہن مشال اور تیسرے نمبر پر میں علینہ ایک ہماری چھوٹی بہن نائلہ ہے۔۔دکھنے میں ہمارا خاندان بےانتہا خوشحال گرانا لگتا تھا لیکن یہ صرف دیکھنے تک کی بات تھی۔۔اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔۔میری کہانی کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہے کہ میں اپنی روٹین کے مطابق سکول سے چھٹی ہونے کے بعد گھر واپس آ رہی تھی۔کے راستے میں میں نے ایک شخص کو خون سے لت ایک سائیڈ پر پڑے دیکھا۔۔جو مدد کر دو مدد کر دو کہہ رہا تھا۔۔میں اس کو دیکھا کرکے نظر انداز کرتے ہوئےتھوڑا آگے نکل گئی پر میرے نفس نے مجھے آگے جانے سے روک دیا میں دوبارہ واپس آئی اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے آپ کو اور کیا مدد کر سکتی ہوں میں آپ کی۔۔۔اس نےجواب دیتے ہوئے کہا میری گاڑی اس سائیڈ پر کھڑی ہے آپ اس میں سے ابتدائی طبی امداد کا ڈبہ لے کر آجائیں۔۔میرے زخموں پر دوائی اور پٹی وغیرہ لگا دیں۔۔
”علینہ”مجھے بتائیں کہ آپ کی یہ حالت کیسے ہوئی ہے۔آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔اور میں کیسے لگا سکتی ہوں میرے گھر والوں میں سے کسی نے دیکھ لیا تو مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔۔میں تو آگے جا چکی تھی مگر پتہ نہیں کیوں واپس آگئی آپ کی یہ حالت دیکھ کر مجھ سے رہا ہی نہیں گیا۔۔
میرا نام دانیال ہے اور میں یہاں اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے آیا تھا۔۔اور ہمارا دوسری سائیڈ کیمپ لگا ہوا ہے۔۔میں بس یہاں گھومتا گھماتا پہنچ گیا اور چند لٹیرے جنہوں نے مجھے مارا پیٹا اور میرا سامان مجھ سے چھین کر لے گئے ہیں۔آپ کو دیکھ کر اگر رحم آہی گیا ہے تو اتنا کام تو آپ کر سکتی ہیں نہ کہ چوٹ پٹی لگا دیں۔۔انسانیت کی خاطر آپ اتنا نہیں کرسکتی۔۔
“علینہ“ آپ اس قدر خون میں لت پت ہے کہ مجھ سے دیکھا نہیں گیا کہ پتہ نہیں کوئی آئے گا بھی مدد کرے گا بھی یا نہیں کرے گا۔۔اس لئے میں آپ کی مدد کر رہی ہوں۔۔اور پھر میں گئی اور اس کی گاڑی میں سے جا کر ابتدائی طبی امداد کا ڈبہ لے کر آئی اور اس میں سے دوائی نکال کر اس کے زخموں پر دوائی بھی لگائی اور ساتھ میں اس کے سر پر لگی چوٹ پر پٹی بھی کی پھر میں نے کہا اچھا میں نے انسانیت کے ناتے اپنا کام کر دیا ہے اور اب آپ اپنے راستے میں اپنے رستے۔۔
”دانیال”آپ نے جہاں میری اتنی مدد کر دی ہے تھوڑی سی اور کر دے مجھے میرے کیمپ تک چھوڑ آئیں میں اکیلا کیسے جاؤں گا مجھ سے تو سہی سے چلا ہی نہیں جائے گا۔۔
”علینہ“نہیں میں نے آپ کے لئے جتنا کرنا تھا کر دیا ہے مجھے بہت دیر ہو رہی ہے زیادہ دیر ہوگئی تو گھر والے مجھے دوبارہ اسکول جانے کی اجازت ہی نہیں دی۔۔مجھے اب جانا چاہیے۔۔
“دانیال“ اچھا تو اس کا مطلب ہے آپ ٹیچر ہیں۔۔ٹیچر ہوکر آپ اپنے گھر والوں سے اتنا ڈرتی اور وہ بھی اتنی بڑی ہو کر حیرت کی بات ہے۔۔اگر ویسے آپ جانا چاہ رہی ہیں تو چلی جائیں مگر میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے چھوڑ آٸیں آپ میری حالت تو دیکھ رہی ہے کہ صحیح سے چلنے کے قابل تو میں نہیں اگر کوئی سہارا مل جائے گا تو پہنچ جاؤں گا اپنے کیمپ تک۔۔۔
”علینہ”جی میں ٹیچر ہوں اور ہمارے ہاں لڑکیوں کو بولنے اور سننے کا کوئی حق نہیں ہے اس لئے وہ صرف اپنے گھر والوں سے ڈر سکتی ہیں اور کچھ نہیں کر سکتی۔۔لائیے ہاتھ میں آپ کو آپ کے کیمپ چھوڑ کر آتی ہوں۔۔ویسے بھی مجھے روز روز تھوڑی نہ ملتے ہیں خون میں لت پت لوگ۔۔
میں دانیال کو لے کر اس کی کیمپ چھوڑکر آئی تو وہ جہاں اس کے تین دوست موجود تھے جو دانیال کو چیڑانےلگے ہوئے تھے ان لوگوں نے مل کر دانیال کو ایک جگہ پر لیٹا دیا جب کہ میں خدا حافظ کر کے وہاں سے واپس گھر کو نکل آئی۔۔جب میں جھاڑیوں کے راستے تک پہنچی تو مجھے لگا کہ جیسے میرے پیچھے کوئی آرہا ہے مگر جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی تو میرے پیچھے کوئی نہ ہوتا۔۔ بار بار میرا پیچھا کرنے کا احساس میرے دل میں ایک عجیب سی ہلچل ڈالے ہوئے تھے اس لیے میں چلتے چلتے ایک درخت کے پیچھے چھپ گئی اور میرا ملال صحیح نکلا تھا کہ واقعی ہی میرا کوئی پیچھا کر رہا تھا۔۔یہ کوئی اور نہیں دانیال کا ایک دوست تھا۔۔جب اس نے مجھے سامنے نہ پایا تو وہ بھاگتا ہوا میرے درخت تک آچکا تھا۔ اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا کہ آخر یہ لڑکی گٸی تو گئی کہاں۔۔پتوں کی سرسراہٹ کی وجہ سے میرے پیر کا بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے اس کو پتہ چل گیا۔تو وہ لڑکا بولا آپ یہاں چھپ رہی ہو۔ تو میں درخت سے سامنے آئی اور میں نے کہا کہ آپ کیوں میرا پیچھا کر رہے ہیں اور آپ کو تو اس وقت اپنے دوست کے پاس ہونا چاہیے اس کی اتنی حالت خراب ہے۔۔میرے دوست کی فکر آپ کو نہیں کرنی چاہیے۔۔۔مجھے تو اس وقت آپ کی فکر ہو رہی ہے۔۔ایک گھنا جنگل جس میں خوبصورت تنہا لڑکی اور لڑکا اب آپ کو اپنی فکر کرنی چاہیے۔۔میں گھبراتی ہوئی اپنے قدموں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے چلی جارہی تھی ۔۔تمہارا کیا مطلب ہے کیا کہنا چاہ رہے۔۔
”میں جو کہنا چاہ رہا ہوں آپ سمجھ نہیں رہی ہوں اس لئے مجھے سمجھانا پڑے گا۔۔وہ لڑکا اور میرے قریب آتا جا رہا تھا میں گھبرا گئی تھی۔۔اس لئے کچھ سوچے سمجھے میں نے بھاگنا شروع کردیا۔۔۔۔اور وہ بھی میرے پیچھے بھاگ رہا تھا اور چلاتا ہوا کہہ رہا تھا آخر کہاں تک بھاگوں گی میں تمہیں پکڑ لوں گا اور تمہیں مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔اس نے کھینچ کر میرے پیر پر کوئی نوکیلی چیز دے ماری جس کی وجہ سے میں لڑکھڑانے لگ گئی اور مجھ سے اب بھاگا نہیں جا رہا تھا اور وہ قریب آتا جا رہا تھا اور ساتھ میں یہ کہہ رہا تھا اب تمہیں کون بچائے گا مجھ سے ویسے بھی ابھی تو چہرہ دیکھنا باقی ہے آخر کب تک منہ پر نقاب ڈالےرہوگی۔۔
میں نے شور مچانا شروع کر دیا تھا بچاؤ کوئی ہے تو میری مدد کرو اور اتنے میں وہ میرے قریب آ کر میرے منہ سے نقاب ہٹانے والا تھا کہ اس کا ہاتھ آکر کسی نے پکڑ لیا اور جب میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ دانیال تھا۔۔دانیال نے پہلے تو اس کے منہ پر کھینچ کر تھپڑ مارا اور اس کے دوسرے دو دوستوں نے اس لڑکے کو پکڑا اور دانیال نے مجھے دیکھا اور پھر جب میرا پیر زخمی دیکھا تو اپنے پاس موجود رومال سے اس نے میرے پیر کو باندھ دیا مجھے اٹھایا میں ڈر کے مارے کپ کپا رہی تھی اور پھر دانیال نے کہا میں یہاں ہوں۔آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں میں آپ سے معافی چاہتا ہوں آپ گھر جائیں میں دیکھتا ہوں۔۔یہ کہہ کر مجھے دانیال نےگھر بھیج دیا وہ آپس میں لڑ رہے تھے میں آگے تک مڑ کے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔
میرے جانے کے بعد ان دونوں کے درمیان کیا ہوا میں نہیں جانتی لیکن جب میں گھر پہنچی تو میری کیفیت کے بارے میں بیان نہیں کر سکتی میں کانپ رہی تھی اور میرا رنگ سرخ ہو چکا تھا۔جیسے ہی میں گھر کے اندر جانے لگی تو سامنے سے ابو آرہے تھے میں دروازے کے پیچھے چھپی اور اتفاق سے ابو کو فون آگیا تو ابو فون اٹھا کے دوسری جانب جانے لگے۔مجھے یہ خوف تھا کہ کہیں ابو نہ دیکھ لیں اور مجھے اس حالت میں دیکھیں گے تو سوال کریں گے کہ کیا ہوا ہے تو میں کچھ نہیں بتا سکوں گی اس لیے میں چھپتی چھپاتی اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔۔۔ایک کونے میں جا کر بیٹھ گئی میں صدمے میں تھی۔میں نے عبایا اتارا۔میں ڈر گئی تھی کہ اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو میری ماں باپ کسی کو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔۔پھر میں نے سوچا اس سے پہلے کہ گھر والوں میں سے کوئی مجھے آواز لگائیں اس سے پہلے میں منہ دھو کر باہر چلی جاؤں۔۔پہلے تو میں نے اپنے پیر پر بندہ رومال کھولا اور اس رومال کو اپنے پرس میں چھپا کر رکھ دیا اور پھر اس زخم پر پٹی لگا دی۔۔گھر والوں کو پتہ نہ چلے اس لئے بند چپل نکال لی اور پھر منہ دھو رہی تو مجھے بہت رونا آ رہا تھا کیونکہ میری زندگی میں یہ سب سے خوفناک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا تھا۔۔اور یہ میرے ذہن سے کبھی نہیں نکل پائے گا۔پہلے بھی میری زندگی میں کوئی ایسا واقعہ ہو چکا تھا جس کے بارے میں یاد نہیں کرنا چاہتی تھی مگر اس حادثے نے میرے سارے پرانے زخم تازہ کر دیے تھے
۔میں نے خود کو بہت سمجھا بجھا کر چپ کروا دیااور باہر نکلی۔۔۔ابو صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔۔ اور انہوں نے مجھ سے سوال کیا علینہ تم کب آئی ہو ہم تو کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔۔جی ابو میں کافی وقت ہوگیا ہے آئے ہوئے میں کمرے میں ہی تھی۔۔
ابو”اچھا چلو آؤ عالیہ میرے پاس آ کر بیٹھو اور بتاؤ اسکول میں آج کیا ہوا اور کیسا دن رہا۔۔
عالیہ“جی ابو آگئی۔۔میرے دل کے اندر سے آواز آ رہی تھی۔۔ اللہ کچھ ایسا ہو جائے کہ مجھے ابو کے پاس بیٹھا نہ پڑے۔۔۔۔ورنہ ابو کو دیکھتے ہی مجھے رونا آجائے گا۔۔اور میں جیسے ہی ابو کے پاس بیٹھنے لگی مجھے امی نے آواز لگائی عالیہ کچن میں میری کام میں مدد کرواؤ۔۔تو ابو نے کہا چلو جاؤ پہلے اپنی ماں کی مدد کرو پھر میرے پاس آنا تو میں نے دل میں کہا شکر ہے اللہ نے مجھے بچالیا اور پھر میں کچن میں گئی اپنا کام کرتی رہی میں نے کسی سے ڈر کے مارے کچھ نہیں کہا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ مجھے غلط ٹھہرایا جائے گا اور میرے ساتھ پتہ نہیں کیسا برتاؤ کیا جائے اس لیے بہتر یہی تھا۔کہ میں چپ رہوں۔۔
اور جب میں دوسرے دن اسکول کے لئے تیار ہو رہی تھی تو ابو کو میرے سسرال والوں کی طرف سے فون آیا۔۔کہ آج عالیہ کو اسکول سے چھٹی کروا لیں کیونکہ ہم سب آپ کی طرف آ رہے ہیں۔۔اس کے بعد ظاہر ہے کہ میرا اسکول جانا تو ناممکن تھا اس لئے میں نے اپنا سارا سامان دوبارہ جگہ پر رکھا اور اپنے اسکول میں فون کر کے بتا دیا۔۔کہ آج میں نہیں آسکتی۔امی کے ساتھ باورچی خانے میں ان کے کھانے کا انتظام کرنے لگی۔۔۔وہ تو ایسے ہیں کہ ان کا بس نہ چلے صبح 6 بجے آکر ہمارے گھر بیٹھ جائیں۔۔اس لئے فکر سے ہم لوگ اپنا کام مکمل کر رہے تھے۔۔کہ اتنے میں باہر کی بیل بج گئی تو گھر میں شور برپا ہوگیا ابو نے کہا آگۓ مہمان سب لوگ اپنا کام مکمل جلدی سے کرلو اور ابو باہرکادروازہ کھولنےگئے۔۔ اور جس کا انتظار تھا وہی آگئے تھے یعنی میرے ہونے والے رشتہ دار جن کومیں دل سے اپنا نہیں مانتی تھی مگر میرے بس میں کچھ نہیں تھا۔۔میرے سُسر بیٹھے تو انہوں نے کہا کہ ہم لوگ یہاں ناشتہ کرنے نہیں آئے۔۔بلکہ ہم لوگ گھومنے جا رہے تھے تو سوچا کہ عالیہ کو بھی لے چلے۔۔میری ساس بولی اچھا تو اب آپ لوگوں نے ناشتہ بنا ہی لیا ہوگا تو ایسا کریں گے اس کو ڈبوں میں پیک کر دیں تاکہ ہم جب گھومنے کے بعد تھک جائے تو وہ ناشتہ کر لیں گے آپ لوگوں کو یاد کرتے کرتے۔۔اس کے بعد ہم تیار ہوئے اور ابو کی اجازت پر میں ان کے ساتھ گھومنے کے لئے چلی گئی۔۔میرے سسرال والے اتنے امیر کہ میرے ہونےوالےشوہر کو کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔اور یہی وجہ ہے کہ وہ نکموں کی طرح پھرتا رہتا ہے اور اسے کوئی بھی کچھ نہیں کہتا۔۔بہت سے لوگ اسے دماغ سے کمزور بھی کہتے ہیں اور سنا ہے کہ وہ دوائیں بھی کھاتا ہے اور اگر دواٸیں نہ کھائے تو اس کی حالت پاگلوں سے بھی زیادہ بدتر ہو جاتی۔۔تو میں خود کو کیسے خوش نصیبوں کے مان لوں ضروری نہیں کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کو زبردستی کسی پاگل کے ساتھ باندھا جا رہا ہوتا ہے اور اس کے اوپر خوش نصیبی کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔۔میں گاڑی میں بیٹھے ان سوچوں میں گم تھی میری ساس نے کہا پتا نہیں سب کچھ اس کے پاس ہونے کے باوجود یہ لڑکی کس کے خیالوں میں کھوئی ہوئی ہے۔۔تو میں نے جلدی سے جواب دیا نہیں نہیں میں تو بس یہ سوچ رہی میرے آج اسکول نہ جانے سے میری کلاس کو کس نے سنبھالا ہوگا۔۔۔ہاں تمہیں تو میرے بیٹے کے علاوہ ہر خیال آتا ہے۔۔۔تو میرے سسر نے جواب دیا چلو بس بھی کرو اب کتنا بچی کو تنگ کروں گی۔۔لو بھئی ہم پہنچ گئے ہیں۔۔سب گاڑی سے اُترے اور میری ساس نےسارا سامان میرے ہاتھ میں تھما دیا۔۔۔تو میرے سسر نے کہا کہ ابھی تو ہمیں ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے کہا ایسا کرتے ہیں۔جتنا بھی سامان ہےفی الحال کے لیے گاڑی میں رکھ دیتے ہیں جب ضرورت ہوگی تو پھر عالیہ اُٹھا لے گی۔۔تو میری ساس بولی ہاں ظاہر ہے عالیہ کو سامان اٹھانے کے لیے تو لائی ہوں۔۔کام والی نے چھٹی کی تھی تو مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کروں تب پھر میں نےیہ فیصلہ کیا۔۔اچھا ہم سب علیہ جا رہیں ہیں ہمارے جاننے والے یہاں پر کچھ آئیں گے تو تم ایسا کرو کار کے پاس یہاں کہیں بیٹھ جاؤ۔ان کے جانے کے بعد میں بس اِدھر اُدھرٹہلنے لگی۔۔اتنے میں تیز طوفانی بارش شروع ہوگٸی۔۔اور میں مسلسل بارش کے میں بھیگ رہی تھی ۔ کیونکہ نہ تو میرے پاس گاڑی کی چابی تھی اور نہ ہی میری نظر میں کوئی جگہ تھی کہ میں جہاں جاکر بارش سے بچ سکتی۔۔۔یہ طوفانی بارش اور کھلا آسمان میری بے بسی کی گواہی دے رہا تھا۔۔میرے والد جو کہنے کو تو میرے تھے مگر وہ صرف ان لوگوں کو اہمیت دیتے تھے۔۔جو میرے ابو کی نظر میں اچھا بننے کا ناٹک کرتے آ رہے تھے۔۔ہم نے ہر طرح سے ابو کو سمجھانے کی کوشش کی مگر کبھی کبھار ایسا لگتا تھا یا تو وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے یا ان لوگوں نے جھوٹ کی پٹی آنکھوں پر اس قدر باندھ رکھی ہے میرے ابو کے وہ کسی کے بس میں نہیں کہ وہ اُتار سکے۔۔اس طوفانی بارش میں نا جانے کہاں سے کوئی شخص منہ پر نقاب ڈالے ہاتھ میں چھاتا پکڑے ہوئےمیری طرف آرہا تھا ۔۔اور اس نے پہلے میری طرف دیکھا۔اور مجھے کہا آپ عالینہ ہو۔۔۔ اور جب میں نے گردن ہلائی تو۔پھر وہ چھاتا خودکے اُوپر سے ہٹا کر میرے اُوپر دے دیا اور مجھے آگے بڑھنے کا اشارہ دیا۔۔مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ نہیں میرے لیے کسی کو منگوانے بھیجا اس لیے میں ساتھ چل دی۔کچھ وقت چلتے ہم ایک محفوظ مقام پر پہنچ گئے جہاں پہنچنے پر اس شخص نے چھاتا میرے سر سے ہٹا دیا۔جب میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور میری ساس کہاں ہے تو اس نے فورا منہ سے نقاب ہٹایا تو وہ اور کوئی نہیں بلکہ دانیال تھا اور میں نے حیرت زدہ انداز سے کہاکہ آپ یہاں اور آپ نے مجھے کیسے پہچانا۔۔دانیال“ جن کو دل میں بسا لیا جائے ان کی آپ کے اردگرد ہونے والی سرسراہٹ ہی ان کی پہچان ہوتی ہے اور دانیال نے کہا کیا آپ کی شادی ہوگئی ہے۔
کیا فضول بات ہےتو میں نے جواب دیا اور مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی اور نہ ہی مجھے یہاں روکنا ہے۔۔ آپ کے دوست میرے ساتھ جوبد تمیزی کرنے کی کوشش کی تھی میں وہ کبھی زندگی میں نہیں بھلا سکتی۔۔آپ کی مدد کے چکر میں میں نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال لیا تھا۔۔
دانیال“میں نے اس کے لئے معافی مانگی ہے نا آپ سے مجھے بہت شرمندگی ہے مجھے آپ کو آپ کے گھر تک چھوڑنا چاہیے تھا مجھے اپنے دوستوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے تھا میں اس چیز کے لئے شرمندہ ہوں۔۔مجھے آپ معاف کر دیں۔۔
علینہ“میں آپ کو تو اس دن کی معاف کر چکی ہوں۔۔مجھے بس اب جانا ہے میں آپ کو دیکھنا بھی نہیں چاہتی۔۔میری نظر جیسے ہی آپ پر پڑی مجھے اپنا وہ اذیت بھرا دن یاد آگیا۔۔۔
دانیال“ میں مانتا ہوں کہ آپ کے ساتھ بہت برا ہوا تھا لیکن میں اس وقت کو آپ کی زندگی سے نکال تو نہیں سکتا۔۔مگر بھلانے کی کوشش تو کروا سکتا ہوں نا۔۔۔اور رہی بات آپ کے جانے کی تو موسم اتنا خراب ہے نا کہ کوئی حادثہ پیش آسکتا ہے اس لیے آپ کہیں نہیں جائیں گی۔۔
علینہ“ آپ ہوتے کون ہے مجھ پر اپنا حکم چلانے والے اور ایسے مجھے کسی نے دیکھ لیا نا تو مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔۔۔
دانیال“ آپ نے مجھے بتایا نہیں کیا آپ شادی شدہ ہیں۔۔
علینہ“ جو آپ سمجھنا چاہیں ۔آپ کو کیا لگتا ہے۔
دانیال “جہاں تک میرا خیال ہے تو آپ ٹیچنگ کرتی ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ آپ شادی شدہ ہیں مگر پھر بھی میں جاننا چاہتا ہوں کہ میرا اندازہ درست ہے کہ نہیں۔۔
علینہ“ہاں میں شادی شدہ نہیں ہوں۔
دانیال“تو اس کا مطلب میرا اندازہ درست نکلا۔۔ایک منٹ مگر ابھی تو کچھ وقت پہلے آپ کہہ رہی تھی کہ میری ساس کہاں ہیں تو اس بات کا کیا مقصد ہے۔
علینہ“اس کا مطلب کے میرا رشتہ ہو چکا ہے۔
دانیال“شکر ہے۔۔ یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے رشتے بنتے ہیں اور ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔۔
علینہ“یہ کبھی نہیں ٹوٹتے آپ میرے بارے میں جانتے کیا ہیں جو آپ اس طرح سے بات کر رہے ہیں۔۔اگر آپ کو ہماری رسموں کے بارے میں پتہ چل جائے تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔۔
دانیال“ٹوٹ سکتے ہیں اگر لڑکی چاہے تو۔
اور کیا ہے آپ کی رسمیں جو آپ مجھے اتنا ڈرانے لگی ہوئی ہیں۔۔
علینہ“میں کچھ کہتی اتنے میں میرا کزن آ گیا اور جیسے ہی وہ آگے بڑھا اس نے پاگل حرکتوں میں میرا ہاتھ تھاما اور مجھے کہنے لگا چلو چلو میں تمہیں لینے آیا ڈھونڈ رہا تھا کب سے بہت بارش میں بھیگ گیا۔دانیال حیرت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا اور میں نے جلدی سے سائیڈ پر پڑا کپڑا اٹھایا۔اور اپنے کزن سے کہا کہ اس سے تم اپنا سر صاف کر لو اور میں نے دانیال کو بغیر دیکھے کہا کہ یہ میرا ہونے والا شوہر ہے پھر میں نے اپنے کزن کا ہاتھ پکڑا اور وہ پاگل پن کی حرکتیں کرتے ہوئے میرے ساتھ آگے بڑھ گیا اور میں نے کچھ آگے جا کر جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو دانیال مجھے ہی دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا۔۔اور جب ہم سب کے بیچ میں پہنچے تو میری ساس مجھے باتیں سنانے لگ گئی اور مجھے یہ بہت برا لگتا تھا۔ کیونکہ ابھی تو میری ساس نہیں بنی تھی وہ اس طرح سے کرتی تھی اور جب بن جائیں گی تو پتہ نہیں میرا کیا حال کریں گی۔پھر سب کے کہنے کے مطابق ہم لوگ گھر واپس چلے گئے اور دوسرے دن میں تیار ہو کر جب اسکول گئ تو میڈم نے مجھے اپنے آفس میں بولوایا اور جب میں ان کے آفس میں داخل ہوئی تو میڈم نے کہا کہ آج ہم ایک اسکول میں ٹیچر رکھا ہے اور وہ ابھی سٹاف روم میں ہوگا اور آپ کو ہم اُنہیں اسکول کی تمام ذمداریاں سکھانی اور سمجھانی ہوگی۔۔اور میم کی بات سنتے پھر سٹاف روم میں گئی تو جب میں نے کہا اکسکیوزمی آپ ہے نیو ٹیچر تو جب اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ اور کوئی نہیں دانیال تھا اور میں نے
کہادانیال آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔
دانیال“میں بھلا یہاں کیا کرنے آیا ہوں ٹیچرہوں نیو اس اسکول کا آپ کو مجھے سب طور طریقے یہاں کے سمجھانے ہوں گے۔۔
علینہ“ آپ کو ویسے اس طرح سے نہیں کرنا چاہیے تھا۔اس اسکول میں ایسے ٹیچر بن کر نہیں آنا چاہیے تھا۔
دانیال“ ہیلو میڈم کیا لگتا ہے کہ میں آپ کے چکر میں آیا ہوں۔۔تو ایسی بھی بات نہیں ہے کیونکہ ہم لوگ اسی علاقے میں شفٹ ہو گئے ہیں۔۔
علینہ “what ever کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگی چلے آئیے میں آپ کو آپ کا کام سمجھا دو کہ آپ نے کون سا پیریڈ کس وقت لینا ہے اور کس کلاس میں لینا ہوگا۔۔میں آپ کو آج آپ کی ساری ذمہ داریاں سمجھا دوں گی اور دوبارہ مجھے کوئی بھی چیز بتانے کی ضرورت نا پڑے۔۔
آپ کی مہربانی ہوگی کہ ہر بات کو توجہ سے سنیں گا۔۔
دانیال“ جی بالکل آپ ہی کی تو بات سننے کے لیے یہاں پہنچے ہیں۔۔
علینہ“یہ سٹاف روم میں اٹینڈس رجسٹر ہے جہاں آپ روزانہ صبح جس وقت آئینگے اس وقت کی اٹینڈنس اور ٹائم ڈیٹ سب لکھا کریں گے اور اس کے بعد اگر آپ کو کبھی چھٹی کی ضرورت پڑے تو ایک دن پہلے آپ کو ایپلیکیشن دینی ہوگی۔۔چلئے اب میں آپ کو آپ کی کلاس دکھا دیتی ہوں۔۔یہ سامنے کلاس روم ہیں وہ آپ کی کلاس ہے اور آپ کو اپنی ٹائم ٹیبل ،سلیبس سب کو وقت کے ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور یہ رجسٹر جس میں سلیبس کے بارے میں ڈیٹیل اور کتنے دنوں میں کیا پڑھنا ہے سب لکھا ہے آپ وقت کی پابندی کا خیال رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو سرانجام دینا ہوگا۔۔اب میں اپنی کلاس میں جا رہی ہوں۔۔۔
دانیال“جی ٹھیک ہے میں وقت کی پابندی کا بہت خیال رکھوں گا۔۔
اس کام بتانے کے بعد میں اپنی کلاس میں چلی گئی اور بریک کے وقت جب سٹاف روم میں گئے تو میں بھی اسٹاف روم میں چلی گئی اور پھر دانیال نے سب کو اپنا تعارف کروایا۔اس کے بعد میں کینٹین چلی گئی۔۔۔اور تھوڑی ہی دیر میں دانیال بھی کینٹین آگیا اور میرے ٹیبل پر ایک پڑھی ایکسٹرا چیئر کو ہٹا کر وہاں بیٹھ گیا اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا کہ علینہ آپ کو میری کوئی بات بری لگی ہے جو آپ مجھے اس طرح سے نظر انداز کر رہی ہیں۔۔
علینہ“ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے بس کام کے وقت مجھے کام کرنا پسند ہے اور مجھے کسی سے بھی بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔۔
دانیال“ اچھا چلو صحیح تو اب تو کام نہیں کر رہی نہ تو مجھے یہ بتائیں کہ آپ کا رشتہ کسی پاگل لڑکے سے آپ کے گھر والوں نے آخر کیوں کر دیا۔۔۔
علینہ“میں اپنے خیال میں گُم یہ سوچ رہی تھی کہ سچ تو یہی ہے کہ مجھے اچھا لگتا ہے آپ سے بات کرنا دانیال میں اپنے آپ کو روک نہیں پا رہی۔۔میں اپنے خیالوں میں کھوئی دانیال کا سوال سن نا پائی تھی۔
دانیال“اکسکیوزمی آپ کہاں کھو گئی ہیں کن سوچوں میں گم بیٹھی ہیں میں نے آپ سے کچھ سوال کیا ہے۔۔۔
علینہ“کون سا سوال کیسا سوال کیا پوچھا تھا آپ نے سوری میں نے سنا نہیں۔
دانیال”میں نے آپ سے یہ سوال کیا ہے کہ وہ جو پاگل لڑکا تھا آخر کیسے مان گئے آپ کے گھر والے اس سے آپ کا رشتہ کرنے کے لیے آپ تعلیم یافتہ ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ آپ کے گھر والے بھی تعلیم یافتہ ہوں گے تو ایسا کیسے ھوگیا۔۔
علینہ“ چھوڑیے آپ جان کر بھلا کیا کریں گے۔۔۔
یہ میرا نصیب ہے۔اور اس کو کبھی کوئی نہیں بدل سکتا ایک اللہ کے سوا۔۔
دانیال“ تو یہی سمجھے کہ اللہ نے مجھے بھیجا ہے آپ کی مدد کے لئےتو آپ ایک دوست کی حیثیت سے ہی بتا دیجئے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔۔۔
علینہ“آپ کو سن کر شاید بہت ہی زیادہ عجیب لگے مگر یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ۔مجھے افسوس ہےکہ ایک ایسے شخص کے ساتھ مجھے باندھ دیا جاچکا ہے جس کا دماغی توازن بالکل درست نہیں ہے وہ جب تک ٹھیک رہتا ہے جب تک کوئی دوائی کھاتا ہے اور جب کبھی وہ دوائی کھانا بھول جائے تو اس کی حالت کسی پاگل سے کم نہیں ہوتی۔البتہ میرا رشتہ اس سے پہلے دوسرے کزن کے ساتھ جوبالکل صحت یاب تھا۔اور اس سے مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا مگر میری زندگی میں کچھ ایسا واقعہ پیش آیا کہ چند لمحوں میں میری زندگی ہی بدل گئی۔۔ہوا کچھ ایسے تھا کہ ایک کزن کی شادی کے وجہ سے پورا خاندان ایک ہی جگہ پر جمع ہوا تھا۔ہر طرف خوشیاں کا ماحول تھاکہیں ڈھول باجے کا شور تو کہیں مہمانوں کے آنے کا شور ۔شادی کے گھر میں اتنی چہل پہل تھی کہ رونق چاروں اوڑ دکھائی دے رہی تھی۔۔مجھے کہا اندازہ تھاکہ رات کا سورج ڈھلتے ہی میری خوشیاں چکنا چُور ہونے والی ہیں۔جیسے ہی سورج غروب ہوا اور سب اپنے سونےکے لئے جگہ ڈھونڈنے لگے تو ایسے میں میری ایک کزن مناہل میرے پاس آئی اور مجھے کہنے لگی کہ یہاں بھیڑ میں سونے کی بجائے ایک کمرے میں جگہ ہے آجاؤ میں اور تم وہاں سو جاتے ہیں۔تو میں نے اس سے روکا اور کہا رک جاؤ میں پہلے اپنے امی ابو سے اجازت لے آؤ پھر چلتے ہیں۔اور اس نے میری بات کو کاٹتے ہوئے روکا اور کہا آخر ہم سب کا کزن ہے اس میں بھلا اجازت کی کیا بات ہے یہ کہہ کر وہ مجھے اپنے ساتھ کمرے میں لے گئی اور رات کے تقریبا 11:00 بجےہمارے کمرے کا دروازہ بجا اور جب میری آنکھ کھلی اتنے میں کوئی باہر سے ہی م ہمارے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو چکا تھا اور جب اور جب تک میں نیند سے بالکل ہوش میں آئی تو میں نے دیکھا میرے سامنے سارے خاندان کے بڑے لوگ کھڑے ہیں اور میرے برابر میں مناہل کی جگہ پر اس کا پاگل بھائی لیٹا ہوا ہےمیں جلدی سے وہاں سے اٹھ کر کھڑی ہوئی تو اتنے میں دیکھا کے سب بڑے مجھے طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔۔اور میرےامی ابو شرمندگی سے سر جھکائے کھڑے ہیں۔میں سب کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ابو امی کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا بلکہ مجھے تو مناہل یہاں لے کر آٸی تھی۔اور جب مناہل سے پوچھا گیا تو اس نے صاف انکار کر دیا اور میرے پاس کوئی بھی جواب نہ رہا۔ابو غصے میں ہاتھ اٹھانے والے تھے کہ بڑے تایا نے انہیں روکا اور اس کے بعد۔۔اُسی وقت برادری بٹھائی گئی اور جس میں فیصلہ ہوا کہ میرا رشتہ جہاں پہلے سے ہوا ہے اس کزن سے توڑ کر پاگل کزن کے ساتھ طے کر دیا گیا۔ابو نے اس فیصلے کو چپ چاپ قبول کرنے کے بعد ہم سب گھر آگئے۔میری امی نے ابو کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ آپ کو اپنی بیٹی پر یقین ہونا چاہیے کہ وہ غلط نہیں ہوسکتی اپنی تربیت پر یقین ہونا چاہیے مگر آپ دوسروں پر یقین کر رہے ہیں اس کی بات بھی تو آپ کو سننی چاہیےمگر شاید کوئی سننے کو تیار ہی نہ تھا.میں چیختی رہی چلاتی رہی لیکن ان سب میں میری آواز دب گئی اور کسی نے میری بات کا یقین نہ کیا کہ میں غلط نہ تھی۔۔میری بہن کا کہنا ہے تم بہت خوش نصیب ہو۔۔کہ دولت مندگھر میں میری شادی ہوگی تو کیا ہے اگر وہ تھوڑا پاگل ہے دوائی کھا کر ٹھیک ہو تو جاتا ہے نہ۔اور میں اسے ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ اس امیری سے تو وہ غریب شخص ساحل ہی اچھا تھا جو کم ازکم مجھے سمجھ تو سکتا تھااور مجھے آخر میں سننا پڑتا تھا کہ تمہاری ہی غلط حرکتوں کی وجہ سے ہوا ہے اور اب کوئی فائدہ نہیں ہے ان باتوں کا۔۔مگر میں صاحل کو بتانا چاہتی تھی کہ میں غلط نہیں ہوں لیکن یہ کبھی بھی ممکن نہیں تھا.۔
دانیال“یہ تو بڑی افسوسناک بات ہے کہ آپ کی کزن نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا دوسرا وہ شخص جس سے آپکی شادی ہونے والی تھی اس نے آپ پر یقین نہیں کیا۔۔اور سب سے بڑی بات آپ کے ماں باپ کو آپ پہ یقین ہونا چاہیے تھا اور آپ پر یقین کرنے کی بجائے انہوں نے دوسروں کی بات کو اہمیت دی اور آپ کے خواب اور خواہشات کا گلا گھونٹ دیا۔۔مگر ایک بات ہے شاید اللہ نے تب ہی مجھے آپ سے ملوایا ہے میں اگر آپ کا ساتھ دینا چاہو تو کیا آپ میرا ساتھ دیں گی۔۔
علینہ“میرے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہے میں بلا کیا کر سکتی ہوں۔۔چلے اب میں چلتی ہوں بریک بند ہوگئی ہے گھٹی بج چکی ہے اور ہمیں اب اپنی اپنی کلاسوں میں جانا ہوگا اور دوبارہ موقع ملا تو بات ہوگی خدا حافظ کر کے میں وہاں سے اپنی کلاس میں چلی گٸ۔۔
میں جو نا اُمیدی کی زندگی جی رہی تھی مجھے دانیال میں امید کی کرن نظر آنے لگ گئی تھی مگر یہ جتنا دیکھنے میں آسان لگ رہا تھا یہ بہت مشکل کام تھا کہ میرے پاگل کزن کی جگہ پر دانیال میرا ہمسفر بنے۔۔میری ساس جو ابھی تک میری ساس نہیں بنی تھی وہ ابھی سے میرا خون چوسنا شروع ہوچکی تھی۔۔ شادی ہو جائے گی تو وہ میرا کیا حال کرے گی اس چیز کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔۔وہ اپنے بیٹے کی کمزوری کو کمزوری کبھی نہیں مانتی بلکہ اسے غرور ہے تو اپنی جائیداد دولت کا۔۔ایک بچہ مس مس کرکے کب سے چلا رہا تھا۔۔اور جب میرا دیھان اس کی بات پر گیا تو وہ مجھے کہنے لگا کے طبیعت تو ٹھیک ہے نا مسں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے ہمیں لگتا ہے کہ آپ کو تھوڑا آرام کر لینا چاہیے۔۔
میرے کلاس کے طالب اتنے اچھے کے سب ہیڈ ڈاؤن ہوگئے اور میں پھر خیالوں میں گم ہوگئی۔۔
مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میرا اس طرح سے دانیال کو سب بتانا ٹھیک تھا یا کہ نہیں ٹھیک تھا۔۔آگے کیا ہونے والا تھا میرے نصیب میں کیا تھا بس طرح طرح کے سوالات میرے دماغ کو گھیرے ہوئے تھے۔۔۔بس میں اتنا چاہتی تھی کہ اللہ میرے ساتھ بہتر کرے کیونکہ پہلے بھی کزن نے مجھے میرے ماں باپ کی نظروں میں گرا دیا تھا اب میں دوبارہ ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہتی تھی کہ ان کا مان بھروسہ ٹوٹ جائے۔۔۔میں خیالات کے گہرےسمندر میں ڈوبی ہوئی تھی کہ اسکول کی چھٹی کی بیل بج گٸ اور پھر اپنا سامان اٹھا کر گھر کو آ گئی۔اپنے اسکول کے اسائمنٹ مکمل کرنے کے بعد میں تھوڑا گھر کے کام میں امی کی مدد کروائی اور اس کے بعد اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔
سوچوں کے کئی طوفان میرے دماغ کے گرد گھوم رہے تھے۔۔اور جب میں نے اپنا موبائل چیک کیا تو دانیال نے میری آئی ڈی پر ایک لنک سینڈ کیا ہوا تھا میں نے جیسے ہی وہ لنک چیک کیا تو وہ کسی اور کا نہیں بلکہ میرا لکھا ہوا آرٹیکل کا لنک تھا جو اس نے مجھے بھیجا۔۔
وہ دیکھ کر میں سوچ میں تھی کہ آخر اس کو میرا یہ لنک ملا کیسے میں اس کا خیال میں ہی تھی کہ اس کا ایس ایم ایس آیاجب ہم دونوں ایک دوسرے کو جانتے تک نہ تھے تو تب میں نے آپ کا یہ آرٹیکل پڑا اور مجھے پڑھ کر بہت زیادہ افسوس ہوا تھا لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ میں جس کو پڑھارہا ہوں اس کو میں کبھی زندگی میں مل
بھی پاؤں گا یا میری ملاقات بھی ہو سکتی ہے اور وہ میری دوست بھی بن جائے گی۔۔
جب پہلے دن میں نے آپ کا یہ آرٹیکل پڑھا تو میرا بہت دل کیا کے کسی طرح میں آپ کی مدد کر سکوں۔۔۔میں صرف سوچ سکتا تھا کچھ کر نہیں سکتا تھا۔۔آخر میری سوچ مجھے آپ تک لےآٸی۔۔
علینہ“آپ نے سچے دل سے شاید میری مدد کرنے کا سوچا تو اس لیے اللہ نے آپ کی مدد کر دی۔۔
دانیال“ اچھا مجھے ایک بات بتائیں گی آپ وہ آپ کی کزن جس نے آپ پر الزام لگایا تھا اس کا نام کیا ہے اور وہ کہیں جاب وغیرہ کرتی ہے آپ مجھے تھوڑا بتائیں گی۔۔
علینہ” تو آپ کیوں اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔۔۔آپ کو کیا کرنا ہے اس طرح اچھی بات تو نہیں ہے۔
دانیال“ آپ چاہتی ہیں نہ کہ آپ کے ساتھ انصاف ہو اور آپ کے ساتھ کچھ بھی غلط نہ ہو تو یہی سمجھے کہ میں آپ کا ساتھ دینے آیا ہوں۔۔بس آپ مجھے بھروسہ کرکے بتائیں تو سہی۔۔
علینہ”ہاں میری کزن کا نام حسنہ ہے۔۔اور سورس کی بنا پر اس کی نوکری کسی گورنمنٹ اسکول میں لگی ہوئی ہے جو شاید اس کے گھر کے پچھلی جانب ہے۔۔۔
اچھا چلیں پھر میں آپ سے بعد میں بات کروں گی میرے پاس گھر کا کام ہے تو میں وہ کروں گی اب خدا حافظ۔۔۔
اپنے کام کاج کے بعد جب میں دوسرے دن اسکول گئی تو روزانہ کی بنیاد پر میں اپنی ڈیوٹی کو سرانجام دینے لگی مگر میری نظروں میں ایک شخص کی تلاش ،جو شاید مجھے چین نہیں لینے دے رہی تھی مگر میں خود کو اور اپنے دل کو سمجھائیں ہوئی تھی کہ میں اچھا نہیں کر رہی نہ اپنے ساتھ اور نہ ہی اپنے گھر والوں کے ساتھ اس لئے میں خود کو روکے ہوئے اپنے کام کو انجام دے رہی تھی۔۔آخر آدھا دن گزرنے کے بعد میں اپنی کلاس سے باہر کی طرف گئی کہ اب بس برداشت ختم ہو چکا تھا۔میری ہمت جواب دے گئی تھی اور میرا دل میں صرف یہ تھا کہ بس کہیں سے میں دانیال کو دیکھو اور اس سے باتیں کروں۔۔جب میں نے پورے اسکول میں چکر لگا لیا حتیٰ کہ دانیال کی کلاس میں بھی دیکھ لیا مگر دانیال کہیں بھی موجود نہیں تھا اس لئے میں اسٹاف روم میں گئی۔۔اور دوسری ٹیچر سے کہا کہ بھئی دانیال کی کلاس میں آج کوئی اور ٹیچر کیوں ہے وہ خود کہاں ہے یہ کوئی بات ہوتی ہے کہ ایک دن بندہ آئے اور دوسرے دن چھٹی کر لے۔تو ٹیچر جواب دیتے ہوئے کہا نہیں وہ آیا ہوا تھا مگر کچھ دیر پہلے ہی چھٹی لے کر گیا ہے وہ بھی میڈم نے اسے خود چھٹی دی ہے اس کی بہت زیادہ طبیعت خراب ہوگئی تھی۔میڈم نے اس کی حالت دیکھ کے اسے کل کی بھی چھٹی دے دی ہے۔۔یہ بات سن کر تو جیسے میں بوکھلا گٸی۔۔میں وہاں سے اٹھ کر اپنی کلاس میں گٸی کہ آخری دانیال کو کیا ہوا ہوگا۔۔
ایسا لگتا تھا کہ میرا پڑھانے میں من نہیں لگتا اور عجیب سی کشمکش میں رہنے لگ گئی ہوں۔۔دل میں عجب شور برپا ہوا کہ کیا کروں کیسے دیکھو دانیال کو کیا ہوا ہے۔۔میرے دل کو کسی بھی طرح سکون نہیں تھا میرا وقت گزرنا مشکل ہو رہا۔۔میں یہ بھی نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ ایسا کیوں کیوں ہو رہا ہے۔۔میں اپنے من کو بہلانے کے لیے بچوں کو ریڈنگ کروانے لگی۔۔جیسے تیسے وقت گزرنے کے بعد چھٹی ہوئی اور میں اپنےگھر آتے ہوئے ادھر ادھر نظرگھماتی رہی کہ شاید کہیں کسی گلی میں یا راستے کے کونے پر دانیال دکھائی دے پر میرے گھر تک پہنچنے پر مجھے وہ کہیں دکھائی نہ دیا اور پھر میں اپنے گھر کے اندر داخل ہو گئی۔۔ہزاروں وسوسوں نے مجھے گھیرا ہوا تھا۔۔اَن دیکھے میں امی سے جا کر زور سےٹکرائی تو امی پہلے کسی بات پرگھروالوں سے خفا تھی اور میرے ٹکرانے سےامی کا پارہ اور ہائی ہوگیا۔۔پہلے تو کچھ دیر تک میں امی کی باتیں کھڑی ہوکر سنتی رہی۔۔اور پھر میں اپنے کمرے میں چلی گئی۔اوردروازہ بند کرلیا چپ چاپ اپنے بستر پر جا کر لیٹ گئے بنا کچھ کیے بنا کچھ کہے۔۔نہ جانے لیٹے لیٹے کب میری آنکھ لگ گئی۔۔
۔اس کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں اپنے بستر سے اٹھی اتنے میں امی بھی میرے کمرے میں دروازہ کھول کر داخل ہوگئی اور میں بہت زیادہ ناراض تھی اس لئے میں دوسری جانب منہ کرلیا جبکہ امی گھومتے ہوئے میرے سامنے آ کر بیٹھ گئی اور میرے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور کہنے لگی کہ بس مجھے تھوڑا سا غصہ تھا میں گھر والوں سے ناراض تھی اور تم مجھ سے آکر ٹکرا گٸی اور سب کا غصہ تم پر نکل گیا میں یہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔ مگر میں اُس وقت غصے میں تھی میری بیٹی کو میں نے آتے ہی پریشان کر دیا اور میری بیٹی نے کچھ کھایا بھی نہیں ہے تھک کر آئی تھی مجھے اس کا احساس ہے۔۔امی کا اتنا کہنا تھا کہ میں امی کے گلے لگ کر رونے لگ گئی میں اسکول سے پہلے ہی عجیب سی کیفیت سے آئی تھی اوپر سے امی نے مجھے ڈانٹا ہوا تھا تو مجھے امی کے گلے لگ کر رونے کا موقع مل گیا تھا۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔۔تو امی کہنے لگی بس اتنا بھی کیا ہوگیا مجھ سے اتنی ناراضگی ظاہر کر رہی ہو ابھی اتنا بھی مت رو۔میں اپنی پیاری سی بیٹی کو روتے ہوئے بالکل نہیں دیکھ سکتی چلو اُٹھو منہ دو اور کھانا کھا لو۔۔میں تمہارا باہر انتظار کر رہی ہوں۔۔جی امی میں آتی ہوں اور پھر امی باہر چلی گئی۔۔میں نے جلدی سے اپنا موبائل اٹھایا اور اپنے آئی ڈی کو چیک کیا مگر دانیال کا کوٸی ایس ایم ایس نہیں آیا ہوا تھا۔۔موبائل کو سائیڈ پر رکھ کر میں باہر گٸی ۔۔۔ ۔۔۔منہ دھونے کے بعدامی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔کافی دیر تک جب دانیال کا میسج نہ آیا تو پھر اسکول کا باقی کام کیا۔۔اب ایسے ہونے لگ گیا تھا کہ جیسے سب کے درمیان میں ہوکر بھی میں سب کے درمیان میں موجود نہ ہوتی۔۔کبھی دانیال کو امید مانتی اور کبھی اپنی خواہشات کو ایک دھوکے کا نام دیتی۔۔۔اور کبھی ان خیالوں میں کھوئی رہتی کے پتا نہیں زندگی مجھے کس جانب لے جائے گی میں اپنے ساتھ ٹھیک کر بھی رہی ہو یا نہیں۔۔ہزاروں سوالات جو ہر وقت میرے دماغ کو گھیرے رہتے تھے ان کا جواب صرف اور صرف آنے والا وقت ہی دے سکتا تھا اور میں وقت کے آنے سے پہلے ہی جھنجلا سی گئی تھی۔اب جب دوسرا دن ہوا اور اسکول جانے کا وقت ہوا تو میرے دل میں خیال آیا کہ جب دانیال آئے گا ہی نہیں تو میں آج جا کر کیا کروں گی میرا من نہیں لگے گا اس لئے میں نے بھی اسکول سے چھٹی کر لی اور سارا دن کام کاج اور دوسری چیزوں میں گزار راہ۔۔اور ایک طرف یہ انتظار تھا کہ کہیں نہ کہیں دانیال مجھے میسج ضرور کرے گا مگر میرا خیال غلط ثابت ہوا اور میرا انتظار انتظار ہی بن کر رہا۔پھر بھی میں اپنے آپ کو وہم اور گمان سے نکال کر صرف اس بات پر ثابت قدم رکھ رہی تھی کہ کوئی مصروفیات ہوگئی یا کوئی ایسی بات جس کی وجہ سے وہ مجھے میسج نہیں کر پا رہا تو کل جاؤ گی تو بات ہوجائے گی اپنے آپ کو اس طریقے سے تسلی دینے کی کوشش کر رہی تھی۔۔اور اپنے انتظار کو جلدی ختم کرنے کے لئے خود کو مصروف رکھنے کے لیے میں نے گھر کی تفصیلی صفائی شروع کردی امی نے مجھے منع کیا مگر میں نے کوئی بات نہ سنی بلکہ ان کو سمجھایا کہ وقت نہیں ملتا ہے تو آج چھٹی کی ہے تو چلو اس بہانے میں کر ہی لیتی ہوں۔۔
اور صفائی کے بعد دیگر کام کیے اور پھر اس طرح سے میں نے اپنا یہ دن گزارا۔۔دوسرے دن میں فریش ہو کر اور بہت ہی اچھے سے تیار ہو کر کے جب اسکول گئی اور اسکول میں جب میں نے پورا چکر لگایا اور دانیال جب مجھے کہیں بھی دکھائی نہیں دیا تو۔ میں میڈم کے پاس گئی اور ان سے کہا کہ میںم نیا ٹیچر رکھنے کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں ہوا وہ ایک دن آتا ہے تو دو دن چھٹی کر لیتا ہے اس سے تو بہتر ہے کہ آپ اسے ہٹا ہی دے۔تو میڈم نے جواب دیا کہ ان کی امی کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے شاید وہ اس علاقے سے کچھ عرصے کے لیے جہاں سے آئے تھے وہ واپس جا رہے ہیں تو اس نے اپنی جگہ پر کسی کو بھیج دیا ہے تو وہ جب تک نہیں آئیں گے تو تب تک وہ یہاں پرجاب کریں گے تو ہو سکتا ہے وہ آگے بھی کریں اب آپ جائیں اپنی گلاس میں۔۔
میم کی بات سن کر تو میرا دل گھبرا گیا اور میرا پوراچہرہ پسینے سے بھر گیا میں کپکپاتی ہوئی اپنی کلاس میں جا رہی تھی۔۔۔دانیال نے کیا میرے ساتھ دھوکا کیا تھا یا وہ واقعی میں ہی کسی سخت مصیبت میں تھا۔۔یہ دو سوال مجھے اندر سے کھائے جا رہے تھے۔۔۔اور اس دوران میں میرا بی پی زیادہ لو ہو جانے کی وجہ سے چکر کھا کر نیچے گر گئی اور جب مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو ہوسپٹل کے اندر پایا۔۔میرے ساتھ ایک مس آئی ہوئی تھی جو میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ مجھے کیا ہوا تھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے آپ جب نیچے گر گئی تو میم نے مجھے آپ کے ساتھ آپ کو ہسپتال بھجوا دیا۔۔پھر مس نے مجھےمیرے گھر چھوڑا.گھر آتے وقت ہماری گاڑی کی ٹکر کسی بائیک سے ہوئی تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسےوہ دانیال ہو مگر ہیلمٹ ہونے کی وجہ سے میں ٹھیک سے دیکھ نہ سکی اور میرےکوشش کرنے کے باوجود باٸیک نکل گٸ مگر میں دیکھ نہ سکی .اسکے بعد مس نے مجھے میرے گھر کے باہر چھوڑا اور خود اسکول واپس چلی گئی۔۔گھر جلدی واپس آنے کی جب امی نے وجہ دریافت کی تو میں نے انہیں بتایا کہ میں بیمار ہو گئی تھی تو مجھے جلدی چھٹی مل گئی ہے۔۔تو میری حالت کو دیکھتے ہوئے امی نے مجھے کمرے میں ریسٹ کرنے کے لئے کہا اور میں اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی۔اور اس بات کا مجھے یقین ہوا تھا کہ میں اپنی حالت کی خود ذمہ دار تھی۔۔۔کیونکہ نامیں کسی انسان کے اتنے قریب ہوتی اور نہ ہی مجھے آج یہ وقت دیکھنا پڑتا۔۔
بس میں اپنے خیالوں میں گم خود کو کوس رہی تھی کہ باجی میرے کمرے میں آئی اور کہنے لگی کہ تم نے جانے کی تیاری کرلی ہے کہ نہیں کی تو میں حیران ہو کر اس سے پوچھنے لگی کہاں کی۔۔ارے کیا زمانہ آگیا ہے تمھیں نہیں پتہ کہ ہم نے آج سب نے مل کر تمہارے سسرال جانا ہے ان کے گھر سے دعوت آئی ہے۔۔ہاں وہ دعوت کم ہوتی ہے ہماری کام والے ہم وہاں جا کر زیادہ بن جاتے ہیں۔۔ویسے آپی مجھے بہت غصہ آتا ہے کبھی کبھار کے میرے گھر والوں کو میرے پر یقین نہیں بلکہ غیروں پر زیادہ اعتمادہے۔۔چلو اس سے ایک بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ لڑکیوں کی تو کوئی زندگی نہیں ہوتی۔۔ساری زندگی وہ ماں باپ کی عزت کو سنبھالتی ہیں اور پھر بھی ان کو شک و شہبات کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔۔اس کے برعکس اگر لڑکا ہزاروں غلطیاں بھی کردے تو اسے باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔۔میں سوچتی ہوں پتا نہیں کیوں ہمارا معاشرہ آج بھی دونوں کو ایک جیسے حقوق کیوں نہیں دیتا۔۔
آپی“بہن تیرے فلسفہ جھاڑنے سے ہماری زندگی بدل نہیں جانی یہی ہے یہی رہنی ہے۔۔اب بہتر یہ ہے کہ جو تیاری کرنی ہے وہ کر لو۔۔
علینہ“ زندگی بدل تو نہیں سکتے ہیں لیکن کوشش تو کی جا سکتی ہے نہ بدلنے کی پتہ نہیں تم لوگ کیوں میری ہر بات کو فلسفہ لیتے ہو میں تو سچ کہتی ہوں اور سچ کا کوئی سامنا کرنا ہی نہیں چاہتا۔۔۔
اس کے بعد میں نے اپنی ڈائری نکالی اور اس کو دیکھنے لگی کہ آخر آج کا دن ہے کیا ہے کسی کا انتقال ہوا تھا یا کسی کا پیدائش کا دن ہے کیا دن ان کے گھر میں منایا جارہا ہے جب دیکھا تو پتہ چلا کہ آج میری ہونے والی نند کی سالگرہ کا دن منایاجارہا۔۔اور اسی خوشی میں ہم سب ادھر جا رہے ہیں۔۔۔ایک طرف تو میری دماغی حالت بالکل درست نہ تھی۔ اور اس کی ایک ہی وجہ تھی دانیال اس لئے میں نے سوچا کہ چلو چلی جاتی ہو اس بہانے میرا کچھ دل بہل جائے گا۔۔۔امی میری نند کے لیے تحفہ لینے چلی گئی جبکہ ابو پہلے سے ہی باہر تھے اور میں اپنے کمرے میں طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے لیٹی ہوئی تھی۔۔آپی ساتھ میں کام کر رہی تھی جب کہ تھوڑی دیر بعد مجھے وہ اٹھانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی کہ اٹھ جاؤ اپنا سامان نکالو تیاری شروع کر لو۔۔جبکہ ایک طرف میرا دل کر رہا تھا جانے کے لیے اور دوسری طرف دل میں خیال آرہا تھا کہ جب وہاں جا کر ماثیو جیسے برتاؤ ہی تو ملنا کیافائدہ ہوگا جاکر۔اور صورت حال یہ تھی کہ جانے سے انکار بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔ مگر میرے پاس ایک ہتھیار تھا کہ میں بیمار ہوں میں نہیں جا سکتی۔۔یہ صورتحال تھی لیکن آپی کا کہنا تھا کہ مجھے جانا چاہیے۔۔بس آپی کی بات سنتے ہوئے میں نے تیاری شروع کردی اپنا سامان نکالاآپی نے گھر کی صفائی اور سب کچھ سیٹنگ وغیرہ کردی اور اس کے بعد میں نے اور آپی نے مل کر تیاریاں کیں اور امی بھی آ گئی۔۔۔پھر آپی نے امی کو بھی تیار کرا اور ابو بھی آگئے۔۔سب کے تیار ہوجانے کے بعد ابو نے کار منگوائی اور ہم سب مل کر میرے سسرال کی جانب روانہ ہوگئے۔

بھائی کام کے سلسلے میں دوسری جگہ کیا ہوا تھا اس لیے وہ ہمارے ساتھ نہیں تھا۔۔ بیس منٹ کے اندر ہم ان کے گھر پہنچ گئے۔۔شام کے تقریبا سات بج رہے تھے۔۔پیسہ دولت ان کی شان تھا اس لئے ہمیں بھلا وہ اتنی اہمیت کیسے دے سکتے ہیں۔۔جتنا بڑا گھر اتنی چھوٹے دل نہ ہی چائے کا نا شربت کا پوچھا بلکہ اس کی جگہ ہمارے لئے ٹھنڈا پانی ہمیں دیا گیا۔۔
ویسے بڑی صفائی سے ہمارے گھر والے اس بات کو نظر انداز کر گئے۔مگر میری نظر سے گزری ہر ایسی بات میرے دل میں کانٹا بن کر چُُب جاتی۔اور صرف میں یہی کہتی کے میرا اللہ ایک دن اس کا جواب آپ کو بہتر انداز میں دے گا۔۔مہمانوں کی چہل پہل میں ہمیں ایسے نظر انداز کیا جا رہا تھا کہ جیسے ہمارا کوئی وجود ہی نہیں۔۔اتنی رسوائی اتنی بےعزتی میرے ماں باپ کی کبھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔میں مگر کچھ نہیں کرسکتی تھی۔۔کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے میری برداشت کا یہ امتحان ہو۔۔اور کہیں نہ کہیں ایک دن اس کا جواب ان کو ضرور ملے گا۔۔
میں نے آپی کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچ کر ان کی چھت کے ایک طرف لے گئی اور میں نے کہا آپی آپ بتائیں جہاں انسان کی رتی بھر بھی عزت نہ ہو وہاں خود کو نیچا دکھا کر آخر کیا حاصل ہوسکتا ہے۔۔جو انسان کبھی بدل ہی نہیں سکتا تو اس کو اپنے اچھے کردار سے بھی مائل نہیں کیا جاسکتا۔۔کیونکہ کم ظرف انسان کبھی بھی اپنے ظرف کو اونچا کر ہی نہیں سکتا۔۔۔
آپی“سکون میں آ جاؤ آرام سے کچھ نہیں ہوتا۔۔تمہیں کیا لگتا کہ ہم سب کو یہ سب دکھائی نہیں دیتا۔۔امی ابو کی نظر نے یہ سسرال ان کی بیٹی کا ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ ہر بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں ہمیشہ۔۔۔
علینہ“کیا مطلب ہے ابھی تو کچھ ہوا بھی نہیں ہے آپ چاہیں تو انکار کر دے مجھے شادی کا شوق ہی نہیں ہے۔وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جو عزت نہیں کرتے وہ بلاکل خاک عزت دیں گے۔۔
آپی“تم ابھی بھی نادان ہو اور اللہ کرے کے وقت آنے پر تم سمجھ جاؤ۔۔چلو اب یہاں سے۔۔
ساس”علینہ ادھر آؤ تمہیں تو پتہ ہے نہ آج مناہل کی سالگرہ ہے تو تمہیں کام میں مدد کروانی چاہیے اب جاؤ دیکھو کچن میں کام کر رہی ہیں ماسیاں ان کی مدد کرو چل کے۔۔آپی“میرا ہاتھ چھڑاتے ہوئے اور مجھے آگے کو دھکیلتے ہوئے ہاں جاؤ مدد کروں جا کے۔میں آپی کو گھورتے ہوئے اور اتنے میں میری امی بھی وہاں آ گئی اور امی نے کہا کہ علینہ کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اسکول والوں نے اس کو چھٹی دے دی تھی۔۔علینا کی آپی چلی جاتی ہیں کام میں مدد کروانے کے لیے ہاں
حاجرہ ساس”ہاں بھئی تم لوگوں کا تو بس بہانہ ہوتا ہے کام سے بچنے کے لئے بس کھانے تھوڑی نہ آتے ہیں۔۔کوئی ضرورت نہیں ہے آپ لوگوں کے کام کی۔۔
امی“سونے تو صحیح بہن جی ایسی کوئی بات نہیں آپ غلط سوچ رہی ہیں۔۔
میں نے اور آپی نے سمجھایا کہ امی آپ تو جانتی ہیں کہ اُنکا مزاج ہی کچھ ایسا ہے۔۔اب دیکھ لیجئے گا ایک یہ ذرا سی بات کا کیسے تماشا بناتی ہیں۔۔پھر میں نے امی سے کہا اس لیے تو میں یہاں آنا نہیں چاہ رہی تھی۔۔اور ابو نے ہماری سننی ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو بات کو آگ کی طرح لگائیں گئی اور بس ابو کا پارہ ساتویں آسمان تک پہنچ جائے گا۔۔وہ تو سوچنے کی زحمت ہی نہیں کریں گے کہ میں اپنے گھر والوں کی بھی سن لو ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر یا باہر والاجھوٹ بول رہا ہوں۔۔یہ ایک طرفہ بات سن کر فیصلہ کر دینا بھی بڑا ہی ناجائز ہوتا ہے۔۔۔ابو کی اس کمزوری کا دوسرے لوگ بڑا فائدہ اٹھاتے ہیں۔۔آپی اب آپ ہی بتائیں کہ کیا کیا جائے ابو تو آگ بگولا ہو جائیں گے بنا کچھ سوچے سمجھے۔۔آپی”بھلا میں کیا کر سکتی ہوں اب چلو جو ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے یہ ہمیشہ سے ہی ہوتا ہے بلکہ کوئی روک سکا اس کو۔۔بس اب انتظار کرو ابو کے آنے کا اور ان کے غصے کا ہم تینوں اسی بات پر گفتگو اور بحث کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں سامنے سے ابو آ رہے تھے جو غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔۔ابو وہی امی کو ڈانٹنا شروع ہوگئے جب کہ ہم دونوں بہن نے سر جھکائے وہاں کھڑی تھی ابو نے نہ آؤ نہ تاودیکھا امی پر ہاتھ اٹھایا اورگالی گلوچ کرنا شروع کر دیا اور ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا چلو تم لوگ اب گھر چلو کہیں جانے کے قابل نہیں تم لوگ جہاں جاتی ہوبےعزتی کرواتی ہو۔۔اتنے میں میرا سُسر آیا ہمارے پاس اور اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں آپ غصہ نہ کرو چلو آؤ چلے جانا ہے کیک کی رسم تو ہونے دو۔۔وہ سمجھا بجاکر ابو کو اپنے ساتھ لے گئے اور ہم تینوں بہنیں رو رہی تھی اور امی کا ضبط یہ تھا کہ وہ اس کیفیت میں بھی مسکرانے کی کوشش کر رہی تھی ہم لوگ کیک کٹنے والی جگہ کے ایک سائیڈ پر جا کر کھڑے ہو گئے۔۔۔کیک کی جب بتیاں بجھا دےی گٸی تو سب نے اپنے اپنے طائف مناہل کو دیے جبکہ ایک لڑکا جو سامنے دوسری سائیڈ سے ہوتا ہوا ہماری طرف بڑھا تو میں اس کو دیکھ کر چونک پڑی وہ کوئی اور نہیں بلکہ دانیال تھا جو ہمارے پاس سے گزر کر مناہل کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور اس نے وہ تحفہ جو ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا وہ مناہل کے ہاتھ میں دیا۔۔دانیال اور مناہل ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے جبکہ مناہل دانیال کو اپنی امی سے ملوا رہی تھی اس گھر میں یہ سب کچھ عام تھا اس لئے کوئی بھی برا نہیں مانتا اور شاید کسی کو انہیں کچھ بھی بولنے کی ہمت بھی نہ تھی۔۔میں تو یہ منظر دیکھ کر سکتے میں آگئی تھی۔۔
دانیال آخر مناہل کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔۔ایک دکھ دل میں ابو کی حرکت کے لئے تھا اور دوسرا دکھ اس طرح سے دانیال کو مناہل کے ساتھ دیکھنے کا تھا۔۔۔اور یہ سب دیکھ کر میں برداشت نہ کر پائی اور پھر سے میں بے ہوش ہوگئی۔۔اور جب ہوش آئی تو میں اپنے گھر میں تھی۔اور ہوش آنے کے بعد میں نے آپی سے پوچھا کہ میرے بے ہوش ہو جانے کے بعد کیا ہوا تھا۔۔۔آپی کا کہنا کچھ یوں تھا کہ جب میں بے ہوش ہوئی تو میری ہونے والی ساس ابو کو جاکر باتیں سنانا شروع کردی کہ میری اکلوتی بیٹی کا اتنا اچھا فنکشن تھا اور آپ کے گھر والوں نے برباد کرکے رکھ دیا ہے اور بہتر یہی ہے بھائی صاحب کے آپ اپنی بچیوں کو لے کر گھر چلے جائیں اور آپ آنا چاہیں تو واپس آ سکتے ہیں کیوں کہ وہ کسی بڑی پارٹی کے قابل تو ہے ہی نہیں۔۔اور یہ بات سن کر تو ابو کو اتنا غصہ آیا کہ تمہیں سنبھالنے کی بجائے گھسیٹتے ہوئے گاڑی میں ڈالا اور تم بالکل ہوش میں نہیں تھی اور ہم ساتھ ساتھ میں رورہی تھی اور امی ابو کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔کہ تمہاری طبیعت صبح سے ہی خراب ہے جس کی وجہ سے تمہیں اسکول سے چھٹی بھی مل گئی تھی مگر ابو کوئی بھی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔۔سب مہمان ہمارا مذاق اڑا رہے تھے اور ابو سب کو نظر انداز کرتے ہوئے انتہائی بد لحاظی سے ہمیں گھر واپس لے کر آئے۔۔۔میں نے فون پر بھائی کو سب باتیں بتا دی ہیں۔۔ہم دونوں بہنیں روتی روتی ہوئی ایک دوسرے کو گلے لگایا اور کہا کہ نہیں ہمیں رونے کی ضرورت نہیں ہے ہمیں اپنی ماں کی کمزوری نہیں بلکہ طاقت بننا ہے۔۔۔ایک طرف یہ غم مجھے کھائے جارہا تھا کہ ماں کو سب کےسامنے میرے باپ نے بےعزت کیا مگر ہم بہنیں کچھ نہ کر پائی اور دوسری طرف مجھے یہ درد تھا کہ دانیال مجھے کتنا بڑا دھوکا دیا ہے۔۔۔آپی کے کمرے سے چلے جانے کے بعد میرے دل میں صرف یہی سوال گھوم رہا تھا کہ کس وجہ سے آخر اس نے مجھے دھوکا دیا ہے۔۔کیا وہ میری زندگی میں مناہل کو جاننے کے لئے آیا تھا یا پھر اس کی دولت کی وجہ سے اس کے پیچھے چلا گیااس کا آخر مقصد کیا ہوسکتا ہے۔۔مجھے ان تمام سوالوں نے پاگل کردیا تھا۔۔جس آئی ڈی سے میں نے اسے ایڈ کیا تھا اس سے وہ کبھی اب دوبارہ آن لائیں نہیں آتا تھا۔۔رات بہت ہو چکی تھی سب کے سوجانے کے بعد میں بھی سو گئی اور جب ہم صبح اٹھے تو باہر کا صبح صبح دروازہ بجا جیسے آپی نے دروازہ کھولا یہ کوئی اور نہیں بلکہ کے بھائی تھا۔۔بھائی کو حیرت کی نظروں سے دیکھتے ہوۓ آپی نے کہا شان بھائی آپ۔۔اور جیسے ہی میں نے بھائی کو دیکھا میں بھاگتے ہوئے بھائی کے پاس آکر بھائی کے گلے لگ کر رونے لگ گئی۔۔بھائی نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کیوں پریشان ہوتی ہے۔۔میں آگیا ہوں نا میں سب ٹھیک کردوں گا۔۔اتنے میں ابو اندرسے آواز لگاتے ہوئے باہر آئے کہ کون آیا ہے جو تم دونوں باہر جا کر کھڑی ہو گئی۔۔یہ کہتے ہوئے ابو کی نظر بھائی پر پڑی تو ابو نے کہا تم یہاں کیا کر رہے ہو اپنا کام چھوڑ چھاڑ کر یہاں کیوں آئے ہو۔۔تو بھائی نے کہا ابو مجھے چھٹی ملی ہے اسی لئے آیا ہوں ورنہ مجھے کیا ضرورت ہے اپنا کام چھوڑ کر گھر آکر بیٹھنے کی۔ابو اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے مجھے لگا کے کسی نے فون کرکے تمہیں بلایا ہے چلو اب جاؤ اندر۔۔مجھے ذرا کام ہے میں باہر جا رہا ہوں۔۔۔
بھائی “اتنی صبح ابو کیا کام ہے کہاں جا رہے ہیں۔۔
ابو“ تم سے مطلب مجھے کیا کام ہے میں کیا کرتا ہوں تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے چلو جاؤ اپنا کام کرو۔۔۔آئے ہو تو تھوڑی بہت عقل سکھا دینا اپنے گھر والوں کو۔۔
ابو باہر چلے گئے اور بھائی بیٹھ کر پانی پیا امی جب کمرے سے باہر آٸی تو بھائی کو دیکھتے ہی وہ بھی رونا شروع ہوگئی اور تو بھائی نے کہا کہ ہم آخر کب تک برداشت کریں گے۔آپ کو ہم نے کبھی بھی ان کے ساتھ خوش نہیں دیکھا بلکہ ہمیشہ ہمارے گھر میں لڑائی جھگڑا رہا ہے اور وہ آپ کو وہ اہمیت نہیں دیتے ہیں جو اپنی بہن بھائیوں کو دیتے ہیں۔۔ان کی نظر میں جب آپ کی کوئی عزت کوئی اہمیت ہے ہی نہیں تو آخر ہم کیوں ان کے ساتھ رہ رہے ہیں۔۔۔آپ ساری زندگی ان کی ذلت بھرے الفاظ اور تشدد کو برداشت کرتی آٸیں ہیں کبھی آپ کا دل نہیں کیا ان کو چھوڑ دینے کا آپ نے کیوں نہیں ان کو کبھی چھوڑا۔۔۔
امی”تم جانتے ہو مجھے بھی بیٹا یہ سب پسند نہیں ہیں لیکن کیا کرتی۔۔تم لوگ چھوٹے چھوٹے تھے اور یہ لڑائی جھگڑا تو شروع سے ہی رہا ہے مگر تمہارے ابو کوچھوڑتی تو چھوڑ کر جاتی اور جاتی کہاں۔۔میرا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔۔انہیں چھوڑ کر اگر میں اپنے بھائیوں کے گھر جاتی تو میری وہاں بھی کوئی جگہ نہ تھی کیونکہ میں پہلے ہی ان کے دھکے کھا چکی تھی۔۔اور جب وہ میرے ہی سکے نہیں تھے تو بھلا میری اولاد کا انہوں نے ایک کیا خیال کرنا تھا۔۔بس اسی لئے میں نے کبھی ان کو نہیں چھوڑا کیونکہ کسی دوسری خاک کو سر میں ڈالنے سے بہتر یہی تھا کہ میں اپنے گھر میں رہ لوں۔۔میں مر جاٶں یا جیو مجھے اس کی پرواہ نہ تھی ںبس یہ سوچتی کہ مجھے نہیں عزت ملے گی تو کیا ہوگا میری اولاد کو تو وہ اپنی اولاد سمجھ کر عزت اور محبت دے گا۔۔
علینہ“امی آپ نے ہماری وجہ سے اپنی زندگی کو قربان کردیا ابو کا جب دل چاہا انہوں نے آپ کو مارا پیٹا ذلیل کیا اور کوئی ایسا زخم جو آپ کو نہ دیا اور آپ نے چپ چاپ نہ برداشت کیا۔ہمیں سب یاد ہے۔۔مگر اب عمر کا ایک ایسا حصہ ہے جہاں ابو کو سمجھ جانا چاہیے کہ اب تو انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے مگر وہ کیوں نہیں سمجھتے ہیں۔۔ویسے میں نے حساب لگایا ہے امی پنجابی مرد جتنے بھی تعلیم یافتہ ہوجائیں وہ کبھی بھی اپنے رویے اور عادات کو نہیں بدل سکتے۔۔گالی گلوج اور مار پیٹ ان کے لئے بہت زیادہ عام بات ہوتی ہے۔۔مجھے افسوس ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی وہ خود کو نہیں بدلتےلیکن بھائی آپ ان عادات کو ضرور ختم کریں گے۔۔۔
بھائی“ ہاں کیوں نہیں کروں گا بس اب مجھے کچھ کھانے کو بھی دو گی بھوک لگ رہی ہے۔امی بس اب آپ ابو کو چھوڑ دیں۔۔۔
امی“ گزار لی ہے اب تو ساری زندگی اب تو بس تھوڑی سی باقی ہے۔۔اور مجھے کوئی بھی بات تمہارے ابو کی بری نہیں لگتی۔۔
آپی“کیونکہ آپ کو عادت ہوچکی ہے۔
اس کے بعد ہم سب نے مل کر ناشتہ کیا اور آج مجھے اسکول جانے میں تھوڑی دیر ہوگئی تھی تو بھائی مجھے کہہ رہا تھا کہ چلو میں تمہیں اس کو چھوڑ آتا ہوں۔۔جبکہ میں بھائی کو منع کر رہی تھی کہ آپ سفر سے تھک گئے ہوں گے تھوڑا آرام کر لے میں خود ہی چلے جاؤ گی مگر بھائی نے میری ایک نہ سنی اور مجھے اسکول چھوڑنے آ گئے اس کے بعد بھائی نے مجھے اسکول چھوڑا اور گھر آگئے میں اپنے دل کو سمجھا کر خود کو کام میں مصروف رکھنے کی کوشش کر رہی تھی پر پچھلے دنوں ہوئے ہر واقعات میرے دماغ میں بار بار آ کر مجھے پریشان کر رہے تھے۔۔ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں نے خود کے پیروں میں خود ہی کلہاڑی مار لی ہو۔آخر میں نے کیسے کسی انجان پر بھروسہ کرلیا۔۔۔
اس وجہ سے میرا کسی بھی کام میں دل بھی نہیں لگ رہا تھا اور میری میڈم کو یہ لگ رہا تھا کہ میری طبیعت خراب ہے اس وجہ سے میرا کام میں دھیان نہیں ہے تو میڈم نے مجھے ایک ہفتے کے لیے چھٹی دے دی۔۔میں نے میڈم کو منع کیا لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی اور مجھے آرام کرنے کا مشورہ دیا۔۔تاکہ طبیعت ٹھیک ہونے کے بعد میں بہترین طریقے سے اپنے کام کو سرانجام دے سکوں۔۔۔۔
مگر میں ایسا بالکل نہیں چاہتی تھی کہ مجھے چھٹیاں ملے۔۔۔کیونکہ گھر میں کسی نہ کسی بات پر جھگڑا رہتا تھا اور جس سے میرا ذہنی سکون خراب ہوچکا تھا۔۔یا شاید میں یہ سب بچپن سے دیکھ رہی تھی تو میرے اندر برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی۔۔۔اسکول کے بعد گھر واپسی پر جب میں آئی تو میں نے دیکھا کے دانیال کے ساتھ مناہل بائیک پر بیٹھ کر جارہی ہے۔۔یہ دیکھنا میری برداشت سے باہرتھا۔۔۔میں خود کو سمجھانا چاہتی تھی کہ یہی سچ ہے اور مجھے اس کو جتنا جلدی ہو قبول کر لینا چاہیے۔۔اور جب میں گھر پہنچی تو میں نے دیکھا کہ ابو اور امی کا پھر سے جھگڑا ہو رہا ہے آپی اور بھائی ان کو سمجھا رہے ہیں۔۔ سچ تو یہ تھا کہ میرا گھر میں قدم رکھنے کو دل نہیں کرتا تھا میں اس سب سے بہت اُکتا چکی تھی۔۔یہ روز روز کی لڑائیوں سے میں تنگ آ چکی تھی۔۔۔اور ہماری امی کی بھی اتنی اب ہمت نہ تھی کہ وہ مارپیٹ کروا سکتی کیونکہ ان کے عمر ہو گئی تھی۔۔ابو کو لحاظ ہی نہیں تھا۔۔میں یہ سب دیکھ کر برداشت نہ کر سکی اور میں اندر گئی اور غصے سے ابو کے آگے کھڑے ہو کر کہنے لگی آخر آپ چاہتے کیا ہیں ہمیشہ امی کو مارتے ہیں ہمیشہ بدلحاظی کی ہے ہم نے کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا مگر اب ہماری برداشت کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے آپ ایسا کیوں کرتے ہیں کیوں نہیں خود کو بدلتے۔۔۔ابو نے غصے سے میرے منہ پر بھی تھپڑ مار ڈالا اور کہا کہ تم کچھ زیادہ ہی بڑی ہو گئی ہو تمہارا کرتا ہوں بندوبست دفع ہو جاؤ میرے گھر سے ابھی شادی کی تیاری کرو اور تمہاری شادی ابھی میں کرواتا ہوں اور تم کو نکال پھینکتا ہوں اس گھر سے بدلحاظ بیٹی میں پھر بھی ہمت نہ ہاری اور ڈٹ کر کھڑی رہی شاید یہ میری بدتمیزی کا مظاہرہ تھا مگر آخر کب تک اپنی ماں کو پیٹتے دیکھ سکتے تھے کبھی نہ کبھی تو یہ ہونا ہی تھا۔۔ابو تو غصے سے باہر چلے گئے بھائی نے مجھے پکڑ کر ایک سائیڈ پر بٹھایا اور آپی پانی لے کر آئے اور پانی پلانے کے بعد آپی نے کہا کیا ضرورت تھی تمہیں ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔تمہیں ابو کے مزاج کا پتا ہے نہ وہ شروع سے ہی ایسے ہیں وہ کبھی بدل نہیں سکتے ہیں جو اپنے بیٹے کو نہیں چھوڑتے اپنی بیوی کو نہیں چھوڑتے ان کے لیے پھر بیٹیاں بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہیں۔۔میں بھائی پاگل لڑکے سے شادی نہیں کرنا چاہتی پلیز آپ کچھ کریں امی مجھے یہ بتائیں آخر کیوں نہیں ہم خاندان سے باہر شادی کر سکتے ہمارے ہاں بیٹیاں کیوں کواری رہ جاتی ہیں اگر عمر کے لڑکے نہ ہو آخر یہ کیوں ہے کیوں کوئی نہیں یہ سب روکتا۔۔
امی“بیٹی میری شادی سے پہلے کی بات ہے ایک لڑکی اس خاندان کی جس نے کوشش کی تھی کسی دوسری ذات کے لڑکے سے شادی کرنے کی اور اس کا انجام بہت برا ہوا تھا اس بیچاری لڑکی کو کرنٹ دےکر مار گیا اور اس کی سانسیں پھر بھی باقی تھی تو انہوں نےپھر چھت سے نیچے پھینک دیا اور اور جس سے بیچاری کی موت ہوگئی۔۔اور اس کے مرنے کے بعد رونے اور پیٹنے کا ڈرامہ رچایا گیا۔اور یہ لوگوں دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔
آپی“توا می جو لڑکا اس لڑکی سے محبت کرتا تھا اس نے کچھ بھی نہیں کیا اس لڑکی کے لیے۔
امی“تمہارا خاندان بہت ہی تیز ہے ان معاملات میں انہوں نے پہلے لڑکے والوں کو ہاں کہا اپنے ساتھ ملایا اور پھر یہ کھیل رچایا اور ان کی بھی آنکھوں میں دھول جھونکنے کامیاب ہوگئے تھے۔۔
۔یہ جلاد خاندان اپنی بیوی بیٹیوں کو کوئی عزت نہیں دیتے۔۔۔“اور بیٹی تم تو اپنے دل میں شادی نہ کرنے کا خیال کبھی لانا ہی نہ کیونکہ جو تہ ہوچکا ہے وہ ہوکر ہی رہنا ہے ہمارے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔۔امی کے جانے کے بعد بھائی نے کہا کہ ہمارے پاس ایک راستہ تو ہے جس سے اس سے بچا جا سکے امی تو کبھی بھی ابو کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔۔۔مگر آخر کب تک وہ اس عمر میں بھی دھکے کھاتی پھرے گی تو ہمیں کچھ خود ہی کرنا ہوگا مل کر ۔۔سنو میرے پاس ایک منصوبہ ہے۔۔ہم تینوں مل کر آہستہ آہستہ ابو کے کان بھرتے ہیں امی کے خلاف اور ویسے بھی تو دھمکی دیتے ہیں ابو کے وہ دوسری شادی کرلیں گے وغیرہ وغیرہ تو ہم ایسا کرتے ہیں کہ ان کو امی کے خلاف کر دیتے ہیں اور وہ خود ہی مجبور ہو جائیں گے امی کو طلاق دینے پر ویسے بھی تو کانوں کے کچے ہیں جس نے بھی جو بولا اس کی بات پر عمل کر لیتے ہیں۔۔ان کو ہم یہ کہیں گے کہ امی آپ کے قابل نہیں رہی اور ویسے بھی آپ کے مطابق نہیں رہتی تو آپ امی کو طلاق دے دیں اور ہم سب بچے آپ کے ساتھ رہیں گے اور امی کو جہاں جانا ہو جائے اور امی کو طلاق دینے کے بعد اگر آپ شادی کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور ہم آپ کے ساتھ رہیں گے امی سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔۔۔اور جب وہ امی کو طلاق دے دیں گے۔اس کے بعد بتاؤں گا کہ کیا ہمیں کرنا ہے کم ازکم گھر سے ان لڑائی جھگڑوں سے جان تو چھوٹے گی جب امی ابو الگ ہو جائیں گے تو۔۔۔
آپی”بھائی جتنا آپ آسانی سے یہ سب بول رہے ہیں کیا یہ سب ممکن ہے۔۔
علینہ“ کیوں نہیں ممکن ہے ہو سکتا ہے اگر ہم سب ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو ہم اس جنجال سے نکل پائیں گے۔۔۔ بھائی جو فیصلہ کر رہے ہیں وہ درست ہے ہمارے لئے۔۔
چلو بس آج یہ سب تہ ہو گیا اب ہم آہستہ آہستہ اپنے منصوبے کو انجام دیں گے۔
آپی“بھائی سوچ لیں کہیں ہم کچھ غلط تو نہیں کریں گے ۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ویسے تو میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں مگر اب گھبرا ہٹ میں رہوں گی۔۔
بھائی“اب فیصلہ کیا ہے تو ہم ضرور یہ کام کریں گے اور آپی آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کچھ نہیں ہوگا۔میں ہوں نا آپ لوگوں کے ساتھ کوئی آپ کا بال بھی بَکا نہیں کرسکتا میرے ہوتے ہوئے۔۔۔
اس کے بعد میں نے اور آپی نے مل کر گھر کے کام کاج کیے۔۔ علینہ“ آپی بھائی بول رہے ہیں کہ جب بھی وہ ابو سے بات کرنے لگیں گے تو بات مکمل ہونے کے بعد ہم بھائی کو فون کریں تاکہ بھائی فون کے بہانے وہاں سے اٹھ کر آ جائیں۔آپی”چلو ٹھیک ہے۔
اور تھوڑی ہی دیر میں ابو گھر آئے اور کہنے لگے کہاں ہیں تم لوگوں کی ماں بھائی نے کہا ابو خیریت تو ہے نہ ابو نے جواب دیا ہاں خیریت ہے علینہ کی شادی کی تیاری کر لو میں بات کر کے آ گیا ہوں۔۔۔ہم دونوں بہنیں اندر چلی گئی اور بھائی اور ابو ایک ساتھ بیٹھے اور میں اور آپی چھپ کر بھائی اور ابو کی باتیں سننے لگے اور بھائی نے کہا کہا ابو آج میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں آپ ہمیشہ سے ہی درست کہتے ہیں اور امی نے ہمیشہ غلط ہی کیا ہے آپ نے ان کو ہر طرح سمجھا کر دیکھا مگر وہ آپ کی تربیت کے مطابق نہیں۔۔۔آپ کے دل میں کبھی امی کو چھوڑنے کا خیال نہیں آیا۔۔
ابو“طبیعت تو ٹھیک ہے کیسی باتیں کرنے لگے ہوئے ہو۔۔
بھائی”ابو سچ بتائیں آج آپ مجھے اپنے دل کی بات بتائیں تو سہی میں جاننا چاہتا ہوں آخری امی آپ کو اب تک کیوں نہیں سمجھ سکی۔۔آپ نے امی کو ہر طرح سے سمجھا کر دیکھا لیکن آج تک وہ آپ کے مطابق نہیں چل سکی آخر اس کی وجہ کیا ہے۔۔اور آپ نے انہیں چھوڑ کیوں نہیں دیا ظاہر ہے انسان جب شادی کرتا ہے تو اپنے مرضی کے مطابق چلنے والے انسان کے ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتا ہے نہ کہ ایسا شخص جو آپ کے مطابق کبھی نہ چل سکتا ہو۔۔
ابو“ہاں کبھی غصے میں تو تمہاری ماں کو کہا ہو لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ آج تک میرے مطابق چل ہی نہیں سکی اور میں نے کبھی سوچا نہیں اس کو چھوڑنے کا لیکن ویسے تم نے غلط نہیں کہا۔میں چاہتا تو دوسری شادی کر لیتا مجھے کونسی رشتوں کی کمی تھی۔۔
بھائی“ تو ابو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا آج بھی آپ چاہیں تو آپ شادی کر سکتے ہیں اور ویسے بھی امی نے تو کبھی زندگی بھر آپ کے مطابق چلنا ہی نہیں ہے تو کیا فائدہ اس رشتے کو نبھانے کا آپ امی کو چھوڑ دیں اور ہم سب آپ کے ساتھ رہیں گے آپ دوسری شادی کرلینا اور بس امی چلی جائیں جہاں سے آئی تھی۔۔ہمیں اعتراض نہیں ہیں۔۔آپ جو بھی فیصلہ لیں۔۔ویسے بھی امی کے روز کے غلط اور الٹے سیدھے کاموں کی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑے سے پورا گھر کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے تو اس سے بہتر تو یہی کرنا ٹھیک رہے گا۔۔۔
اتنے میں ہم نے بھائی کو فون کر دیا اور بھائی وہاں سے اٹھ کر کمرے میں آ گئے۔۔
اپنے منصوبے کے مطابق ہم نے اپنا پہلا قدم اٹھا لیا تھا۔۔
ابو نے پانی کے لیے آپی کو آواز لگائی اور آپی ابو کو پانی پلانے کے لئے چلی گئیں۔۔
اتنے میں امی بھی آ گئی اور میں نے بھائی سے کہا کہ دیکھیے گا اب یقیناً ابو امی سے جھگڑے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کریں گے اور آپ کی بات اب ان کے ذہن میں بیٹھ چکی ہے تو اب اسکو وہ ضرور جلد انجام دینے کی کوشش کریں گے۔
بھائی” ٹھیک بول رہی ہو علینہ مگر امی کا دل اس چیز کے لیے بہت خراب ہو گا پر ہمیں یہ کرنا ہوگا کیونکہ آخر وہ کب تک مار کھائیں گی۔۔
ہاں“بھائی آپ بھی صحیح کہہ رہے ہیں مگر ہمارے منصوبے کے مطابق ہوجائے تو پھر ہے۔۔۔
بھائی” تم گھبراؤ مت انشاللہ ہمارے بالکل منصوبے کے مطابق ہوگا۔۔
گھر میں ابھی بالکل خاموشی تھی اور ایسا لگ رہا تھا یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کی نشانی ہے۔۔
ابو امی سے کہنے لگے سنو اپنی بیٹی کی شادی کی تیاریاں کر لو میں بات کر آیا ہوں وہ لوگ تاریخ بتا دیں گے اور تب ہم علینہ کی شادی کر دیں گے۔۔
امی“جب آپ فیصلہ کرہی چکے ہیں تو آپ نے ہی کرنا ہے جو کرنا ہے میں بھلا کیا کر سکتی ہوں۔۔
یہ کہہ کر امی کچن میں کام کرنے لگ گئی۔۔اور ابو بولے ہاں تمہیں کیا تکلیف ہے میری اولاد ہے میں جہاں مرضی ان کی شادیاں کروں تم کون ہوتی ہوبولنے والی۔۔تمہیں بس میں جتنا کہوں اتنا ہی کیا کرو آگے سے زبان چلانے کی ضرورت نہیں۔۔
امی“میں نے کبھی کچھ کہا ہے جو اب کہوں گی۔۔
ابو نے گلاس پکڑا ہاتھ میں جو کھینچ کر دیوار پر مارا اور کہا ہاں آگے سے بولتی جا رہی ہو اور کہہ رہی ہو کہ کچھ کہتی نہیں ہو۔۔
پتہ نہیں کہاں گٸی تھی بچوں کو گھر پر چھوڑ کر امی“میں کہیں نہیں گئی تھی دوائی لینے گٸ تھی بھلا مجھے کہاں جانا ہے۔۔۔
ابو نے کھڑے ہوکر جب دوائیوں کا پیکٹ کھولا تو اس میں جو پرچہ تھا اس پر دو ہزار کا بل لکھا ہوا تھا اور ابو نے غصے سے کہا کہ یہ تمہاری تو بیماریاں ساری زندگی ختم نہیں ہوگی میرے پیسے دوائیوں پر ڈوباتی رہوگی۔۔
اور اس طرح یہ کہہ کر ابو گھر سے باہر چلے گئے اور ان کی یہ بات سن کر امی بہت پریشان ہوئی کیونکہ اکثر ابو امی کو دوائیوں کے لئے طعنہ دیا کرتے تھے کہ جتنا پیسہ تم دوائیوں پر خرچ کرتی آٸی ہو اتنے میں تو بچیوں کا جہیز بن جاتا ہے۔۔مگر ابو کے یہ بات ہمیں ہمیشہ نظر انداز کر دیا کرتی تھی۔۔مگر ہم سب کے دل میں یہ بات کسی تیر کی طرح لگتی تھی پر ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے۔۔
مگر اب جو فیصلہ کیا تھا ہم نے اس مسئلے کا یہی حل تھا۔۔۔۔
شام کا کھانا تیار کرنے کے بعد جب ابو گھر آئے تو ابو نے کہا کہ کل علینہ کی رسم ہوگی اور اس کے لیے وہ ہمارے گھر آئیں گے تو میں مٹھائیاں لے آیا ہوں اور باقی تم لوگو تیاریاں کرلینا کیونکہ ان کے ساتھ ان کے کچھ مہمان بھی آئیں گےاور میرے کپڑے کوئی ڈھنگ کے استری کر دینا۔۔
امی نے ابو کی کسی بھی بات کا جواب نہ دیا۔۔بس اپنا سر ہلا دیا۔۔جبکہ ابوتو موقعے کی تلاش میں تھے کہ کسی طرح کوئی موقع ملے۔۔اور وہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھائیں۔۔
اللہ اللہ کرکے کل کا دن بھی آگیا۔۔آپی نے مجھے تیار کیا اور ہمارے گھر میں ابو کے علاوہ سب ہی اس رشتے کے خلاف تھے مگر کسی کا بھی بس نہیں چل رہا تھا۔۔امی بالکل یہ رشتہ نہیں ہونے دینا چاہتے تھی۔۔ہم سب بس کسی معجزے کی تلاش میں تھے۔۔خوشی ہمارے چہروں پر ذرا نہ تھی۔۔بھائی نے امی کے پاس جا کر امی کو سمجھایا کے آپ ہی ہیں جو یہ سب روک سکتی ہیں۔۔آپ یہ کیوں نہیں کہہ دیتی کہ جس طرح میری ایک بیٹی کی شادی نہیں ہونی تو دوسری کی بھی نہ ہو یہ کام کسی پاگل کو دینے سے بہتر ہوگا۔۔اس کے علاوہ آپ یہ بول سکتی ہیں کہ آپ ساری زندگی نہیں بولی پر آپ اپنی بیٹیوں کے حقوق کے معاملے میں پیچھے نہیں ہٹو گی۔۔بھائی نے امی کو اس طرح سے پکا کر دیا کے اب وہ چپ نہیں رہے گئی ہمیں اس بات کا یقین ہو گیا تھا۔
مہمانوں کے آجانے کے بعد مجھے ایک صوفے پر بٹھایا گیا تھا۔۔اور کچھ ہی دیر میں دلہا کو بھی میرے ساتھ بٹھا دیا گیا۔۔وہ اپنی حرکتوں سے تھوڑا سا پاگل پن دکھا رہا تھا جس کی وجہ سے مہمانوں میں چند لوگ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ لڑکی والوے دولت کی خاطر اپنی بیٹی کو ایک پاگل کے حوالے کر رہے ہیں۔۔میری امی اور بھائی کو یہ بات برداشت نہ ہو رہی تھی بھیا نے امی کو اشارہ کیا کہ آج نہیں بولیں گے تو کبھی بھی نہیں بھول سکے گی۔۔
جیسے ہی امی بولنے والی تھی کہ اچانک سے ایک شخص جو منہ پر ایک نقاب ڈالے۔۔باہر کی جانب سے داخل ہوا اور زور سے آواز لگائی کے کچھ بھی کرنے سے پہلے سب کے سب وہیں پر رک جائیں۔۔اس کے ہاتھ میں ایک پستول بھی تھا اور ڈر کے مارے سب گھبرا گئے۔۔پھر اس نے کہا کہ میں یہاں کسی کو کوئی نقصان پہنچانے نہیں آیا۔۔بس آپ سب کو کچھ دکھانا چاہتا ہوں خاص طور پر انکل آپ کو اس نے ابو کو اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔ابو نے کہا آخر تم کیا دکھانا چاہتے ہو اور اس طرح سے ہم سب کو روکنے کا کیا مقصد ہے تمہارا۔۔میرا مقصد کچھ نہیں ہے میں آپ کے لئے ایک ایسا ویڈیو لے کر آیا ہوں۔۔جسے آپ دیکھنے کے بعد خود کو کوسنے لگے گے کہ آپ اپنی بیٹی کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔۔
ساس“تم یہاں سے جاتے ہو کہ میں پولیس کو فون کرو۔۔
نقاب پوش“ایک بات آنٹی گن میرے ہاتھ میں ہے اور آپ نے ھلنے کی بھی کوشش کی تو اس گن کو چلانے مِیں
مَیں زیادہ دیر نہیں لگاؤں گا۔
انکل یہ جو آپ کے سامنے ایل سی ڈی اے ہے یہ چلتی ہے کہ نہیں۔۔
ابو“ہاں چلتی ہے کیوں۔۔۔؟
نقاب پوش“ تو بس آن کریں میں آپ سب کوکچھ دکھانا چاہتا ہوں۔۔
جیسے ہی ابو نے ایل سی ڈی ان کی اور اس میں اس نقاب پوش نے سی ڈی ڈالی اور وہ سی ڈی جب اَن ہوئی تو اس میں مناہل دانیال کے ساتھ کھڑی یہ کہہ رہی تھی کہ میں نے ہی اپنی امی کے ساتھ مل کر علینہ کو جان بوجھ کر اپنے جال میں پھنسایا تھا علینہ نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا۔۔دانیال کہہ رہا تھا تم نے کیا کیا تو مناہل نے جواب دیا کہ ہوا کچھ ایسے تھا کہ جب میں نے اور امی نے دیکھا کہ علینہ سونے کے لئے جگہ تلاش کر رہی ہے تو امی کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔۔جس کو ہم لوگوں نے کامیابی سے انجام بھی دیا۔۔۔میں نےکَیا
کِیا کہ میں علینہ کے پاس گٸی اور اس سے کہا کہ چلو نہ ہم ہم ساتھ میں سو جاتی ہیں تو آجاؤ وہ ایک کمرہ خالی ہے ہم دونوں مل کر سو جائیں گی اس بہانے سے میں اس کو اپنے ساتھ لے گئی اوراُسے اسکےامی ابو کو بھی بتانے نہ دیا۔۔اور جب وہ میرے ساتھ گہری نیند میں سو گئی۔۔تو امی ہمارے منصوبے کے مطابق ہمارے کمرے کے دروازے کو ہلکے سے بجا کر مجھے اٹھا لیا اور میں اٹھ کر باہر چلی گئی جب کہ میری جگہ پر میں نے اپنے بھائی کو لٹا دیا۔۔اور میرے کہنے کے مطابق جب سب اس کے کمرے میں آئے۔۔تو اس کو بھائی کے ساتھ بیڈ پر لیٹے دیکھ کر کسی نے بھی اس پر یقین نہ کیا بلکہ میری بات کو اہمیت دی اور اس طرح سے اس کا پہلی جگہ پر ہوا رشتہ ختم ہو کر میرے بھائی سے ہوا۔۔۔
ساس“بند کرو فضول کی ویڈیو ہے ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا میں نے اور میری بیٹی نے یہ ہم پر الزام ہے ۔۔
نقاب پوش“انٹی میں پورا ثبوت کے ساتھ ہی آیا تھا تاکہ سب کو میری بات پر یقین ہوجائے۔۔
نقاب پوش کا چہرہ جب دکھا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ جس سے میرا پہلے رشتہ ہوا تھا وہ تھا۔۔
صاحل تم سب نے حیرت سے کہا۔۔۔
ساحل ہاں میں ہوں۔۔میں نے بہت بڑی غلطی کردی انکل آپ کی بیٹی پاکیزہ ہے اور اس کو صرف بدنام کیا گیا اور میں بہت بد نصیب ہوں۔۔کہ میں نے ایک صاف دل والی لڑکی کو کھو دیا جس کا دامن پاکیزہ ہےاپنی ایک غلطی کی وجہ سے میں نے اسے کھودیا۔۔۔لیکن اگر آپ چاہیں تو میں علینہ کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔
ابو“اب جو ہونا ہے ساحل ہوچکا ہے لیکن اب اس کی شادی ہو رہی ہے جس کے ساتھ اب اسی کے ساتھ یہ شادی ہو کر ہی رہے گی۔۔اس ویڈیو سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔اب تم یہاں سے چلے جاؤ ۔۔۔ساحل ابو کی بات سن کر واپس چلا گیا۔
امی“آپ کو فرق نہیں پڑتا ہوگا لیکن مجھے پڑتا ہے بہت ہوگیا۔۔میری بیٹی پر پہلے تو الزام لگایا اور اب جب یہ الزام صاف ہو گیا ہے تو آپ اب بھی چاہتے ہیں کہ میں اپنی بیٹی کی شادی ایک پاگل سے کردو تو یہ ہرگز نہ ہونے دوں گی۔۔
ابو“تم وہی سائیڈ پر کھڑی رہوں تمہارا کوئی حق نہیں ہے میرے بچوں کے معاملے میں بولنے کا میں جو مرضی کرو تم کون ہو۔۔زیادہ بات کرنے کی کوشش کی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔۔
امی“میں اسکی ماں ہوں اور میرا پورا حق ہے اس کے لئے کا میں اس دن چپ ہوگئی تھی جب آپ نے اپنی بیٹی پر یقین کرنے کی بجائے ان لوگوں پر یقین کیا تھا۔۔اب جب سچ سب کے سامنے آچکا ہے تو میں چپ نہیں بیٹھوں گی اور جہاں تک طلاق کا معاملہ ہے تو آپ نے دینی ہے تو دے دیں مگر میں اپنی بیٹی کے حق کے لیے پیچھے نہیں ہٹو نگی۔۔۔
اس لڑائی کے بیچ ل بھائی امی ابو کے درمیان آنے کی بجائے کسی سے فون پر بات کر رہا تھا اور پھر ابو نے غصے میں آکر امی کو طلاق دے دی۔۔اور ابو جب امی کو دھکے دے کر گھر سے نکالنے لگے تو بھائی نے امی کا ہاتھ پکڑلیااور ابو کے سامنے کھڑے ہوگئے اب آپ میری ماں کو ایک لفظ نہیں کہیں گے۔۔ہم سب بچوں کا آپ سے رشتہ ختم ہوگیا ہے۔ابو حیرت سے بھائی کو دیکھ رہے تھے اور جب ابو بھائی پر ہاتھ اٹھانے لگے تو بھائی نے ابو کا ہاتھ پکڑ لیا ہو اور کہا کے اگر اب دوبارہ آپ نے ایسی کوئی حرکت کرنے کی کوشش کی تو میں بھول جاؤں گا کہ آپ سے میرا کوئی رشتہ ہے اور میں آپ کے خلاف رپورٹ درج کروا دوں گا۔۔اور پھر بھائی نے کہا کہ یہاں کھڑے مہمانوں کا بہت شکریہ سب یہاں سے جا سکتے ہیں یہ رشتہ اب نہیں ہوگا۔۔
ابو بولے ایسا نہیں ہوسکتا تم کون ہوتے ہو میری بیٹیوں کا فیصلہ کرنے والے اتنے میں پولیس بھی آگئ اور بھائی نے کہا کہ میں آپ کو فون کیا تھا۔بھائی نے ابو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جو اپنی بیٹی کا کسی پاگل لڑکے کے ساتھ نکاح کرنے والا ہے۔پولیس کو دیکھتے ہی سارے رشتہ دار رفوچکر ہوگئے۔۔جبکہ پولیس نے ابو کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔بھائی اندر سے اپنا سامان جو ہم نے رات سے ہی پیک کرکے رکھا تھا لیکر آیا اور ابو ہم سب کو کہہ رہے تھے کہ تم لوگ اچھا نہیں کر رہے اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا جب کہ بھائی نے کہا کہ آپ نے جتنے ظلم کرنے تھے کرلیے۔۔نا تو آپ کا ہماری ماں سے کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی ہم سے کوئی تعلق ہے۔۔اب ہم آپ سے ہمیشہ کے لئے اتنی دور چلے جائیں گے کہ کبھی بھی آپ ہم تک نہیں پہنچ پائیں گے۔۔پولیس والے ابو کو لے گئے۔۔جب کے ہم سب ایک دوسرے کے گلے لگے۔امی نے روتے ہوئےبھاٸی سے کہا کہ بیٹا اب تم ہی ہمارا سہارا ہو۔۔جو بھی کرنا ہے تم نے کرنا ہے۔۔۔بھائی نے کہا جلدی سے تیاری کر لو ہمیں جلد سے جلد ہے یہاں سے نکلنا ہوگا۔۔دو پولیس کے محافظ ہمارے ساتھ ہی موجود تھے۔۔ہم لوگ اپنے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے کہ اتنے میں ہمارے باہر کا دروازے پر ایک عورت کھڑی تھی جو اندر آئی پولیس والوں نے پوچھا کیا کام ہے تو اس نے کہا کہ میں دانیال کی امی ہوں۔۔جب پولیس والے نے ہم سے سوال پوچھا کہ آپ لوگ دانیال کو جانتے ہو تو سب نے انکار کیا تو آنٹی نے کہا کہ آپ لوگ اپنی بیٹی علینہ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ وہ جانتی ہے کہ نہیں۔۔بھائی نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا ہاں میں جانتی ہوں۔۔پھر آنٹی اندر آئی اور ہمارے پاس آکر کہا علینہ تم سچ سچ بتانا تمہیں میرا بیٹا دانیال پسند ہے کہ نہیں۔۔اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے یاد رکھنا اس نے تمہیں دھوکا نہیں دیا بلکہ یہ ویڈیو بنانے والا وہ ہی تھا۔۔یقین نہیں ہوتا تو اپنے کزن صاحل سے پوچھ لو۔۔تو امی نے مجھ سے سوال کیا واقع ہی تم دانیال کو پسند کرتی ہو تو مجھے بتاؤ میں تمہاری شادی کرواؤں گی۔۔میں نے اپنی امی کو گردن ہلاکر ہاں کہا تو دانیال کی امی نے بھی دانیال کو اندربلوالیا۔۔پھر میری امی اور دانیال کی امی نے ہم دونوں کا رشتہ پکا کیا اور پھر دانیال کی امی نے کہا کہ ہم لوگ لاہور سے آئے ہیں تو ہم سب ابھی کے ابھی لاہور چلے جائیں گے تاکہ کوئی بھی مسئلہ پیش نہ آئے اور اس طرح سے ہم سب مل کر لاہور چلے آتے ہیں۔۔سفر کے دوران میں اور دانیال ایک دوسرے کے درمیان پیدا ہونے والی تمام غلط فہمیوں کو دور کر لیتےہیں۔لاہور جا کر آپی کے لیے رشتہ دیکھا جاتا ہے اور پھر میری اور آپی کی ایک ہی دن شادی کردی جاتی ہے۔۔اور اس طرح ہم دونوں بہنیں اپنے خاندان والی رسم کے بھینٹ چڑھنے سے بچ جاتی ہیں۔۔

Ayesha Gulzar Malik
About the Author: Ayesha Gulzar Malik Read More Articles by Ayesha Gulzar Malik: 2 Articles with 4670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.