حقیقت کی جستجو

اس کہانی کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے بلکہ ہمارے ملک و قوم میں بسیرا کی ہوئی ذات پات کی ظالمانہ رسم و رواج کو ختم کرنا ہے۔

آج میرا ٹی وی میں پہلا انٹرویو ہے۔اس لیے گھر سے وقت پر نکلنے کے لیے میں صبح5 بجے ہی اٹھ گئی تھی ۔صبح کی نماز پڑنے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کی اور بُرخا پہنا اور سیر کے لیے نکل گئی۔آپ نے سیر مکمل کرنے کے بعد میں گھر پر پہنچی تو ،میرے نوکروں نے ناشتہ تیار کر دیا ہوا تھا۔میں نے ہاتھ دھوئے اور ناشتے کی ٹیبل کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی ۔میں ناشتہ شروع کرنے والے تھی۔کہ میرے فون کی گھنٹی بجی اور میں نے اپنا فون اٹھایا تو یہ میرے شوہر کی کال تھی۔ ۔میں نے جٹ سے فون کے یس والے بٹن کو دبیا۔میں نے السلام علیکم کہا تو آگے سے وعلیکم سلام کے جواب کے ساتھ ہی میرے شوہر کمالنے کہا کے کیا ۔فیصلہ ہے تمہارا کیا آپ آج انٹرویو دینے جا رہی ہو۔! کہ نہیں جا رہی میں نے آپ کو منانے کی بہت کوشش کی ہے کہ آپ انٹرویو دینے جاؤ اب آگے آپ کی اپنی مرضی ہے۔۔ویسے آپ کو جانا چاہیے ۔تو میں نے کہا ہاں جی میں جا رہی ہوں۔۔بھلا میں آپ کی بات کو کیسے انکار کر سکتی ہوں۔آپ بھی میرے ساتھ ہوتے تو مجھے اچھا لگتا مگر اب آپ کو کام ہے میں کیا کہہ سکتی ہوں۔۔ آپ دل چھوٹا مت کرو بس میں ایک دو دن میں آنے والا ہوں۔آپ کیا کر رہے ہیں۔۔بس میں کچھ نہیں کر رہا میں فریش ہونے کے لئے اٹھنے لگا ہوں ۔آپ کیا کر رہی ہو میں نے کہا کہ میں ناشتہ کر رہی ہوں اور پھر تیار ہو کر نکلنے والی ہو ں ۔چلو ٹھیک ہے میں آپ سے اب انٹرویو کے بعد ہی بات کروں گا ۔اب میں فون رکھتا ہوں اللہ حافظ ۔۔۔اس کے بعد میں نے میری ٹیبل پر رکھا ایک گلاس کا پانی اٹھایا اور پانی پینے کے بعد میں نے ڈبل روٹی اٹھا کر اس پر ہلکا پھلکا مکھن لگایا اس ایک سلائس کو کھانے کے بعد میں کھانے والی جگہ سے اٹھ کر اپنی نوکرانی کے پاس گئی۔۔ اسے کہا یہ کھانے کا سامان اٹھا کر فریج میں رکھ دیں۔۔ اور جب گھر جانے لگو تو اس کھانے کو اپنے ساتھ لے جانا اپنے بچوں کو دے دینا میری طرف سے ۔پھر میں اپنے کمرے کی طرف گئی اپنا پریس کیا سوٹ اٹھا کر کپڑے چینج کیے۔۔۔اس کے بعد میں نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور ڈرائیور کی بجائے خود کار کو چلا کر انٹرویو کے لیے نکل پڑی۔۔کچھ ہی دیر میں پہنچ گئی۔ جہاں مجھے انٹرویو دینا تھا۔۔وہاں کھڑے سب لوگ پہلے سے انٹرویو کی تیاری کیے بیٹھے تھے۔۔ بس میرا ہی انتظار ہو رہا تھا ۔۔میں نے اپنی گاڑی کو ایک سائیڈ پر لگایا اور چابی پرس میں رکھ کرآگے بڑھی۔۔وہاں کھڑی ایک لڑکی میری طرف آئے اور اس نے مجھے کہا کہ میم آپ یہاں آ کر بیٹھ جائیں ابھی مس ثنا آتی ہوگی۔۔میں آپ کے پینے کے لئے کچھ لے کر آتی ہوں۔۔نہیں بہت شکریہ مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے۔۔اتنے میں ثنا بھی آ گئی اور پھر میرا انٹرویو شرو ع ہوا۔۔ جس میں ثنا نے آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ہمارا شو یہ کہانی ہے میری ۔۔جس میں آج میرے ساتھ بہت ٹیلنٹڈ ایکٹرس موجود ہے۔ جس کے ساتھ کریں گے گپ شپ اورجانے گے ان کی زندگی کی کہانی۔۔آپ لوگ کو سن کر حیرانی ہوگی کہ انہوں نے اپنے پانچ سال ایکٹنگ کے کریئر میں کبھی بھی کوئی ایک انٹرویو اپنے بارے میں نہیں دیا۔۔سب سے حیران کرنے والی بات یہ کہ جب یہ اپنی شہرت کی بلندیوں پر تھی تو اِنہوں نے اپنے کر یئر کو خدا حافظ کہہ دیا یہ سب جاننے کے لیے ہمارے ساتھ بنے رہیں ۔ بہت ساری تالیوں کے ساتھ میرے ساتھ موجود ہے ۔۔ کرن۔
ثنا:- آپ نے اپنے بارے میں کتاب لکھی ہے جو کے ابھی میرے شو کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچے گی۔۔مگر ایک بات ہے آپ چاہتی تو مارکیٹ میں اپنی کتاب کو پبلش کرواسکتی تھی لیکن آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟
کرن:- آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں میں چاہتی تو کتاب کو پبلش کروا لیتی لیکن میں نے اس کو اپنے ہاتھوں سے لکھا ہے۔وہ اس لیے کیوں کہ میں چاہتی تھی کہ دنیا والوں کو اپنی کہانی میں اپنی زبانی سناؤ۔۔

۔ثنا-:جی کرن تیار ہیں آپ سب دیکھنے والوں کو اپنے بارے میں بتانے کے لیے ۔۔
یہ کہانی ہے میری میں کہانی کی شروعات کرتے ہیں۔چلیں تو بتائیے آپ کا نام کیا ہے کیا انڈسٹری میں آنے کے بعد آپ نے اپنا نام تبدیل کیا اور آپ کہاں سے ہیں آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی اور آپ یہاں تک کیسے پہنچی۔۔ایک ایکٹرس سے آپ ایک عالمہ بنیں تو یہ بدلاؤ آپ میں کیسے آیا ۔۔ میرا نام کرن ہے۔اور یہ میرا نام میری ماں نے رکھا تھا اس لئے میں نے کبھی بھی اپنے نام کو بدلنے کا نہیں سوچا ۔میں ایک دیہات میں رہتی تھی۔۔ایک عام سی لڑکی تھی مجھے پڑنے کا شوق بالکل بھی نہیں تھا۔۔لیکن میں اپنے گھر اور خاندان کی رسومات سے بچنے کے لئے پڑنے کی کوشش کرتی۔۔ہمارا پورا خاندان ایک ہی گھر میں رہتا تھا۔۔ہمارے گھر میں داخل ہونے کے لئے ایک گیلری سے گزرنا پڑتا تھا۔۔۔جس میں اگر لائٹ نہ ہوتی تو اس قدر اندھیرا ہوتا کہ اگر کوئی انجان شخص ہمارے گھر آتا تو اس کی چیخیں تک نکل جاتی تھی۔۔سب کو حصے کے مطابق دو دو کمرے ملے ہوئے تھے۔۔ سب سے پہلے مہمانوں کے دو کمرے اسکے بعد دادی کے کمرے آتے جس میں دادی ایک ہی کمرے میں رہتی اور دوسرا کمرہ اس لئے استعمال کیا جاتا جب کوئی بڑا خاندان کا فیصلہ ہوناہوتا۔۔
تو سب وہی جمع ہو کر دادی کا حکم سنتے تھے۔۔اس کے بعد چاچو کے کمرے آتے اور پھر ہمارے دو کمرے ، اس کے بعد منجلے چاچو کے کمرے اور ایک پوشن پھوپھوں کے لیے رکھا ہوا تھا۔جب وہ ملنے آتی تو وہیں رہتیں۔
ثنا:۔تو آپ کی اتنی بڑی فیملی یعنی سارا خاندان ایک ہی گھر میں ایک ہی جگہ رہتا تو کتنا مل جل کر رہتے ہونگے۔۔۔
ثنا:اس بات کو سمجھانے کے لیے یہی مثال کافی ہے۔۔کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔دور سے دیکھا جائے تو لوگ یہی کہتے تھے کہ اتنا بڑا خاندان کے ساتھ رہتا ہے پتا نہیں کتنی خوشحالی ہوگی مگر بات اس کے برعکس تھی۔یہ تو جو ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں انہیں اس چیز کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس مجبوری کی وجہ سے ایسا کر رہے ہوتے ہیں۔۔
آپ اپنی میری یا کسی بھی عورت کی مثال لے لیں عام طور پر ہر عورت چاہتی ہے کہ وہ اپنے گھر کا نظام خود چلائے۔۔اور ہمارے ہاں یہ حال تھا۔۔میری امی کو چاچی کو یا کسی کو بھی دادی کا فیصلہ اگر ناگوار گزرتا۔۔تو کبھی کسی مرد نے کوشش نہیں کی کے اس فیصلے میں تھوڑی بہت تبدیلی ہو جائے جس سے دادی کو بھی کوئی پریشانی نہ ہو اور نہ دوسروں کو،فیصلے کے درمیان سے لے کر فیصلہ ہونے تک سب وہاں ایسے بیٹھے ہوتے جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔۔اکثر امی اور چاچی فیصلہ کرتیں کہ ہم لوگ اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں گئی۔۔
وہ جانتی تھی کہ وہ اکیلے اپنے حق کے لیے نہیں لڑ سکتی اور ان کے شوہر کبھی بھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے اس معاملے میں۔
مگر جب دادی کو سب سامنے پاتی تو سب کی ہوا ٹائٹ ہو جاتی۔۔اور ان کے سارے ارمان مانو کسی مٹی میں دفن ہو جاتے۔
ثنا:اور آپ کے دادا نے کبھی کچھ نہیں کہا۔۔۔ کرن:-میرے دادا بھلا کیسے کچھ کہتے تھے۔یہ ذمداری انھی نے تو دے رکھی تھی۔۔ اور ثنا اب جو میں آپ کو بتانے جا رہی ہوں نہ ہمارے لیے سب سے زیادہ غم زدہ بات تھی۔۔۔
میں ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔۔جہاں بیٹیاں پیدا ہونے پر دکھ نہیں منایا جاتا بلکہ بیٹے پیدا ہونے پر افسوس کیا جاتا۔۔یہ بات سننے میں بہت عجیب ہے۔۔ کیونکہ آج کا دور ایسا ہے کہ بیٹیاں نہیں لوگوں کو بیٹے چاہیے ہوتے ہیں۔۔میں ایک پٹھان فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔۔ہمارے ہاں پٹھانوں کی بھی طرح طرح کی ذاتیں ہیں۔۔ لیکن ہم اس ذات سے تعلق رکھتے تھے۔۔جہاں بیٹیوں کو شادی کے نام پر بیچا جاتا تھا۔۔اور بیٹا ہونے پر اس لئے دکھ مانا جاتا۔۔اب جس طرح بیٹیوں کو بیچ کر پیسے لیے جاتے تھے۔۔اسی طرح بیٹے کی شادی کے لیے لڑکی خریدنا پڑتی تھی۔۔
ثنا:-میں اس بارے میں تھوڑا بہت جانتی ہوں مجھے اندازہ ہے۔۔۔میری بھی ایک دوست پٹھان تھی .وہ لوگ بہت آزاد خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس میں عورتوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔۔البتہ اس نے مجھے اس بارے میں بتایا تھا کہ پٹھانوں کی بھی کٸیں ذاتیں ہوتی ہیں مگر ان میں شاید دو یا تین ذات ایسی ہوتی ہیں جو یہ کام کرتے ہیں۔۔۔تو آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کتنی بہنیں تھیں۔۔
کرن:میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور میرے دو بھائی مجھ سے چھوٹے تھے۔۔
اب جہاں ہم تعلیم یافتہ معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں یہ قاعدہ ہے۔۔اگر ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہوجائے تو فیملی کو مکمل سمجھا جاتا ہے۔۔جبکہ ہمارے خاندان کی رسومات بالکل اس سے الگ تھلگ ہیں۔۔اتنے کم بچے ہونے کی وجہ سے میری ماں کو سب کی باتیں سننا پڑتی تھی۔۔امی ہمیشہ ان باتوں کو برداشت کرتی۔۔ ابو کی دوسری شادی کے لئے سب فورس کیا کرتے تھے ابو کو بس یہ وجہ تھی کے بچے بہت کم ہے آپ اس سے اندازہ لگا لیں تین بچے ہونے کے باوجود بچوں کی تعداد کم تھی۔۔۔ 10 سے 12 بچے ہوں اور ان میں لڑکیوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتو ہی مانا جاتا کے بچے ہیں۔۔
اسی طرح میری ماں نے اپنی ساری زندگی بس یہی سن سن کر گزاری کہ تم نے ہمارے خاندان کو نہیں بڑھایا۔۔۔وہ ہمیشہ سب کی باتیں برداشت کرتی رہی۔۔
جب میں شاید پانچویں جماعت کی طالب علم تھی۔۔۔تو ابو اکثر مختلف علاقوں میں کام کے سلسلے سے جایا کرتے تھے۔۔۔اتفاق سے ابو کا کام حیدرآباد میں اچھا لگ گیا۔۔تو جہاں وہ کام کر رہے تھے۔۔وہی ایک شخص جو ابو کے ساتھ کام کرتا اور ابو کا دوست بھی تھا۔۔وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ حیدرآباد میں ہی شفٹ ہو گیا۔۔اسی شخص نے میرے ابو کو سمجھایا۔۔اور کہا کے بھئی جب محنت ادھر کرنی ہے۔۔کما کر گاؤں لے کر ہی جانا ہے۔۔جہاں نہ تو کوئی سہولت ہے اور نہ ہی تم اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکتے ہو۔۔۔ اس سے بہتر یہ نہیں کہ تم بھی ادھر اپنے بیوی بچوں کو لے آؤ۔۔۔
اچھی تعلیم و تربیت دو اپنے بچوں کو،اس کی یہ بات شاید میرے ابو کے دل میں گھر کر گئی تھی۔۔۔اس کے کافی اسرار کی وجہ سے ابو گاؤں سے ہمیں حیدرآبادلے آئے۔۔زندگی کا وہ ڈیڈ سال ہم نے بہت ہی اچھا گزارا تھا۔۔ہم جب حیدرآباد آئے تو ہمیں اردو بولنا تک نہیں آتا تھا۔۔ہم نے اردو سکھا۔گھر میں سکون ہو گیا تھا کبھی کوئی جھگڑا نہ ہوا۔چھٹی جماعت کے پیپر دینے کے بعد ہم چھٹیاں گزارنے کے لیے گاؤں گۓ۔۔میرا گاؤں جانے کا دل بالکل بھی نہیں کرتا تھا۔۔مگر ابو کے بڑے بھائی نے بولا تو ابو نے کہا کے چلے ہی جاتے ہیں۔۔جب ہم وہاں گئے تو تقریبا ہم نے ایک ہفتہ گزارا میرا وہاں بالکل بھی من نہیں لگتا تھا۔۔جس لڑائی جھگڑے سے ہم ڈیڑھ سال سے بچے ہوئے تھے پھر سے وہ جھگڑے شروع ہوگئے تھے۔دادی اپنے دل کی بات کبھی بھی خود نہ کہتی بلکہ چاچو کے ذریعے کرواتی تھی۔۔آخر میں نے ایک دن اپنی امی سے کہا کے اب ہم کب جائیں گے۔۔میں یہاں نہیں رہنا چاہتی۔۔تو میری امی نے مجھے بتایا کے اب ہم کبھی نہیں جائیں گے۔تو یہ سن کر میں رونے لگی ۔پھر میری امی نے کہا چپ ہوجاؤ میں نے اپنی پوری کوشش کر لی ہے کے ہم واپس جائیں۔۔۔ مگر تمہارے ابو نے کہا کے اگر تم جانا چاہتی ہو تو جاؤ مگر یاد رہے، پھر تمہا را میراکوئی رشتہ نہیں رہے گا اور میں دوسری شادی کر لونگابچے بھی میرے ساتھ ہی رہے گۓ۔۔تو اب بتاؤ مجھے کہ اور کوئی راستہ رہ گیا ہے ہمارے پاس،میں بھلا اکیلی کہاں جاؤں گی۔۔شادی کے دو سال بعد میں اپنی امی ابو کے گھر گئی۔۔ وہ بھی جب میری امی کی طبیعت خراب ہوئی۔۔میری امی ہمارے رسم و رواج کو بہت نا پسند کرتی تھی۔۔ اور وہ یہی چاہتی تھیں کہ ان کی ایک ہی بیٹی ہے تو وہ ان رسموں سے کسی طرح بچ جائے۔۔۔
دادی نے میری امی کو سبق سکھانے کے لئے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ اب میرے ابو کی شادی کروا دیں گی
آخر وہ دن آیا کہ جس میں ابو نےدادی کا فیصلہ مان لیا کہ وہ دوسری شادی کر لیں گے۔میرے ابو کو امی نے سمجھایا کہ اب بچے ہونا تو کسی کے بس کی بات نہیں اللہ جسے چاہے دے اور جسے چاہے نہ دے۔جن کے پاس نہیں ہوتے اور وہ تو ترستے ہیں مگر ہمیں تو اللہ نے تین بچے دیے ہیں ۔مگر ابو اور خاندان والے کہا سمجھنے والے تھے اس بات کو۔
اور یہی بات میری امی نے اپنے ابو کو بتایا تو آگے ان کو ایسا جواب ملا جس سے وہ لاجواب ہو گئی۔۔میرے نانا نے میری امی کو کہا تھا کہ کوئی بات نہیں اگر دوسری شادی کر رہا ہے تو اچھا ہے۔۔تم لوگ کا خاندان بڑھے گا۔اور ویسے بھی اب تم ان لوگوں کی ہوچکی ہو تو جو وہ راستہ اختیار کرنے کے لئے بولیں گے تمہیں وہی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔اور میری امی روتی ہوئی مجھے کہنے لگی کے ہاں اب تو وہ میرے پیسے لے چکے ہیں تو ان کو میرے درد کی کیا پرواہ ۔ نانا ابو کی بات سن کر میری امی اندر سے ٹوٹ گئی تھی۔اس بات سے میری امی کے ذہن پر بہت گہرا اثر پڑا۔پھر وہ بیمار رہنے لگ گئی تھی۔۔
میرے ابو کے لیے دادی رشتے تلاش کر نے لگ گئی تھی۔۔مگر ہوا یہ کے میرے دادا کا انتقال ہوگیا جس وجہ سے یہ بات رفع دفع ہوگئی۔پورا خاندان غم میں تھا حتیٰ کہ میری ماں کو بھی اس چیز کے لیے بہت دکھ تھا لیکن میں بہت خوش تھی۔۔کیونکہ مجھے یہ لگتا تھا کہ یہ دادی کے ساتھ اس لیے ہوا کیوں کے وہ میرے ماں باپ کو الگ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔ان کے ساتھ جیسا کرو گے ویسا بھرو والا معاملہ ہوا پھر۔
دو سال تک تقریبا یہ معاملہ دبا رہا۔مجھے سچ بتاؤں تو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔میری ماں نے کتنی راتیں کتنے دن رو کر گزارے اس کا اندازہ صرف مجھے ہے۔ اور میری امی تو خاص طور پر یہ کبھی نہیں چاہتی تھی کہ جو وقت انہوں نے دیکھا ہے اس کی ایک اکلوتی بیٹی اس قرب سے گزرے۔اپنے خاندان کے یہ حالات دیکھتے ہوئے میں بہت پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ میں بالکل بھی ایسی رسموں کے ذریعے شادی نہیں کروں گی۔کیوں کے یہ انسانی فطرت ہے۔کہ انسان
خریدی ہوئی چیز کی قدر تب تک ہی کرتا ہے جب تک اسے خرید نہ لے۔میں بھی ان رسم و رواج سے بچنا چاہتی تھی۔ہمارے پاس راستہ کوئی نہیں تھا لیکن کہیں نہ کہیں ایک یقین جو اپنے رب پر تھا کہ وہ کوئی نہ کوئی دروازہ ضرور کھولے گا۔۔بس اسی یقین کی وجہ سے آج میں آپ کے سامنے ہوں۔۔
ثنا:تو یہ بتائیں جس گھر میں رہنا اتنا مشکل تھا تو آپ یہاں تک کیسے پہنچ گئی ۔
کرن ۔جب میں نائن کلاس کے امتحانات دے رہی تھی۔تو ایک پیپر کے دوران میری ماں کا انتقال ہو گیا تھا۔وہ بیمار رہتی تھی ان کی زیادہ طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ خالق حقیقی سے جا ملی تھی۔اور ان کی طبیعت خراب ہونے کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ تھی۔وہ یہ کہ دادی کا مکمل طور پر اپنے ہوش و حواس میں آجانا۔میری امی کو یہی غم کھا گیا کہ پتہ نہیں کب یہ فیصلہ ہو جائے کہ اب ان کے شوہر کی شادی کسی دوسری عورت سے کی جا رہی ہے۔جس دن میری ماں کا انتقال ہوا وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتی اس دن صبح میں اپنی ماں کی دعا کے ساتھ پیپر دینے کے لیے نکلی تھی۔امی کی زیادہ طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے پیپر دینے جانے کے لیے بالکل بھی من نہیں تھا۔۔ لیکن امی نے مجھے سمجھایا کہ جاؤ تمھارا بورڈ کا پیپر ہے۔ تمہیں دینے جانا چاہیے اس لیے میں پیپر دینے چلی گئی۔ لیکن جب میں واپس آئی تو میری امی کا انتقال ہو چکا تھا۔میں اس دن بے انتہا روی۔۔
ثنا :- آپ کی امی کے ساتھ آپ کی اور کیا بات ہوئی۔۔
کرن :-زیادہ تو نہیں بس مجھے اتنا ہی کہ پیپر دینے جانے کیلئے وہ سمجھا رہی تھی۔۔کہ پورے سال کی محنت ضائع ہوجائے گی۔۔مگر اب سوچتی ہوں کہ سال ضائع ہو بھی جاتا تو کچھ نہ تھا لیکن مجھے وہ دن اپنی ماں کے ساتھ دوبارہ نہیں ملنا تھا۔میرے لیے وہ وقت بہت مشکل تھا۔
ثنا۔۔ہاں آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں ظاہر ہے وقت جس پر گزرتا ہے اس وقت کی تلخ تکلیف وہی جان سکتا ہے باقی تو صرف اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ثنا:-اس کے بعد آپ کی زندگی میں کیا ہوا آپ آج وہ سب بتائیں میں اب آپ کی بات میں بالکل بھی دخل اندازی نہیں کروگی۔۔
ماں کے جانے کے بعد میں بالکل اکیلی ہو چکی تھی میرے پاس کوئی بھی راستہ نہیں تھا۔میری دادی کو تو اب اب موقع مل گیا تھا ابو کی شادی کا میری دادی چاہتی تھی ۔میری پڑھائی روک کر میری شادی کر دی جاۓ۔۔اور اسکے بعد میرے والد کی شادی ہوجاۓ۔میرے خاندان والے بھی ایسے بدلے تھے۔۔سب نے گرگٹ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔۔خیر میں انکو تو قصور وار تب ٹھہر آتی جب میرے ابو میرا ساتھ دیتے مگر میرے ابو بھی انکی ہی فہرست میں شامل تھے۔
۔ہمارے ہاں سارے فیصلہ بڑے کرتے۔۔بچے جتنے بھی بڑے ہوجاۓ کسی کو بولنے کا حق نہیں تھا۔مجھے لگتا ہے کے سب کھٹپتلی کی زندگی گزار رہے تھے۔
ثناء:- اچھا مجھے یہ بتائیں کے آپ اپنے گھر سے نکلی کیسے؟؟
کرن:- ہوا کچھ یوں تھا۔۔کہ میرا رشتہ دیکھا جارہا تھا۔اور اسکول چھوٹ گیا تھا۔میں نے منجلے چاچو کی بیوی کو بہلا پھسلا کر ایک دن کے لیے اسکول جانے کی اجازت لے لی تھی۔

رات میں جب سب سوئے تو میں نے اٹھ کر چپکے سے اپنا بیگ پیک کیا سیڑھیوں سے اوپر چڑھی اور چھت پر گئی۔ ہمارے چھت کے دوسرے جانب ایک کچرا کنڈی تھی۔جہاں میں نے اپنا پیک کیا ہوا بیگ پھینک دیا۔اور واپس جگہ پر جا کر سو گئی۔صبح معمول کے مطابق اٹھی ابھی سب سو رہے تھے۔ بس چاچیاں ہی کام کے لئے اٹھی ہوئی تھیں۔میں نے جس چاچی سے اسکول جانے کی بات کی تھی۔ میں نے اُن سے اجازت لی اور گھر سے نکل پڑی۔اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے میں
میں کچرا کنڈی کی جانب گئی۔جب میں وہاں پہنچای تو میں نے دیکھا کہ ایک کچرے والا وہاں سے کچرا اٹھا رہا تھا۔اس کے ہاتھ میں میرا بیگ تھا۔میں نے اس کو روکا روکو بھائی وہ میرا سامان ہے۔ چھت سے نیچے گر گیا تھا تو میں وہ لینے ہیں۔کچرے والا بولا جی باجی میں کیسے مان لوں یہ آپ کا ہے یہ تو کسی اور کا بھی ہو سکتا ہے۔۔ ایسے تھوڑی نہ ہوتا ہے کوئی ثبوت ہے تو بتاؤ پھر میں دے دوں گا۔۔اگر نہیں ہے تو پھر جاؤ اپنا کام کرو مجھے پریشان نہ کرو۔۔میں نے اسے فوراً جواب دیا اور کہا ہاں میرے پاس ثبوت ہے۔میرے اس بیگ میں کچھ میری تصویریں ہیں۔آپ نکال کر دیکھ سکتے ہیں پھر آپ کو یقین آجائے گا۔اس نے بیگ کی میری بتائی ہوئی زِپ کھولی اور اس میں سے تصویریں دیکھی۔میرا بیگ ہاتھ میں تھمایا اور میں نے وہ بیگ لیا اور وہاں سے جلدی سے نکلی۔میں نے اپنے چہرے کو نقاب سے لپیٹ لیا اور بس سٹاپ پر پہنچی۔۔۔وہاں سے ایک رکشہ لیا اور بس اڈے پر پہنچ گئی۔۔۔
ثنا:- آپ مجھے بتائیں کہ آپ جا کہاں رہی تھی۔۔کوئی جگہ کوئی ٹھکانہ آپ کی نظر میں تھا۔۔آپ جا کہاں رہی تھی۔۔
کرن:- ہاں میرے پاس ٹھکانا تھا۔۔ ایک راستہ تھا جہاں مجھے امید تھی کہ میں وہاں محفوظ رہوں گی۔۔
میں حیدرآباد جا رہی تھی۔۔۔جب ہم حیدرآباد رہ کر آئے تھے وہاں میری ایک ٹیچر تھی جو مجھے اسکول میں پڑھاتی تھی۔۔میں ٹوشن کے لئے بھی ان کے گھر پر پڑھنے جاتی تھی ۔۔میری ٹیچر کی امی سے میری امی کی بہت زیادہ اچھی دوستی تھی۔۔۔ہمارا رابطہ کبھی ختم نہیں ہوا تھا ہمارا فون پر رابطہ تھا ان سے اور امی جب زندہ تھے تو ہمیشہ ان سے بات کرتی تھی۔۔ کہ کبھی بھی میری بیٹی کو آپ لوگوں کی ضرورت پڑے تو آپ اس کی مدد ضرور کرنا۔۔میں ان سے بات کرکے سب کچھ طے کر کے ہی گھر سے نکلی تھی۔۔میں بس میں بیٹھی حیدرآباد کا ٹکٹ خریدا۔۔اور اپنی ٹیچر سے رابطہ کیا انھوں نے بتایا کہ میں بس میں بیٹھ گئی ہو اور اس کے بعد بس چل پڑی اور تقریبا آٹھ بجے شام کے میں حیدرآباد پہنچ گئی تھی۔۔ وہاں ٹیچر کی امی مجھے لینے کے لئے پہلے سے ہی موجود تھی۔۔۔
پھر ہم ان کے گھر گئے۔مس کے بھائی اور ابو فوج میں تھے مسں خود گورنمنٹ ٹیچر تھی اور اس کے علاوہ مس نے اپنا ایک پالر بھی کھول رکھا تھا۔۔وہ سب مجھے اچھے سے جانتے تھےگھر میں نوکر چاکر بھی تھے۔۔نوکروں کے لئے بھی الگ سے کمرے تھے جتنا بڑا ان کا گھر تھا اتنا ہی بڑا ان کا دل تھا۔۔
۔۔جب میں کچھ نہیں تھی تو میرا ساتھ دینے والے وہ لوگ تھے۔۔۔ہاتھ منہ دھونے کے بعد ہم سب نے کھانا کھایا۔۔اس کے بعد مجھے میرا کمرہ بتا دیا تو میں جاکر سوگئی۔۔مجھے جلدی اٹھنے کی عادت ہے اس لئے میں صبح پانچ بجے ہی اٹھ گئی اور وہاں دھونے کے بعد میں نے نماز ادا کی۔قرآن مجید کی تلاوت کی۔۔کچھ ہی دیر بعد مِس بھی اٹھ گئی اور باقی سب بھی اٹھ گۓ تھے۔۔

سب اپنے ٹائم روٹین کے مطابق چل رہے تھے۔۔۔مِس نے مجھے کہا کے اب تم نائن کے امتحان پرائیویٹ دوگی آج سے تم میرے پالر میں جاب کیا کرو گی۔۔صبح کے ناشتے کے بعد سب اپنی اپنی ڈیوٹی پر چلے گئ اور مِس اپنے اسکول چلی گئی جبکہ انٹی مجھے پالر لے گئی۔۔
وہاں تقریبا آٹھ لڑکیاں پہلے سے موجود تھی۔۔انٹی نے مجھے وہاں سب سے ملوایا۔۔اور سب کو میرے بارے میں بس اتنا ہی بتایا کے یہ نی بچی کو کام سیکھانے اور ٹرین کرنے کے لیے اس کے گھر والوں نے بھیجا ہے۔۔وہاں موجود سب سے زیادہ ٹرین لڑکی کی ذمہ داری لگائی کے پالر کا سارا کام سکھانا تھا اسکو مجھے.
انٹی تو گھر چلی گئی۔۔اس کے کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ کسٹمر کے ہونے کے باوجود لڑکیاں آپس میں گفتگو میں لگی ہوئی تھیں۔۔ان کی کام پر توجہ کم باتوں پر زیادہ تھی۔۔جب تک آنٹی روکی ہوئی تھی۔۔تب تک سب اپنے کاموں میں مگن تھی۔۔خاموشی اس قدر کے مانوں وہاں کوئی ہے ہی نہیں۔۔آنٹی کے جانے کی دیر تھی کہ وہاں پر اتنی گہماگہمی اور شور شروع ہو گیا تھا۔۔جیسے میں کہیں کسی چڑیا گھر میں پہنچ گئی ہوں۔۔میں نے وہ لڑکی جس پر آنٹی ذمہ داری لگا کر گئی تھی۔۔ کہ اس نے مجھے کمپلیٹ ٹریننگ دینی ہیں اس کا نام مہک تھا۔۔کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آخر یہ چل کیا رہا ہے آپ انہیں کیوں نہیں روک رہی۔۔۔بنا کچھ کہے اس لڑکی نے سب لڑکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا لو جی ہمارے گروپ میں ایک نئی جاسوس آگئی ہے۔۔
گروپ میں سے دوسری لڑکی نے کہا کہ تم اپنے کام سے کام رکھو بہتر یہی رہے گا ہمارے کاموں میں دخل اندازی دوگی تو یہاں سے نکالی جاؤ گی۔۔تم جیسی تقریبا پانچ لڑکیاں پہلے بھی آچکی ہیں جنہوں نے ہمارے کام میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کی تھی۔۔ ان کو ہم نے اپنی مرضی سے یہاں سے نکلوا دیا تھا۔۔ہم پرانے ہیں اس وجہ سے آنٹی کو ہم پر بہت بھروسہ ہے اس لیے ہم جو بھی بولتی ہیں آنٹی ہماری بات کو مانتی ہیں۔۔
میں نے کسی بھی لڑکی سے بات کرنے کی بجائے سیدھا مہک سے کہا۔ تو تم لوگ آنٹی کے اندھے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو تو کیا تم بہت اچھا کر رہی ہو۔۔۔
مہک:- اچھا کر رہی ہیں یا برا کر رہی ہیں اس سے تمہیں مطلب نہیں ہونا چاہیے تم جس کام کے لیے یہاں آئی ہو کرو اور چلتی بنو۔۔اگر اس طرح تمہارے کام نہیں داخل اندازی دو گی تو دو دن بھی یہاں ٹیک نہیں پاؤ گی۔۔
کرن:-میں تو تمہیں بہت اچھی لڑکی سمجھ رہی تھی مگر تم کیسی نکلی ہو۔۔چلو دیکھ لیتے ہیں یہاں کون ٹِکتا ہے۔۔میں یا تم لوگ،
ٹوبی کنٹی نیو کا ٹیگ لگاتے ہوئے ثنا نے کہا کہ اس کہانی میں کیا ہوا کہ کرن کے ساتھ یہ جاننے کے لیے دیکھتے رہے یہ کہانی ہے میری۔۔ چینل والوں نے انٹرویو کو ختم کیا۔۔
ثنا:کَل صبح نو بجے کرن آپ کا یہ انٹرویو نشر ہوگا۔۔بارہ بجے آپ دوبارہ آئے گی اپنی دوسری ایپیسوڈ ریکارڈ کرانے کے لیے،
کرن:- اوکے کا جواب دیتے ہوئے میں وہاں سے اللّه حافظ کہتے ہوئے وہاں سے نکلی اور اپنے اینجیو گئی۔۔وہاں سب سے ملاقات کے بعد میں سیدھا اپنے گھر گئ۔۔۔پھر میں نے اپنے شوہر کو فون کیا اور اُس کو آج کے انٹرویو کے بارے میں سب آگاہی دی ۔۔
کمال:- مجھے خوشی ہے کہ آپ نے پہلا قدم اٹھایا۔۔
ساری زندگی آپ نے خون کے آنسو بہائے ہیں۔۔ اب آپ کے ظالم خاندان کو بھی پتہ چلنا چاہیے۔۔کہ آپ نے ایک عزت والا وہ مقام حاصل کر چکی ہے۔۔جو وہ آپ کو کبھی نہیں دے سکتے۔۔
کرن:- جی آپ ٹیھک بول رہے ہیں۔۔اگر مس لوگ ساتھ نہ دیتے تو نہ آپ زندگی میں آتے اور مجھے یہ مقام کبھی حاصل نہ ہوتا۔۔میں بہت خوش نصیب ہوں کہ میں اپنے خاندان کے چنگل سے نکل کر باہر آ گئی۔۔ ورنہ میری جیسی کئی لڑکیاں اُس خاندان میں پیدا ہونے پر ہی خود کو کوستی رہتیں۔۔ کچھ دیر فون پر باتیں کرنے کے بعد میں نے فون بند کر دیا۔۔
مجھے کتابوں کا مطالعہ کرنے کا بہت شوق ہے اس لیے میں اپنی لائبریری میں گئ۔۔اوراپنی من پسند کتاب لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور اُس کتاب کا مطالعہ کرنے لگی۔۔کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔۔
اس کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو رات کے دو بج چکے تھے۔۔میں اٹھ کر کمرے سے باہر نکلی اور باورچی خانے کی جانب بڑھی۔اور کچھ کھانے کے لئے ڈھونڈنے لگی۔۔اتنے میں میری آیا کی چھیڑ چھاڑ سے آنکھ کھل گئی۔۔اور وہ مجھے کہنے لگی کہ آپ کیوں کچن میں کام کر رہی ہیں۔۔میں ہوں نا مجھے بتا دیتی کیا کام ہے میں کر دیتی۔۔تو میں نے جواب دیا میں تو مجھے اٹھایا ہی نہیں۔۔۔
آیا:- میں نے اس لیے آپ کو نہیں اٹھایا نا مجھے کیا تھا سارا دن کی تھکی ہوئی تھی۔۔تو اچھا ہے نہ آپ نے ریسٹ کر لیا ہے۔۔جب سے صاحب کام کے سلسلے سے گۓ ہیں۔آپ نے تو خود پر دھیان ہی نہی دیا۔۔سلیم باجی آپ ایسا کریں آپ جاکر بیٹھیں میں آپ کے لیے کھانا گرم کر کے لاتی ہوں۔۔۔میں صوفے پر جاکر بیٹھ گئی۔اور فیس بک پر اپنے شو کے بارے میں نے سٹیٹس لگایا۔اتنے میں آیا کھانا لے کر آگئ پھر میں نے کھانا کھایا۔۔میں نے آیا سے کہا آپ سو جاؤ میں نے تو جتنا سونا تھا سو لیامیں لائبریری میں جاری ہوں۔ فارغ وقت میں مجھے پینٹنگ کرنے کا شوق ہے تو میں اپنی لائبریری کے کمرے میں ہی ایک سائیڈ پر پینٹنگ کا سامان رکھا ہوا تھا۔۔جہاں میں موبائل میں موجود ایک خوبصورت نقشے کی تصویر نکال کر پینٹ کرنے لگی۔۔پینٹ کرتے کرتے وقت کا بالکل اندازہ ہی نہ ہوا۔۔اور فجر کی اذان ہونے لگ گئی۔۔میری پینٹنگ کا کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا۔۔میں نے پینٹنگ کو چھوڑ کر اپنے کمرے میں گئی پہلے تو میں نے وضو کیا اور اس کے بعد میں نے نماز فجر ادا کی اور پھر قرآن مجید کی تلاوت کی۔میں اپنی زندگی سے بہت مطمعین ہو چکی تھی ۔میں اپنی زندگی میں موجود ہر منفی چیز اور عادتوں کو چھوڑ چکی تھی۔۔عبادت کرنے کے بعد دوبارہ میں اپنی لائبریری میں جا کر اپنی پینٹنگ کو مکمل کرنے لگی۔۔رات سے بند پڑا موبائل میں نے جب اٙن کیا تو دیکھا کہ اس پر ایک ایس ایم ایس آیا ہوا تھا جس نے مجھے میرے ادارے میں آج ایک اسلامی لیکچر دینا تھا..دراصل میں ہفتے میں تین دفعہ اپنے ادارے میں جا کر دینی تعلیم کے بارے میں اپنی ادارے کی عورتوں کو تعلیم دیا کرتی ہوں۔۔اکثر میری بھول جانے کی عادت ہے اس وجہ سے وہ مجھے میسجز کر دیا کرتے ہیں تو۔۔میں نے اپنی پینٹنگ کو مکمل کرنے کے بعد عبایا پہنا اور جیسا کہ میری روز کی عادت ہے کہ میں سیر کرنے کے لئے جایا کرتی ہوں تو میں سیر کے لیے نکل گئی۔۔اور میں ایک بار میں جو ہمارے گھر کے قریب تھے ادھر جا کر ایک بینچ پر بیٹھ گئی ۔ جہاں سے میں سامنے جو میرے روڈ رواں دواں تھا۔۔ اس دیکھنے لگی۔اُس کا جائزہ لینے لگی ۔۔اس روڈ پر گاڑیوں کے ہجوم کو دیکھ کر ایک بات کا مجھے اندازہ ہوا کہ آج کا انسان اتنا جلدی میں ہے کہ اسے اندازہ ہی نہیں ہے۔۔کہ اس کی جلد بازی کی وجہ سے کتنے حادثات ہوتے ہیں۔۔کوئی بھی انتظار کرنا نہیں چاہتا، ایسا لگتا ہے سب کا انتظار کا پیمانہ لبریز ہوتا چلا جاتا ہے۔۔عجیب دوڑ ہے کہ کوئی ایک دوسرے کو موقع ہی نہیں دیتا ہے سب کو ہی جلدی جانا ہے۔لوگوں کا بس نہ چلے وہ گاڑی کے اوپر سے گاڑی گزار لیں ۔مگر یہ ممکن تو نہیں ہے۔اگر ہم صبر سے کام لیں اور ایک دوسرے کو موقع دیں تو نہ تو ٹریفک جام ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی حادثہ پیش آسکتا ہے۔کوئی بھی کام جلد بازی سے نہیں ہوسکتا۔اور جب ہر کام کا وقت مقرر ہے پہلے سے ہی طے شدہ ہے تو کبھی بھی انسان کی جلد بازی کی وجہ سے وہ کام پہلے نہیں ہو سکتا جب تک اللہ کا مقرر کردہ وقت نہ ہو جائے ۔ہمیشہ سکون سے ہی ہر کام کرنا چاہیے ۔جس میں آپ کی اور دوسروں کی بھلائی شامل ہومیں نے اس حد تک کہ دیکھا کہ جہاں پر ٹریفک پولیس والے کھڑے ہیں وہاں لوگ اتنے سٹیٹ اور سیدھے ہوتے ہیں۔۔مگر جیسے ہی ٹریفک پولیس والے کے قریب سے گزر جاتے ہیں تو بعد میں ایسے گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں۔۔جس سے اکثر گاڑیاں حادثے کی نظر ہو جاتی ہیں۔اس دوران مجھے اندازہ ہوا کہ کافی وقت ہو چکا ہے اب مجھے گھر واپس چلے جانا چاہیے اس لئے میں وہاں سے جانے کے لئے اٹھی تو میں نے دیکھا۔۔۔ ایک شخص ایک بچے پر انتہائی ظالمانہ طریقے سے تشدد کر رہا تھا اور کوئی بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا بلکہ سب اپنے ہی کاموں میں مصروف تھے۔۔ایک دم بچے کے سر پہ اس شخص نے کچھ اٹھا کر مارا تو اس کے خون بہنا شروع ہو گیا۔۔میں وہاں سے جلدی سے بھاگی اور اُن کے پاس پہنچی میں نے فوراً اس شخص سے سوال کیا۔۔کہ تم اس معصوم سے بچے کو کیوں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہو۔۔وہ کوئی جواب دیتا اتنے میں وہاں کھڑا دوسرا شخص کہنے لگا باجی یہ اس کا روز کا ہے کہیں دفعہ اس کو پولیس لے کر جا چکی ہے لیکن اس کو سمجھ میں نہیں آتا۔۔پھر مارنے والے شخص نے دوسرے شخص کو جواب دیا کہ تم لوگ کون ہوتے ہو میرے اور میرے اور میرے بچے کے بیچ میں دخل اندازی کرنے والے یہ میرا بیٹا ہے اور میں جیسے چاہوں اس کے ساتھ پیش آؤں۔۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس نے نشہ کیا ہو۔۔مجھے اس چیز کا اندازہ ہو گیا تھا کہ میں اس کو کچھ کہوں بھی تو وہ لڑائی جھگڑا ہی کرے گا۔۔بچے کے سر سے مسلسل خون بہہ رہا تھا اور مجھے خیال آیا کہ پولیس والے کچھ فاصلے پر ہے میں جلدی سے ٹریفک پولیس والے کے پاس گئی اور سارا ماجرہ بتایا۔۔ پولیس والے میرے ساتھ آئے انہوں نے آدمی کو پکڑا اور کہا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو کتنی دفعہ تمہیں جیل میں ڈال چکے ہیں تمہیں سمجھ نہیں آیا۔۔اب تمہیں لمبے وقت کے لئے ہی جیل میں ڈال دیں گے۔۔اس شخص کو پولیس لے کر لی جبکہ اس کے بیٹے کو میں چوٹ کا سامان میڈیکل سٹور سے خرید کر پٹی کردی اور میں نے اس کا گھر پوچھا کہ وہ کہاں رہتا۔۔۔پھر اس کے ساتھ اس کے گھر گئی۔۔تو کیا دیکھتی ہوں اس بچے کی امی بیمار د چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی ۔جبکہ اس کی چھوٹی بہن جو کہ اس کے ماں کے برابر میں ہی لیٹ کر رو رہی تھی۔۔گھر بالکل بکھرا پڑا تھا۔۔مجھے یہ دیکھ کر بہت ہی افسوس ہوا۔۔ہم جیسے لوگوں کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود وہ ہم کہتے ہیں کہ یہ چیز نہیں ہے وہ چیز نہیں ہے ہم اپنے اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے ناشکری کی طرف چلے جاتے ہیں اور جب کے میں ایسے لوگوں کو دیکھتی ہوں تو میرا دل دہل جاتا ہے اور وہ پھر بھی ایسی حالت میں شکر ادا کر رہے ہوتے۔۔وہ عورت اپنے بیٹے سے کہنے لگے کہ تم کس کو لے کر آئے ہو تو پھر میں نے انہیں بتایا کہ اس طرح سے آپ کے شوہر اس کو مار رہے تو میں اس طرح سے اس کو بچایا۔میں نے اس سے کہا کہ مجھے اپنے گھر لے چلو تو وہ مجھے لے آیا ۔۔۔ پھر اس کی امی نے پوچھا کہ تم تمہارا اب وہ تمہیں کیوں مار رہا تھا تو اس نے بتایا کہ آپ بیمار ہیں۔تو میں نے ابو کی جیب میں سے پیسے نکال کر آپ کے لیے دوائی لانے والا تھا کہ ابو کو اس بارے میں پتہ چل گیا۔۔وہ مجھے رستے میں مل گئے تو مجھے پیٹنا شروع ہوگئے۔۔پھر میں کہا کہ آپ فکر نہ کرے اللہ نے شاید مجھے آپ کی مدد کے لیے ہی بھیجا ہے۔۔میں نے اپنے گھر فون کیا اور اپنی آیات کو پتہ بتایا وہ کچھ ہی دیر میں بہا آگئی میں نے انہیں ان کا گھر صاف کرنے کے لئے بولا اور اس کے علاوہ میں اس کے بیٹے کو لے کر میڈیکل اسٹور پر گئی اور ادویات وغیرہ خرید کر اس کے بیٹے کے ہاتھوں سے اسکے گھر بھجوادیں ۔
اور جیسے ہی میں گھر جا رہی تھی راستے میں کمال کے فون آنے لگ گئے تھے۔۔پھر میں کمال کا فون اٹھا لیا اور اسے بات کی میں نے اسے ساری صورتحال کہ بارے میں آگاہ کیا اور کمال نے مجھے کہا مجھے آپ کی یہی رحم دلی بہت ہی زیادہ پسند ہے۔۔پھر کمال نے کہا آپ کو پتہ ہے میں کیا کر رہا ہوں۔۔میں نے جواب دیا میں بھلا کیسے بتا سکتی ہوں کہ آپ کیا کر رہے ہوں گے تو کمال نے مجھے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ظاہر ہے ساڑھے نو ہوچکے۔۔تو 9 بجے سے میں آپ کا شو دیکھ رہا ہوں اس لئے بار بار کال کر رہا تھا اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ مصروف ہو نگی۔۔اب دیکھتے ہیں کہ آپ کے خاندان والے اس چیز کے لیے کیسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔۔جی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں میں نے جواب دیا۔۔۔اور مجھے بتائیں آپ نے کب واپس آنا ہے۔۔پورا ایک ہفتہ ہو گیا ہے۔۔آپ کینیڈا گئے ہوئے ہیں۔۔میں مانتی ہوں کہ آپ کے وہاں پر بچپن کے دوست وغیرہ ہے مگر آپ ایک عدد بیوی بھی ہے جس کا خیال کرنا چاہیے۔
۔کمال:- جی بالکل آپ کا ہی تو خیال ہے آپ کے علاوہ تو کوئی ذہن میں ہے ہی نہیں میں جلد واپس آؤں گا۔۔اچھا اب میں شو دیکھ رہا ہوں پھر بات ہو گی شو ختم ہونے کے بعد۔۔
اوکے کا جواب دیتے ہوئے میں نے فون بند کر دیا۔۔
میں گھر پہنچ گیا اور ہاتھ منہ دھونے کے بعد میں نے تھوڑا بہت ناشتہ کیا اور آیا کو کال کر دیا کہ میں اب اینجیو جا رہی ہوں۔۔ ڈیڈ گھنٹہ میں نے اینجیو جاکر اسلامک تعلیم کے بارے میں درس دیا۔۔اسکے بعد میں نے اپنا موبائل کو کو کھولا تو فورن ہی کسی نمبر سے فون آنے لگ گیا۔۔میں نے فون اٹھایا اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی دوسری طرف سے آواز آئی۔۔میں ثنا ہوں آپ نے سوشل سائیڈ چیک کری آپ کو مبارک ہو آپکا انٹرویو بہت وائرل ہو گیا ہے۔۔۔تقریبا لوگ آپ کے حق میں ہیں اور اب سب آپ کی سٹوری کو جاننا چاہتے ہیں۔۔کہ آپ نے یہ مقام کیسے حاصل کیا آپ یہاں تک کیسے پہنچی۔۔آپ سیٹ پر آجائیں تاکہ ہم ایپیسوڈ کو ریکارڈ کر سکیں۔۔میں این جی او میں سب کو اللہ حافظ کہتے ہوئے وہاں سے نکل کر سٹوڈیو کی طرف روانہ ہوگئی ۔۔میں سٹوڈیو میں پہنچی گاڑی سے اتری ثنا پہلے سے ہی وہاں موجود تھی میں جیسے ہی اس کے پاس پہنچی تو اس نے مجھے کہا کہ آپ کی کہانی نے تو لوگوں میں دھوم مچا دی ہے۔ہمارے چینل نے آپ کے لیے لوگوں کی کیا رائے ہے جاننے کے ایک بلی کا سروے کیا ہے۔ آئیں بیٹھےمیں آپ کو دکھاتی ہوں۔ہر کوئی آپ کی زندگی کے اگلے حصے کے بارے میں جاننے کے لیے بہت ہی دلچسپی لے رہے ہیں۔۔اور اس لسٹ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آپ کے برائی کیا کرتے تھے۔
ثنا:- یہ دیکھیں گے وہ شخص ہے جو کہتا تھا کہ مجھے کرن پسند نہیں مگر میں نے جب سے ان کا انٹرویو سنا ہے مجھے اس چیز کا اندازہ ہو گیا ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی مرضی سے زندگی میں آگے نہیں بھرتا ، اس کو زندگی ہی موقع فراہم کرتی ہے کہ اس کو کون سا رُخ اختیار کرنا ہے۔۔اب یہ وہ عورت اور بچی ہے جو آپ کی بہت بڑی فین ہیں۔۔اور جنہوں نے یہ کہانی سننے کے بعد بہت زیادہ آپ سے محبت کا اظہار کیا ہے۔۔ہم نے اس سروے میں دیکھا کہ کوئی ایک شخص بھی آپ کے خلاف بات کرتا ہوا دکھائی نہیں دیا بلکہ آپ کے حق میں بات کرتا ہوں دکھائی دیا۔۔۔اب جب ہم آپ کے شو کی ایپیسوڈ دکھائیں گے۔۔ تو سب سے پہلے پبلک میں ہوا سروے بھی دکھائیں گے۔۔اور ایک اور بات آپ کو بتاتی ہوں کہ ہمارا شو سب سے زیادہ ریٹنگ پر ہے اس وقت،چلے سب باتیں چھوڑیں شو کی ریکاڈنگ شروع کرتے ہیں۔۔
ثنا:- جی ناظرین میں ہوں آپ کی ہوسٹ ثنا یہ کہانی ہے میری میں آپ سب دیکھنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہوں۔۔جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ ہے کہانی میری میں ہمارے ساتھ موجود ہے کرن بہت ساری تالیوں کے ساتھ کرن ہم آپ کا دوبارہ سے ویلکم کرتے ہیں۔۔ کرن آپ کی کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم لوگ آپ کو ایک چھوٹا سا سروے دکھاتے ہیں۔۔کرن کے انٹرویو نے جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں سوشل میڈیا پر بہت زیادہ دھوم مچا دی تھی۔۔۔اس سلسلے میں ہم نے لوگوں سے کرن کے بارے میں سروے کیا تو لوگوں نے کرن کے بارے
میں رکھنے والی رائے کا اس طرح سے اظہار کیا۔۔جس میں سب لوگوں نے کرن کے لیے اچھے الفاظ استعمال کیے اور اُس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔۔
مجھے یہ بتائیں یہ سب دیکھنے کے بعد آپ کس کو اپنی کامیابی کا ذمہ حق دار ٹھہراتی ہیں۔۔اور آپ کو کتنی خوشی ہوتی ہے جب لوگ اس طرح سے آپ کا ساتھ دیتے ہیں۔۔کرن ہاں میں خوش ہوں کہ ایک وقت تھا جب میں اکیلی تن تنہا لڑ رہی تھی اور آج میرے ساتھ ایک کارواں ہیں۔یہ سب میری ماں کی دعا کا کمال ہے۔۔میری ماں میرے لئے محنت کرتی کرتی دنیا سے چل بسی۔۔میں اپنی ماں کے لیے یہ کہنا چاہتی ہوں کے۔۔
شعر:-
تو نے زندگی مجھے کیا کیا سبق سکھایا
جوپھسلگئی تو سنبھلنےکا راستہ بھی دکھایا
گرانے والے تو ہزاروں ملے تھے مجھے مگر
میرے سر پر تھا میری ماں کی دعاؤں کا سایہ

یہ شعر پڑھتے ہوئے میری آنکھیں نم ہو گئیں تھیں اور پھر ثنا نے مجھے ٹیشو دیا جس سے میں نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کیے۔۔اس کے علاوہ میری زندگی میں جس نے میرا ساتھ دیا وہ میری ٹیچر اور ان کے گھر والے تھے جنہوں نے مجھے یہ مقام دلانے کے لیے مجھ پر محنت کی۔۔اور اب میرا ساتھ نبھانے کے لیے میرا شوہر ہے جس نے میرا بھرپور ساتھ دیا ہے۔۔۔
ثنا:چلیں کہانی شروع کرتے ہیں آپ مجھے بتائیں کہ اس کے بعد وہ جو پالر میں مہک اور دوسری لڑکیاں تھیں انہوں نے آپ کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا۔۔
کرن:- پھر میں نے سوچ لیا تھا کہ لڑکیوں کی ساری حرکات کے بارے میں میں گھر جاؤں گی تو آنٹی اور مس کو اس کے بارے میں آگاہ کروں گی۔۔سارا دن میں گزرنے کے بعد جب میں بس کے ذریعے سے گھر پہنچیں تو آنٹی کا رویہ بہت زیادہ ہی عجیب تھا۔۔میں کچھ کہتی کے مس نے کہا ذرا تم کمرے میں آؤ۔۔انٹی بولی کمرے میں کیوں اِدھر ہی کرو بات اس سے۔۔میں نے فورن کہا آخر بات کیا ہے انٹی مجھے بتائیں تو کیا ہوا ہے۔۔۔آنٹی غصے کی حالت میں مجھے کہنے لگی مجھے تم یہ بتاؤ تم لڑکیوں سے جاتے ہی لڑنا شروع ہو گئی ہو۔۔تمہیں اندازہ نہیں ہے وہ میری کتنی پرانی اسٹوڈنٹس ہیں۔۔پھر میں نے آنٹی سے کہا کہ آپ ایک طرفہ بات سن کر کیسے فیصلہ کرسکتی ہیں کہ وہ صحیح ہے اور میں غلط ہوں۔۔پھر آنٹی نے کہا کچھ بھی ہو مجھے اُن پر بھروسہ ہے میں یہ نہیں کہہ رہی کہ تم غلط ہو مگر میں اُن کو جانتی ہوں کہ وہ غلط نہیں ہو سکتی۔۔میں آنٹی آپ سے پھر کہتی ہوں کہ وہ اچھی لڑکیاں نہیں ہیں وہ آپ کے پولر کا نقصان کروا دیں گے۔۔پھر انٹی ٹیچر سے کہنے لگی۔۔دیکھو تو تمہارے سامنے اُن کے خلاف اتنا بول رہی ہے ایک دن میں تو اس کا مطلب تو یہی ہوا نہ کہ وہ غلط نہیں بول رہی ہیں۔۔ ٹیچر نے کسی طرح بات کو سنبھالا اور اس ٹوپیک کو ختم کرکے مجھے اندر لے کر گئی اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہوئی کے تم اس طرح سے ان لڑکیوں کے بارے میں بول رہی ہو۔۔پھر میں نے سارا دن کس طرح سے پالر میں لڑکیوں نے کیا اور ان کو جو میں نے کہا اور مجھے انہوں نے جو کہا میں نے ہر ایک بات ٹیچر کو بتائی۔۔پہلے تو ٹیچر یہ سن کر بہت حیرت زدہ ہوگئی تھی پھر لیکن ٹیچر نے کہا اگر تم یہ کہہ رہی ہو تو ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو چلو میں تمہیں کوئی چیز صبح دونگی اور تمہیں سب بتاؤں گی تمہیں کیا کرنا ہے جس کی وجہ سے امی کی نظروں سے ان لڑکیوں کی پٹی ہٹے۔۔جب صبح ہوئی تو مس جا چکی تھی میری آنکھ دیر سے کھلی تھی۔۔میں تھوڑا گھبرا گئی کہ اس ٹولی گئی ہیں آج یہ لڑکیاں پتا نہیں کیا تماشا کریں گی۔۔پھر میں تیار ہوئی ناشتہ کیا اور پالر کے لیے نکل گئی۔۔۔جب میں پولر پہنچی تو مہک نے لڑکیوں کے ساتھ مل کر مجھے کہنے لگی کیسا لگا تمہیں ہمارا پہلا تحفہ میں نے مہک کو جواب دیا یار میں تم لوگوں سے لڑنے نہیں آئی ہوں۔۔بس تم لوگ اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے نبھاؤ اور میں اپنا کام کروں گی۔۔ہمیں یہاں ساتھ رہنا ہے تو ہمیں مل کر رہنا ہوگا۔۔دیگر لڑکیاں میری یہ بات سن کر میرا مذاق اڑانے لگی تم تو پہلے دن ہی گھبرا گئی ہو آگے آگے دیکھنا ہوتا ہے کیا۔۔اب جس کو ہم چیلنج کر دیا۔۔۔ کہ بس نکالنا تو پھر ہم نے نکال کر ہی دم لیتی ہیں۔۔چینجنگ روم میں جا کر میں نے دروازہ بند کر لیا۔۔اور اپنی قسمت پر رونے لگی۔۔مگر جب مجھے احساس ہوا کہ میرے آنسو میں نے خود صاف کرنے ہیں تو پھر میں اپنے آنسو صاف کیے۔۔پالر کا یونیفارم پہنا۔۔باہر نکلی،مہک نے مجھے دیکھا اور کہا کہ ابھی جتنے بھی کسٹمر ہیں۔۔ تم ہی سب کو ڈیل کروں گی۔۔میں نے اس سے کہا بھلا میں کیسے کر سکتی ہوں میں ایک وقت پر ایک ہی کسٹمر کو ڈیل کر سکتی ہو نہ کہ سب کو ابھی تو پانچ چھ ہیں۔ تو آپ اور لڑکیوں کو دے دیں اور جو میرے لئے مناسب ہے وہ کام مجھے دے دیں۔۔پھر اس نے میرے ساتھ ایک لڑکی کو بھیجا جس نے مجھے پیڈ ی کیور کرنا سکھایا اور میں نے پیڈی کیور کیا۔۔اور کمرے سے باہر آئی۔ ۔ تو مہک نے میرے ہاتھ میں فون تھمایہ اور کہا یہ لو بات کرو۔جیسے ہی میں نے فون کام کو لگایا تو سامنے سے آنٹی کے ڈانٹنے کی آواز آنے لگی اور کہنے لگی کے اگر تم نہیں کر سکتی ہو تو مجھے بتا دو اس طرح سے میرے پالر میں لڑکیوں کے درمیان لڑائی مت کرواؤ بھلائی کا تو زمانہ نہیں ہے ایک تو ہم تمہارا ساتھ دے رہے ہیں اوپر سے تم ہمارا خیال کرنے کی بجائے ہمیں تنگ کرنے لگی ہوئی ہو۔مہک دور فاصلے پر کھڑی مجھے کہنے لگی اور لو ہم سے پنگے اُس کا نتیجہ ایسا ہی نکلے گا۔۔آنٹی نے فون بند کر دیا اور پھر مہک کہنے لگی یہ کسٹمر بیٹھی ہیں چلو جاؤ ان کا پیڈی کیور کرو۔۔۔میں ساتھ میں اپنی کسٹمر کاپیڈی کیور کرو اور ساتھ میں میرے آنکھوں سے آنسو بہے مگر اس وقت میرے آنسو صاف کرنے والا کوئی نہیں تھا۔۔تقریبا آج میں نے سارا دن پیڈی کیور کیا تھا اور اس کے بعد کام ختم ہونے کے بعد میں گھر واپسی کی طرف چل پڑی۔۔۔کافی دفعہ میرے ساتھ یہ معاملہ ہوتا تھا کہ میں بے بسی کی وجہ سے رونے لگ جاتی تھی مگر خود کو حوصلہ دیتی تھی کہ یہ وقت ہمیشہ نہیں رہنے والا اچھا وقت بھی ضرور آئے گا۔۔بس مجھے لگتا ہے کہ اسی وجہ سے میں آج اس مقام پر پہنچ پائی ہوں اگر میں ہمت ہار جاتی تو شاید آج مجھے یہ مقام حاصل نہ ہوتا۔۔گھر پہنچنے کے بعد آنٹی کا رویہ بہت غصے والا تھا۔۔مسں نے مجھے اشارے سے کمرے میں بھیج دیا اور میں نے کمرے میں بیٹھ کر ہی کھانا کھایا۔۔مس میرے پاس آئی اور مجھے سمجھایا۔۔تم پریشان مت ہو سب سیٹ ہو جائے گااور کہا کہ میں نے یہ کچھ کتابوں پر تمہارے لئے نشان لگا دیے ہیں اس کو یاد کرنا اس کے بعد ۔۔ٹیچر نے مجھے حوصلہ دیا۔۔اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔ٹیچر کے بتائے ہوئے سبق کو میں نے کچھ دیر تک یاد کیا اور آخر میری ہمت ختم ہوگئی تو پھر میں سو گئی۔۔۔صبح کا آغاز عبادت سے کرتے ہوئے میں نے اللّه سے دعا کی۔۔کہ جب میں غلط نہیں ہوں تو آنٹی کا نظریا میرے حق میں بہتر کر دے اور جو لڑکیاں غلط کر رہیں ہیں انٹی کی سچائی کے ساتھ وہ بے نقاب ہو جائیں۔
میں اپنے کمرے سے باہر نکلی۔۔کام والی نے مجھے کہا کہ انٹی آرام کر رہی ہیں آج تمہیں خود ہی جانا پڑھے گا تو میں نے میں نے اپنا سامان لیا اور پالر کی طرف نکل پڑی۔۔پالر کے کچھ فاصلے پر دو لڑکے جو کہ میرا پیچھا کر رہے تھے۔۔مجھے میرے نام سے پکار رہے تھے۔۔الٹی سیدھی باتیں کر رہے تھے اور مجھے اس چیز کے لیے حیرت تھی کہ یہاں تو میں کسی کو جانتی بھی نہیں تو بھلا کیسے کوئی مجھ کو اتنی میرے نام سے پکار سکتا ہے۔۔میں نے اپنے قدم کو تیزی سے آگے بڑھایا اور ایک آنٹی جو دوسری طرف کھڑی تھی میں اس کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔۔اور وہ لڑکے ڈرنے کی بجائے میری طرف آتے گئے تو میں نے آنٹی سے مدد مانگی مگر آنٹی نے مدد کرنے کی بجائے مجھے ہی الٹا باتیں سنائیں کہ تم جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں پہلے لڑکوں کو پیچھے لگاتیں ہیں اور پھر جب لڑکے پیچھے پڑ جاتے ہیں تو پھر ان سے بھاگتی پھرتی ہیں یہ کہہ کر آنٹی اے میری جانب سے منہ موڑ لیا اور میں وہاں سے تیزی سے چلتے ہوئے۔۔سامنے سے آنے والے رکشے پر بیٹھ گئی۔۔میرے پاس جو واپسی کا کرایا تھا میں نے ابھی سے ہی خرچ کر لیا تھا۔۔ میں جلدی سے پالر کے پاس اتری اور پالر کے اندر داخل ہو گئ۔۔
میرے چہرے کا رنگ بالکل اڑ چکا تھا اور میں بہت گھبرائی ہوئی تھی۔۔۔ہاتھ پھیر میرے بالکل ٹھنڈے ہو چکے تھے اور سانس پھولی ہوئی تھی میرے سامنے کھڑی مہک کی بہت ہی زیادہ اچھی دوست جس کا نام حرا تھا میں نے اسے گلے لگا لیا۔۔ اور رونے لگی۔۔
اس وقت سب لڑکیاں کمرے میں ہی تھی مگر حرا نے مجھ پر غصہ کرنے کی بجائے مجھے آرام سے ایک کرسی پر بٹھایا اور پانی لاکر مجھے دینے لگی تو پیچھے سے مہک ایک لڑکی کے ساتھ ہماری طرف آنے لگی تو حرا نے مجھے پانی پلانے کی بجائے وہ پانی میرے منہ پر مار دیا۔۔مہک یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور حرا کو شاباشی دی جبکہ مجھے دیکھ کر کہنے لگی جاؤ جلدی سے یونیفارم پہنو اور وہ جو کسٹمر بیٹھی ہیں اُس کو ڈیل کرو۔۔میں اپنا یونیفارم بدلنے کے بعد اس کسٹمر کو سروسز دے رہی تھی۔۔جان بوجھ کر مجھے وہ لوگ پیڈیکیور کا کام دیتی تھیں۔۔وہ جو خاتون جن کا میں پیڈیکیور کر رہی تھی انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہوئی تھی کہ آپ اتناگھبرا رہی تھی ابھی تک آپ کے ہاتھ بہت ٹھنڈے ہیں۔۔پہلے تو میں نے انہیں نہیں بتایا مگر پھر ان کے اسرار کی وجہ سے میں نے بتایا کہ کس طرح سے لڑکوں نے میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے جب کہ میں وہاں ابھی تک کسی کو جانتی نہیں تھی اور وہ لڑکے میرا نام تک جانتے تھے۔اس خاتون نے مجھے مشورہ دیا کہ جو اس پالرکی اونر ہے یہ بات اس کو شیئر کرو تاکہ پتہ چلے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے یہ کس نے کیا ہے اور کیوں کیا ہے۔میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور بات کو ختم کردیا ۔اس کے علاوہ پھر اس خاتون نے مجھ سے کہا کہ اندر کسی کی سالگرہ منائی جا رہی ہے تو آپ اس میں کیوں شریک نہیں ہے تو میں نے کہا کہ وہ سب ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتی ہیں جب کہ میں ابھی نی ہوں تو زیادہ میری کسی سے دوستی ابھی تک نہیں ہوئی تو بس یہی وجہ ہے کہ میں یہاں ہوں۔۔تو وہ خاتون کہنے لگی کہ کچھ بھی ہوں آپ نی ہیں اور ایک دوسرے کو جاننے کے لیے ان سب کو آپ کو اس کی سالگرہ میں شریک کرنا چاہیے تھا تو میں نے ان کی بات کو نظر انداز کیا کیونکہ وہ اصل وجہ تو نہیں جانتی تھی۔۔ اس لئے میں اپنے کام کو دھیان دینے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ کہ کوئی بھی بات ایسی نہ ہو جس کی وجہ سے ہمارے پالر کا نام خراب ہو۔۔اس لیے میں نے اپنا کام جلدی سے ختم کیا اور کسٹمر کو ڈیل کرنے لگی۔۔میں اپنے کام میں مصروف تھی کہ تقریبا آدھے گھنٹے بعد وہ عورت جو مجھ سے پیڈی کیور کروا کر گئی تھی وہ میرے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔۔اور مجھے باہر بلانے لگی وہ بھی اس طرح سے کہ آپ کسٹمر سے باتیں کرتی ہیں تو اس سلسلے میں میں نےشکایت کی ہے آپ کی تو اس لیے آپ کو باہر بلوایا جارہا ہے۔۔میں ان کی یہ بات سن کر گھبرا گئی۔اور میں نے تو نہیں کہا بات تو آپ کر رہی تھی میں نے تو بس اس کا جواب دیا تھا۔تو وہ
بولی کہ آپ کا کام بنتا تھا اگر میں بول رہی تھی تو آپ مجھ سے کہتی کہ کام کے دوران بات نہیں کی جاتی۔۔جب ہم ریسیپشن پر پہنچے تو وہاں آنٹی موجود تھی اور میرے آنٹی کو دیکھ کر رنگ اُڑ گئے تھے ۔۔جبکہ ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی نے ایک اسپیکر کے ذریعے سے تمام لڑکیاں جو اپنے کام میں مصروف تھی سب کو ریسیپشن پر جمع ہونے کیلئے اعلان کیا۔۔میں چپ چاپ وہاں ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوگئی تھی۔۔کچھ ہی دیر میں ساری لڑکیاں ایک جگہ جمع ہو گئیں۔۔میں چپ چاپ وہاں کھڑی تھی جبکہ آنٹی نے مہک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب سے آئی ہے تب سے ہمارے پولر کا ماحول کیسا ہے اس کے بارے میں بتاؤ تو مہک کو تو جیسے موقع چاہیے تھا میرے خلاف بولنے کا۔۔
مہک:- میم یہ جب سے آئی ہے پالر میں لڑائی جھگڑا ہی رہتا ہے اِس کو جو کام بولا جائے وہ کرنے کی بجائے اپنی مرضی کرتی ہے۔۔اور تقریبا وہاں کھڑی تمام لڑکیاں مہک کی حمایت کرنے لگ گئیں ۔۔۔میں کچھ کہتی کہ آنٹی نے مہک کے منہ پر کھینچ کر تھپڑ مارا اور کہا کے تم لوگوں نے میرا بھروسہ توڑا ہے اور اس کے لئے میں تم لوگوں کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔سب حیرت سے آنٹی کو دیکھنے لگی کہ آنٹی نے کیا کِیا ہے۔۔حرا بولی میم ہم سے کوئی غلطی ہوگئی ہے آپ اس طرح کا رویہ کیوں اختیار کر رہی ہیں۔۔میم غصے میں جواب دیتے ہوئےتم لوگوں نے آج تک مجھ سے جھوٹ بولا ہے اور میں تم لوگوں پر اعتماد کرتی رہی۔۔وہ بھی اس لئے کہ تم لوگ بہت پرانی ہو اور اس لئے جو بھی نیا آتا میں اُس پریقین کرنے کی بجائے تم لوگوں کی باتوں کو اہمیت دیتی تھی۔۔اور اس بات کا تم لوگوں نے ہمیشہ ناجائز فائدہ اٹھایا۔حرا:- میں مجھے لگتا ہے کہ آپ کے کسی نے کان بھرے ہیں۔ ہم نے کوئی بھی غلطی نہیں کی آپ ہمیں بتائیں تو سہی آخری بات کیا ہے۔آپ کو کیسے لگا ہے کہ ہم آپ کا بھروسا توڑ رہے ہیں ہمیں بھی ہماری بات رکھنے کا موقع دیں۔۔میم:- تم لوگوں کو میں خاک موقع دوں تم لوگوں کی بات رکھنے کا یہ جو خاتون کھڑی ہیں کچھ دیر پہلے ہی پیڈیکیور کروا کر گئی ہے ۔تم لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ کون ہیں۔جب نقاب پوش عورت نے نقاب ہٹایا تو میں خود انہیں دیکھ کر حیرت میں پڑ گئی کیونکہ وہ خاتون میری ٹیچر کی دوست تھی جو ٹیچر کو اکثر گھر پر ملنے آیا کرتی تھی۔۔میم:- اس کو تو تم لوگ جانتے ہو گے نا اکثر میری بیٹی کے ساتھ آئی ہے یہ تین دن سے پالر آرہی تھی نقاب کرکے اور ساری حرکتیں اور واقعات نوٹ کرکے اس نے سب کچھ مجھے بتایا ہے۔۔پہلے تو مجھے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا لیکن پھر جب میں نے ریکارڈنگ میں آواز اور باتیں سنیں تو مجھے بہت ہی زیادہ صدمہ پہنچا کہ جن پر میں آنکھیں بند کر کے یقین کر رہی ہوں وہی سب دھوکا دے رہی ہیں۔۔یہ سب دیکھ کر سب لڑکیوں کو تو سانپ ہی سونگھ گیا تھا۔میم : ۔میں تم لوگوں کو کبھی معاف نہیں کروں گی بلکہ ابھی کے ابھی میں تم لوگوں کو اس پولر سے نکالتی ہوں۔۔دوبارہ تم لوگ مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔۔اُن میں سے کچھ لڑکیاں جو کہ صرف اپنے شوق کے لیے کام کر رہی تھی۔۔ جن میں مہک بھی شامل تھی وہ تو اپنا بیگ اٹھائے چلی گئیں۔۔جبکہ جو غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی وہ انٹی سے معذرت کرنے لگی۔۔پھر میں نے لڑکیوں کے تاثرات دیکھتے ہوئے آنٹی کو منایا کہ انٹی کوئی بات نہیں انکو معاف کردیں۔۔غلطی تو انسان سے ہی ہوتی ہے۔۔اور معاف کرنے والا بہت بڑا ہوتا ہے۔۔آنٹی نے مجھے دیکھا اور کہا کہ واقع میں ہی تمہارا دل بہت بڑا ہے کیونکہ یہ لوگ تمہارے ساتھ کتنا غلط رویہ اختیار کرتی رہیں اور مجھے تمہارے خلاف بھڑکاتی رہیں مگر تم نے ہمت نہ ہاری اور ثابت کردیا کہ تم بہت مضبوط لڑکی ہو ہو۔میڈم:- حرا مجھے سچ بتاؤ کہ کرن کے ساتھ جو واقعہ رستے میں پیش آیا۔لڑکوں کی چھیڑا چھاڑی کا اس کی ذمہ دار کون ہیں۔تو حرا نے بتایا اس کی ذمہ دار بھی مہک ہی ہے وہ لڑکے دراصل مہک کی کلاس میں پڑھتے تھے جن کو مہک نے کرن کو پریشان کرنے کا کہا تھا۔میم اتنی غمزدہ ہوئی کے ایک تو مہک دھوکہ دے رہی تھی۔۔اور معافی مانگنے کی بجائے۔۔ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہتی ہوئی گئی کے یہ پولر ہی بیکار ہے میرے بغیر کچھ عرصے میں بند ہی ہو جائے گا۔جبکہ میں نے میں نے میڈم کو تسلی دی۔۔۔میڈم نے مجھے پولر کی انچارج بنا دیا۔۔میں نے میم سے اجازت لی اس بارے میں کے اب تک جتنی بھی لڑکیاں مہک کی وجہ سے پولر سے نکلی ہیں اُن سے رابطہ کرکے دوبارہ اُن کوپولر میں کام کے لئے رکھا جائے۔۔تو میم نے مجھے جواب دیا کہ اب تم انچارج ہو تو تمہاری مرضی ہے تم نے کس طرح سے پولر کو ترقی کی جانب لے کر جانا ہے۔اس کے بعد میم تو گھر پر چلی گئی اور میں حرا اور باقی ٹرین لڑکیوں کے ساتھ مل کر اپنے آپ کو ٹرین کرنے میں لگ گئی ۔اللہ اللہ کرکے آج کا دن میرا بہت ہی بہتر گزرا تھا۔جب میں گھر پہنچی تو آنٹی نے بہت ہی اچھا رویہ سے مجھ سے بات کی اور مجھے گلے لگا کر کہا کے میں غلط تھی مجھے معاف کرنا میں نے جواب دیتے کہا کہ آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں۔مجھے آپ کی کوئی بھی بات کبھی بُری نہیں لگی۔۔آج پہلا دن تھا جب میں نے سکون کا سانس لیا۔۔صبح ہوتے ہی ناشتے کے بعد میں وقت کے ساتھ پولر نکل گئی۔اس کے بعد میں نے تمام لڑکیوں سے رابطہ کیا جن کو پولر سے نکالا گیا تھا۔چار لڑکیاں واپس آگئیں۔۔۔ جو باقی تھیں ان میں سے دو کی شادی ہوچکی تھی۔اور کچھ دوسری جگہ کام کر رہی تھیں۔۔دن رات محنت کے بعد ہم نے اپنے پولر کو بہت کامیاب کر دیا۔۔یہاں تک کہ ہم نے اپنے پولر کی دوسری شاخ بھی کھولی تھی۔۔اب پالر کا نام یہاں تک ہوچکا تھا۔۔ کہ بڑی بڑی ایکٹرس ہمارے پالر میں آتی تھیں۔۔وقت ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتے ہوئے کہاں سے کہاں جا پہنچا اس کا مجھے اندازہ ہی نہ ہوا۔
ایک دن عادت کے مطابق میں صبح پالر کے لیے نکلی ۔۔آج دراصل مجھے نکلنے میں دیر ہو گئی لیکن میں جلدی پہنچنے کی کوشش میں تھی۔۔ اس لیےتورستےمیں اسٹاپ پر کھڑی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی۔میرے کچھ فاصلے پر ہی ایک کارکھڑی تھی۔اُس پر میری نظر پڑی تو میں نے دیکھا اس میں مہک کسی لڑکے کےساتھ بیٹھی ہے۔میں اسے نظر انداز کرتے ہوئے اپنے دھیان کھڑی رہی۔ لیکن جب میں نے دوبارہ اُدھر دیکھا تو وہ کار میرے اتنے قریب آچکی تھی کہ چند ہی لمحوں میں اُس گاڑی نے مجھے ٹکرماردی۔۔اور جب میری آنکھ کھلی تو میں نے خود کو ایک خوبصورت گھر میں پایا۔۔میں بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اس لیے میں جلدی سے بیڈ سے اُتر کر باہر کی طرف بھاگی۔۔جلد بازی کے چکر میں۔۔ میں ایک لڑکے سے جا کر ٹکرآٸی۔۔وہ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا جب کہ میں گھبرا رہی تھی۔۔۔میں نے اپنی لرزتی ہوئی آواز سے پوچھا کہ میں کہاں ہوں اور مجھے یہاں کون لایا ہے۔۔لڑکے کی جانب سے مجھے جواب ملا کہ میں ہی آپ کو لے کر آیا ہوں۔گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے آپ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس سے آپ بے ہوش ہو گئی تھی آپ کے سر پر بھی چوٹ آئی ہے اور میں نے آپ کے سر پرچوٹ پٹی لگا دی ہے اس کے علاوہ آپ کو چھوٹی چھوٹی دوسری خراش آئی ہیں جس پر میں نےمرہم لگا دی ہے۔۔آپ کو ریسٹ کرنا چاہیے۔۔میں نے جواب دیا کہ آپ کی ہر چیز کی میں بہت شکر گزار ہوں مگر مجھے اب گھر جانا ہے بہت وقت ہو چکا ہے۔۔میرے گھر والے پریشان ہوں گے۔۔
آپ پریشان مت ہوں میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔۔اتنے میں پیچھے سے کسی عورت کی آواز آئی جو سونو سونوکہہ کر چلا رہی تھی۔۔پھر اس لڑکے نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاں امی جان میں یہاں ہوں۔۔اور ہمارے پاس ایک آنٹی جو سونو نامی لڑکے کی ماں تھی آکر ہمارے پاس کھڑی ہو گئی۔اور مجھے کہنے لگی کہ بیٹی اب تمہاری طبیعت کیسی ہے۔۔اور وہ مجھے کہنے لگی کہ تمہیں تو بیڈسے اٹھنا نہیں چاہیے تھا اور میں نے جلدی میں اُن سےکہا کہ نہیں آپ سب کا بہت شکریہ میں نے گھر جانا ہے میں نے انہیں خدا حافظ کہتے ہوئے باہر کی طرف آنے لگی۔۔ تو آنٹی نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ تم اکیلے مت جاؤ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ میرا بیٹا تمھارے گھر تک چھوڑ آتا ہے۔۔پہلے تو میں نہیں مانیں مگر ان کے کافی اصرار کی وجہ سے میں اس لڑکے کے ساتھ گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی.۔۔سفر کے دوران لڑکے نے مجھ سے کافی سوال کیئے۔جیسے آپ کیا کرتی ہیں?آپ کا نام کیا ہے اور آپ نے کتنی تعلیم حاصل کی ہے وغیرہ وغیرہ۔کچھ سوالوں کے جواب دینے کے بعد میں نے کہا کہ میں ابھی اپنا تعارف کروانے کے موڈ میں نہیں ہوں کیونکہ مجھے پریشانی ہو رہی ہے کہ میرے گھر والے میرے لئے پریشان ہو رہے ہوں نگے۔۔کچھ وقت گزرنے کے بعد آخر میں اپنے گھر کے باہر پہنچ گئی اور میں نے کچھ کہے بغیرگاڑی سے جلدی اُتری اور گھر کی جانب چلی گئی۔۔جیسے میں گھر میں داخل ہوئی تو گھر کے سارے افراد وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔۔ٹیچر کے بھائی کے علاوہ اور مجھے سبی دیکھ رہے تھے۔انٹی نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں چلی گئی تھی تو میں نے ان کو اپنے ساتھ گزرا سارا واقعہ سنایا..تو انکل نے مجھے کہا کہ یہ بات تو اچھی نہیں ہے آپ کوہمیں ٹیلی فون کر دینا چاہیے تھا کیونکہ ہم بہت فکرمند ہو چکے تھے۔۔آپ اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے تو ٹیچر نے مجھے کہا کہ تمہیں زیادہ چوٹ تو نہیں آگئی ہمیں چاہیے کہ مہک کے خلاف رپورٹ درج کروا دیتے ہیں جس نے آج کیا ہے وہ کل کچھ اور بھی کر سکتی ہے مگر آنٹی نے کہا نہیں وہ کچھ نہیں کرے گی۔ہمیں پولیس کے چکر میں نہیں پڑنا۔۔میں خود چھوڑنا چلے جایا کرو گی۔کرن کو آپ لوگوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔پیچھے سے ٹیچر کا بھائی آیا اور وہ بہت ہی غصے کے لہجے میں کہنے لگا کے تمہیں خیال ہے کہ تمہاری وجہ سے ہم کتنے پریشان ہوئے ہیں۔۔میں نے کچھ جواب نہ دیا بلکہ ٹیچر نے کہا کہ ہم سب کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ کرن ٹھیک ٹھاک گھر پہنچ گئی ہے۔جب ٹیچر کے بھائی نے مجھے غور سے دیکھا تو میرے سر پر پٹی بندھی تھی۔۔پھر اس نے مجھ سے سوال کیا تو میں نے جواب میں کہا کہ چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس کی وجہ سےگھر پر میں وقت سے نہیں پہنچ پائی۔۔آنٹی نے مجھے کہا کہ اچھا چلو جاؤ فریش ہو کر آجاؤ اور کھانا لگا ہوا ہے سب کھانا مل کر کھا لیتے ہیں تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں۔۔۔مجھے بھوک نہیں ہیں آپ لوگ کھائے میں تھوڑا آرام کرنا چاہتی ہوں۔۔یہ کہہ کر میں اپنے کمرے میں سونے کے لئے چلی گئی۔۔اس کے بعد میری آنکھ صبح ہی کھلی۔۔۔اور میں نے ناشتے کے بعد تیار ہو کر پالر کے لیے نکل پڑی سب اپنے اپنے کام کے لیے نکل چکے تھے جبکہ آنٹی ابھی سو رہی تھی۔۔اس لیے میں نے انہیں پریشان کرنا ضروری نہیں سمجھا اور خود بولر کے لیے نکل گئی تھی۔۔ جب میرا ایک گھنٹہ پالرمیں گذرا تو مجھے آنٹی کا فون آیا ہے۔۔آنٹی نے میرا حال احوال پوچھا اور کہا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی تمہیں اتنی چوٹ آئی تھی تمہیں آج چھٹی کر لینی چاہئے تھی تو میں نے ان کو کہا نہیں میری طبیعت پہلے سے بہتر تھی اس لئے میں نے چھٹی کرنا ضروری نہیں سمجھا۔۔فون بند ہونے کے بعد میں اپنے کام میں دوبارہ مصروف ہوگٸی۔۔اور پھر انکل نے باہر سے فون کیا جوکہ پالر کی رکھوالی کرتے تھے۔۔۔انہوں نے مجھے کہا کہ آپ سےملیمیں آپ سے ملنے کوئی سونو نامی لڑکا آیا ہے جو کہہ رہا ہے کہ آپ کو جانتا ہے۔۔میں اپنے کام کو وہیں چھوڑ کر باہر گئی تو میں نے دیکھا یہ وہی لڑکا تھا۔۔جس نے میری کل پٹی وغیرہ کی تھی اور مجھے گھر چھوڑا تھا۔۔میں نے کہا جی آپ کو کیا کام ہے تو مجھے کہا کہ آپ کا کل کچھ سامان ہماری طرف رہ گیا تھا اور جس میں آپ کے پالر کا کارڈ تھا ۔اس لئے میں ادھر آپ کو آپ کا سامان دینے آیا ہوں۔اچھا میں نے حیرت انگیز طریقے سے کہا
میں اپنے کاموں میں اتنی مصروف ہو چکی تھی کہ میرے ذہن سے نکل گیا تھا۔۔میں اس زحمت کے لئے آپ سے معذرت چاہتی ہوں اور میں نے شکریہ ادا کر رہی تھی کہ۔جس کسٹمر کو میں اندر ڈیل کر رہی تھی وہ ایک ایکٹرتھی۔جو غصہ میں آ کر وہ باہر میرے پاس آگئی اور مجھ پر چلانے لگی۔کے آپ کس طرح سے اپنے کسٹمر کو ڈیل کر رہی ہیں مجھے وہاں انتظار کرنے کے لیے بٹھا دیا ہے میں فارغ تھوڑی نہ ہوں۔مجھے اور بھی کام ہوتے ہیں۔۔میں ان کو سمجھانے کی کوشش میں لگی تھی کہ سونو نے کہا شہناز آپ یہاں وہ جو ایکٹر مجھ پر چلا رہی تھی ۔اس نے جب سونو کو دیکھا تو وہ بھی بہت مسکرانے لگی اور اس نےکہاں سونو کیا اتفاق ہوا ہے ملنے کا تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔تو سونو نے کہا کہ یہ میری دوست ہے اور میں اس کو اس کا سامان کچھ میرے پاس رہتا تھا وہ دینے آیا ہوں۔میں حیرت سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی کہ وہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔پھر وہ بولا اس کو میری وجہ سے ہی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے لیے میں معذرت چاہتا ہوں۔اچھا ہاں مجھے یاد پڑتا ہے شہناز آپ نے مجھے کہا تھا کہ آپ کی نظر میں اگر کوئی لڑکی ہو تو میں بتاؤں آپ کو کسی رول کے لئے ایک لڑکی کی ضرورت تھی تو یہ ان سے ملیے۔۔یہ کرن ہے اور آپ جو بھی کام اسے دینگی مجھے یقین ہے یہ بڑے اچھے طریقے سے کریں گی۔۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں اس وقت کیا کہوں اس لیے میں نے چپ رہنا ہی بہتر سمجھا کچھ ہی دیر میں سونو چلا گیا اور میں شہناز میڈم کا ٹریٹمنٹ کروانے لگ گٸی۔۔ٹریٹمنٹ کے دوران شہناز میڈم نے مجھ سے کچھ سوالات پوچھے اور اپنے بیگ میں سے ایک پرچی نکال کر مجھ سےکہا کہ مجھے تم پرفارم کر کے دکھا دو۔۔وہ کہنے لگی کہ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ تمہارے اندر ٹیلنٹ ہے یا نہیں تو میں نے وہ پرچی کو اٹھایا اور ایک دو دفعہ پڑھنے کے بعد میں نے انہیں اپنی طرف سے بہترین پرفارم کر کے دکھا دیا۔۔۔ان کو میری ایکٹنگ بہت پسند آئی۔۔وہ مجھ سے میرا نمبر لیکر اپنا ٹریٹمنٹ کروانے کے بعد چلی گئی۔۔یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔اس کے بعد جو وقت گزرا میں گھر گئی۔جب ہم سب کا کھانے کے لیے بیٹھے تو میں نے انٹی سے کہا کہ مجھے اس طرح سے ایک آفر ملا ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو میں یہ کرلو۔۔۔تو ایک دم سب چپ ہوگئے پھر ٹیچر نے مجھ سے کہا کہ دراصل ہم نے سوچا ہے کہ ہم بھائی کی شادی کر دیں۔۔تو میں نے کہا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے چلیں اس بہانے کوئی فنکشن آ جائے گا۔۔تو آنٹی نے کہا کہ دراصل بیٹی ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے بیٹے کی شادی تمہارےساتھ کر دے۔اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو۔میں یہ بات سن کرایک دم صدمے میں آگئی ۔میرا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا۔۔پھر میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آنٹی دراصل میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی اور بھائی بھی تو مجھ سےبہت بڑے ہیں۔۔اور اگر میں دل سے آپ لوگوں کو کچھ کہوں تو آپ لوگ میری بات کو ضرور سمجھیں گے میں امید کرتی ہوں۔۔دراصل میں نے ہمیشہ ساول بھائی دل سے اپنا بھائی مانا ہے اور میں کبھی بھی ساول بھائی کو اپنے شوہر کی حیثیت نہیں دے سکتی۔۔کھانا کھانے کے دوران ہی میں وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی اورکسی نے مجھے کوئی جواب نہ دیا۔۔آج میں ایک عجیب کشمکش کی شکار ہوچکی تھی۔۔جب مجھے کسی کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تو وہ یہ لوگ تھے اور میں ان کا دل دکھانا نہیں چاہتی تھی مگر میں سے شادی بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔وہ بھی ایک ایسے شخص سے جس کو میں نے ساری زندگی دل سے اپنا بھائی مانا تھا۔۔آج میرا دل بہت اداس ہوا تھا اور میرا دل کر رہا تھا کسی ایسے پرانی دوست سے بات کروں کہ جس سے بات کرکے میرے دل کو سکون مل جائے۔۔میں نے جب اپنا گھر چھوڑا تھا تو میں نے اپنی ایک کلاس کی لڑکی کا نمبر نوٹ کر کےرکھ لیا تھا جو آج بھی میں نے اپنے پاس سنبھال کر رکھا تھا۔۔میں نے اپنا موبائل اٹھایا تو اس نمبر کو ملانے لگی تھی کہ کسی انجان نمبر سے مجھے ایس ایم ایس آئے ہوئے تھے۔۔میں نے ان ایس ایم ایس کو اگنور کرتے ہوئے اس نمبر کو ڈائل کیا۔۔نمبر ملنے کے بعد فون کسی خاتون نے اٹھایا میں نے ان سے کہا کہ مجھے انم سے بات کرنی ہے میں اس کی کلاس میں پڑھتی ہوں اس کی دوست بات کر رہی ہوں۔۔جب انم نے فون اٹھایا تو میں نے اس سے کہا کہ میں ابھی اپنے بارے میں بتاتی ہوں مگر آپ شور نہیں کریں گی نہ ہی کسی کو محسوس ہونے دینگی۔۔توانم نےکہا اچھا چلیں ٹھیک ہے آپ بتائیں تو سہی آپ کون ہیں پھر میں نے انم کو بتایا کہ میں کرن بات کر رہی ہوں تو انم بہت خوش ہوئی۔۔اس نے مجھے بتایا کہ میرے بعد وہاں کیا کیا مسائل کھوئے اور کس طرح سے لڑائی جھگڑے ہمارے گھر میں رہے۔۔مگر اب سب معاملے اس نے بتایا کہ ٹھنڈے ہو چکے تھے اور بس ایک چاچو آج بھی میری تلاش میں تھا۔۔جو کہ چاہتا تھا کہ مجھے خاندانی رسم و رواج کے حساب سے سنسار کیا جانا چاہئے۔۔اس کے علاوہ اس نے بتایا کہ میرے ابو کی طبیعت بہت خراب ہے جن سے دوسری شادی کی تھی۔۔انہوں نے ہی میرے پورے خاندان کے ناک میں دم کر کے رکھ دیا تھا۔بات چیت کرنے کے بعد میں نے فون بند کر دیا اور مجھے کسی کی بھی فکر نہیں تھی بلکہ مجھے ایک دل سے سکون ملا تھا کہ میری ماں پربہت ظلم کیا تھا مگر اس کی سزا میرے خاندان والوں کو مل گئی۔۔مگر مجھے میرے ابو کی فکر ہونے لگی تھی کیونکہ ان کی طبیعت بہت خراب تھی اور دوسری بیوی کو اس چیز کی بالکل پروا نہ تھی۔میں پہلے سے ایک کشمکش میں تھی کہ مجھے دوسری پریشانی لاحق ہو گئی تھی۔کچھ بھی ہو وہ میرے ابو تھے اور ان کی طبیعت کا سن کر میں بہت زیادہ پریشان ہوگئی تھی۔۔میں نے اپنا دل بہلانے کے لیے ہینڈ فری لگا کرگانے لگا لیے۔۔۔اور جو ایک انجان نمبر سے ایس ایم ایس آئے تھے وہ چیک کر کیے تو مجھے پتہ چلا کہ سونو کے ایس ایم ایس تھے۔۔جس میں وہ مجھ سے دوستی کرنا چاہتا تھا اور شاید مجھے بھی ایک اچھے دوست کی اس وقت سخت ضرورت تھی۔۔تو میں نے بھی ہلکی پھلکی بات چیت کرنا شروع کردی۔۔اور ایس ایم ایس کا پہلے جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور جب میں صبح اٹھی تو میں نے اپنے ہاتھ میں موبائل کو پایا۔۔تو جلدی سے موبائل کو سائیڈ پر رکھ دیا کہ کبھی نہ کبھی کوئی بھی میرے کمرے میں آ جاتا تھا تو میں نے شکر ادا کیا کہ کوئی نہیں آیا۔۔کیوں کہ اگر کوئی آجاتا تو اس طرح میرے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر یقینا مجھ پر شک کرتا۔۔روزانہ کی روٹین کے مطابق جب میں ناشتے کے لیے گئی تو ٹیچر آج پہلی دفعہ اسکول کے لئے ابھی تک نہیں نکلی تھی۔۔جب میں نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی تو ٹیچر کا رویہ میرے ساتھ اُکھڑا اُکھڑا تھا۔۔میں نے ٹیچر سے کہا کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں تو ٹیچر نے مجھے جواب دیا کہ نہیں تمہاری اپنی مرضی ہے تمہاری زندگی ہے ہم تم پر پابندی لگانے والے کوئی نہیں ہوتے یہ کہتے ہوئے ٹیچر اسکول کو نکل گئی۔۔جب کے میں بھی ناشتے کے بغیر ہی پالر کی طرف نکل پڑی۔تو جب میں راستے میں پہنچی تو مجھے ایک انجان نمبر سے فون آیا جب میں نے فون اٹھایا تو وہ شہناز میڈم تھی جنہوں نے مجھےایک قریبی ہوٹل پر بلوایا۔۔ویسے بھی میں بنا ناشتے کے نکلی تھی۔اور ابھی پالرجانے میں بھی وقت تھا۔۔اس لیے میں نے ہوٹل جانے کا فیصلہ کر لیا۔اور میں گاڑی پر بیٹھی اور ہوٹل پہنچ گٸی کے اور میڈم سے شہناز نے جو جگہ بتائی تھی ادھر پہنچ گئی۔۔کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد میڈم شہناز بھی وہاں پہنچ گئی اور سونو بھی ان کے ساتھ موجودتھا۔سلام ہونے کے بعد۔ہم تینوں ایک سائیڈ والی چیر پر بیٹھ جس میں میڈم نے مجھے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو رول ہے اس اس کو آپ نے کل پرفارم کرنا ہوگا اور آپ کو یہ بھی بات بتا دوں کہ یہ موقعے ہمیشہ حاصل نہیں ہوتے آپ خوش نصیب ہیں کہ یہ موقع چل کر آپ کے پاس آیا اور آپ سونو کا شکریہ ادا کرے جس نے مجھے آپ کو یہ رول کرنے کے لیے کہا۔۔اس بات چیت کے بعد میڈم شہناز کو کسی کا فون آ گیا اور وہ چلی گئی۔۔جب تک سونو میرے ساتھ ہی بیٹھا تھا اور میں نے بھی چلنے کے لیے جب اٹھی تو سونو نے کہا مہربانی ہوگی اگر آپ تھوڑی دیر بیٹھ جائیں۔۔اسکی کی یہ بات سن کر تو جیسے میرے قدموں نے چلنے سے انکار کر دیا میں چپ چاپ وہاں بیٹھ گئی۔۔سونو تو پہلے میرے ساتھ رول کی باتیں کرتا رہا کہ آپ کو پرفارم کر لینا چاہیے۔ اور اٍدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اچانک سونو نے کہا کہ میں نے جب سے آپ کو دیکھا ہے میں صرف آپ کے بارے میں ہی ںسوچتا رہتا ہوں۔۔اور میں آپ پر کوئی بھی زبردستی نہیں کروں گا۔۔اگر آپ کو میری بات بری لگی ہے تو مجھے معاف کر کریےگا مگر میں ہر حال میں چاہتا ہوں آپ کو اور اگر آپ کو میرا پرپوزل پسند نہیں ہے تو کوئی بات نہیں ہم دوست بھی رہ سکتے ہیں۔۔زندگی میں اگر کبھی بھی آپ کو میری ضرورت پڑے تو میں حاضر رہوں گا میں ہمیشہ آپ کا انتظار کروں گا۔سونو کی یہ باتیں سن کر ایک دفعہ تو میرے دل میں یہ خیال آیا۔کہ شاید اللہ تعالی بھی یہی چاہتے ہیں۔۔مگر میں نے سونو سے سوال کیا کہ میں ایسےکیسے کسی انجام پر یقین کرلو جسے مجھے جانتے ہوئے بھی صرف ایک دو دن بڑی مشکل سے ہوئے ہیں۔۔آپ کون ہیں کہاں سے ہیں کیا کرتے ہیں۔۔بنا جانےہی میں کیسے آپ کو اپنی زندگی میں شامل کر سکتی ہوں۔۔سونو نے اپنی جیب کے اندر سے ایک کارڈ نکال اور کہا میں فلاح ہوسپٹل میں ڈاکٹر ہوں اورمیرے گھر میں میری ماں میرے اور چند نوکروں کے علاوہ کوئی اور نہیں رہتا۔۔آپ کے گھر والےمیرے بارے میں کسی سے بھی ہمارے ایریا میں آکر پوچھ سکتے ہیں آپ کو تسلی بخش جواب ملے گا۔۔۔ میں نے جواب دیا کہ مجھے کچھ وقت درکار ہوگا میں سوچ کر اس کا کو جواب دو گی۔میں وہاں سے اٹھ کر چلنے لگی تو مجھے سونو نے کہا کہ میں کل اسی جگہ پر آپ کا انتظار کروں گا اور مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔۔پھر میں وہاں سے پالر کے لیے نکل گئی۔۔سارا دن کام کے دوران میں اسی کشمکش میں رہے کہ ایک طرف تو وہ لڑکا ہے جو چند دنوں میں ہی میری زندگی میں شامل ہوا اور دوسری طرف وہ انسان ہیں جسے میں نے ساری زندگی اپنا بھائی مانا مگر ان کے گھر والوں احسانات ہونے کی وجہ سے کوئی خاص فیصلہ نہیں کر پا رہی۔۔پھر میں پالر سے پانچ منٹ پہلے نکلی اور ہمارے گھر کے کچھ فاصلے پر ہی ایک دربار تھا جہاں میں نے حاضری دی اور اس کے علاوہ میں نے وہاں دعا کی کہ جو میرے حق میں فیصلہ بہتر ہے میرے لیے رب کے حضور وہ دعا کر دیجیے گا کہ میں بہترین راستے کا اختیار کروں۔۔منت مانگنے کے بعد میں وہاں سے گھر آگئی۔۔زندگی میں بہت مشکل وقت آیا مگر ٹیچر نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا لیکن میری ٹیچر کا رویہ مجھ سے اچھا نہ تھاکیونکہ وہ بھی اپنی جگہ غلط نہ تھی کیونکہ اس کے بھائی اور میرے درمیان اگر کسی کو اُنہیں عزیز تھا تو وہ ٹیچر کو ٹیچر کا بھائی تھا۔۔ٹیچر کے بھائی کو مجھ میں دلچسپی تھی۔۔مگر میں نے شروع سے ہی ان کو دل سے بھائی مانا تھا۔۔آج اس گھر میں کوئی میرا ساتھ دے رہا تھا تو وہ صرف آنٹی تھی اس کے علاوہ وہاں اگر کسی کو فکر تھی تو انکل کو اپنے بیٹے کی ٹیچر کو اپنے بھائی کی۔۔سب اپنے اپنے کمروں میں کھانا کھا رہے تھے آج اور میں بھی اپنے کمرے میں چلی گئی میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔۔اور جب میں صبح اٹھی تو نہ کھانے کی وجہ سے میری طبیعت خراب ہوچکی تھی۔۔ڈپریشن کی وجہ سے مجھے بخار سا محسوس ہورہا تھا۔۔لیکن میں ہمت کرکے گھر سے نکل پڑی۔۔۔جس جگہ سونو نے بلایا تھا میں وہاں پہنچی تو سونو پہلے سے ہی موجود تھا۔۔جب ہم دونوں آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے تو سونو نے مجھ سے کہا کہ آپ ٹھیک تو ہیں آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی میں نے کہا نہیں میں ٹھیک ہوں۔ اُس سے میں نے کہا کہ آپ نے تو مجھے اپنے بارے میں بتایا ہے مگر میں نے آپکو اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔۔تو سونو نے کہا کہ مجھے آپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا بس مجھے آپ چاہیے۔۔تو میں نے کہا آپ کو لگتا ہوگا میں پالر میں جاب کرتی ہوں جس گھر پہ آپ نے مجھے چھوڑا تھا وہ گھر میرا ہے تو ایسا کچھ نہیں ہے۔۔یہ آپ کی غلط فہمی ہیں۔۔میں نے سونو کو اپنے بارے میں سب بتا دیا۔۔اور میں نے اپنی ٹیچر کے بھائی کے بارے میں بھی بتایا۔۔اور میں نے کہا کہ میں ان کے احسانوں تلے دبی ہوں اور میرے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں ہیں کہ میں کیا کروں۔۔کچھ دیر خاموشی کے بعد میں نے کہا آج میرا رول ہے اور آج میں نے وہاں جانا ہے میں وہاں چلتی ہوں۔۔میں یہ کہہ کر وہاں سے نکل پڑی میں نے اس دن پہلی دفعہ ٹی وی پر پرفارم کیا۔۔پرفارمنس دےکر جب میں وہاں سے باہر نکلی تو سونو وہاں پر کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا۔اس نے ہاتھ سے ہیلو کیا اور وہ میرے پاس پاس آگیا۔۔پھر سونو نے مجھے کہا آپ نے بہت اچھی پرفارمنس دی۔۔ہم کوئی بات کرتے کہ وہاں پر ہی ٹیچر کا بھائی آ گیا اور اس نے مجھے کہا ہے کہ یہ وہی ل لڑکا ہے جس کی وجہ سے تم مجھے منع کر رہی ہو۔۔احسان فراموش ہو تم ساری زندگی ہم تمہیں پالتے رہے اور تم باہر منہ مارتی رہی۔۔ٹیچر کا بھائی زبردستی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچ کر لے کر جارہاتھا۔۔میں نے غصے سے ہاتھ چھڑایا اور کہا کہ آپ ہوتے کون ہو میرے ساتھ اس لہجے میں بات کرنے والے آپ نے میرا ساتھ نہیں دیا بلکہ آنٹی اور ٹیچر نے میرا ساتھ دیا ہے آپ کو میں نے اپنا بھائی مانا ہے اور کبھی بھی اور کوئی درجہ نہیں دے سکتی ہوں بھائی کے علاوہ۔۔ٹیچر کے بھائی نے مجھے انگلی دکھاتے ہوئے کہا کہ میں دیکھ لوں گا تمہیں اب میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔۔آخر گھوم پھر کر تو تم نے آنا میرے ہی گھر میں ہے نا تم اگر میری نہیں ہو سکتی تو کسی اور کی بھی ہونے نہیں دوں گا۔۔وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا مگر میں بے حد رورہی تھی اور مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔سونو میری طرف قدم بڑھا رہا تھا میں نے اُسے ہاتھ کے اشارے میں وہی رُکنے کو بولا اور میں روتی ہوئی وہاں سے آگے کی طرف نکل گئی۔۔میں نے جس دربار میں منت مانگی تھی میں میں تقریبا سارا دن جاکر وہیں بیٹھی رہی۔۔اور پھر مجھے وہاں بیٹھے ہوئے ایک فون آیا جوکہ میڈم سے شہناز کی جانب سے تھا انہوں نے کہا کہ میرے لئے کوئی کام ہے مگر وہ کام کراچی میں ہوگا اور جس میں مجھے رہنے کے لئے جگہ بھی ملے گی اور مجھے اپنا کام بھی کرنا ہو گا۔۔جب میں گھر گئی تو گھر میں الگ تماشہ کھڑا ہوا تھا۔۔ٹیچر نے پہلی دفعہ میرے ساتھ اس طرح بات کی مجھے وہ کہنے لگی کہ آج تم جو کچھ بھی ہو ہماری وجہ سے ہی ہو اور آج تم ہمیں داغابازی دکھا رہی ہو اگر اس کی جگہ تمہاری ماں زندہ ہوتی تو وہ یہ سب برداشت کرتی۔جو حرکتیں تم کر رہی ہو۔۔ایسے تمہیں شادی نہیں کرنی ایسے تم لڑکوں کے ساتھ گھومتی پھرتی ہو۔۔مجھے میری صفائی پیش کرنے کا تو کسی نے موقع ہی نہیں دیا۔گھر میں سب مجھ پر طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے صرف ایک آنٹی خاموش تھی۔۔۔ پھر آنٹی نے کہا جاؤ تم اپنے کمرے میں جاؤ میں اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔ اور مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا میرا دل کر رہا تھا کہ میں خود کو مار لو اور شاید میں اس حد تک پہنچ چکی تھی۔میں خود کشی کر لیتی۔۔میں بیڈ پر لیٹی رو رہی تھی مجھے فون آیا جو کہ میری دوست انم کا تھا۔۔جب میں اُس سے بات کرنے لگی تو میری آواز رونے والی ہوئی تھی تو اس نے کہا کہ کیا تمہیں بھی پتہ چل گیا ہے تو میں نے کہا مجھے کیا پتا چلا ہے تم کیا کہنا چاہ رہی ہو۔۔تو اس نے مجھے بتایا کہ تمہارا پتا تمہارے چاچو کو چل گیا ہے تم حیدرآباد میں ہو اور اس نے شور مچایاہوا ہے وہ گھر سے نکل چکے ہیں۔۔تو جب میں نے اس سے پوچھا کہ میرا پتا کیسے پتہ چل گیا ہے اور تمہیں پتہ چلا کہ کس نے بتایا ہے اُنہیں۔۔تو مجھے انم نے بتایا کہ حیدرآباد میں تم جس گھر میں رہ رہی ہو اُن کے کسی لڑکے نے بتایا ہے۔۔میں سمجھ چکی تھی کہ یہ کون تھا۔۔ میں نے اس سے خدا حافظ کر کے جلدی سے میڈم شہناز کو فون کیا اور میں نے کہا کہ میں ابھی آنا چاہتی ہوں۔۔آپ نے مجھے کہا تھا کہ کراچی میں رول وغیرہ جو بھی ہے میں ابھی کے ابھی نکلنا چاہتی ہوں اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو۔۔اور اتفاق یہ ہوا کہ انہوں نے مجھے کہا کہ ہاں میں بھی کراچی کے لیے ہی نکل رہی ہوں مجھے تم اپنا پتہ بتا دو میں وہاں سے تمہیں پیک کرکے لے جاتی ہوں۔میری بات مکمل ہوئی تو آنٹی بھی کمرے میں داخل ہوگئی اور اس نے کہا کہ میں نے تمہاری ساری باتیں سن لی ہیں۔۔آنٹی کو دیکھ کر میں ایک دم ڈر گئی تھی۔۔ مگر آنٹی نے مجھے کہا کہ ڈرو مت میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔میرے بیٹے نے تمہارے ساتھ اچھا نہیں کیا تمہارے گھر والوں کو یہاں بلا لیا ہے۔۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے چلی جاؤ۔۔میں سمجھ سکتی ہوں یہ تمہاری زندگی ہے اور تم جیسا چاہو اس کو جیو مجھے تم سے کبھی کوئی گٍلا نہیں ہے۔۔پھر میں نے آنٹی کو کہا کے آنٹی میں آپ ل سب کی دل سے قدر کرتی ہوں آپ لوگوں نے مجھے اپنوں سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے۔۔اور میرا ساتھ بھی دیا ہے۔۔یہ احسان میں کبھی نہیں بھول سکتی ۔۔مگر میں کبھی بھی بھائی کو اپنے شوہر کا درجہ نہیں دے سکتی۔مجھے یقین ہے کہ آپ میری بات کو ضرور سمجھیں گی۔۔ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ میڈمشہناز کی کال آگئی کہ میں تمہاری بتائی جگہ پر پہنچ گئی ہوں۔۔آنٹی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کچھ پیسے میرے ہاتھ میں تھما دیے ۔۔اور مجھے کہنے لگی ۔تم نے تو اپنا سامان پیک نہیں کیا تو میں نے اُن سے کہا کہ بس مجھے جو ضرورت کی دو تین چیز لگی ہیں وہ میں نے رکھ لی ہیں باقی یہی رہے گا۔۔آنٹی کے گلے لگ کر میں وہاں سے اپنا کچھ چند سامان لے کر میڈم شہناز کے ساتھ نکل پڑی۔۔پھر ہم کراچی پہنچے اور ایک جگہ پر آرام کیا۔۔اور اپنے کام میں لگ گئی تین سال تک لگاتار میں نے ایکٹنگ کو کیا اور پھر ایک دن میں اپنے شو کے سلسلے میں حیدرآباد گٸی۔تو میں اس دربار میں جہاں میں جایا کرتی تھی میں اس نے گٸی اور حاضری دینے کے بعد جیسے ہی میں سیڑھیوں سے اتر کر دوسری سائیڈ پر جانے لگی۔تو میری ملاقات وہاں سونو کے ساتھ ہوئی آج پھر ہم ویسے ہی اتفاق سے ایک دوسرے کے سامنے آگئے۔۔ایک دوسرے کو دیکھ کر تو دیتے ہیں ہماری سٹی گم ہوگئ۔آپ یہاں تم یہاں کرتے ہوئے ہم دونوں نے ایک دوسرے سے بات شروع کی۔۔ہم دربار کے اندر ایک جگہ بیٹھنے کی بنی ہوئی تھی ہم دونوں وہاں جاکر بیٹھ گئے۔۔ایسا لگ رہا تھا ہمارے پاس بات کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہیں۔۔اور اگر بات کرنے کے لئے کچھ تھا بھی تو ہم سے بات ہی نہیں ہو رہی۔۔ہم دونوں کے منہ سے ایک ہی الفاظ نکلے تو کیا شادی ہو گئی آپ کی۔۔میرے منہ سے نہیں اور اس کے منہ سے یہ نٍکلا آپ تو تھی نہیں میں نے کس سے شادی کرنی تھی۔۔پھر سونو نے کہا مجھے لگا کہ آپ کی شادی ہوگئی ہوگی جس کی وجہ سے آپ کسی بھی راستے پر کسی بھی جگہ مجھے دوبارہ نظر بھی نہیں آئی۔۔دکھائی دیتی تھی تو صرف ٹی وی پر اور مجھے اس چیز کا اندازہ تھا کہ جب آپ کا اور شہناز میڈم کا ایگریمنٹ ہوا تھا تو اس میں یہ تھا کہ اگر آپ شادی کرتی ہیں تو آپ پانچ سال تک کسی سے بھی پتا نہیں چلنے دیں گے۔۔اور اس لئے میں یہ سو چکا تھا کہ آپ شادی کر چکی ہونگی۔میں نے بھی یہی کہا کہ مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ وہ سب وقتی تھا اور آپ شادی کر چکے ہونگے۔۔سونو نے کہا کہ جیسا کہ ہم دونوں نے شادی نہیں کی تو کیا اب کریں گی آپ مجھ سے شادی۔۔نہ کرنے کی تو میرے پاس کوئی وجہ ہی نہ تھی۔۔اس کے بعد ہم نے مل کر دو دن تک شاپنگ کی اور پھر ایک ہفتے بعد ہم نے شادی کا رکھا کیونکہ مجھے بھی دو سال تک اپنی شادی کا کسی کو بتانا نہیں تھا۔۔ایگریمنٹ کی وجہ سے۔اور تیسرے دن میں نے اسے کہا کہ مجھے ذرا کام ہے میں کل تک آ جاؤں گی۔۔ہوا کچھ یہ تھا کہ میں نے سونو کے لینڈ لائن سے اپنی دوست انم کو فون کیا اور مجھے پتا چلا کہ میرے ابو کی طبیعت بہت خراب ہے تو اس وجہ سے میں نے بنا کچھ سوچے سمجھے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔میں برخا نقاب پہن کر انم کے بتائے ہوئے ہوسپٹل میں پہنچ گئی جہاں میں نے اپنے ابو کو شیشے کی کھڑکی سے کمرے میں لیٹے ہوئے دیکھا۔۔جب میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ ان کو کیا مسئلہ ہے تو ڈاکٹر نے بتایا کہ اس پیشنٹ کا کا لیور بہت ڈیمج ہوچکا ہے اور نیٹیو لیوربالکل بھی کام نہیں کر رہا۔۔لیور ڈیزیز کی وجہ سے انہیں نیا لیور دینے کی ضرورت ہے۔۔البتہ ان کے گھر والے ان کو چھوڑ کے چلے گئے ہوئے ہیں۔۔ہمیں یہ کام جتنی جلدی ہو سکے کرنا ہے لیکن نا تو ان کے گھر والوں نے لیور کا انتظام کیا ہے اور نہ ہی پیسوں کا اس لیے وہ دو دن سے یہاں چکر بھی لگانے نہیں آئے۔۔ میں نے جب ابو کی حالت دیکھی تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔۔میں نے پیسے جمع کروائے اور ڈاکٹر سے بات کرکے میں نے اپنا لیور دینے کا فیصلہ کیا۔۔سب کچھ تیار ہونے کے بعد میں نے سونو کو فون کیا اور کہا کہ مجھے آپ بہت پسند ہو لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میں واپس نہیں آ سکتی ہوں اس لئے مجھے معاف کر دینا یہ کہہ کر میں نے اس کی کوئی بھی بات سنے بغیر فون کاٹ دیا۔آپریشن ہونے کے بعد مجھے اور ابو کو ہوش آیا تو میں ابو کے بالکل برابر میں تھی۔۔جب میں نے ابو کو دیکھا تو ابو نے میرا ہاتھ پکڑا اور رونے لگ گئے اور مجھے کہا کہ معاف کر دو ۔۔ میں نے تمہاری امی اور تمہارے ساتھ بالکل بھی انصاف نہیں کیا لیکن جن کو میں نے ٹھکرایا آج انہوں نے مجھے سنبھالا ہے اور جن کو میں نے گلے لگایا انہوں نے مجھے ٹھکرا دیا مجھے میرے کیے کی سزا مل گئی مجھے معاف کردینا میں بہت شرمندہ ہوں اب وہ بھی رونے لگ گئے اور میں بھی رو رہی تھیں لیکن میں نے ابو کو حوصلہ دیا کہ نہیں آپ اس طرح سے مجھ سے معافی نہ مانگیں گے آپ میرے بڑے ہیں اور مجھے آپ کی کسی بھی بات سے کوئی گٍلہ نہیں۔۔ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ ایک ڈاکٹر ہمارے آگے آکر کھڑا ہوگیا اور جب اس نے چہرے سے ماسک ہٹایا تو وہ سونو تھا اور اس نے مجھے کہا کہ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ایک دفعہ آپ مجھے بتاتی۔۔میں آپ لوگوں کا ٹریٹمنٹ بہتر طریقے سے کروا سکتا تھا۔تو میں نے سوال کیا کہ آپ کو یہاں کا پتہ کس نے بتایا ہے تو مجھے سونو نے بتایا کہ جس نمبر سے میں بات کرکے گئی تھی سنونو نے اسی نمبر کو ڈائل کر کے انم سے پوچھا تو اُس نے اس بارے میں سب بتایا تھا اس طرح میں ہوسپٹل پہنچا۔ مگر چلو اللہ کا شکر ہے کہ اب بھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔۔اور آپ دونوں ٹھیک ہو۔پھر سونو نے ابو سے کہا کہ انکل دیکھا آپ نے کہ بیٹیاں بیٹوں سے زیادہ عزیز رکھتی ہیں اپنے والدین کو اگر ان کی قدر کی جائے اور ان سے وہی رویہ اختیار کیا جائے جو کہ ہمارا معاشرہ بیٹوں سے اختیار کرتا ہے۔۔مگر بیٹی کو وہ رتبہ نہیں دیتا۔پھر ابو نے جواب دیا کہ میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے ایک ایسی بیٹی ملی جس کی میں نے ناقدری کی مگر اس نے مجھے میرے مشکل حالات میں تنہا نہیں چھوڑا اور میرے آپ نے مجھے اس حالت میں مرنے کے لیے چھوڑ گئے جن کو میں نے اپنا عزیز سمجھا مگر وہ میرے عزیز نہ نکلےمیں اپنے گناہوں کی معافی اپنے رب سے بھی مانگتا ہوں اور میں اپنی بیٹی سے بھی معافی مانگتا ہوں کہ مجھے وہ معاف کردے تو پھر میں نے اپنے ابو کو کہا کہ اس طرح سے مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔۔ بار بار معافی مانگ کر میں آپ کی بیٹی ہوں اور یہ میرا فرض بنتا ہے۔۔اس کے بعد میری خبر میڈیا میں پھیل گئی اور سب چاہتے تھے کہ میں اس کے بارے میں سب کو انٹرویو دو میں نے کبھی بھی اس کے بارے میں کسی کو بھی کوئی بھی انٹرویو نہیں دیا اور میڈم شہناز نے بھی میرے ایگریمینٹ ختم کردیا۔میں ابو کو لے کر اپنے ساتھ کراچی آگئی۔ہم کراچی تو آگئے تھے لیکن میں اور ابو ہر مہینے میں ایک دفعہ امی کی قبر پر جاکر فاتحہ ضرور دیتے تھے۔۔ اور میری اور سونو کی شادی ہوگٸ تھی۔ثنا۔:آپ کی شادی سونو سے ہوئی جب کہ آپ کے شوہر کا نام کمال ہے اس کی کیا ہسٹری ہے۔۔کرن۔: اس کی ہسٹری کچھ بھی نہیں ہیں میرے شوہر کا نام کمال ہے اور اسے پیار سے سونو کہتے ہیں اور آج میں اپنے شوہر کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہی ہوں میرے ابو بھی بہت بوڑھے ہوچکے ہیں لیکن میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ابو کی خبر کبھی کسی نے نہ لی ہمارے رشتے داروں میں سے اور میں نے بھی کبھی اپنے ابو کو اس بارے میں نہیں کہا کیونکہ شاید ابو اُنہیں یاد کرتے ہوں گے مگراُن کا دیا غم ابو کبھی نہیں بھلا سکتے تھے۔ہم خوش تھے اپنی زندگی میں۔ہماری زندگی میں کسی بھی چیز کی کوئی بھی کمی نہ تھی اب۔اور میں اینجیو بھی چلا رہی ہوں جس میں میں غریب اور مسکین لوگوں کی مدد کرتی ہوں۔اور جہاں تک میں نے ایکٹنگ کو خدا حافظ کہا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ میں دینی تعلیمات حاصل کرنے لگ گئی تھی اور جس سے میرے خیالات میں بدلاو آ گیا اور آہستہ آہستہ جانے کب میں نے ایکٹنگ کو خدا حافظ کہہ دیا اس کا اندازہ مجھے خود بھی نہ ہوا۔بعض لوگ کہتے ہوں گے کہ میں نے پیسہ کما کر اب اسی چیز کو غلط کہہ رہی ہو تو میں صرف اتنا کہے سکتی ہوں کہ وہ وقت میری زندگی میں پانی کے بہاؤ کی طرح آیا۔۔اور پھر مجھے ایسے ایک مقام پر لاکر کھڑا کردیا کہ جہاں مجھے دنیاوی چیزوں کی کوئی خواہش ہی نہ رہی۔میں نا اس روپ کو جس میں ایکٹر تھی اس کو بُرا کہتی ہوں۔۔ اور میں یہ بھی نہیں کہنا چاہتی کہ میں آج اچھا بننے کی کوشش کر رہی ہوں بس میں اب جو ہوں وہی ہوں اور مجھے کسی بھی انسان کو اپنے بارے میں صفائی دینے کی خواہش نہیں۔۔|اور آخر میں بس اتنا ہی کہنا چاہتی ہوں کہ جو لوگ اپنی بیٹیوں کو بیچ کر پیسہ کماتے ہیں ان کے لئے صرف اتنا سا پیغام ہے کہ میری امی ہمیشہ یہ کہتی تھی۔آج کے دور میں تو اس عورت کی قدر نہیں ہے جو اتنا جہیز اور اتنا سامان اپنے ماں باپ کے گھر سے لے کر آتی ہے۔تو اُس کی قدر کو ئی خاک کرے گاجو خرید کر گھر لائی ہوگی۔میں صرف اتنی درخواست کرتی ہوں کہ اپنی بیٹیوں کو بیچنے کی بجائے تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں تاکہ وہ تعلیم حاصل کرکے ملک کا نام روشن کرےاور آپ کا بھی۔پیسہ ہمیشہ نہیں رہتا لیکن تعلیم کازیور ہے جو دنیا کی کوئی بھی طاقت آپ سے چھین نہیں سکتی اور یہ ایسا علم ہے کہ کبھی بھی زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ کے کام میں آسکتا ہے۔آج کے دن میں نے آپ کے کہنے کے مطابق ثنا آپ کو اپنی ساری کہانی کی ریکارڈنگ کروا دی ہے اور میں چلتی ہوں دوبارہ ملاقات ہوگی۔ثنانے کہا کہ آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں اپنا اتنا وقت دیا اور جو دو تین دن میں کام ہونا تھا۔وہ ایک دن میں آپ نے پورا دن لگا کر ہمیں ریکارڈنگ کروا دیا اور اب ہم وقفے سے اس کی قسط کو لگا دیں گے اور ہمیں یقین ہے یہ شو ہمارا بہت ہی زیادہ کامیاب ہونے والا ہے آپ کی اس کہانی کی بدولت۔یہ کہہ کر میں اسٹوڈیو سے جب باہر نکلی تو میرا شوہر میرے سامنے کھڑا تھا۔۔میں اپنے شوہر سے ملی۔انھوں نے مجھے بتایا کہ میں نے جو اپنی کہانی لکھ کر رکھی ہوئی تھی وہ انہوں نے کسی پبلشر کو پبلش کرنے کے لیے دے دی ہے۔۔ اورہم دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوگئے۔
رائٹر کا نام:- عائشہ ملک گلزار
 

Ayesha Gulzar Malik
About the Author: Ayesha Gulzar Malik Read More Articles by Ayesha Gulzar Malik: 2 Articles with 4677 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.