یہ غالباً مارچ کی ایک سہ پہر تھی.
وہ دیہاتی کلچر کے مطابق گھر سے باہر بنی بیٹھک کے تھڑے پر اپنے اباجی
مرحوم کے ساتھ بیٹھا تھا. اس کی نظریں جھکی تھیں. وہ کچھ بھی بول نہیں
پارہا تھا. اس کے اباجی کچھ بول رہے تھے اور وہ توجہ سے سننے کی کوشش کر
رہا تھا. اچانک ایک سائیکل آ کر رکتی ہے. اسلام علیکم کی آواز نے دونوں کو
چونکا دیا.
یہ آواز جانی پہچانی تھی. استادِ محترم کا اس نے آٹھ کر استقبال کیا. استادِ
محترم بچپن میں پولیو کی وجہ سے ٹانگ سے کچھ لنگڑا کر چلتے تھے مگر انتہائی
مضبوط قوت ارادی کے مالک، ہنستے مسکراتے، شعروشاعری سے دلچسپی رکھنے والے
اور صورتحال کے مطابق خوبصورت جملے بولنے والے انسان تھے.
پریشان کیوں ہو؟؟
استادِ محترم نے اس کی پریشانی بھانپتے ہوئے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے ہی
سوال کردیا.
یہ اپنے آ نے والے امتحان سے پریشان ہے. اباجی نے اس کی خاموشی پر اس کی
طرف سے جواب دیا.
اس میں پریشانی والی کون سی بات ہے؟ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا بنائ ہی امتحان
کے لیے ہے، ہم سب امتحان کے لئے ہی دنیا میں آئے ہیں. استادِ محترم نے کرسی
پر بیٹھنے سے پہلے ہی یہ سب کچھ کہ دیا.
دراصل یہ آج بہت دل برداشتہ ہے. ایک صاحب نے اس کو کہا ہہے کہ تم یہ کام
نہیں کر سکتے.اس کے اباجی نے اس کی طرف سے جواب دیا.
تو تم یہ غلط ثابت کردو. استادِ محترم کے اس جملے سے اس کے جسم میں جیسے
بجلی سی دوڑ کر گزر گئی. اس نے امید بھری نظروں سے استادِ محترم کی طرف
دیکھا.
اس کے اباجی کہنے لگے، یہی بات میں اس کو کہ رہا ہوں.
استادِ محترم نے کہا، وہ تمہیں کامیاب ہوتا دیکھنا نہیں چاہتا. تم اس کو
کامیاب ہو کر دکھا دو ورنہ ساری زندگی اس کے طعنے سنتے رہو گے اس کے.
بات اس کے دل میں گھر کر گئی. وہ شام گویا اس کے لیے ایک نئی شام تھی، ایک
نئی صبح کا خوبصورت پیغام. اس نے استادِ محترم کی بات پلے باندھ لی اور پھر
نہ صرف اللہ نے اس کو اس امتحان میں کامیابی دی بلکہ ہر جگہ اس نے وہ بات
بھلائی نہیں.
استادِ محترم کا ایک جملہ اس کی زندگی بدل گیا. انسان کو اللہ تعالیٰ نے
ایسی صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے کہ اسے خود بھی اندازہ نہیں. بڑے خواب
اور بڑی کوشش وقت کے ہر کوہ ہمالیہ کو سر کروا سکتے ہیں. کامیابی سب سے بڑا
انتقام اور انقلاب ہے. روٹین کی زندگی تو ہر کوئی گزار جاتا ہے. کامیابی
حاصل کرکے ہمیں لوگوں کے اندازے غلط ثابت کرنا ہی دراصل اشرف المخلوقات
ہونا ہے. |