تحریر:سالک ربانی میاں چنوں
زندگی کیاہے؟یہ سانسوں کے تسلسل کا نام نہیں بلکہ کچھ اور عوامل ہیں جو
زندگی کی نشاندہی کرتے ہیں یہی وجہ ہے اہل دل نبادات وجمادات کو بھی ذی روح
تسلیم کرتے ہیں حالانکہ رباہروں تنفس کا تصور تک نہیں ہوتا اب تو طب جدید
نے بھی اس امر سے اتفاق کرلیا ہے کہ نبادات و جمادات تک میں زندگی کی حرارت
موجود ہے پس وہ کونسے عوامل ہیں کہ جو انکی زندگی پر دلالت کرتے ہیں ۔دور
کیوں جائیں قرآن نے واضع طور پر اشارہ کیا ہے اﷲ کی راہ (صحبت)میں شہید
ہونیوالوں کو مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور
نہیں ۔اس جاندار حوالہ کے بعد اس امر میں کوئی شک نہیں رہا کہ زندگی صرف
سانسوں کے تسلسل کا نام نہیں بلکہ وہ عوامل بھی ہوتے ہیں جن کے سہارے زندگی
کا کارواں رواں دواں رہتا ہے ۔نبادات و جمادات کے بارے میں ارشاد ہے کہ سب
اﷲ کی تسبیح کرتے ہیں لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں جانتے ۔ظاہر ہے کہ تسبیح
کی ادائیگی حیات مستلز م ہے خواہ حیات کسی قسم کی ہو۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حیات حقیقی کا تعلق سانسوں کی روانی سے واجبی سا ہے
اور سچی بات تو یہ ہے کہ سانسوں کی روانی والی حیات فانی،چند روزہ اور
عارضی ہوتی ہے ادھر سانسوں کی ڈوری ٹوٹی اُدھر حیات ظاہری منقطع ۔جبکہ حیات
حقیقی وابدی ایسے اسباب سے موراہے جس کا واضح ثبوت ان اولیاء
،اصفیاء،ازکیااور اتقیا کی زندگیا ں جو حیات بعد الممعات کے سرمدی ساغرسے
سر شار ہوتے ہیں اور حقیقی زندگی یہی ہے کہ ظاہری موت کے بعد بھی اس کا ذکر
اسکی یادرس کا حسن عمل زندہ جاوید ہوایسے افراد قوموں مروجہ جام میں روح کا
مقام رکھتے ہیں۔ اس گروہ میں ایک حضرت میاں چنوں ؒ کا نام نامی ااور اسم
گرامی ہے جو میاں چنوں شہر کے ماتھے پر جھومر بن کر چمک رہا ہے ۔آپ آج سے
صدیوں پہلے جھنگ کے بلوچ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ زندگی نے آپ پر گہرے نقوش
مرتب کئے ،جوانی میں قدم رکھتے ہیں قسمت آزمائی کیلئے دریا ئے راوی پار
کرکے ضلع ملتان میں داخل ہوتے ہیں اور جو کچھ ملتا دریا پارلے جاتے۔ کافی
عرصہ یہی سلسلہ جا ری رہا ۔ایک دفعہ دریا پارکرکے پورا علاقہ چھان مارا
لیکن معاش کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی ۔کافی دن گزرگئے کہ ایک رات قسمت نے
یاوری کی اور حاجی مجید کے پاس چک 117/8BAسنیالاں والا سے پانچ بھینسیں ہا
تھ لگ گئیں جنہیں لے کر واپس ضلع جھنگ کے ایک طرف روانہ ہوئے دریا پر پہنچے
تو دریا پو را طغیانی پر تھا کافی دیر انتظار کیا لیکن پانی نہ اترا۔رات کا
آخری حصہ طلوع سحر کے قریب دور سے آوازوں کا شور کانوں میں پڑا۔ آپ نے
محسوس کیا کہ بھینسوں کے مالک آپہنچے ہیں ایک طرف صورتحال یہ ہے کہ سامنے
ٹھاٹھیں مارتا دریا راوی اور پیچھے آنے والوں کا شور جو لمحہ بہ لمحہ قریب
ہو رہا ہے۔ اس بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں بھولا ہوا خدایادآیا کہ
مولا اگر اس دفعہ اس مصبیت سے بچالے تو آج کے بعد توبہ اور اپنی یاری پکی
۔صبح کا وقت ٹوٹا ہوا دل اور قبولیت کی گھڑی تیر نشانے پر بیٹھا، دعا کرکے
دریا سے وضوکیا اور ادائیگی نماز کیلئے دریا کنارے کھڑے ہو گئے۔ آنے والوں
نے دیکھا ایک مردخدا نماز میں مشغول ہے۔ نماز سے فارغ ہوئے تو آنے والوں نے
پوچھا کہ بابا کسی اور فرد کو بھی دیکھا جو پانچ بھینسیں لے کر یہاں سے
دریا پار گیا ہو۔ آپ نے فرمایا کہ دریا پار تو نہیں گیا البتہ بھینسیں
ادھرہی کھڑی ہیں۔ آپ کے بتانے پر بھینسوں کے پاس آتے ہی تو ان کے حلیے
تبدیل ہو چکے تھے۔ کہنے لگے یہ بھینسیں ہماری نہیں ۔آپ نے فرمایا آپ لے
جائیں ان کا مالک بھی دور ونزدیک نظر نہیں آرہا آپکی بھینسیں گم ہوئی ہیں
تعداد پوری ہے حلیے بے شک نہیں ملتے آپ لوگ لے جائیں اگر مالک آجائے تو اسے
واپس کر دینا۔ انہوں نے سوچا بات تو ٹھیک ہے وہ بھینسیں لے کر واپس چل پڑے
۔آپ محفوظ طریقے سے دریا پار کر گئے ابھی وہ لوگ تھوڑی دُور ہی گئے ہونگے
کہ بھینسیں اپنے اصلی حلیے میں آگئیں یہ دیکھ کر وہ لوگ ششدررہ گئے چندلوگ
واپس آکر اس بزرگ کی تلاش کرنے لگے جس کی کرامت سے انکی بھینسوں کے حلیے
تبدیل ہو گئے تھے لیکن وہ تو افلاس پناہ میں محفوظ جگہ پہنچ چکے تھے۔
اس توبہ نصوح کے بعد اپنے پرانے دوست اورمرلی حاجی مجید سے ملے اور اپنی
توبہ کا حال بتایا۔ حاجی صاحب بہت متاثر ہوئے ۔اپنی نئی لگن کو سینے لگاتے
ایک دن ایک جگہ بیٹھے تھے کہ حضرت غوث بہاؤالدین زکریاؒ ملتانی کا وہا ں سے
گزر ہو ا آپ ؒ نے پانی کی طلب کی دونوں دوستوں نے عرض کی حضرت تشریف رکھیں
پانی لا دیتے ہیں۔ حضرت بابا میاں چنوں ؒ اور حاجی مجید دونوں پانی کی تلاش
میں نکلے پانی کافی دور تھا۔ لانے میں دیر ہوگئی حضرت غوث بہاؤالدین زکر
یاؒکچھ دیر انتظار کرنے کے بعد ملتان کی طرف روانہ ہوگئے۔ دونوں حضرات جب
پانی لے کر پہنچے تو حضرت کو نہ پا کر وہ بھی ان کے پیچھے روانہ ہوگئے ۔بعض
قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ راستے ہی میں ان سے جا ملے اور بعض روایات مظہر
ہیں کہ ملتان میں آپکے آستانہ عالیہ پر ملاقات ہوئی جب ملاقات ہوئی تو پا
نی کا کوزہ پیش کیا ۔حضرت نے اس سعادت اور فرماں برداری سے خوش ہو کر دست
بیعت کیا اور کمالات ظاہری و باطنی سے نوازا اور ارشاد فرمایا کہ اپنے
علاقہ میں واپس جاؤ۔ حاجی صاحب پکا حاجی مجید بیٹھ گئے اور حضرات بابا میاں
چنوں ؒ کو موجودہ جگہ پر بھیج دیا جہاں ان دنوں کوئی شہر نہیں تھا ۔
کرامت ،جب انگریز بر صغیر پاک ہند میں پوری طرح مستحکم ہو گیا تو اس نے
اپنی سہولت کیلئے ذرائع رسائل کی طرف توجہ دی اس سلسلہ میں موجودہ ریلوے
لائن بچھائی اور اسٹیشن کی عمارت تعمیر کی گئی انگریز نے رئیس علاقہ حضرت
حاجی مجید کے نام پر اسٹیشن کا نام تجویز دیا چنانچہ اسٹیشن پر پکا حاجی
مجید لکھ دیا گیا دوسرے دن صبح لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پکا حاجی
مجید کی جگہ میاں چنوں لکھا ہوا تھا انہوں نے پھر صاف کر کے پکا حاجی مجید
لکھ دیا دوسری صبح بھی میاں چنوں لکھا تھا چنانچہ لوگوں نے حضرت میاں چنوں
ؒ کی کرامت خیال کرتے ہوئے یہی نام رہنے دیا ۔یہ شہر تو بہت بعد تعمیر ہے
چنانچہ یہ شہر بھی میاں چنوں کے نام سے مشہور ہوا۔یہ نقو س قدسیہ جن کے
وجود سے کوئی زمانہ خالی رہا ہے نہ رہے گا حقیقت میں زندہ ہیں اور تا قیامت
زندہ رہیں گے یہ زندگی ان کے مجاہد ے اور توجہ الی اﷲ کا ثمر ہے یہ امر ہی
خلقت آدم ،اور خلیفہ اﷲ علی ارض کی غرض و عنایت تھا جن سے آج کا انسان بے
بہرہ ہے۔
ان نیک انسانوں نے دنیا ترک کرکے لنات و شہوات دینوی سے منہہ موڑکر انسانوں
کو عملی سبق دیا کہ چند روزہ زندگی جس کیلئے تم دن رات ہلکان ہورہے ہو فانی
ہے عاضی ہے آؤ ایسی زندگی گزاریں جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی اور لوگ تمہا
را ذکرتے رہیں گئے ۔
اولیا ء راہست و قوت ازالہ تیر حسنہ راہ گرانندزراہ
حدیث نبویﷺ ہے کہ (جواﷲ کا ہوجاتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے ہوجاتے ہیں )کس قدر
مزہ ہے ایک اور کاہو کر پوری کائنات کا زیرنگیں کرنا۔ مولانا روم ؒ فرماتے
ہیں ۔
گفتہ اور گفتہ امی اﷲ بود
گچرہ از حلقوم عبداﷲ بود
حضرت با با میاں چنوں سہروردیؒ اسی قبیلہ کے مرد حق تھے جن کی روحانی و
نورانی شعا عوں سے دلوں کی ظلمتیں منور ہو رہی ہیں۔
|