اب پیروں فقیروں کی دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟

تحریر: محمد عرفان جٹ
بادشاہ سلامت نورالدین زنگی طواف کعبہ کے بعد روزہ حضور اقدسﷺ میں حاضری دینے کے لیے جا رہے تھے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ایک اندھا کونے میں کھڑا اپنی بینائی کی بحالی کے لیے دعا مانگ رہا ہے۔آپ نے اندھے کی طرف غور سے دیکھا اور محسوس کیا کہ اس کی دعا کا انداز بڑا ناقص،بھدا اور لاغر سا ہے ۔فوراً آپ نے میان سے تلوار نکالی اور اندھے کی گردن پر رکھ دی اور بولے ۔اے اندھے! تجھے معلوم ہے کہ یہ تلوار کس کی ہے ؟اندھے نے کہا نہیں جناب! بادشاہ سلامت نے پوچھاکہ کیا تم نورالدین زنگی کو جانتے ہو؟ تو اس نے کہا ہاں جناب وہ بادشاہ سلامت ہیں۔آپ نے دھمکی آمیز لہجے میں اندھے کو خبردار کیا کہ اگر میرے واپس آنے تک تمہاری بینائی بحال نہ ہوئی(یعنی دعا قبول نہ ہوئی) تو میں تلوار سے تیری گردن اُڑا دوں گا۔اب اندھے کو جان کے لالے پڑ گئے اور وہ موت کے ڈر سے گڑ گڑا کر دعا مانگنے لگا اور رو رو کر لہو لہان ہونے لگا۔اﷲ تبارک تعالیٰ کو اندھے پر رحم آیا اور آنسوؤں سے اس کی آنکھیں دھلتے ہی بینائی بحال ہو گئی ۔

دعا مانگنے کا بھی ایک طریقہ اور سلیقہ ہوتا ہے۔اگر سچے دل سے دعا مانگی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے۔ہمیں ہر وقت اﷲ سے یہ گلہ رہتا ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں اوریہ حقیقت بھی ہے کہ دعوت اسلامی اور دیگر تبلیغی و مذہبی تنظیموں کے مراکز میں روزانہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مسلمان گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے ہیں ۔میلاد کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں ۔ہر سال ملتان،کراچی میں دس ،بارہ لاکھ کا اجتماع منعقد ہوتا ہے ۔مبلغین اسلام رو رو کر اﷲ تعالیٰ سے اپنے لیے ،ملک کے لیے ،عالم اسلام کے لیے اورمسلم امہّ کے لیے لمبی چوڑی دعائیں مانگتے ہیں۔لوگوں کے پاؤں سوجھ جاتے ہیں ۔بعض کو تو غشی کے دورے بھی پڑ جاتے ہیں لیکن ذرا بھی دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ حا لات پہلے سے بھی بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔اسی طرح بھارت اور بنگلہ دیش میں تبلیغی اجتماع ہوتا ہے اور سعودی عربیہ میں حج کے موقع پر لاکھو ں نہیں بلکہ کروڑوں کا اجتماع ہوتا ہے اور اﷲ کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں مانگی جاتی ہیں۔جبکہ کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔لگتا ہے کہ آج ہمیں بھی ایک ایسے ہی نورالدین زنگی کی ضرورت ہے جو ہماری گردنوں پر تلوار رکھ کر ہمیں سچے دل سے دعا مانگنے پر مجبور کر دے وہ بھی تب ہمارے ہاتھ لگے گا جب ہمارا قبلہ درست ہوگا۔ہم خلوص دل اور نیک نیتی سے اس کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے ۔جب ہم جعل سازوں،قبروں پر پلازے تعمیر کرنے والوں،سیمنٹ کی جگہ ریت کی سڑکیں تعمیر کروانے والوں،سیاسی ٹھگوں لٹیروں،ملک کی دولت لوٹ کر باہر لے جانے والوں،ٹیکس چوروں ،قومی خزانوں پر نقب لگانے والوں،جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر حکمرانی کرنے والوں کو ووٹ دے کر ایوان اقتدار پر مسلط کرتے رہیں گے تب تک کوئی نورالدین زنگی آپ کی بگڑی سنوارنے کو نہیں آئے گا.ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنا احتساب خود کرنے کی عادت اپنانا ہو گی ۔

بلاشبہ جب خلوص دل سے حق و حلال کی کمائی کرنے والا نیک انسان دعا کرتا ہے تو قبولیت یقینی ہوتی ہے۔ابن ماجہ میں ہدایت ہے کہ جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاؤ تو اسے اپنے لیے دعا کی درخواست کرو کیونکہ مریض کی دعا ایسی ہے جیسے فرشتوں کی دعا ۔ایسے عالموں کی دعا کہاں قبول ہو گی جو حرام کو حلال سمجھتے ہیں اور اپنے مفادات کی خاطر ڈیژل کو شراب طہورہ سمجھ کر پی جاتے ہیں ۔حجاج نے ان قلندروں کو بڑی منت سماجت سے دعوت پر بلایا اور خوب کھلایا پلایا اور اپنے مصاحبو ں سے کہا کہ اب میں ان کی بدعا سے محفوظ ہو گیا ہوں کیونکہ ان کے پیٹ میں حرام کا رزق پہنچ گیا ہے ۔لوگ دعاؤں کے لیے پیروں فقیرو ں اور گدی نشینوں کے آستانوں پر حاضر ہو کر دعائیں کرانے کی منت سماجت کرتے ہیں جنہو ں نے کبھی بھی ہاتھ سے کمائی ہوئی دولت سے ایک لقمہ بھی نہ کھایا ہو ۔صدقے اور خیرات کی دولت سے مالا مال ہو کر یورپ کے دوروں پر رہتے ہوں اور گوریوں کے نظارے کر کے محظوظ ہوتے ہیں۔لنگر کے لیے جمع ہونے والی رقومات اور اعانتوں سے غل غپاڑے کرتے ہوں اور طوائفوں کے مجروں پر نچھاور کرتے ہوں ایسے پیروں فقیروں کی دعائیں تو ہمیں عذابوں میں ہی مبتلا کر سکتی ہیں۔

ہماری عادت بن گئی ہے کہ جب ہم پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو مسجدوں کا رخ کرتے ہیں ۔جوں ہی بلا ٹل جاتی ہے تو نمازپڑھنے کی بجائے مسجد کے دروازوں کے سامنے ڈھول ڈھمکے اور پٹاخے چھرلیاں چلا کر نمازیو ں کی عبادت میں مخل ہو جاتے ہیں۔شب برات کی رات کو خصوصاً ایسی دھما چوکڑی مچائی جاتی ہے کہ مسجدوں میں بے سکونی کا عالم ہوتا ہے ۔ہمارے نوجوان ٹولیوں کی شکل میں مسجد کے ارد گرد جمع ہو کر آتش بازی کا مظاہرہ کر کے بے شرمی و بے غیرتی کاثبوت فراہم کرتے ہیں۔اور انہیں کوئی انتظامی طاقت روکنے کو نہیں آتی۔مولوی خوف کے مارے منہ چھپا لیتے ہیں اور مسجدوں کی انتظامی کمیٹیوں کے بعض حرام خور عہدیدار خود بھی اس شغل میں شامل ہو جاتے ہیں جہاں اس قسم کی صورتحال ہو گی وہاں دعائیں کیسے قبول ہوں گی ۔قارئین دعا کریں کہ ہمیں ہدایت مل جائے۔بزرگ کہتے ہیں کہ ہمارے دور میں پیروں فقیروں کی دعاؤں سے بگڑی سنور جاتی تھی لیکن اب چونکہ پیر فقیر کو بھی حرام کھانے کی لت پڑ گئی ہے اس لیے ان کی زبان سے دعاؤں کا اثر ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔
 

Malik Shahbaz
About the Author: Malik Shahbaz Read More Articles by Malik Shahbaz: 54 Articles with 44588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.