بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:"علم کو درایت سے سمجھو نہ کہ روایت
سے۔"
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: " علم میں درایت کرنے والے کتنے کم ہیں۔"
قرآن کریم بھی روایتِ ہے، حدیث ہے۔
روایت سے مراد ۔۔۔ نقل کرنا، کاپی کرنا، من و عن انہی الفاظ کے ساتھ ابلاغ
جیسا سنا، دیکھا یا پڑھا ہے۔
درایت کی آسان لفظوں میں تعریف کی جائے تو یہ ہے کہ علم کو سائنٹفک انداز
سے سمجھنا، یعنی منطق، فلسفہ اور تجربہ کی بنیاد پر۔۔۔ جس معیار کو سائنس و
عقل تسلیم کرتی ہے۔
تقدس، عشق، غیب کی کوئی حدِ آخر نہیں۔۔۔
علم بڑھنے کے ساتھ تقدس معرفت میں، عشق حقیقت میں اور غیب شہود میں تبدیل
ہوتے رہنا ایک مستقل فطری سلسلہ ہے، جس کی کوئی حد نہیں۔
معروضات پر سائنٹفک انداز سے تجربہ اور غور وفکر کے بعد علم کو انسان کی
فلاح کی خاطر برتنا ضروری ہے۔
حدیثِ قرآن و حدیثِ معصومین علیہم السلام کو جس کا محور انسان اور انسان سے
مربوط اُس کی روحانی و مادّی، دنیاوی و اُخروی ضروریات ہیں، جدید علمی و
سائنٹفک انداز میں سمجھنا ہی افادیت کا باعث ہے۔
انسان اور انسانی سماج جو کہ اسلامی احکامات کا مرکز و محور ہے، جدید دور
کی علمی تقسیم کے مطابق، علمی شعبوں کا بھی مرکز و محور ہونا چاہیے۔
خود انسان کا محور ابدی فلاح و نفس ِ مطمئنہ کا حصول ہونا چاہیے۔
علم و حکمت و عرفان کیلئے جس سائنٹفک اصولوں کا ذکر کیا گیا اُسی میں ایک
بدیہی امر تقوا اور پرہیز گاری بھی ہے،
یعنی اہداف تک پہنچنے میں رکاوٹ بننے والے مقاصد سے مطابقت نہ رکھنے والے
اعمال و افکار و خیالات و احساسات سے خود کو دور رکھنا،
تقوے اور پرہیز گاری کے بنا معلومات تو اکھٹے کیے جاسکتے ہیں، دماغ کو
انسائیکلو پیڈیا تو بنایا جاسکتا ہے مگر سائنٹفک فیصلے جس کو حکیمانہ فیصلے
کہتے ہیں، نہیں کیے جاسکتے،
حق و باطل میں جدائی نہیں کی جاسکتی، غلط و صحیح کے معیارات متعین نہیں کیے
جاسکتے۔
یعنی انسان تقلیدی تو بن سکتا ہے، مجتہد و محقق نہیں بن سکتا ۔
یہ ایک ایسا وسیلہ ہے جس کو جاننا اور اس کی حساسیت کو سمجھنا ہر صاحب
بصیرت کیلئے ضروری ہوتا ہے۔
کسی موضوع پر ہزار حدیث اور درجن بھر آیات جمع کرلینا آسان ہے،
مگر ان روایات و آیات کو زمانے کے تقاضوں یا ضرورت کی اہمیت سے مربوط کرنا
، جدید مسائل کے حل تلاش کرنا
بغیر سائنٹفک انداز کے تدبر اور غور وفکر و تجربہ کے ممکن نہیں۔
::سید جہانزیب عابدی::
|