Save Our Souls یا یومِ یکجہتی کشمیر

آج کل مقبوضہ جموں اورکشمیر کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں بے شمار خطرات جنم لے رہے ہیں۔ بہادراورقربانیوں کی عادی کشمیری قوم کی حیثیت کو ایک دفعہ پھریک طرفہ طور پر تبدیل کیا گیا ہے۔ بھارت کی اس چال نے دوایٹمی طاقتوں کو لڑائی کےدہانہ پر لا کھڑا کیا ہے۔ سیکولر آئین کی حامل بھارت کو نریندر مودی جلد ازجلد ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس میں وہ یقینا بری طرح ناکام ہوگا۔ اور ہندو بھارت میں اقلیتیں اپنےآپ کو غیرمحفوظ سمجھتے ہوئے مرکز گریز کاروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گی۔ آزادی کی کاروائیاں کئی اورعلاقوں میں شروع ہو جائیں گی۔

ہم پاکستانی چند دہائیوں سے کشمیریوں سے یوم یکجہتی منا رہے ہیں۔ یہ دن ہر سال ۵ فروری کو منایا جاتا ہے گویا کہ ہم اُنہیں بتانا چاہتے ہیں کہ انہیں دنیا کی بدترین استعماری قوت کی غلامی سےآزادی د لانے کے لئے پاکستان اخلاقی، سیاسی اور سفارتی امداد جاری رکھے گا۔ کشمیر میں جاری حالیہ تشدد کی لمبی لہر،( ورکنگ باوئنڈری پر آئےدن بلا جواز فائرنگ کے نتیجہ میں بےگناہ اورنہتےکشمیریوں کا جانی اور مالی نقصان)، پہلے سےموجود 7,50,000 میں 25,000 فوجیوں کا حالیہ اضافہ، دنیا کی سب سے بڑی فوجی چھاونی ، وسیع پیمانے پر( بشمول اعلیٰ قیادت) گرفتاریوں، اور شہادتوں اور سیدعلی گیلانی کی SOS Tweet ( فوجی اصطلاح میں SOS پیغام حالتِ دفاع میں اُسوقت دیا جاتا ہے جب دشمن پوری قوت سے دفاعی مورچوں پر حملہ آورہورہا ہواور ایک بڑی اوریقینی تباہی نظرآ رہی ہو۔ ایسے میں دشمن کے حملہ کو ناکام کرنے کے لئے بھرپور فائرسپورٹ دی جاتی ہے۔) کے ذریعہ تمام پاکستانیوں سے اس نازک حالات میں درد مندانہ اپیل نے پاکستانیوں کوانتہائی غمگین کر دیا ہے۔ اسی لئے اس سال حکومت نے۵ فروری، ۸ اپریل اوراب ۵ اگست کو بھی پورے جذبہ سے یومِ یک جہتی کشمیر منانے کا فیصلہ کیا۔
میں اصل مضمون کی طرف آنے سے پہلے قارئین کو تھوڑی دیر کے لئے ماضی میں لے جانا چاہوں گا:
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

اس قصۂ پارینہ کو پڑھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ بعض اوقات: لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے رلایا ہے۔ والی بات من وعن پوری ہو جاتی ہے۔

بادشاہ کے درباریوں میں سے یہ بات کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ ہوگی کہ مغل شاہِ ہند سے تجارتی رعایت حاصل کرنے وا لے افرنگی چند دہائیوں بعد دھیرے دھیرے سارے برِصغیر کو غلام بنا لیں گے۔ اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ کئی ہزار میل دور سے آئی ہوئی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ساحل سمندر پر قائم کردہ تجارتی کوٹھیوں کو وسعت دینے کے لئے اپنی چالاکی، عیاری، مکاری کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے مقامی افراد سے ساز باز کے ذریعےحفاظتی اقدامات کا بہانہ بنا کر افرادی قوت میں اضافہ کرنا اور اس قوت کویورپ سے لائے ہوئے ہتھیاروں سے مسلح کرنا شروع کیا۔ یوں افرنگی نے اپنی فوجی قوت کو منظم کرکے نواب سراج الدولہ حاکم بنگال کی حاکمیت کو چیلنج کردیا۔ نواب سراج الدولہ نے ان کے خلاف فوج کشی کی مگر اپنےغدار وزیر اعظم میرجعفر کی وجہ سے پلاسی کی جنگ میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوا۔ اس کی فوج کو شکست ہوئی۔ میر جعفر کو انعام میں بنگال کی حکومت مل گئی مگر جلد ہی معزول کر دیا گیا۔ پورے بنگال پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ انگریزوں کے حوصلے بڑھ گئےاورانہوں نےدوسرےعلاقوں کو زیرتسلط لانےکی منصوبہ بندی شروع کی۔

انگریز کے خیال میں سارے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ساحل کے ساتھ ساتھ والی ریاستوں کو پہلے فتح کیا جائے۔ بنگال کے بعد دوسری بڑی اور خوشحال ریاست دکن کی ریاست میسور تھی۔ ٹیپو سلطان ایک خدا ترس مگر پکا مسلمان حکمران تھا۔ مگر افسوس ہمسایہ ریاستیں اس کے خلاف تھیں۔ لارڈ ولزلی جوڑ توڑ میں ماہر تھا۔ اس نے سلطان ٹیپو جو کہ بقول شاعرِ مشرق علامہ اقبال: درمیانِ کارزارِ کفر و دیں ۔ ترکش ما را خدنگِ آخریں، تھا، کے خلاف سازشوں کا جال بچھا دیا۔ اُس نے ٹیپو سلطان کے وزیرِاعظم میرصادق کو در پردہ اپنے ساتھ ملا لیا۔ انگریزوں نے فوج کشی کر دی۔ سرنگا پٹم کی آخری لڑائی میں ٹیپو سلطان بنفسِ نفیس شامل تھے۔ قلعہ سے باہر گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی۔ سلطان کومصلحت کے تحت قلعہ میں آنا پڑا مگرغدار وزیراعظم میر صادق نے قلعہ کا دروازہ بند کرا دیا تھا۔ ٹیپو سلطان میدانِ کا رزار میں شہید ہو گیا۔ سلطنت میسور پر قبضہ ہو گیا۔ اب اگلےعلاقوں پر قبضہ کی راہ ہموار ہو گئی۔ ایک کے بعد دوسرا علاقہ فتح ہوتا گیا۔ ان ہی غدارانِ وطن کے بارے حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا:
جعفر از بنگال، صادق از دکن ننگِ دیں ننگِ قوم ننگ از وطن

کاروباری ذہنیت رکھنے والے ان قابض حکمرانوں نے اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے مسلمانوں کو اپنا پکا دشمن سمجھا۔ ان پر جبر و استبداد، ظلم و زیادتی، بے رحمی و سنگدلی کی انتہا کر دی۔ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے نئے نئے ریکارڈ قائم کیے جن کا بیان دلوں کو سوگوار کر دیتا ہے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جاوٗں گا مگرصرف ایک جھلک بہادرشاہ ظفر کو ناشتہ میں بیٹوں کےسر اور اُن کے گوشت سے تیار کردہ سالن پیش کئے گئے۔ تاہم یہ ضرور کہوں گا کہ اس تاجر قوم نے دورِ حکومت میں تاریخِ انسانی کا ایک منفرد سودا کیا گیا۔ بیعنامہ امرتسر۶۴۸۱ جس کی نظیر تاریخ انسانی میں نہیں ملتی، جس خطۂ ارضی جس کے بارے کہا جاتا ہے: اگر فردوس بر روئے زمیں است ہمی است، ہمی است، ہمی است، کو چند لاکھ ٹکوں کے عوض بیچ دیا گیا۔ اس بے مثل خرید و فروخت کے بارے علامہ اقبال نے فرمایا:
دہقاں و کشت و جوئے و خیاباں فروختند قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند

یعنی ایک ملک، ایک خطۂ ارضی کی ہر چیز بیچ دی گئی، ایک قوم کے بچوں، جوانوں،بوڑھوں، مردوں اور عورتوں اور اس کی آنے والی نسلوں تک کو بیچ دیا گیا۔ ہرسال ۵ فروری کو سارے پاکستانی بد قسمت کشمیری قوم کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

کشمیری مسلمان بہادری اور ایمان کی حرارت سے سرشار قوم ہے۔ اس قوم نے صعوبتیں برداشت کرنے اور قربانیاں دینے کی ایک طویل داستان رقم کی ہے۔ آزاد کشمیرمیں قصبہ منگ میں آج بھی موجود کاہو کا درخت اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ راجہ کی غلامی کے خلاف جہدوجہد کرنے پر۲۷ قبا ئلی سرداروں کو ا س درخت کے ساتھ الٹا لٹکا کر کھالیں اتاری گئی تھیں اور پھر کشمیریوں نے۱۹۳۱ میں سرینگر سنٹرل جیل سے باہر ایک اذان کو مکمل کرنے کے لئے یکے بعد دیگرے۲۲ شہادتیں دے کر اسلام کی خاطرایک بہترین مثال قائم کی۔ ۱۹۴۷ میں ہم آزاد ہو گئے۔ مگر ماؤنٹ بیٹن، نہرو اور ڈوگرہ راجہ کی چالبازیوں سے جنّت نظیر علاقہ اور پاکستان کی شاہ رگ پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہو گیا۔ پاکستان لیجانے کے بہانہ سے جموں کے جنگلوں میں ڈوگرہ فوج اور بھارتی آر۔ ایس۔ ایس۔نے مل کر اڑھائی لاکھ کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا تھا۔ اس قبیح کاروائی کو مہاراجہ کشمیر کی اشیر باد حاصل تھی۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے نہرو اور سلامتی کونسل کی یقین دہانیاں بے سود۔ آج تک یو این اور آزاد ی دلانے کے دعویدار خاموش ہیں۔ شیخ عبداللہ نے جواہرلال نہرو پر بھروسہ کرکے جیل سے نکل کر کشمیر کو سپیشل سٹیٹس دلوا کر بھارت سےالحاق کرلیا یعنی ایک دفعہ پھر : لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے رلایا ہے۔ والی بات من و عن پوری ہوئی۔ آج تک کشمیری پس رہے ہیں۔ اب توشیخ عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی عرصہ تک اقتدار کے مزے لوٹنے کےبعد کشیریوں پر ظلم اور مودی کی حالیہ کاروائی پرسراپا احتجاج ہیں اور سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اب یہ غدار کشمیری قیادت اپنے بڑوں (شیخ عبداللہ) کےفیصلہ کوغلط قرار دے رہی ہے!! دنیا کی سب سے بڑی فوجی چھاونی، بھارتی ظلم و استبداد کے نیچے کراہ رہی ہے۔ کوئی گھرانہ ایسا نہیں جہاں سے شہید کا جنازہ نہ اٹھا ہو یا بوڑھے والدین کو ٹارچر سیل میں سے نہ گزارا گیا ہو۔عورتوں پرناقابلِ بیان ستم توڑے گئے۔ معیشت کےسامان تسلسل سےیا توجلائےیا برباد کئےجا رہے ہیں۔

۱۹۹۸ سے اب تک:
ا۔ ایک لاکھ پچیس ہزار سے زیادہ شہادتیں جس میں ہرعمر کے مرد اور عورتیں اور نوجوان شامل ہیں۔
۲۔ ایک لاکھ انچاس ہزار سے زیادہ کشمیری مسلمان قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔
۳۔ دو لاکھ سے زیادہ ہرعمر کے لوگ زخی ہوئے۔ تاہم زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔
۴۔ انیس ہزار کشمیری مسلمان پاگل اور اپاہج ہوگئے جس کی سب سے بڑی وجہ حراست کے دوران ان پر بدترین تشدداورناقص غذا۔
۵۔ دو ہزار سے زیادہ افراد (نوجوان اور بچے) پیلٹ فائرنگ سے بینائی سے محروم ۔
۶۔ لگاتار 6ماہ سے زائد عرصہ پر محیط کرفیو اور اسی طرح لوگوں کو ان کے گھروں تک محدود کر دینا روز کا معمول بن چکا ہے۔۔وہ کونسا ظلم ہے جو نہ ڈھایا گیا ہو؟
۷۔ لائن آف کنترول اور ورکنگ باؤنڈری پر نہتے سویلین پر فائرنگ کی وجہ سے ہر روز لاشے اٹھانے پڑ رہے ہیں اور بے شمار بے گناہ زخمی ہو رہے ہیں۔
۸۔ ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر آئے روز فائرنگ کرکے جانی اور مالی نقصان پہنچایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے سویلین آبادی لگا تار خوف و ہراس کی فضا میں زندگی گزاررہی ہے۔
۹۔ اور اب ریاست جموں و کشمیر کی خاص حیثیت (آرٹیکل370 اور35.A ) کو تبدیل کیا گیا ہےاوراس کےخلافاُٹھنےوالےعوامی ردِ عمل کو طاقت کےبےرحمانہ استعمال سےدبانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔
۱۰۔ اسوقت کشمیر میں موجود آٹھ لاکھ بھارتی فوجی ہیں،جن کو مجاہدین آسانی سے زچ کرسکتے تھے، مگرمشرف اوراُس کے بعد کی حکومتوں نےاُن کی قوت کو خاص طور پر کم کیا۔ مشرف نےلائن آف کنٹرول پر باڑ لگوانے بارے تساہل عارفانہ سے کام لیا۔ اسی کو کہتےہیں : لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے رلایا ہے ( اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو)۔ حالات کو کنٹرول کرنے کے بعد کشمیر میں موجود بھارت کی افواج پاکستان کے لئے مصائب پیدا کریںگی۔ اُنکو مجاہدین کا بھی کوئی ڈر نہیں ہوگا۔

آئندہ تمدنی، مذہبی، سیاسی، اخلاقی، جغرافیائی اوراصولی بنیادوں پر وجودہ اور آئندہ نسلوں کی بقاء کے لحاظ سے کشمیر بہت ہی اہم ہے۔ اس سے بہنے والے دریا پاکستان کی صنعتی ترقی، شہروں کی چہل پہل اور زرعی پیداوار کے لئے آبِ حیات ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیےکہ ان کے پانیوں میں کشمیری شہیدوں کا خون اور مظلوم کشمیری عورتوں کے آنسو ملے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا پاگل انسان اور چوٹی کے دس دہشت گردوں میں شمار بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی (کسی زمانہ میں امریکہ میں اس دہشت گرد شخص کا داخلہ بند تھا) ان دریاؤں کے پانی کو روک کر سارے پاکستان کو پیاسا، بھوکا اور پھر سیلابی ریلا کے ذریعہ ڈبو کرمارنا چاہتا ہے۔ گرمیوں میں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں خطرناک حد تک کمی میں بھارت کے مذموم ارادوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔

ہم کشمیریوں سے یومِ یک جہتی بھی مناتے ہیں۔ مگر افسوس! اپنے ازلی دشمن اور کشمیریوں پر پنجہٗ استبداد بر قرار رکھے ہوئے بھارت کی:
ا۔ سبزیاں اور پھل بھی شوق سے کھاتے ہیں حالانکہ اس تجارت سے ایک طرف ہماری زراعت کا بہت نقصان ہو رہا ہے اور دوسری طرف بھارتی زراعت اور معیشت مضبوط ہو رہی ہے۔
۲۔ ہم بھارتی گانے سننے اور ڈرامے اور فلمیں دیکھنے کے بہت زیادہ عادی ہیں۔ ہم بھارتی کھانوں، زیورات، ملبوسات، رسم و رواج کے انتہائی دلدادہ ہیں۔
۳۔ ہم کشمیر میں بھارتی کاروائیوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی خبریں بھی دیکھتےاور سنتے ہیں اور میڈیا پر بھارتی پروگراموں، فلموں، گانوں سے دل بھی بہلا رہے ہوتے ہیں۔ یقینا پاکستانیوں کی اسی نفسیاتی کیفیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سونیا گاندھی نے کہا تھا:
اب ہمیں پاکستان پرحملہ کرنےکی ضرورت نہیں، ہم ثقافتی یلغارکےذریعہ پاکستان کو فتح کرلیں گے۔

سوچئے ! ہم کدھر جا رہے ہیں؟ ہمیں جاگنا ہوگا اور سب کو متحرک کرنا ہوگا!! ہرپاکستانی خود سوچے وہ بھارت کے خلاف کیا کرسکتا ہے؟

Sarwar
About the Author: Sarwar Read More Articles by Sarwar: 66 Articles with 57816 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.