تحریر: زید حارث
انسانی تاریخ کی ابتداء سے ہی قربانی کو اہل خیر کا شعار بنایا گیا اور یہ
قربانیوں کا سلسلہ آدم علیہ السلام کے بیٹوں سے ہی شروع ہو گیا۔ وَاتْلُ
عَلَیْہِمْ نَبَأَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا
فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ.(المائدہ
27)
ترجمہ: اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان پہ آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں کی
خبر تلاوت کیجئے جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قبول کر لی
گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس وقت بھی اس بات کی وضاحت کی گئی کہ
قربانی کا مقصد جانوروں کا خون بہانا نہیں ہے بلکہ تقوی اور پرہیز گاری کو
پختہ کرنا اور اس میں اضافہ مقصود ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے۔(إِنَّمَا
یَتَقَبَّلُ اللَّہُ مِنَ الْمُتَّقِینَ، ترجمہ: یقینا اﷲ صرف پرہیز گاروں
سے ہی (قربانی) قبول کرتے ہیں۔(المائدہ27)
قربانی کا مقصد ابراہیم علیہ السلام سے بھی یہی تھا۔
فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِینِ (103) وَنَادَیْنَاہُ أَن یَا
إِبْرَاہِیمُ (104) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا ? إِنَّا کَذَٰلِکَ نَجْزِی
الْمُحْسِنِینَ(105الصافات)۔
ترجمہ:
اور جب دونوں (باپ اور بیٹا) نے اﷲ کا حکم تسلیم کر لیا اور ابراہیم علیہ
السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹا لیا اور ہم نے ابراہیم
علیہ السلام کو آواز دی۔ یقینا آپ نے خواب سچا کر دیا،یقینا ہم اسی طرح
احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ قربانی کا مقصد آج امت محمدیہ میں بھی
یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہہں۔
لن یَنَالَ ?للَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلَٰکِن یَنَالُہُ
?لتَّقْوَیٰ مِنکُمْ.
اﷲ تعالی کو ہر گز ان(جانوروں) کا گوشت اور ان کا خون نہیں پہنچتا لیکن اس
کو تمہاری پرہیز گاری پہنچتی ہے۔(الحج 37)
یاد رکھئے! اسلام کی تمام عبادات صرف حرکات و اعمال نہیں بلکہ ان کے پس
منظر میں ایسی حکمتیں اور فوائد ہیں جو انسانی معاشرے کو حسن بخشتی ہیں۔
حلال و حرام جانور تو ذبح ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے لیکن ان مقدس ایام
کا انتخاب اور ان فضیلت والے دنوں کے آخری دن اس عظیم عمل کا حکم اور اس دن
کو دنیا کا بہترین دن قرار دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مقصد خون بہانا
نہیں ہے بلکہ خون بہا کر اپنے مال کی قربانی پیش کر کے اﷲ کی عبودیت کا
ثبوت دینا ہے کہ اے اﷲ میرے ہاتھ سے چلنے والی چھری کے ساتھ جس طرح یہ
جانور ذبح ہو گیا میں اسی طرح اپنی خواہشات کو تیرے نام پہ تیری رضا کے لیے
قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔
میں اپنے مال کو اسی طرح صرف تیری رضا کے لیے لٹانے کے لئے تیار ہوں۔
میں اپنی جان کو تیرے رستے میں پیش کرنے کے لئے تیار ہوں۔
میں اپنے ذاتی انتقام کی آگ اور اپنی ذاتیات کی وجہ سے کسی بھی عداوت و بغض
سے بری ہوں بلکہ میرے سارے احساسات و جذبات صرف تیرے نام ہیں۔
الغرض کہ مجھے تیری رضا کمانے کے لیے کسی بھی چیز کی قربانی کرنی پڑے تو یں
ہر گز دریغ نہی کروں گا۔ جو مسلمان اس عہد و پیمان اور اس جذبہ ایمانی کے
ساتھ جانور ذبح کر لیتا ہے۔ وہ یقینا اپنی زندگی میں ایک واضح اثر محسوس
کرتا ہے وہ اپنے جذبات میں واقعتا ایک روحانیت محسوس کرتا ہے۔وہ اپنے ایمان
سے حقیقی طور پہ لطف اندوز ہوتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات اور اپنے نفس پہ
واقعتا ایک ایمانی بیریئر لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ آئیے قربانی کرنے
سے پہلے عزم کیجئے کہ میں اس عبادت کے مقصد کو حاصل کروں گا اور اس عبادت
کی لذت اپنے ایمان و یقین میں محسوس کروں گا تاکہ میں اس آیت مبارکہ کا
مصداق بن جاؤں۔
قل إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ
الْعَالَمِینَ (الأنعام 162).
کہہ دیجئے یقینا میری نماز، میری قربانی، اور میری زندگی، اور میری موت اﷲ
رب العالمین کے لئے ہے۔
|