رمضان کے بعد مومن کی زندگی

الحمدللہ ! رمضان کا بابرکت مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں وبرکتوں کے ساتھ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم سے رخصت بھی ہوگیا، یہ وہ مہینہ تھاجس میں رب کی خصوصی رحمتیں نازل ہورہی تھیں ،پورامہینہ خیروبرکت سے مالا مال تھا۔ جس میں جنت کے دروازے کھول اوردوزخ کے تمام دروازے بند کردیئے گیے تھے، ایک پکارنے والا یومیہ منادی لگارہاتھا کہ ا ے خیروبھلائی کے متلاشی آگے بڑھو اور زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرلو اور اے برائی کےچاہنے والورک جائو۔جس مبارک مہینے میں رب کی ایک نافرمان مخلوق کوزنجیروں میں جکڑ دیاگیاتھاتاکہ وہ اپنے ازلی دشمن اشرف المخلوقات کو صراط مستقیم سے بھٹکا کر ضلالت و گمراہی کے عمیق غار میں نہ ڈال سکے اوروہ خوب دلجمعی ولگن، انہماک وا خلاص کے ساتھ پورے مہینے اپنے رب کی عبادت و بندگی کر سکے،پنچوقتہ نمازوں نیزسنت موکدہ کے ساتھ کثرت سے نوافل اور قیام اللیل کا اہتمام کر سکے ،طاق راتوں میں شب بیداری کرکے اپنے پروردگار کو راضی وخوش کرسکے ۔

یقینا قابل مبارکباد اور لائق تحسین ہیںوہ لوگ جنہوں نے رب کی رضا جوئی کی خاطر پورے مہینے اخلاص کے ساتھ فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے قیام اللیل یعنی تراویح اور دیگر اعمال حسنہ کا بھی اہتمام کرتےرہےایسے خوش نصیبوں کی خطائوں کو اللہ معاف کردیتاہے ۔ جب ایک مومن اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے ایمان کےساتھ اسلام کے دوسرے اہم فریضہ یعنی نماز کی ادائیگی کرتا ہے تو اس کا رب اس سے بہت خوش ہوتا ہے ،خصوصارمضان کے مہینے میں دن بھر کی بھوک پیاس اور گرمی کی برداشت کرکے چلچلاتی ہوئی دھوپ میں اپنے گھر سے باوضو ہوکر نکلتا ہےجب ایک قدم مسجد کی طرف اٹھاتا ہے تواس کے حسنات میں اضافہ اور جب بایاں پیر اٹھاتا ہے تو اسکے خطاؤں کو معاف فرماتا ہے۔

لیکن ایک موحداور سچے پکے مسلمان پر لازم ہے کہ وہ جس طرح رمضان میں پورے خلوص کے ساتھ فرائض کی ادائیگی اور سنن رواتب کا خیال رکھتا تھا اسی طرح رمضان کے علاوہ دیگر ایام میں بھی نمازوں کا اہتمام کرے۔ اس لیے کہ یہ نمازیں صرف رمضان المبارک کے مہینے ہی میں ہم پر فرض نہیں کی گئی ہیں، بلکہ سال کے تمام ایام اور مہینوں کے لئے عام ہیں اور کل قیامت کے دن اللہ رب العزت ہم سےسب سےپہلے اسلام کے اسی دوسرے اہم رکن کے متعلق بازپرس کرے گا ۔جیسا کہ نبی کریم کا فرمان:’’إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ ‘‘( ابو داود:۸۶۴،ترمذی:۴۱۳،نسائی :۴۶۵) یعنی بندوں کے اعمال میں سے کل قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال کیاجائےگا، اگر اس کی نمازیں درست اور صحیح سالم رہیں تو وہ کامیاب ہوگاجائےگا ،لیکن اگر اس کی نمازوںمیں کمیاں اورکوتاہیاں رہیں تو بقیہ اعمال بھی خراب ہوجائیں گےاور وہ ذلیل ورسوا ہوگا ۔

لیکن افسوس کہ آج رمضان میں تو ہماری مسجدیں بھری نظر آتی ہیں لیکن جیسے ہی رمضان کا مبارک مہینہ ختم ہوتا ہے ویسے ہی ہماری مسجدیں خالی اور ویران ہو جاتی ہیں، بلکہ جیسے جیسے رمضان اپنے اختتام کو پہنچتا ہے مصلین کی تعداد بھی رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی جاتی ہے، بس وہی دوچار صف مصلی باقی بچتے ہیں جو ہمیشہ سے پڑھتے چلے آرہےہوتے ہیں ،جس کا ہم میں سے ہر انسان بخوبی مشاہدہ کرتا ہے ۔کیا آخر ہم نے کبھی اس پر غور کیا؟ یا اپنی ذمہ دارویوں کو سمجھا یااسے نبھانے کی کوشش کی ؟ ہم خود نماز پڑھیں لیکن ہمارے اہل خانہ نمازوں سے دور رہیں ؟ کیا اس اہم ذمہ داری کے متعلق ہماری باز پرس نہیں کی جائےگی ؟ یقینا کل قیامت کے دن ہمارے متعلقین ،اہل وعیال ،دوست واحباب اوراعزہ واقارب کے متعلق ہم سے سوال کیاجائے گا کہ تم خود نما زپڑھتے تھے لیکن اپنے اہل خانہ کو نماز پڑھنے کی تلقین کیوں نہیں کی ؟۔اس لیے کہ ہم میں سے ہر انسان چرواہا اور نگہبان وپاسبان ہےاللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ:الاكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ‘‘ خبردار تم سے ہرشخص اپنے گھروالوں کا ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحتین کے متعلق پوچھ تاچھ کی جائے گی ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے اللہ رب العالمین نے ہمیں حکم دیاہے کہ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴾ (تحریم :۶)اے مومنو!تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچائو جس کے ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے ۔اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ کے حبیب ﷺنے ہمیں خود پنچوقتہ نمازوں کے پڑھنے کا حکم دینے کے ساتھ ارشاد فرمایاکہ ’’تم اپنے بچوں کو بھی نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں اور جب دس سال کے ہوجائیں اور نماز نہ پڑھیں تو ایسی صورت میں ان کی سرزنش کرواور ڈانٹ ڈپٹ کرکے اپنے ساتھ مسجد لے کرکے آئو اور ان کے بستروں کو اپنے سے الگ کردو‘‘۔

لیکن افسوس کہ آج ہم خود نماز نہیں پڑھتے تو اپنے بچوں کو کس منہ سے نماز پڑھنے کی تلقین کریں گے ،ہم خود فرض ونفل روزے نہیں رکھتے تو اپنے اہل وعیال کو کس منہ سے روزہ رکھنے کی طرف تلقین کریں گے،خود صدقہ وخیرات نہیں کرتے ،پڑوسیوں اور غریبوں وفقیروں ،حاجتمندوں وبیوائوں کا تعاون نہیں کرتے تو دوسروںکو کیسے تعاون کرنےپرابھاریں گے؟ اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنی اصلاح کریں ،خود کو نمازوں کا پابند بنائیں ، سنن رواتب کے ساتھ تہجد گزاری اور دیگر نوافل کا کثرت سے اہتمام کریں ،رمضان کے پورے مہینے میں ہم نے جو ٹریننگ اور مشاقی کی تھی اسے دوبارہ اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں،یہی رمضان کا مقصد تھا کہ وہ ہمارے دلوں میں تقویٰ وطہارت،صوم وصلاۃ ،صدقات وخیرات کی اسپرٹ پیدا کرے۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان :﴿لعلکم تتقون ﴾تاکہ تمہارے اندر اللہ کا ڈر و خوف مزید پیدا ہوجائے تم اللہ کے مزید مقرب بندے بن جاؤ۔

رمضان کا مہینہ امت محمدیہ کے لیے بہترین آفر تھا کہ اگر ہم ابھی تک سال کے گیارہ مہینہ خواب خرگوش میں مست اور صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے تھے تو اللہ نے ہم کو ایک بہترین موقع دیا تھا کہ اس مقدس مہینے میںکثرت سجود ،ذکرواذکار اور توبہ واستغفار نیزصوم و صلوۃ کی پابندی کرکے اس کا مقرب بندہ بن جاؤ اس سے اپنے سابقہ خطاؤں پر خلوص وللہیت سے توبہ اور استغفار کر لو ،وہ تمہارے تمام خطاؤں کو معاف کردے گا، جیسا کہ اس کا فرمان :﴿قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾ کہاے نبی آپ کہہ دیجئے کہ اے وہ میرے بندوں جنہوں نے اپنی نفسوں پر ظلم کیا ہےوہ اللہ کی رحمت سے نامید نہ ہوں و ہ تمہارے تمام خطائوں کو معاف کردے گا،وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ لیکن شرط یہ ہےکہ اس سے صحیح معنوں میںقریب تو ہوں، اس سے گریہ وزاری اور توبہ اور استغفار تو کریں، وہ یقینا ایسے بندوں سے راضی اور خوش ہوتا ہے جو صرف رمضان ہی نہیں بلکہ دیگر ایام میں بھی اس سے توبہ اور استغفار کرتے ہیں۔اس کی بندگی اور بڑائی بیان کرتے ہیں اس کے سامنے اپنی جبین نیاز کو خم کرکے کثرت سے دعائیں کرتے ہیں، اس کے نازل کردہ مقدس کلام قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں،وہ اپنے بندوں سے مداومت چاہتاہے چاہئے تھوڑی ہی عبادت کیوں نہ ہو۔

اس لئے ایک مومن کا یہ شیوہ اور طریقہ ہونا چاہئے کہ وہ جس طرح رمضان کے بابرکت مہینے میں کثرت سےفرائض کے ساتھ نوافل کا بھی اہتمام کرتاتھا ،اللہ کے مقدس کلا م کی تلاوت کرتاتھااسی طرح دیگر ایام میں بھی اس کی تلاوت کیا کریں، اس لیے کہ قرآن صرف رمضان میں پڑھنے کے لئے نہیں اتارا گیا کہ مسلمان صرف اسے رمضان کے بابرکت مہینے میں پڑھیںبقیہ دیگر ایام میںجزءدانوں میں بند کرکے طاقوں میں سجا دیں۔بلکہ یہ تو ہمیشہ تلاوت کرنے اس کے معانی و مفاہیم پر غور و فکر کرنے اور اس کے احکامات وتعلیمات پر عمل کرنے کےلئے نازل کیا گیا۔ رمضان ہمارے لئے ٹریننگ وتربیت کا موقع تھا، اب اسی طرح ہم کو رمضان کے بعد بھی وہی طریقہ اختیار کرنا ہے جس طرح ہم رمضان کے مہینے میں اللہ رب العالمین کا کثرت سے ذکر و اذکار ،تسبیح و تحلیل ، فرائض کی ادائیگی ،صوم و صلوۃ کی پابندی ،صدقات و خیرات کا اہتمام ،غریبوں اور مسکینوں کا تعاون اور اللہ کی کبریائی و بڑائی بیان کیا کرتے تھے۔ اس سے کثرت سے دعائیں اور توبہ اور استغفار کیا کرتے تھے اس کے مقدس کلام کی تلاوت کرکے اس کا قرب حاصل کیا کرتے تھے ۔ اسی میں ہم سب کی کامیابی و کامرانی کا راز مضمر ہے ،اللہ ہمارے رمضان میں کئے گئے تمام اعمال حسنہ کو شرف قبولیت بخشےاور دیگر ایام میں بھی اسی طرح اخلاص و للہیت کے ساتھ اپنی عبادت وبندگی ،صوم وصلاۃ کی پابندی نیزصدقات وخیرات کا اہتمام اور نیک اعمال کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین!
 

Abdul Bari Shafique
About the Author: Abdul Bari Shafique Read More Articles by Abdul Bari Shafique: 114 Articles with 148962 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.