ہوشیار ! آپ کا واٹس ایپ میسج کوئی بھی تبدیل کر سکتا ہے

ہم میں سے کئی افراد کو اس چیز کا تجربہ رہا ہوگا کہ کسی شخص کو کوئی بات بتائی جائے اور وہ اس بات کو مرچ مصالحہ لگا کر آپ کے نام سے آگے پھیلا دے۔ اور جب مختلف لوگوں سے ہوتی ہوئی وہ بات واپس آپ کے کانوں تک پہنچے تو شاید آپ پہچان بھی نہ پائیں کہ یہ واقعی آپ کے الفاظ تھے۔
 

image


اور اگر آپ نے یہ سوچا تھا کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں تحریری پیغامات کے ساتھ یہ کام کرنا مشکل ہوگا تو اتنا پراعتماد ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ محققین نے مقبول موبائل چیٹ ایپ ’واٹس ایپ‘ کے اندر ایک ایسی سیکیورٹی خامی کا پتا لگایا ہے جس کے ذریعے آپ کے بھیجے گئے میسج کے ایک ایک لفظ کو تبدیل کرکے آپ کے نام سے پھیلایا جا سکتا ہے۔

’چیک پوائنٹ‘ نامی سائبر سیکیورٹی فرم کی ایک ٹیم نے حال ہی میں اس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کس طرح ان کا تیار کیا گیا ٹول واٹس ایپ کے اندر 'کوٹ' کیے گئے میسج کو بالکل تبدیل کر کے یوں ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ کسی شخص نے وہ کہا جو انھوں نے حقیقت میں نہیں کہا۔

محقق اودید ونونو نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ٹول کی مدد سے 'بدنیت افراد' اس پلیٹ فارم پر ہونے والی گفتگو پر مکمل طور پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب فیس بک نے اس معاملے پر بی بی سی کو کوئی تبصرہ دینے سے انکار کر دیا۔
 

image


لاس ویگاس میں ہونے والی ایک سائبر سیکیورٹی کانفرنس 'بلیک ہیٹ' میں اس کمپنی نے ان خامیوں کا استعمال کر سکنے والے سافٹ ویئر کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔

یہ ٹول چیک پوائنٹ ہی کی ٹیم کے گذشتہ سال شائع کیے گئے ایک تحقیقی مقالے پر مبنی تھا۔

محققین نے بتایا کہ یہ خامی جھوٹی خبریں بنانے اور دھوکہ دہی میں استعمال ہوسکتی ہے۔

جب آپ کسی کے پیغام کو کوٹ کرتے ہوئے ریپلائے کرتے ہیں، تو اس ٹول کے ذریعے آپ اس پیغام کا ایک ایک حرف تبدیل کر سکتے ہیں جس سے ایسا محسوس ہوگا کہ اس شخص کا پیغام درحقیقت کچھ اور تھا۔

اس کے علاوہ اس ٹول کے ذریعے پیغام بھیجنے والے شخص کی شناخت بھی تبدیل کی جاسکتی ہے جس سے کسی پیغام کو کسی دوسرے شخص سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔

محققین نے ایک تیسری خامی کا پتا لگایا تھا جس کے ذریعے کسی شخص کو دھوکہ دیا جا سکتا تھا کہ وہ کسی کو پرائیوٹ میسج کر رہے ہیں جبکہ درحقیقت ان کا پیغام کسی گروپ کو جا رہا ہوتا۔

اس تیسری خامی کا فیس بک نے سدِ باب کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ واٹس ایپ بھی فیس بک کی ملکیت ہے۔

مگر ونونو کے مطابق فیس بک کا کہنا ہے کہ 'تکنیکی محدودیت' کی وجہ سے دیگر خامیاں ٹھیک نہیں کی جا سکتیں۔

فیس بک نے محققین کو بتایا کہ واٹس ایپ پیغامات کو خفیہ رکھنے کے لیے جو ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے، اس کی وجہ سے کمپنی کے لیے کسی پیغام کو مانیٹر کرنا اور کسی کے بھیجے گئے پیغام میں تبدیلی کو روکنا تقریباً ناممکن ہے۔

محققین کو بتایا گیا کہ جن خامیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، ان کے حل اس ایپ کی استعمال کو مشکل بنا سکتے ہیں۔
 

image


جب بی بی سی نے محققین سے پوچھا کہ انھوں نے ایسا ٹول کیوں جاری کیا جو اس خامی کا غلط استعمال آسان بنا سکتا ہے، تو انھوں نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انھیں امید ہے کہ ایسا کرنے سے اس مسئلے پر بات ہوگی۔

ونونو نے کہا: 'دنیا کی 30 فیصد آبادی یا تقریباً ڈیڑھ ارب افراد واٹس ایپ استعمال کرتے ہیں، چنانچہ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ جھوٹی خبروں اور پیغامات کو ردوبدل کے ساتھ آگے بھیجنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔'

انھوں نے کہا کہ 'ہم اس مسئلے سے نظریں چرا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایسا نہیں ہورہا۔'

واٹس ایپ کے ذریعے جھوٹی خبروں کا پھیلنا دنیا بھر میں، بالخصوص انڈیا اور برازیل جیسے ممالک میں ایک نہایت تشویشناک صورتحال ہے جہاں جھوٹی معلومات کی وجہ سے نہ صرف تشدد کے واقعات ہوئے ہیں، بلکہ اموات تک ہوئی ہیں۔

شدید تنقید کے بعد واٹس ایپ نے غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اپنے پلیٹ فارم میں کچھ تبدیلیاں کی تھیں جس کے ذریعے کوئی میسج کتنی مرتبہ فارورڈ کیا جا سکتا ہے، اس پر حد لگا دی گئی۔


Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE:

A newly-released tool that exploits a vulnerability in Facebook’s WhatsApp allows you to "put words in people’s mouths", researchers say. A team from cybersecurity firm Checkpoint has demonstrated how the tool can be used to alter the text within quoted messages, making it look as if a person had said something they did not.