یہ ایک اٹل حقیت ہے ، روزروشن کی طرح عیاں ہے،لوہے پر
لکیر ہے کہ اگر یوم آزادی کو یوم نجات کہاجائے تو کچھ تضاد نہ ہو گا ۔اور
یہ وہ فلسفہ ہے جسے سمجھنے کے لیےکسی لیکچرار یا پروفیسر سے رہنمائی کی
ضرورت نہیں ،یہ وہ نقطہ نظر ہے جسے جاننے کے لیےکسی پی ایچ ڈی سکالر کے
لمبے چوڑے واعظ سننے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر ذی شعور اس مسئلے کو بخوبی
جانتا۔ سبب کیا ہے؟
یہ وہ فلسفہ نجات ہے جو زندگیوں سے ایسے ربط قائم کر چکا جیسے روح کا رشتہ
بد ن سے ہے، دل کی دھڑکنوں سے ایسے منسلک ہو چکا جیسےکسی تتلی کا پروں سے
ہے، دماغ کے خلیوں میں ایسے پیوست ہو چکا جیسے پنچھی کا اڑان سے ہے۔ اور یہ
وہ نظریہ ہے۔
جس کا دائرہ کا ر انسانوں تک ہی محیط نہیں بلکہ دنیا میں بسنے والا ہر
جاندار آزاد زندگی بسر کرنا چاہتا۔ہائے ماں تیر ی یاد کس وقت آئی جو اکثر
سنایا کر تی ہیں کہ سبز لبا س میں ملبوس ،فضاوؤ ں میں پرواز بھرنے
والا،بلند و بالا درختوں سے من پسند کے میوہ جات کھانے والا،ٹائیں ٹائیں کی
آواز سے کانوں میں رس گھولنے والا اب گرفت میں آچکا تھا،قید کی زندگی بسر
کررہاتھا،مالک کے اسرار پر پنجابی میں بولیا ں سیکھ چکا تھا،دیسی گھی میں
تیار چوری کھانے کا عادی ہو چکا تھا مگر آزادی کی حسرت اپنے دل میں لیے
بیٹھا تھا،گھڑی کی ٹک ٹک پر کان دھرے ہوئے تھا،اُن خوشں نصیب لمحات کی تلاش
میں تھاجو اس کی زندگی کو پہلے کی طرح چارچاند لگا دے۔مگر اب انتظار کی
گھڑیاں ختم ہو چکی تھیں ،نجات کے وہ لمحات آن پہنچے تھے۔
شاعر کے الفاظ میں
یہ انتظار کی گھڑیاں یہ شب کا سناٹا
اس ایک شب میں بھرے ہیں ہزار سال کے دن
اچانک ایک دن مالک کوٹھڑی نماپنجرہ کا دروازہ بند کرنا بھول گیا تھا
،لاپرواہی کا شکا رہو چکا تھا،مگر یہ قید ی بغیر کوئی موقع ضائع کیے فرار
ہونے میں کامیاب ہوا اور فضا میں بلند ہو گیا۔مالک ہاتھ پر ہاتھ ملتا رہ
گیا اور ساتھ آواز کو بلند کر تا میاں مٹھو تھلّے آجا، میاں مٹھو تھلّے آجا
،میاں مٹھو تھلّے آجا ۔مگر اب مٹھو مالک کو پنجابی میں یہ باتیں سنا کر
آزادی پا چکا تھا ”تو تھلّے ویکھی جا ریا میں اُتے اُڈّی جا ریا”
یہ تو ایک جاندار تھا ،انسان نہ تھامگر آزادی کی اہمیت کو جان چکا تھا،
نجات کا زبردست متمنی ّ تھا، سفارش کے لیےکسی حاکم وقت سےکوئی تعلق نہ تھا،
ترجمانی کے لیے وکیل کی وکالت حاصل نہ تھی مگر چھٹکارے کےلیے تگ ودو میں
لگا رہتا۔ہائے اشرف المخلوقا ت کا درجہ پانے والوں کا کیا عالم ہوگا،وہ
آزادی کے حوالے سے کیا تاثرات رکھتےہوں گے۔
مسلمانان برصغیرہندوؤں کے ظلم و ستم اور جارحیت و بربریت کی چکی میں پس
رہےتھے،ہر سوانصاف کے دروازے محمد عربی ﷺکے ماننے والوں پر بند ہو چکے تھے،
مسلمانوں کو اذیت دینے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سےجانے نہ دیا جاتا،اس ناروا
سلوک اور بھیانک رویے سے تنگ آکر اٹھنے والے اٹھے اور آوازہ حق بلند کیا
،آزادی کے خواہش مند جوق در جوق محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبا لؒ کی بے
مثال قیادت میں جمع ہونےلگے،حصول نجات کےلیے بے خوف وخطر آگے بڑھنے لگےاور
کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہ کیا ۔بلآخرایک لمبی جدوجہد اور بے مثال
قربانیوں کے بعد ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو علیحدہ وطن کے حصول میں کامیاب ہوگئے۔
محسن بھوپالی کے الفاظ میں
ملا نہیں وطنِ پاک ہم کو تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
اور یہ ہی وہ دن تھا جب مظلوم و محکوم قوم نے ہندو رام راج اور انگریز
سامراج سےچھٹکار ا حاصل کرلیاتھا، دنیا کے نقشے پر ایک آزاد قوم کے طور پر
ابھر چکے تھے،غلامی کی زنجیروں کو توڑ چکے تھے اور خود مختار ی پراب کوئی
آنچ تسلیم کرنے والے نہ تھے، آج یہ چراغ روشن ہو چکا اور قائداعظم نے۳۰
اکتوبر ۱۹۴۷ کواسی لیے کہا تھا۔
“دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی”
قابل تحسین بات یہ ہے کہ آزادی کے اس دن کو منانے کےلیے سرکاری و نجی سطح
پر تقریبات کا انعقا د کیا جاتا، مختلف ٹی وی چینلز سے مختلف نوعیت کے
پروگرام نشر ہوتے،نوجوانوں کے خون کو جوش بخشنے کے لیے ملی نغمے گائے جاتے،
شعرا اور دانشور اپنے اپنے انداز میں وطن سے محبت کا اظہار کرتے، ادیب اس
دھرتی کو سلام پیش کرنے کے لیےخوبصورت الفاظ کا چناؤ کر تے، پاک آرمی کے
جوان جے ایف ۱۷ تھنڈر اور ایف ۱۶ جیسے لڑاکا طیاروں کو فضاوؤں میں بلند
کرتے،برّی اور بحری فوج کے دستے دشمن کو دوٹوک جواب دینے کےلیےخود کو سیسہ
پلائی ثابت کرتے،بارڈر پر پرچم کشائی کے مناظر قابل دید ہوتے،صدر اور
وزیراعظم زمین کے اس ٹکڑے کی تعمیر و ترقی کے سلسلے میں تجدید عہد
کرتے،مختلف تنظیموں کی جانب سے یوم آزادی کے کیک کاٹے جاتے،گلی کوچوں کو
سبز جھنڈیوں سے آراستہ کیا جاتاورچوراہوں میں طرح طرح کے سٹالز سجا ئے
جاتے،گویا کہ ہر چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں ہوتے۔
مگر اچانک خوشی کے یہ بادل چھٹ جاتے،چہرے کی پررونق کیفیت غمگین حالت میں
بدلنے لگتی ،جب اپنی قوم کے باشعور لوگوں کو جشن نجات کے موقع پر گھناؤنے
اور جان لیوا کھیل میں ملوث دیکھا جاتا،جب منچلوں کو قانون کی دھجیاں
بکھیرتے دیکھا جاتا، جب ہوائی فائرنگ سے متاثرہ شخص کی میت کو قبرستان جاتے
دیکھا جاتا،جب بائیک کے سلنسر کو نکال کر سنسان گلیوں کا رخ کرتے ہو تو
عارضہ دل کے مریض کو کارڈیالوجی ہسپتا ل پریشان حالت میں پہنچتے دیکھا
جاتا، جب زگ زیگ ڈرائیونگ سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے
دیکھا جاتا،جب زور دار آواز کے حامل باجوں سے راہ گیروں کو تنگ کرتے دیکھا
جاتا ، جب ہلڑ بازی سے شہریوں کو پریشان کرتے ہو ئے دیکھا جاتا۔
شاعر کے الفاظ میں
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
۱۵ اگست ۲۰۱۸ کو روز نامہ جنگ راولپنڈی میں چھپا”گلی محلے میں آتشبازی ،
چائینز پٹاخوں کی آوازوں اور بگل باجے بجابجا کر مکینوں کی زندگی اجیرن بنا
دی گئی اورعوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں سے یوم آزادی کا یہ
ڈھنگ عام لوگوں کے لیے وبال جان بنتا جا رہا ہے”
معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔
روزنامہ ایکسپریس لاہور ۱۵ اگست ۲۰۱۸ کے مطابق ’’متعد د شاہراؤں پر منچلے
نوجوانوں نے فیملیز سے چھیڑ خانی کی اور ہلڑ بازی کر کے شہریوں کی پریشانی
کا سبب بنے‘‘
لوگو حدیث میں آیا ہے،حبیب کبریا نے فرمایاہے،سرور کونین نے امن پر شاندار
درس دیاہے۔
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔
مگر بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ آج ہم یہ پیغام بھول چکےہیں جس کی وجہ سے
تباہی وبربادی ہما رامقدر بن گئی ،مگر ہاں ضرورت ہے تو اپنی تاریخ کے اوراق
پلٹنے کی ضرورت ہے، اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔سچی بات ہے یہ دن
تو لوگوں کےلے امن کا پیغام لے کر آیاتھا، خوشیاں بانٹنے کا ایک خوبصورت
موقع بن کر آیاتھا۔مگر افسوس ہر سال جان لیوا واقعات منظر عام پر آتے اور
اخباروں کی نظر ہو جاتے، وقتی طور پر پکڑ دھکڑ ہو تی ، جیلوں میں بند کیا
جاتا مگر مسئلہ جوں کا توں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ۱۴ اگست کے آنے سے
پہلے جشن آزادی کے حوالے آگاہی مہم شروع کی جائے تاکہ لوگوں کی زندگیوں کو
تحفظ فراہم کیا جاسکے اور آزادی کے جشن کو جان لیوا جشن لکھنے کی ضرورت نہ
پڑے۔ |