اتنی ہی اوقات ہے غالب کی زمانے میں

آج سے پچیس ،چھبیس سال پہلے ہم کسی امریکی تھنک ٹینک کی اس رپورٹ پر بہت ہنسا کرتے تھے جس میں 2025ء میں پاکستان کو پنجاب و دیگر چند علاقوں تک محدود بتایا گیا تھا۔آج2019ء میں ،اس بارے میں ہماری ہنسی،تشویش میں تبدیل ہو چکی ہے۔ہماری تزویراتی گہرائی ختم کیا ہوئی،ہمارے دو صوبے کسی کی تزویراتی گہرائی بنتے چلے گئے۔۔یہی نہیں عوامی حمایت کے حوالے سے ہمارا سب سے مضبوط خطہ کشمیر بھی دشمن ملک کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے الٹا ہمارا کمزور گوشہ بننے لگا ہے۔

آج سے پچیس ،چھبیس سال پہلے ہم کسی امریکی تھنک ٹینک کی اس رپورٹ پر بہت ہنسا کرتے تھے جس میں 2025ء میں پاکستان کو پنجاب و دیگر چند علاقوں تک محدود بتایا گیا تھا۔آج2019ء میں ،اس بارے میں ہماری ہنسی،تشویش میں تبدیل ہو چکی ہے۔ہماری تزویراتی گہرائی ختم کیا ہوئی،ہمارے دو صوبے کسی کی تزویراتی گہرائی بنتے چلے گئے۔۔یہی نہیں عوامی حمایت کے حوالے سے ہمارا سب سے مضبوط خطہ کشمیر بھی دشمن ملک کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے الٹا ہمارا کمزور گوشہ بننے لگا ہے۔

''چار حلقے کھولنے'' کے مطالبے سے شروع ہونے والے دھرنے کے مطالبات شیطان کی آنت کی طرح بڑہتے رہے اور ملک کو ایسے بدترین سیاسی انتشار کی راہ پہ ڈال دیا گیاجس سے عوام کے درمیان تقسیم کو مزید ہوا دی گئی۔ملک کی کمزور سیاسی جڑوں کو کھوکھلا کرتے ہوئے ملک کی بنیادوں پر ایسی ضرب لگائی گئی کہ جس سے اقتصادیات سمیت ملک کا ہر شعبہ بحرانی کیفیت سے دوچار ہو چکا ہے۔

ان ابتر حالات سے دوچار ملک کی صورتحال اس صورت سنگین سے سنگین تر ہو جاتی ہے کہ جب ملک کو سیاسی انتشار اور اقتصادی بدحالی سے دوچار کرنے والے اقدامات کو ملک کے مفاد میں بتاتے ہوئے اسی پر اصرار کیاجاتا ہے۔امریکہ اور چین کی اقتصادی جنگ،امریکہ اور ایران کے درمیان بڑہتی کشیدگی،افغانستان سے متعلق امریکہ کے منصوبے اور خطے میں انڈیا کے پھیلتے ہوئے اثر و رسوخ کی صورتحال میں پاکستان کو کیا نیا کردار سونپا گیا ہے؟ ظاہری طور پر پاکستان کا کردار افغانستان میں امن عمل میں پیش رفت سے متعلق ہے لیکن ' سی پیک ' منصوبے کی سست روی اور پھر ان منصوبوں پر کام رک جانے کی اطلاعات اور سعودی عرب کی قیادت میں چند عرب ملکوں کی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت سے یہ واضح ہوا ہے کہ پاکستان کا نیا کردار صرف افغانستان سے متعلق نہیں بلکہ اس میں چین کی اقتصادی ترقی، ایران امریکہ کشیدگی،عرب ممالک میں امریکہ کے نئے خدو خال کے مختلف امور بھی شامل ہیں۔

انڈیا نے اپنے زیر قبضہ جموں و کشمیراور لداخ کی ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے انڈیا میں مدغم کرنے کا اقدام کیا اور مقبوضہ کشمیر میں شدید تر عوامی ردعمل سے بچنے کے لئے کشمیر کی تاریخ کے سخت ترین فوجی گھیرائو سے کشمیریوں کو گھروں میں قید کر دیا تو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خطرناک ہنگامی صورتحال سامنے آئی۔سونپے گئے علاقائی کردار میں تو پاکستان امریکی آشیر باد سے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے اپنے کردار کی ادائیگی کے لئے پاکستان کے لئے سیاسی استحکام اور معیشت کی بہتری لازمی عناصر ہیں۔ان دونوں شعبوں میں ملک کی قابل رحم حالت کے ہوتے ہوئے پاکستان انڈیا کی طرف سے کشمیر میں سنگین تر نتائج پر مبنی جارحیت اور فوجی چیلنج کے جواب میں اسی ردعمل کا مظاہرہ کر سکتا ہے جو پاکستان کی ایک پیج پر موجود حکومت اور فوج کی طرف سے کیا گیا ہے۔

پاکستان انتظامیہ کی کمزور سفارتی کوشش کی باز گشت مختلف ملکوںکے ردعمل میںبھی کشمیریوں کے احساس سے عاری اور کشمیرکی لائین آف کنٹرول پر صورتحال'' جوں کی توں'' رکھے جانے کی امید تک محدود ہے۔پاکستان کے '' ایک پیج'' نے ردعمل میں اتنی تاخیر اور کمزوری دکھائی کہ جس سے یہ بات بھی سامنے آئی کی پاکستان کے ادارے مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کی جنگی و دیگر کاروائیوں کا جائزہ لینے اور اس کے مطابق اقدامات کرنے میں ناکام رہے۔پاکستان انتظامیہ کے تاخیری روئیے اور کمزور ردعمل سے واضح ہوا کہ ملک میں مختلف حوالوں سے سنگین سیاسی انتشار اور اقتصادی بدحالی میں مبتلا ملک، دشمن ملک کو امن کے فوائد ہی بیان کر سکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مسلح افواج ہر طرح کی صورتحال کے لئے تیار ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میںنیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں اجلاس میں انڈیا سے سفارتی تعلقات محدود کرنے ،تجارت معطل کرنے، 14اگست کو کشمیریوں سے یکجہتی اور انڈیا کے یوم آزادی پر یوم سیاہ منانے کے فیصلوں سے ظاہر ہوا کہ پاکستان کی انتظامیہ امن کو کتنا ناگزیر سمجھتی ہے کہ امن کے لئے کسی بھی حد تک جایا جا سکتا ہے۔ یہ امن کی چاہ ہی ہے کہ انڈیا سے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کئے گئے،محدود کئے گئے ہیں۔اور یہ بھی امن کی خواہش کا اظہار ہی ہے کہ کشمیر میں انڈیا کی بدترین جارحیت پر سخت ردعمل سے گریز کیا گیا ہے۔تاہم سخت ردعمل کے اظہار کو پاکستان کی سیاسی اور اقتصادی ابتری سے تعبیر نہ کیا جائے۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم ہر طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔یعنی مزید جو کچھ بھی کرنا ہے وہ انڈیا نے ہی کرنا ہے، ہم بس تیار ہیں کہ انڈیا ہمارے خلاف جارحیت نہ کرے۔ تاہم انڈیا کے بدترین فوجی دبائو اور بدترین ظلم و جبر کے شکار کشمیریوں کے لئے پاکستان کی سیاسی،سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رہے گی اور اس موقف میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ ہاں اگر کوئی نیا امن معاہدہ ہوتا ہے تو پاکستان امن کو ترجیح دیتے ہوئے امن کا راستہ ہی اختیار کرے گا۔

اطہر مسعود وانی
03335176429








اطہر مسعود وانی


آج سے پچیس ،چھبیس سال پہلے ہم کسی امریکی تھنک ٹینک کی اس رپورٹ پر بہت ہنسا کرتے تھے جس میں 2025ء میں پاکستان کو پنجاب و دیگر چند علاقوں تک محدود بتایا گیا تھا۔آج2019ء میں ،اس بارے میں ہماری ہنسی،تشویش میں تبدیل ہو چکی ہے۔ہماری تزویراتی گہرائی ختم کیا ہوئی،ہمارے دو صوبے کسی کی تزویراتی گہرائی بنتے چلے گئے۔۔یہی نہیں عوامی حمایت کے حوالے سے ہمارا سب سے مضبوط خطہ کشمیر بھی دشمن ملک کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے الٹا ہمارا کمزور گوشہ بننے لگا ہے۔

''چار حلقے کھولنے'' کے مطالبے سے شروع ہونے والے دھرنے کے مطالبات شیطان کی آنت کی طرح بڑہتے رہے اور ملک کو ایسے بدترین سیاسی انتشار کی راہ پہ ڈال دیا گیاجس سے عوام کے درمیان تقسیم کو مزید ہوا دی گئی۔ملک کی کمزور سیاسی جڑوں کو کھوکھلا کرتے ہوئے ملک کی بنیادوں پر ایسی ضرب لگائی گئی کہ جس سے اقتصادیات سمیت ملک کا ہر شعبہ بحرانی کیفیت سے دوچار ہو چکا ہے۔

ان ابتر حالات سے دوچار ملک کی صورتحال اس صورت سنگین سے سنگین تر ہو جاتی ہے کہ جب ملک کو سیاسی انتشار اور اقتصادی بدحالی سے دوچار کرنے والے اقدامات کو ملک کے مفاد میں بتاتے ہوئے اسی پر اصرار کیاجاتا ہے۔امریکہ اور چین کی اقتصادی جنگ،امریکہ اور ایران کے درمیان بڑہتی کشیدگی،افغانستان سے متعلق امریکہ کے منصوبے اور خطے میں انڈیا کے پھیلتے ہوئے اثر و رسوخ کی صورتحال میں پاکستان کو کیا نیا کردار سونپا گیا ہے؟ ظاہری طور پر پاکستان کا کردار افغانستان میں امن عمل میں پیش رفت سے متعلق ہے لیکن ' سی پیک ' منصوبے کی سست روی اور پھر ان منصوبوں پر کام رک جانے کی اطلاعات اور سعودی عرب کی قیادت میں چند عرب ملکوں کی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت سے یہ واضح ہوا ہے کہ پاکستان کا نیا کردار صرف افغانستان سے متعلق نہیں بلکہ اس میں چین کی اقتصادی ترقی، ایران امریکہ کشیدگی،عرب ممالک میں امریکہ کے نئے خدو خال کے مختلف امور بھی شامل ہیں۔

انڈیا نے اپنے زیر قبضہ جموں و کشمیراور لداخ کی ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے انڈیا میں مدغم کرنے کا اقدام کیا اور مقبوضہ کشمیر میں شدید تر عوامی ردعمل سے بچنے کے لئے کشمیر کی تاریخ کے سخت ترین فوجی گھیرائو سے کشمیریوں کو گھروں میں قید کر دیا تو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خطرناک ہنگامی صورتحال سامنے آئی۔سونپے گئے علاقائی کردار میں تو پاکستان امریکی آشیر باد سے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے اپنے کردار کی ادائیگی کے لئے پاکستان کے لئے سیاسی استحکام اور معیشت کی بہتری لازمی عناصر ہیں۔ان دونوں شعبوں میں ملک کی قابل رحم حالت کے ہوتے ہوئے پاکستان انڈیا کی طرف سے کشمیر میں سنگین تر نتائج پر مبنی جارحیت اور فوجی چیلنج کے جواب میں اسی ردعمل کا مظاہرہ کر سکتا ہے جو پاکستان کی ایک پیج پر موجود حکومت اور فوج کی طرف سے کیا گیا ہے۔

پاکستان انتظامیہ کی کمزور سفارتی کوشش کی باز گشت مختلف ملکوںکے ردعمل میںبھی کشمیریوں کے احساس سے عاری اور کشمیرکی لائین آف کنٹرول پر صورتحال'' جوں کی توں'' رکھے جانے کی امید تک محدود ہے۔پاکستان کے '' ایک پیج'' نے ردعمل میں اتنی تاخیر اور کمزوری دکھائی کہ جس سے یہ بات بھی سامنے آئی کی پاکستان کے ادارے مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کی جنگی و دیگر کاروائیوں کا جائزہ لینے اور اس کے مطابق اقدامات کرنے میں ناکام رہے۔پاکستان انتظامیہ کے تاخیری روئیے اور کمزور ردعمل سے واضح ہوا کہ ملک میں مختلف حوالوں سے سنگین سیاسی انتشار اور اقتصادی بدحالی میں مبتلا ملک، دشمن ملک کو امن کے فوائد ہی بیان کر سکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مسلح افواج ہر طرح کی صورتحال کے لئے تیار ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میںنیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں اجلاس میں انڈیا سے سفارتی تعلقات محدود کرنے ،تجارت معطل کرنے، 14اگست کو کشمیریوں سے یکجہتی اور انڈیا کے یوم آزادی پر یوم سیاہ منانے کے فیصلوں سے ظاہر ہوا کہ پاکستان کی انتظامیہ امن کو کتنا ناگزیر سمجھتی ہے کہ امن کے لئے کسی بھی حد تک جایا جا سکتا ہے۔ یہ امن کی چاہ ہی ہے کہ انڈیا سے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کئے گئے،محدود کئے گئے ہیں۔اور یہ بھی امن کی خواہش کا اظہار ہی ہے کہ کشمیر میں انڈیا کی بدترین جارحیت پر سخت ردعمل سے گریز کیا گیا ہے۔تاہم سخت ردعمل کے اظہار کو پاکستان کی سیاسی اور اقتصادی ابتری سے تعبیر نہ کیا جائے۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم ہر طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔یعنی مزید جو کچھ بھی کرنا ہے وہ انڈیا نے ہی کرنا ہے، ہم بس تیار ہیں کہ انڈیا ہمارے خلاف جارحیت نہ کرے۔ تاہم انڈیا کے بدترین فوجی دبائو اور بدترین ظلم و جبر کے شکار کشمیریوں کے لئے پاکستان کی سیاسی،سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رہے گی اور اس موقف میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ ہاں اگر کوئی نیا امن معاہدہ ہوتا ہے تو پاکستان امن کو ترجیح دیتے ہوئے امن کا راستہ ہی اختیار کرے گا۔
 

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698988 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More