میری زندگی میں بے شمار لوگ آتے اور غائب ہوجاتے ہیں
لیکن چند لوگ اپنے بہترین اخلاق ‘ دوستانہ رویے اور خاندانی رکھ رکھاؤکی
وجہ سے ہر ملنے والے کے دل میں کچھ اس گھر کر لیتے ہیں کہ انسان انہیں
فراموش نہیں کرسکتا ۔ یہاں میری مراد جناب مدثر صدیق سے ہے ‘ جو مرتبے کے
اعتبار سے ٹریفک لائسنسنگ اتھارٹی میں بطور انسپکٹر فرائض انجام دے رہے ہیں
۔ وہ خوش اخلاق بھی ہیں ‘ دھیمے لہجے میں بات کرنے کاہنر بھی خوب جانتے ہیں
‘ اگر کوئی ان سے مدد چاہے تو وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر ممکن
مددبھی کرتے ہیں ۔ میں اپنے ٹریفک لائسنس کی تجدید کروانے کے لیے جب ان کے
پاس پہنچا تو وہ اس قدر محبت سے پیش آئے کہ مجھے اپنی مصروفیات کو بالائے
طاق رکھتے ہوئے ان کا انٹرویو کرنا پڑا ۔
ٹریفک لائسنسنگ اتھارٹی کے ہر دلعزیز‘ مہذب ‘ مہربان اور عوام دوست پولیس
انسپکٹر جناب مدثر صدیق کے بارے میں ان کے خاندانی پس منظر ‘ والدین کی
تربیت ‘ زندگی کے وہ نشیب و فراد جہاں سے گزر کر وہ اس اہم ترین عہدے پر
فائز ہوئے ۔ان کی زندگی کے چند چھپے ہوئے ایسے گوشوں کو بھی ہم وا کرتے
چلیں جن کے بارے میں ان کے افسران اورساتھی بھی نہیں جانتے ہوں گے ۔
.........................
آپ( مدثر صدیق) کے آباؤ اجداد کا تعلق ضلع قصور کی تحصیل پتوکی کے نواحی
قصبے "رسول پور چک5 " (کرانی والا )سے ہے ۔آپ کا خاندان قیام پاکستان سے
پہلے بھی اسی قصبے کا مستقل رہائشی تھا۔ جہاں آپ کے دادا جان (حاجی باغ علی
) سیٹھ باغ علی کے نام سے مشہور تھے ۔وہ اس قدر دیانت دار اور انسانیت سے
محبت کرنے والے شخص تھے کہ اپنے گاؤں کے علاوہ دوسرے قصبوں کے لوگ بھی
انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے ۔وہ ضرورت مندوں کی مدد اپنی حیثیت سے
بڑھ کر کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالی انہیں رزق کی فراوانی عطا کررکھی
تھی ۔ وہ گندم اور منجی (چاول) کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے تھے ۔ایک
دن کسی دوست نے انہیں کہا کہ مارکیٹ میں اجناس کی قلت ہے اگر آپ غلہ اپنے
پاس چند ماہ تک روک لیں تو آپ کو کہیں زیادہ منافع مل سکتا ہے ۔حاجی باغ
علی نے فرمایا اسلام میں ناجائز ذخیرہ اندوزی حرام ہے ۔اﷲ تعالی رزق حلال
کو پسند کرتاہے حرام کو نہیں۔ میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا ۔حاجی باغ علی کی
شخصیت کے یہی اوصاف ان کے بیٹے محمد صدیق( جو گورنمنٹ ہائی سکول میں ہیڈ
ماسٹر تھے ) کی شخصیت کا حصہ بنے ۔ وہ بہترین معلم کی حیثیت سے نہ صرف اپنے
گاؤں بلکہ اردگرد کے دیہاتوں میں ان بچوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوئے
جو ان سے ذہنی ‘ جسمانی اور تعلیمی تربیت حاصل کرتے رہے ۔ دھیمے لہجے میں
بات کرنے والے استاد ( محمد صدیق )کے گھر 10ذوالج 1982ء کو اس لمحے ایک
بیٹا پیدا ہوا جب خطبہ حج پڑھا جارہا تھا ۔اس مناسبت سے اس بچے کو خاندان
کے لیے نیک شگون تصور کیاگیا ۔ یہ بچہ بلا کا ذہین اور والد کی طرح دھیمے
لہجے میں گفتگو کرنے اور بڑوں کی عزت کرنے والا تھا۔ دینی تعلیم کے لیے اسے
گاؤں کی مسجد میں بھیجنا جانے لگا جہاں امام مسجد قاری جعفرصاحب قرآن پاک
پڑھایا کرتے تھے۔مزاج میں سختی کی بنا پر مولانا سے تمام بچے خوفزدہ رہتے
۔ایک مرتبہ مولانا دوسرے گاؤں میں تقریر کرکے رات کے وقت واپس آرہے تھے کہ
ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ گئے ۔مولانا نے ان ڈاکووں پر بھی اپنے شاگردوں کی طرح
ڈنڈے برسانے شروع کردیئے لیکن ڈاکوکہاں کسی شخص کااحترام کرتے ہیں انہوں نے
مولانا کی اچھی خاصی درگت بنائی توانہیں چارپائی پر لیٹا کر مسجد لایاگیا ۔
اس واقعے کے بعدمولانا کا اپنے شاگردوں سے رویہ یکسر نرم ہوگیا اور مارنے
کی بجائے پیار سے پڑھانا شروع کردیا۔
مدثر صدیق نے ابتدائی تعلیم ایلیمنٹری سکول ڈھولن چک 7سے حاصل کی جو کہ ان
کے گاؤں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا ۔ والد صاحب کے سائیکل پر بیٹھ کر
سکول جاتے اور چھٹی کے بعداسی طرح گھر واپسی ہوتی ۔اس سکول کے ہیڈماسٹر
مدثر کے والد محمدصدیق تھے۔پرائمری تک ٹاٹ اور بوریاں بچھا کر کھلے آسمان
کے نیچے بیٹھ کر پڑھتے رہے جب مڈل کلاسز میں پہنچے تو بینچ اور کلاس روم کی
سہولت میسر آگئی۔آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول
پتوکی میں داخلہ لے لیا ۔وہ خود سکول کے زمانے کا ایک اہم واقعہ کچھ اسطرح
بیان کرتے ہیں کہ "سکول سے کچھ فاصلے پر ریلوے اسٹیشن پتوکی واقع تھا جس کے
ساتھ ہی بدو محل ایک ہوٹل ہوا کرتا تھا جہاں وی سی آر پر فلمیں لگائی اور
دکھائی جاتی تھیں ۔سکول کے بہت سارے لڑکے چوری چھپے وہاں فلمیں دیکھنے جاتے
۔ایک مرتبہ مجھے بھی شوق ہوا کہ میں بھی دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے جاؤں
۔میں ابھی وہاں پہنچ کر فلم کا ٹریلر ہی دیکھ پایا تھا کہ مجھے سامنے کلاس
ٹیچر کھڑے نظر آئے۔اس کے بعد ٹیچر نے جو میری درگت بنائی تو ہمیشہ کے لیے
وہاں جانا اور فلم دیکھنے کا شوق اپنے انجام کوجا پہنچا ۔"
سکول کے زمانے میں پڑھائی کے علاوہ آپ کی کارکردگی کھیل کے میدان میں بھی
نمایاں تھی اس وقت سکول میں کھیلی جانے والی گیمز میں کرکٹ ‘ رسہ کشی ‘ چور
سپاہی ‘ گلی ڈنڈا وغیرہ شامل تھیں ۔ان تمام گیمز میں آپ سب سے آگے نظر آتے
۔آپ کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ جیسے ہی امتحان نزدیک آتے تو چند دنوں میں
ہی تیاری کرکے کمرہ امتحان میں جابیٹھتے اور بہترین نمبروں سے پاس بھی
ہوجاتے۔جہاں تک آئیڈیل ٹیچر کی بات ہے وہ اپنے والد "محمد صدیق"کو ہی اپنا
آئیڈیل ٹیچر قرار دیتے ہیں جن کے لیکچرز کاماخذمحنت ‘ دیانتداری اور جذبہ
ایمانی تھا۔ چاہے وہ تعلیم کا میدان ہو یا دنیا کا کوئی کاروبار ہو ۔ماں
اور باپ دونوں سے ہی آپ کو یکساں پیار تھا۔وہ خود بتاتے ہیں کہ کبھی گھر
واپسی میں دیر ہوجاتی تو والدہ مجھے تلاش کرنے نکل پڑتیں اور مجھے پکڑکر
گھر لاتیں اور رسی سے چارپائی کے ساتھ باندھ دیتیں اور اس وقت تک نہ کھولتی
جب تک میں اپنے رویے کی معافی نہ مانگ لیتا۔
مدثر صدیق بتاتے ہیں کہ سب بچوں کی طرح میں بھی شرارتی تھا ‘ اپنے بچپن کے
دوست عمران عرف رانا صاحب ‘ عاصم کمبوہ اورجاوید کے ساتھ مل کر اپنے ایک
اور دوست صابر راہی کے گھر کے باہر بیک زبان ہوکر زور زور سے آوازیں کستے
اوئے صابر باہر آ۔ ہماری آوازیں اس قدر بلند ہوتیں کہ صابر کے ساتھ ساتھ اس
کی امی بھی باہر نکل آتی اور ہمیں ڈانٹنے لگتیں لیکن ہم آوازے کسنے کے بعد
حویلی میں جاچھپتے۔جب شرارت کاموڈ ہوتا تو اپنے گھر کی بیٹھک کے اندر بیٹھ
کر پانچ روپے کے نوٹ کودھاگے سے باندھ کر گلی میں پھینک دیتے جونہی کوئی
راہگیر نوٹ کو اٹھانے لگتا تو ہم دھاگہ کھینچ لیتے ۔اس طرح نوٹ اٹھانے
والوں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتااور ہمیں گھر سے خوب ڈانٹ پڑتی ۔
میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے گورنمنٹ ڈگری کالج پتوکی سے
گرایجویشن کا امتحان پاس کرکے پاکستان کالج آف لاء لاہور میں ایل ایل بی
پارٹ ٹو میں داخلہ لے لیا۔اسی دوران ہائی وے پٹرولنگ پولیس میں بھرتیوں
کااعلان ہوا تو مجھ سے ایک سال سینئر سٹوڈنٹ ارشاد رفیق (جو ساتھ والے گاؤں
کا رہائشی تھا) نے مشورہ دیا کہ پولیس میں بھرتی ہوجائیں ۔پہلے تو انکار
کیا پھر میں نے ہاں کردی اور اس طرح ہم ہائی وے پولیس میں جونیئر پروول
آفیسر کی حیثیت سے بھرتی ہوگئے ۔بھرتی کے بعد جب والدین کو اپنے فیصلے سے
آگاہ کیاتو والدین سخت ناراض ہوئے ‘ بہت مشکل سے انہیں قائل کیا ۔دوران
ملازمت ہی ایل ایل بی کاامتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا ‘ لیکن وکالت کا
پیشہ اپنایا نہیں۔2007ء میں ٹریفک پولیس میں بطور ٹریفک وارڈن ملازمت
کاآغاز کیا۔چار سال تک رنگ روڈ پولیس لاہور میں بطور پٹرولنگ آفیسر خدمات
سرانجام دیں۔
ایک سوال یہ تھا کہ پولیس میں آپ کی آئیڈیل شخصیت کونسی تھی اور کونسی اب
ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے انسپکٹر مدثر صدیق نے کہا محکمہ پولیس میں میرے
پہلی آئیڈیل شخصیت" کیپٹن مبین شہید" تھے وہ اپنے بہترین رویے کی بدولت
ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔جب میں ہائی وے پٹرولنگ پولیس قصور میں
میں خدمات سرانجام دے رہا تھا اس وقت کیپٹن مبین بطور DPO ڈسٹرکٹ پولیس
آفیسر قصور تعینات تھے ان کی ہردلعزیز شخصیت کا اپنا ہی رعب اور دبدبہ تھا
ان کی دیانت دار ی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی کہیں مثال نہیں ملتی ۔
کیپٹن مبین شہیدکے بعد مجھے جس شخصیت نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ بھی پاک
آرمی سے پولیس میں آئے اور جامع شخصیت کے مالک ہیں۔ میری مراد کیپٹن (ر)
لیاقت علی ملک سے ہے ۔وہ بہترین کمانڈر ‘ ممتاز مصنف ‘ ادیب ‘ شاعر اور
نہایت شفیق انسان ہیں وہ بھی اپنے پیش رو کیپٹن مبین شہید کی طرح دیانت
داری اور فرض شناسی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ان خوبیوں کے علاوہ وہ بہترین
طالب علم بھی ہیں ‘ وہ سچے دل سے نبی کریم ﷺ کے اس فرمان پر عمل پیرا ہیں
کہ انسان کو ماں کی آغوش سے قبر کی لحد تک علم حاصل کرنا چاہیئے ۔حال ہی
میں انہوں نے ایم فل کی ڈگر ی اعزازی نمبروں میں پاس کی ۔ وہ اس وقت چیف
ٹریفک آفیسر لاہورخدمات انجام دے رہے ہیں ۔پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ساتھ
‘عوام الناس میں یکساں مقبول ہیں ۔ان کا مشن عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار
کرپشن فری پولیس ہے ۔میری خوش بختی ہے کہ میں کیپٹن (ر) لیاقت علی ملک سے
اٹھارہ ہزار نقد انعام اور کئی تعریفی اسناد لے چکا ہوں۔
............
مدثر صدیق نے بطور ٹریفک وارڈن ‘ لاہور کے تمام علاقوں میں ڈیوٹی سرانجام
دی اور بطور انسپکٹر پرموٹ ہوکر ان کی پہلی تعیناتی انچارج سیکٹر مزنگ
لاہور میں تھی۔اس کے بعد ٹیوٹا اور سٹی ٹریفک پولیس کے باہم اشتراک سے قائم
ڈرائیونگ سنٹر کا انچارج رہا۔لاہورمیں ایسے سکولز کی تعداد چھ تھی۔ ہر سکول
میں ایک سو لیڈیزاور مرد زیر تربیت تھے ۔جنہیں ٹریفک ایجوکیشن اورپریکٹیکل
ڈرائیونگ کی تربیت دی۔زندگی کاایک اہم واقعہ سناتے ہوئے ان کی آنکھوں میں
آنسو بھر آئے کہ بطورٹریفک وارڈن ایک رکشہ ڈرائیور کاقانون کی خلاف ورزی
کرنے پر چالان کیا تو اس نے روتے ہوئے بتایا میرے بچے بھوکے ہیں میں کسی کا
رکشہ ادھار لے کر اپنے ان بچوں کے لیے روٹی کمانے نکلا ہوں تو میرا چالان
ہوگیا ۔ اس کی دکھ بھری داستان سن کر میں نے اپنی جیب سے اس کا جرمانہ بھرا
اوراپنے ساتھ بٹھا کر کھانا بھی کھلایا۔ مدثر صدیق کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد
کسی کو سزا دینا ہرگز نہیں بلکہ اصلاح کرنا ہے۔
مدثر صدیق ان الفاظ پر اپنے بارے لکھے جانے والے اس مضمون کا اختتام کرتے
ہیں کہ والدہ کی نصیحت میرا سب سے قیمتی سرمایہ ہے ۔ڈیوٹی پر جانے کے لیے
جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو ماں فرماتی ہیں کہ لوگوں سے نرمی سے پیش آؤں
اور اگر کسی کو میری مدد کی ضرورت ہو تو ضرور مددکروں۔اس طرح ہر دل سے نکلی
ہوئی دعائیں ‘ انسان کو فرش سے عرش تک پہنچا دیتی ہیں۔میری خواہش ہے کہ
عظیم سماجی رہنما عبدالستار ایدھی کی طرح دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے ایک
ادارہ بناؤں جس سے ہر غریب اور مستحق شخص مستفید ہو۔دوسروں کی عزت اور خدمت
خلق کا جذبہ میرے والدین کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے۔
|