عیدالاضحی کی حقیقی خوشیاں ہمیں کیسے میسر آئیں

حضرت ابراہیم علیہ السلام ‘ حضرت ہاجرہ اور اپنے فرزند کی خیریت دریافت کرنے وادی ام القری تشریف لائے تو انہوں نے خواب کی حالت میں ایک فرشتہ اپنے سرہانے کھڑا دیکھا جناب اسماعیل آپ کی گود میں ہیں۔فرشتے نے کہا رب تعالی کا حکم ہے کہ اپنے اس فرزند کو اﷲ کی راہ میں قربان کریں۔آپ نے اسے شیطانی وسوسہ تصور کرکے صرف نظر کردیاآٹھویں ‘ نویں اور دسویں ذی الحجہ کو پھر وہی خواب نظر آیا ۔دس ذی الحجہ کو آپ علیہ السلام نے ایک رسی اور چھری ساتھ رکھ لی اور حضرت اسماعیل کو لے کر گھر سے نکلے ہی تھے کہ شیطان ایک ضعیف العمر بزرگ کی شکل میں حضرت ہاجرہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کے شوہر ‘آپ کے فرزند کو ذبح کرنے لے جارہے ہیں جب آپ شیطان کے بہکاوے میں نہ آئیں تو شیطان ایک سفید پرندے کی شکل میں حضرت اسماعیل کے قریب آکر کہنے لگا تمہارے والد تمہیں قربان کرنے لے جارہے ہیں۔حضرت اسماعیل نے کہاکبھی کوئی باپ بھی اپنے بیٹے کو ذبح کرتاہے ۔؟شیطان نے کہا انہیں شاید اﷲ کی جانب سے یہ حکم ملاہے ۔یہ سنتے ہی حضرت اسماعیل نے فرمایا اگر اﷲ کا حکم ہے تو میں سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ابلیس نے ناکامی کے بعد ایک پہاڑ میں پناہ لے لی ۔اس پہاڑ سے حضرت اسماعیل کو آواز آئی کہ تمہارے والد تمہارا خون بہائیں گے اور تمہاری قبر میرے اندر بنے گی۔آپ نے پہاڑ کی اس گفتگو کا ذکر والد سے کیا تو انہوں نے فرمایا یہ شیطانی وسوسہ ہے۔جب باپ اور بیٹا دامن کوہ پر آئے تو والد نے یہ راز بیٹے پر ظاہر کیا کہ اﷲ نے خواب میں مجھے حکم دیاہے کہ میں تمہیں اﷲ کی راہ میں قربان کردوں۔بیٹے نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا اگر اﷲ کا یہی حکم ہے تومجھے آپ فرماں بردار پائیں گے۔پھر کہا والد بزرگوار اگراجازت ہو تو میں چند باتیں گوش گزار کرناچاہتاہوں۔ذبح کے وقت میرے ہاتھ پاؤں رسی سے پابندھ دینا‘ اپنے کپڑے سمیٹ لینا تاکہ میرے خون کے چھینٹیں آپ کے کپڑوں پر نہ پڑیں۔چھری کو اچھی طرح تیز کرلینا تاکہ آسانی سے ذبح ہوسکوں۔ذبح کے وقت میرا چہرا زمین کی جانب کردینا تاکہ آپ کی نظر میرے چہرے پر نہ پڑے اور حکم الہی پورا کرنے میں کوئی کمی رہ جائے۔ میرا کرتہ لے جاکر میری والدہ کو دے دینا تاکہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو۔جب بیٹے کی زبان سے یہ باتیں گوش گزار ہوئیں توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے دو رکعت نماز پڑھی اور دعافرمائی۔ میرے اس فرزندپر رحم فرما جس کا کوئی گناہ نہیں۔ابھی آپ دعا میں مشغول تھے تو حضرت اسماعیل بولے والد بزرگور آپ نہیں دیکھ رہے آسمان کے دروازے کیسے کھلے ہیں اور ملاء اعلی کے فرشتے کس حیرت و استعجاب سے ہمیں دیکھ رہے ہیں‘ پہاڑ اس واقعے کی کیفیت سے لرز رہے ہیں۔فرشتے بارگاہ ربی میں عرض گزار ہیں کہ اے باری تعالی تیرے دو پیغمبر مقام ابتلا میں ہیں۔ایک نے عجزو انکساری سے اپنے چہرے کو خاک پر رکھااور دوسرا پیغمبر بیٹے کو قربان کرکے تیری رضا چاہتاہے۔اپنے ان دونوں بندوں پر رحم فرما اور انہیں اس مقام ابتلا و آزمائش میں کامیاب وکامران فرما۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بیٹے کی باتیں سنیں تو ایسا روئے کہ آسمان ‘زمین ‘پہاڑ ‘عرش و کرسی ‘ملائکہ انہیں روتا ہوادیکھ کر ضبط نہ کرسکے اور ان کے ساتھ رونے لگے۔والد نے چھری کوپتھرپر اتنا رگڑا کہ اس سے چنگاریاں نکلنے لگیں چھری تیز کرکے اپنے بیٹے کے سرہانے آئے اور فرمایا اے میرے رب یہ میرا بیٹا ‘میری آنکھوں کا نور اور دل کاسرور ہے تو نے مجھے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا میں اسے تیری رضا کی خاطر قربان کررہا ہوں ۔پھر فرط محبت سے پیشانی اسماعیل پر بوسہ دیتے ہوئے فرمایا تمہیں قیامت تک کے لیے رخصت کرتا ہوں روزقیامت تمہیں دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کروں گا۔اس لمحے آپ علیہ السلام کی آنکھوں سے آنسوبہہ رہے تھے۔بعض روایات میں آتا ہے کہ اﷲ نے حلقوم اسماعیل پرایک سخت چیز پیدا فرمادی جس سے چھری نہ چل سکی۔بیٹے نے والد سے کہا ابا جان چھری کی نوک میری شہ رگ پر رکھ کر دبا دیں تاکہ شہ رگ کاٹ جائے‘آپ علیہ السلام نے ایسا بھی کیا پھر بھی چھری نہ چلی۔آپ کی پریشانی دیکھ کر چھری کو اﷲ نے زبان عطا کی وہ بولی جب آپ کو آگ میں ڈالا گیاتھا تو آگ نے آپ کو کیوں نہیں جلایا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا آگ کو اﷲ نے جلانے سے روک دیاتھا۔چھری نے جواب دیا آگ کو تو ایک بار حکم ملا تھا لیکن مجھے ستر مرتبہ خطاب الہی ہوچکا ہے کہ حلقوم اسماعیل پر نہ چلوں۔ابھی آپ سوچ بچار میں مصروف تھے کہ ایک ندائے غیبی سنی ۔فرمایا اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا جوکچھ تم سے ممکن تھا وہ تم نے کیا۔اب ہماری رحمت و عنایت کا وقت ہے ۔ذرا پیچھے دیکھیں جو کچھ نظر آئے اس کو پکڑ کر ذبح کردیں یہی آپ کے بیٹے کا فدیہ ہے۔جب آپ نے عقب میں دیکھا تو ایک مینڈھا چلاآرہا تھاکچھ لوگوں نے مینڈھے کی بجائے بکری کا ذکر کیاہے ۔ بہرکیف حضرت ابراہیم علیہ السلام بیٹے کو رسیوں سے بندھا چھوڑ کر اس مینڈھے کی جانب دوڑے ۔مینڈھابھاگا اور جمرہ اولی کے قریب رکا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مینڈھے کو کنکریاں ماریں تو وہ بھاگ کر جمرہ ؤسطی پر جاپہنچا آپ علیہ السلام نے اس کوپھر سات کنکریاں ماریں اور جمرہ عقبی کے مقام پر آکر پکڑ لیا وہاں سے منی لے آئے اور وہاں لاکر اس مینڈھے کو اﷲ کے نام پر ذبح کردیا ۔اس دن سے ہر سال تاقیامت جانوروں کی قربانی کرنا سنت ابراہیمی کہلایا ۔حج کے اہم ترین فرائض میں حضرت ہاجرہ کی طرح صفا ومروہ کے مابین سات چکر لگانا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے قربانی دینا واجب قرار پایا۔عیدکی حقیقی خوشیاں انہی فرائض پیغمبرانہ کی انجام دہی کی خوشی میں ہم مسلمانوں کو عطا ہوئیں۔( استفادہ از کتاب معارج النبوت )
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 663444 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.