دس ذوالحجہ عید الاضحی کے دن مسلمان خلیل اﷲ حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی عظیم سنت کو زندہ کرتے ہیں۔ یوں توحضرت ابراہیم
علیہ السلام کی ساری زندگی عظیم الشان قربانیوں سے آراستہ ہے مگر بحکم
خداوندی اپنے لاڈلے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نازک و نرم خوبصورت
نورانی گلے پر اپنے ہاتھ مبارک سے پوری قوت کیساتھ تیزدھار چھری چلانا ایسی
لا مثال و منفرد قربانی ہے کہ تعمیل حکم و اطاعت خداوندی کی ایسی مثال نہیں
ملتی۔ عجیب منظر تھا جب باپ نے اپنے نو عمر فرزند سے پوچھا ، اے میرے بیٹے
میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہاہوں ، بتا تیری مرضی کیا ہے ؟
‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے یہ رائے اس لیے نہیں پوچھی
تھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گاورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح
نہیں کروں گا، ایسا ہر گز نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس
لیے پوچھی تھی کہ یہ معلوم ہوجائے کہ اﷲ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور
کیا ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرمابرداری دیکھئے، وہ بیٹا بھی تو
کوئی عام بیٹانہیں تھا ، وہ بھی آخر خلیل اﷲ کا فرزند ارجمند تھا ۔ اگر باپ
خلیل اﷲ کے مرتبہ پر فائز تو بیٹے کے سر پر بھی ذبیح اﷲ کا تاج سجنے والا
تھا۔ کیونکہ آپ علیہ السلام ہی کی صلب اطہر سے آقائے دو جہاں ،تاجدارانبیاء،شفیع
روزجزا، جناب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے نورمبین سے اس
جہان کو دائمی روشنی سے منور کرنے والے تھے۔ اس لیے وارث نبوت نے بھی اطاعت
کی حد کر دی۔آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کے آگے سر کو جھکا دیا اور یہ بھی
نہیں پوچھا کہ ابا جا ن مجھ سے کیا جرم سر زد ہوا ہے ؟میری خطا کیا ہے؟ جو
آپ مجھے موت کے حوالے کرنے جا رہے ہیں۔ قربان جاؤں! اس بیٹے پر جس نے نہایت
عاجزی وانکساری سے اپنے باپ کے آگے گردن جھکاتے ہوئے جوکلمات اپنی زبان سے
ارشاد فرمائے وہ قیامت تک نسل انسانی کے لیے مشعل راہ بن گئے۔ قرآن کریم
میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اس (بیٹے) نے کہااے ابا جان!آپ وہی کیجئے جس
کا آپ کو حکم دیا گیاہے، انشاء اﷲ ! آپ مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے
پائیں گے۔ ( سورۃ الصفّٰت آیت 102 )‘‘ اے اباجان! میں روؤں گا نہیں اور نہ
ہی میں چلاؤں گا اور نہ ہی آپ کو اس کام سے منع کروں گا،اب آپ چلئے اور اس
حکم کی تعمیل میں دیر نہ کیجئے۔انشاء اﷲ ! آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے
پائیں گے۔ بقول حضرت علامہ محمد اقبال
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
اب آگے بڑھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا
دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ کے عشق میں اپنی گردن مبارک
زمین پر رکھ دی ، اور باپ نے چھری کو چلانا شروع کیا تو آسمان دنیا کے
فرشتے پہلی دفعہ اطاعت خداوندی اور تسلیم و رضا کا یہ عالی شان منظر دیکھ
کر ششدر رہ گئے ۔ قریب تھا کہ چھری چل جاتی ، لیکن اﷲ کریم کی طرف سے ندا
آئی ، اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ، یہ ایک بڑی آزمائش تھی تم
اس میں کامیاب ہوئے اور اﷲ تعالیٰ نے جنت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے
بدلے قربانی کیلئے ایک دنبہ بھیج دیا ، اور یوں یہ سنت ابراہیمی قیامت تک
ہر صاحب استطاعت پر واجب کردی گئی ۔ حضر ت زید بن ارقم رضی اﷲ تعالیٰ
فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ، یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ، یہ
قربانی کیا ہے ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہ تمہارے باپ حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
(تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے ) ہر بال کے بدلے میں ایک
نیکی ملے گی۔ انہوں نے پھر عرض کیا ، یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ، اون کا
کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ، اون کے ہر بال کے عوض میں
بھی ایک نیکی ملے گی (مشکوۃ شریف) ۔ حضرت عبد اﷲ بن عمررضی اﷲ تعالیٰ سے
روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال
قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی (مشکوٰۃ شریف)۔ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ ’’ قربانی کے دن کوئی نیک عمل اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قربانی
کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں (ترمذی ، ابن ماجہ ) ۔ ہمیں
چاہئے کہ عید الاضحی کے ایام میں پورے ذوق وشوق کے ساتھ سنت ابراہیمی زندہ
کرتے ہوئے، اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کریں، اور عید الاضحی کی خوشیوں
میں غرباء و مساکین اور محتاجوں کو بھی شامل کریں، اور رسمی رکھ رکھاؤ کو
بالائے طاق رکھتے ہوئے غریب لوگوں کو بھی گلے سے لگائیں گے کیونکہ سچی خوشی
تو وہی ہے جو آپ کو ردعمل کے طور پر ملے اور جب کسی دکھی، غریب ، کمزور کو
سینے سے لگایا جاتا ہے تو اس سے یقینا مسرتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔دعا ہے کہ
اﷲ تبارک و تعالیٰ تمام اہل اسلام کی قربانیوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے ،
آمین۔
|