ایک دم کوئی وزنی چیز میرے ذہن کو آ کر ٹکرائی اور میرے
دماغ میں گھس گئی اور میرا ذہن بوکھلا گیا مجھے سمجھ نہ آئی یہ کیا چیز تھی
مگر میرا سر بہت بھاری ہو گیا تھا۔ میں اس وزن کو اٹھائے دیوانہ ہو گیا تھا
اب ہر چیز میرے سمجھ سے باہر ہوتی جا رہی تھی خیالوں کا سمندر میرے ذہن میں
ٹھاٹھے مار رہا تھا۔ اپنے محل نما گھر میں بھی اس چیز کو رکھنے کی جگہ نہیں
مل رہی تھی۔ میری دیوانگی کو دیکھ کر گھر والے پوچھتے تجھے کیا ہو گیا ہے
اور میں خاموش ان کا چہرہ دیکھتا رہتا مجھے نہیں علم تھا اس بیماری کا کیا
نام ہے پتا نہیں شاید مجھے پہلے کبھی اتنا وزن محسوس ہوا ہی نہیں تھا۔ میں
اس بیماری سے خوف زدہ رہنا شروع ہو گیا تھا۔ میں کھانے پر آتا تو پاگلوں کی
طرح کھائے جاتا اور اگر بھوک مر جاتی تو پانی بھی حلق سے اترنے کو تیار نہ
تھا پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا۔
میرے سر پر جو وزن تھا اس سے میرے کندھے گرنا شروع ہو گئے تھے۔ میری آنکھیں
سب سے سوال کرتی تھی کہ مجھے کیا ہو گیا ہے مگر کسی کو میری آنکھیں پڑھنے
کا فن نہیں آتا تھا۔ جب کسی کا دل کرتا تو طرح طرح کے مولویوں کے پاس لے
جاتے وہ دم کرتے اور واپس بھیج دیتے مگر میرے مرض کی تشخیص نہ کر پاتے۔ سب
نے مجھ سے بولنا چھوڑ دیا تھا اور میں نے سننا۔ ایک دن ڈاکٹر نے کہا آپ نمک
نہیں کھائیں گے آپ کو بلڈ پریشر ہو گیا ہے اور کھانا بھی زندگی کی طرح
پھیکا ہو گیا تھا۔ سب کے لیے یہ معمہ بن گیا تھا کہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔
میں نیند کو چیخ چیخ کر پکارتا مگر وہ میری آواز کو نہیں سنتی تھی شاید وہ
میرے سر کا وزن کم کرنے میں میری مدد کرنے کو تیار نہیں تھی۔ پھر مجھے
دوائی دی جاتی اور میری آنکھیں خود بہ خود بند ہو جاتیں اور میرا سر ہلکا
ہو جاتا اور جیسے ہی آنکھیں کھلتیں تو وہی جن میرے سر پر آ کر سوار ہو جاتا۔
میں شیشے کے سامنے جا کر کھڑا ہو جاتا، اپنے سر کی طرف دیکھتا مگر کچھ نظر
نہ آتا اور مایوس ہو جاتا تھا۔
جب بھی ڈاکٹر سے ملتا مجھے ایک نصیحت کے ساتھ میری زندگی سے ایک چیز کم کر
دیتا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا، ’’اب آپ میٹھا نہیں کھا سکتے آپ کو شوگر ہو گئی
ہے‘‘ اور زندگی کی مٹھاس ختم ہو چکی تھی مطلب اب کھا بھی نہیں سکتا تھا۔ سب
نے مجھے کمرے میں قید کر دیا تھا میں سب کو کیا کہتا مجھے کیا ہو گیا ہے
کیوں کہ میں خود نہیں جانتا تھا۔ سب ہنستے تھے تو میں نہیں ہنستا تھا۔ سب
روتے تھے تب میں نہیں روتا تھا کیا کرتا یہ سر کا بوجھ ہلکا ہوتا تو کچھ
کرتا۔ دل چاہتا کوئی مجھے آ کر کہے اپنا بوجھ مجھے دے دو اور جاو تم آزادی
سے جیو۔ میں کمزور ہو گیا تھا میری آنکھیں تھی مگر نظر نہیں آتا تھا، زبان
تھی بولتی نہیں تھی، دل تھا مگر دھڑکتا نہیں تھا اور دماغ تھا جو صرف سوچوں
میں گم تھا۔
سب کے درمیان باتیں ہونے لگی میری حالت ٹھیک نہیں ڈاکٹر بھی میرا چہرہ
دیکھتے تو منہ بنا لیتے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ میرا انتظار کا وقت شروع ہو
گیا ہے اور میں کمرے میں اندھیرا کر کے لیٹ جاتا تھا اور روز انتظار کرتا
تھا کہ اب کب آئے گا اور مجھے لے جائے گا اور اس قید سے آزادی مل جائے گی
کئی دن اس انتظار میں گزر گئے مگر کوئی نہ لینے آیا اور میری آزادی کی تڑپ
بڑھ گئی تھی۔ ایک دن دھڑام سے دروازہ کھلا اور میں سمجھا آ گیا مجھے لینے
میں جا رہا ہوں اس بوجھ سے میری جان چھوٹ جائے گی مگر وہ نہیں تھا جس کا
میں انتظار کر رہا تھا۔ باہر سی آتی روشنی میں ایک جانا پہچانا سا چہرہ نظر
آ رہا تھا وہ کوئی اور نہیں میرے بچپن کا دوست تھا۔
اس کا چمکتا چہرہ اس کی آنکھیں میری آنکھوں کو دیکھ رہی تھیں۔ وہ مجھے اٹھا
کر اپنے ساتھ باغ میں لے گیا۔ میں نے اس سے کچھ نہیں کہا میں نے اس کے چہرے
کو دیکھا اور وہ میرے سوال کو جان گیا اور بولا، ’’بادشاہو تم کمائے کمائے
کھو بیٹھے ہو، بھول گئے بچپن میں سائیکل پر گھومتے گر جاتے تھے تو اٹھ کر
کپڑے جھاڑ لیا کرتے تھے اور پھر سائیکل چلانے لگ جاتے تھے مگر تونے زندگی
کی سائیکل سے گر کر جھاڑنا چھوڑ دیا ہے۔ بادشاہو جب جھاڑنا چھوڑ دو تو گرد
جسم کو لگ جاتی ہے اور پھر وہ جسم کا حصہ بن جاتی ہے پھر وہ کسی صابن سے
اتنی آسانی سے صاف نہیں ہوتی۔ دوسروں کے لیے جیتے جیتے اپنے لے جینا چھوڑ
دیا ہے۔ تیرے اندر وفاؤں کے بدلے وفاؤں کا بھوت سوار ہے۔ جانی تجھے ڈپریشن
ہو گیا ہے‘‘۔ اس نے بتایا کہ میں ڈپریشن کا شکار ہوں وہی بتا سکتا تھا مجھے
کیوں کہ اس نے ہی تنہائی میں میرے دل کو اندر سے جھانک کر دیکھا تھا۔
’’جانی چل میرے ساتھ میں تجھے بتاتا ہوں اس وزن کو کیسے اتارنا ہے‘‘ اور
پھر میں اس کے ساتھ واپس بچپن میں چلا گیا۔ میں نے وصیت لکھ دی میری قبر
میرے دوست کے ساتھ بنانا ہو سکے تو ایک ہی قبر میں دفنانا۔ سچے دوست کی
صحبت کبھی بڑھا نہیں ہونے دیتی۔ |