کشمیر: مرحومین کا سوگ منانے کی عوامی آزادی بھی ختم

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلسل کرفیو کے باعث وادی کے عوام کی بہت سی آزادیاں کئی دنوں سے محدود ہیں۔ سخت سکیورٹی کے نام پر اب کشمیریوں کی اپنے انتقال کر جانے والے اقرباء کا سوگ منانے کی آزادی بھی ختم کر دی گئی ہے۔
 

image


بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سری نگر سے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ہفتہ دس اگست کو اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا ہے کہ اس شہر کے ایک رہائشی عرفان احمد بھٹ کے والد اسی ہفتے اچانک انتقال کر گئے تو ان کے خاندان کے شدید دکھ میں وادی میں مسلسل نافذ رہنے والے کرفیو اور فوجی لاک ڈاؤن کی وجہ سے اور اضافہ ہو گیا۔

عرفان بھٹ کے اہل خانہ نہ صرف ان کے والد کی آخری رسومات کے لیے جمع نہ ہو سکے بلکہ ان کے کئی رشتہ داروں کو بھی اس اچانک موت کی اطلاع نہ دی جا سکی۔ عرفان بھٹ نے اس بارے میں اے ایف پی کو بتایا، ''یہ بات میری زندگی کا سب سے بڑا دکھ بن گئی ہے کہ میرے والد کے بہت سے قریبی رشتہ دار بھی آخری مرتبہ ان کا چہرہ دیکھ سکے اور نہ ہی ان کی آخری رسومات میں شرکت کر سکے۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘

تقریباﹰ ایک ہفتے سے کرفیو
ڈیڑھ ملین کی آبادی والا شہر سری نگر ان دنوں بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کے فیصلے اور وہاں ہزاروں کی تعداد میں مزید بھارتی سکیورٹی دستے بھیجے جانے کے بعد سے ایسے حالات کا سامنا کر رہا ہے کہ وہاں انٹرنیٹ اور موبائل فون رابطوں کو معطل ہوئے تقریباﹰ ایک ہفتہ ہونے کو ہے۔ اس کے علاوہ سری نگر کے تقریباﹰ پندرہ لاکھ شہری مسلسل اپنے گھروں میں بند ہیں، سوائے ان کے جن کے پاس گھروں سے باہر نکلنے کے لیے سکیورٹی حکام کے جاری کردہ 'کرفیو پاس‘ ہیں۔

کرفیو کی پابندیاں کتنی شدید ہیں؟
سری نگر میں مسلسل کرفیو نے عوامی زندگی کو کس حد تک مصائب کا شکار بنا رکھا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عرفان احمد بھٹ کے بقول وہ اپنے خاندان کے چار ایسے افراد کو بھی اپنے 58 سالہ والد کے انتقال کی اطلاع نہ دے سکے، جو سری نگر ہی میں رہتے ہیں۔

ان کے لیے اس المناک صورت حال کے دو اسباب یہ تھے کہ کرفیو کی وجہ سے انہیں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی اور سری نگر ہی میں یا شہر سے باہر وہ یا ان کے اہل خانہ میں سے کوئی بھی دوسرا فرد کسی سے بھی انٹرنیٹ یا موبائل فون کے ذریعے رابطہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔

سوگ منانے کے عادی کشمیری
اے ایف پی نے اپنے اسی مراسلے میں لکھا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عام شہری برسوں سے سوگ مناتے آ رہے ہیں۔ اس طرح انہیں اب اس کی عادت سی ہو گئی ہے۔ اس لیے بھی کہ اس خطے نے کشمیر کے اس حصے پر بھارتی حکمرانی کے خلاف گزشتہ تین عشروں میں مسلح مزاحمت کے دوران اتنی زیادہ خونریزی دیکھی ہے کہ یہی کشمیری اب تک اپنے بیسیوں ہزار دوستوں، ساتھیوں اور اہل خانہ کو دفنا چکے ہیں۔
 

image


لیکن کسی کشمیری مسلمان کے انتقال کے بعد اگر اس کی آخری رسومات بھی ادا نہ کی جا سکیں، اس کے انتقال پر اگر اس کے اہل خانہ اور اقرباء بھی تعزیت کے لیے جمع نہ ہو سکیں، تو یہ بات اس تکلیف دہ حقیقت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ کشمیر خصوصاﹰ سری نگر کو اس وقت جگہ جگہ قائم چیک پوسٹوں، ہر جگہ گشت کرتے بھارتی سکیورٹی دستوں اور ہر سڑک پر نظر آنے والی خار دار تاروں نے کس طرح کے شہر میں بدل دیا ہے۔

عرفان احمد بھٹ کے ایک رشتہ دار نے اس صورت حال کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ایسے کیا کہ ان کی رائے کوئی رائے کم تھی اور ایک چبھتا ہوا سوال زیادہ، ''مسلسل کرفیو لگا ہوا ہے اور پورے شہر میں تلوار جیسی تیز دھار خار دار تاریں بچھی ہیں۔ ہم کر کیا سکتے ہیں؟‘‘


Partner Content: DW

YOU MAY ALSO LIKE: