١٩٣٥ سے قبل گلگت بلتستان ایک جدا حیثیت رکھا کرتا تھا.
جب برطانوی سامراج نے بڑھتے ہوئے سوویت اثر و رسوخ کو دیکھا تو اپنی حدود
کا تعین کرنے کا فیصلہ کیا جس کے پاعث گلگت کو ہندو ڈوگرہ ریاست کو 75 لاکھ
میں بیچ دیا گیا. یہ معاہدہ 60 برس کے لئے تھا اور اس فیصلے میں گلگت
باسیوں کا کوئی ہاتھ نہ تھا. وہ ایک قابض مافیہ (انگریزوں) سے دوسرے قابض
گروہ (کشمیری ریاست) کے ماتحت ہو چلے تھے. البتہ کافی حد تک گلگت بلتستان
کو اس سے مسئلہ نہ تھا کیونکہ مسئلہ ہوتا بھی تو کس کے آگے بیان کرتے اور
کس جگہ شٹرڈاؤن ہڑتال کرتے؟
یاد رکھا جائے کے گلگت بلتستان اس وقت گلگت، بلتستان اور دیامیر پر مشمول
تھا۔
جب برطانیہ نے 90 سال کھل کر ہندوستان سے 4.5 ٹرلین ڈالر لوٹ لیئے اور دو
عالمی جنگوں کے بعد زوال پذیر ہونا شروع کردیا تو اس نے راہِ فرار اختیار
کرنا چاہا. اس وقت تک قوم متحرک ہو چلی تھی اور گلی گلی نگر نگر سے”
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے“ کی پرمسرت اور پر ترنم صدا آنے لگی
تھی. انگریز نے بخوبی سے تابش کے اس شعر کی عکاسی کی :
طریقے ظُلم کے صیّاد نے سارے بدل ڈالے
جو طائر اُڑ نہیں سکتا ، اُسے آزاد کرتا ہے
جن دنوں آزادی کا فرمان پڑھ کر برصغیرِ پاک و ہند میں سنایا گیا ہر جگہ اس
کا چرچا ہونے لگا. ملک میں بسنے والی 580 شاہی ریاستوں کو یہ اختیار دیا
گیا کہ وہ یا تو اپنا رستا اختیار کر لیں یا تو گاندھی یا جناح میں سے کسی
ایک کو قائد اعظم تسلیم کر لیں. کشمیر کے راجہ نے کئ دیگر ریاستوں کی طرح
خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا. یہاں تک تو کہانی ٹھیک ہی چل رہی ہے مگر یہیں
سے اس کا آغاز ہوا جاتا ہے.
جب ہری سنگھ نے پاکستان کا اختیار نہ کیا اور مخبری کشمیر سے الم اور
بربریت کا پیغام لانے لگے تو قبائلیوں اور پاکستان آرمی کے ماتحت قادیانی
دستے 'فرقان فورس' کو ادھر بھیجا گیا اور وہ لڑاکے سرینگر کی دہلیز پہ
پہنچے تو سو کالڈ عظیم الشان بادشاہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے آگے ہاتھ
پھیلا دئے. انڈیا کے پردھان منتری سردار ولّو بھائ پٹیل نے مدد کرنے کے لیے
یہ شرط رکھی کہ تمہیں پہلے ہندوستان سے الحاک کرنا پڑے گا. اس کم ظرف شخص
نے اپنی ریاست اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے جاکر اپنی مرضی سے انڈیا کو
جوائن کر لیا جس میں مقامی لوگوں کی رائے شامل نہ تھی. آج دو جماعتیں مشکل
سے پاس کئے ہوئے دیسی کشمیری نیشنلسٹ نوجوان ہری سنگھ کو ایک ہیرو کا درجہ
دیتے ہیں جو بلکل ہندوستان کا ابھی نندن کو ویر چکرہ ایوارڈ دینے کے مترادف
ہے. ایک قائد اعظم وہی ہو سکتا ہے جو تامرگ اپنے فیصلے پہ قائم رہے اور
نظامِ حیدرآباد کی طرح آخری لمحے تک خود مختاری کے لیے جہاد کرے... نہ کے
یہ کے کسی غیر ملکی کے آگے سودا کر آئے.
جیسے ہی اس بات کا پتا لگا تو گلگت میں بگاوت پھوٹ پڑی اور 12 سال کے بچے
سے لے کر 80 سال کے بوڑھے نے اپنے تخیل میں شمشیرِ حیدری تھام کر یا علی
مدد کی صدا بلند کرتے ہوئے ڈوگرہ سینکوں کو کاٹنا شروع کیا اور بل آخر یکم
نومبر کو اپنی ریاست کو آزاد کروا کر پاکستان کا اختیار کیا.
پاکستان اور گلگت کو شہید نشانِ حیدر لالک جان کے خون نے تا حشر آپس میں
لوح قرآنی کی طرح محفوظ کرلیا ہے. گلگت کو آج تک کشمیریوں کی وجہ سے صوبائی
حیثیت نہ مل سکی ہے جن کا یہ ماننا ہے کہ گلگت کشمیر کا حصہ ہے اور پاکستان
نہیں چاہتا کہ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا مسئلہ متنازعہ ہو اور نہ ہی وہ
چاہتا ہے کہ کشمیری نالاں ہوں. یہ پاکستان کی مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی.
گلگت باسی پاکستان کے سب سے زیادہ باشعور لوگ ہیں جو ان باتوں سے واقف ہیں.
وہ پاکستان کے نظام کے خلاف ہوں یہ دیگر مسائل کے خلاف... وہ ان کا آئینی
حق ہے جس پر ہر ایک پاکستانی ان کے ساتھ ہے.
چند معصومانہ سوالات پوچھنے کی اگر اجازت ہو تو یہ بتایا جائے کے چلو ہری
سنگھ کی ریاست کالعدم نہ تھی اور عوام الناس کی خواہشوں کی عکاس تھی تو اس
بات کا جواب دیں کہ لوگوں نے کیوں ریاست کے خلاف بغاوت کی؟ 60 سال کا
معاہدہ خود با خود 1995 میں ختم ہو گیا تو اب کشمیر کا کیا واسطہ ہے گلگت
بلتستان سے؟ بلتی کیوں الگ قوم نہیں اگر ان کا کی زبان، نسل، تاریخ، مذہبی
عقائد اور نظریات ایک دوسرے سے جدا ہیں؟ اگر 12 سال کسی کے اوپر حکومت کر
لینے سے وہ قوم اپنی بن جاتی ہے تو کیوں ہندوستان برطانیہ نہیں؟ اس پہ تو
سو سال حکومت کی گئ تھی. الجزائر فرانس کیوں نہیں؟ کیوں لیبیا کے دار
الحکومت پہ اطالوی جھنڈا نہیں لہراتے؟ کیوں روتے ہو فلسطین پہ؟ کیا 3000
سال یہود نے اس خطے پہ حکمرانی نہیں کی؟
اگر کسی لنڈے کے نیشنلسٹ کو تکلیف اٹھے اور سچ سن کر یقین نہ آئے تو چلاس،
استور یا سکردو میں جاکر کہے کہ تم بلتی نہیں ہو اور کشمیری ہو. امید ہے
بلتی اپنی مہمان نوازی کا بخوبی اظہار کریں گے -
سوال بےشمار، سامعین میں حوصلہ کم-
|