عید قربان،جشن پاکستان اور کشمیریوں کو پیغام

میرا پیغام کشمیریوں کے نام

اس مرتبہ عیدالاضحی یعنی عید قربان اور جشن آزادی یعنی یوم آزادی پاکستان ایک ساتھ آئے ہیں مگر المیہ کہ اس سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں ہندو پلید نے ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے کم و بیش ایک ہفتے سے زائد دنوں سے پوری وادی میں کرفیوں نافذ ہے انٹرنیٹ سروس و موبائل فون سروس بھی بند ہے تلاشی کے بہانے نہتے کشمیریوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے پوری وادی جیل کا منظر پیش کر رہی ہے -

کچھ اسی قسم کا منظر ہمارے بزرگوں نے 1947 میں بھی دیکھے ہیں جس کے کئی عینی شاہدین ابھی بھی الحمدللہ حیات ہیں ہمارے انہی بزرگوں کی قربانیوں کی بدولت ہندوستان پلید کے بطن سے اور انگریز بے ایمان کے جبری قبضے سے لاکھوں شہادتیں اور عزتیں لٹوا کر اپنے گھر بھار گلی محلے مال مویشی چھوڑ کر 14 اگست 1947 کو آزادی حاصل کی گئی تھی آج اس 14 اگست 1947 کے دن کی نسبت سے ہم یوم جشن آزادی مناتے ہیں -

ہندوستان میں اتنے عرصے سے رہتے ہوئے آخر علیحدہ ہونے کی نوبت کیوں آئی وجہ صرف اور صرف دو قومی نظریہ تھا چونکہ ہندو کڑوروں خود ساختہ جعلی خداءوں کا ماننے والا اور مختصرا گائے کا پیشاب پینے والا ہے جبکہ مسلمان ایک اللہ کو ماننے والا اور گائے کا گوشت کھانے اور اس کے پیشاب سے بچنے والا ہے اور پیشاب کو پلید جاننے والا -

دو قومی نظریہ جو قیام پاکستان کے لئے پیش کیا گیا کوئی نیا نہیں بلکہ یہ تمام انبیاء کا بھی نظریہ ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نظریہ بھی دو قوموں کے مابین تھا ابراہیم کا نظریہ تھا کہ اللہ ایک ہے اس کے مقابل جو لوگوں نے خود ساختہ جعلی خدا بتوں کی شکل میں بنا رکھے تھے وہ سب رد ہیں باطل ہیں ان سے بیزاری ہے خیر بات لمبی ہو جائیگی مختصر لکھتا ہوں کہ ابراہیم علیہ السلام نے ایک اللہ کا حکم مانتے ہوئے اور دیگر نظریوں کا رد کرتے ہوئے بتوں کے ٹکڑے کیئےاور نمرود کے سامنے کلمہ حق بیان کیا پھر اس کے بعد اپنے لخت جگر اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم کے مطابق قربان کرنے کا فیصلہ کیا مگر ادھر اللہ احکام الحاکیمین نے ابراہیم علیہ السلام کے نظریہ کی قدر کی اور ان کے لخت جگر کی بجائے مینڈھا یاں دنبہ قربان ہوا اسی نسبت سے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جد ابراھیم علیہ السلام کے نظریہ کی بنا پر ہر سال 10 ذی الحج کو جانور قربان کرکے عیدالاضحی یعنی عید قربان مناتی ہے
وہی ہندو نجس پلید کہ جس پر ہمارے بڑوں نے تقریبا 1 ہزار سال حکومت کی اور پھر ہمارے ہی بڑوں کی جہاد سے دوری کی بدولت انگریز ہندوستان پر قابض ہوا تو اللہ کریم نے ٹیپو سلطان اور شاہ اسماعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ جیسے مجاھدین کیساتھ امت کے غم خوار علامہ اقبال اور قائد اعظم اور ان کے دیگر غیور ساتھی ہندوستان کی دھرتی پر پیدا کیئے جنہوں نے اپنے نبی محمد ذیشان صلی اللہ علیہ وسلم کے نظریہ پر جدوجہد کرتے ہوئے انگریز اور ہندو مکار سے آزادی حاصل کی اس ظالم انگریز اور ہندو کی چالوں کی بدولت وادی جموں و کشمیر جنت نظیر مقبوضہ وادی کشمیر بن گئی اور تاحال مقبوضہ ہی ہے جس کی آزادی کیلئے غیور کشمیری قوم اب تک 1 لاکھ کے قریب شہادتیں اور ہزاروں عزتیں نچھاور کر چکی ہے یوں تو 1947 سے اب تک کشمیری ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں مگر گزشتہ ہفتے سے کشمیریوں پر مظالم کے ایسے پہاڑ توڑے جا چکے ہیں کہ جن کا بیان نا ممکن ہے اس کمیونیکیشن کے دور میں ہونے کے باوجود کشمیری موبائل اور انٹرنیٹ سے محروم سخت کرفیو میں اب تک سینکڑوں مذید شہادتوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں کیونکہ کشمیری قوم مسلمان اور دو قومی نظریہ کی بنا پر تحریک آزادی کشمیر جاری رکھے ہوئے ہے اور اللہ کے فضل سے آزادی کے قریب تر ہوتی جا رہی ہے سو ہندو ظالم دن بدن کشمیریوں پر نت نئے طریقوں سے ظلم کر رہا ہے مگر افسوس تو مسلمان حکمرانوں پر ہے کہ جو اتنا کچھ جاننے اور دیکھنے کے باوجود چپ چاپ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں عالم اسلام کے حکمران آزادی کے نبوی طریقے کو (جہاد جو کہ کہنا اس وقت جرم ہے) چھوڑ کر خالی بیانات اور ہندو کو بد دعائیں دینے کا طریقہ اپنائے ہوئے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ روز قیامت انہی لفظی بیانات کے جہاد سے ہم اللہ کے غضب سے بچ جائینگے جو کہ دراصل خود کو دھوکا دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں-

اور آخر میں میرا کشمیری قوم کو پیغام امت محمدیہ کے غیرت مند کشمیریوں ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آزادی کیلئے 10 لاکھ سے اوپر قربانیاں دی گئیں آج تمہاری قربانیاں بھی لاکھوں تک پہنچ چکی ہیں سو ڈٹے رہنا گھبرانا مت کیونکہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مت جاتا ہے سو ایک اللہ پر توکل کرتے ہوئے ڈٹ جاءو میرا رب آج بھی وہی ہے جو فرعون کے گھر موسی کی پرورش کرتا ہے ابابیلوں سے ہاتھی مرواتا ہے اور مچھروں سے نمرود جیسے خود ساختہ جعلی خدا کو کیفر کردار تک پہنچاتا ہے
 

Ghani Mehmood kasuri
About the Author: Ghani Mehmood kasuri Read More Articles by Ghani Mehmood kasuri: 3 Articles with 1864 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.