وہ دھیمے لہجے میں ایک ایک لفظ کو گویا دل و دماغ کے
پلڑوں میں تول کر بول رہے تھے "جانی کسی بھی سنی سنائی بات، ٹی وی پر جاری
ٹاک شوز، لیڈروں کے بیانات،سوشل میڈیا پے پوسٹ کی گئی ویڈیوز حتیٰ کے اپنے
مشاہدے اور تجربے کو بھی مکمل طور درست ماننے کی بجائے کوئی ایک آدھ غلطی
کا احتمال یا غلط فہمی کی جگہ رکھ لیا کرو۔ آج کل کے ڈرامائی اور تیز ترین
دور میں ہمیں بہت سی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں، مگر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ
جو ہمیں دکھایا یا بتایا جا رہا ہے وہ سچ بھی ہو، یاد رکھنا "جو چیز جتنی
تیز ہو گی وہ اتنی ہی شیطان کے قریب ہو گی"۔ جو صورت حال ،مسئلہ یا بات
سامنے آئے تو اس پر تھوڑا سا رک کر اپنے دل اور دماغ میں کچھ سوالات کر لیا
کرو ۔ سچا اور ستھرا علم حاصل کرنے کا بہترین راستہ مسلسل سوال کرنا ہے
اپنے آپ سے ،اپنے ضمیر سے اور سب سے بڑھکر اپنے استاد سے ۔ میں نے ان بابا
جی سے پوچھا کے اتنے سارے سوالات کرنے کی کیا ضرورت ہے، لیکن پہلےیہ بتاتا
چلوں کہ یہ بابا جی تھے کون۔ چند روز پہلے میں اپنے ایک دوست کے انتظار میں
اپنے آفس کے قریب موجود مشہور چائے کے پوائنٹ "بالی کیفے " پر بیٹھا ہوا
تھا کہ ایک اور پرانے دوست کی کال آگئی اس دوست سے سوشل میڈیا پر کافی "
اختلافی امور" پر بحث رہتی ہے ہم دونوں نے موجودہ قومی، سیاسی اور معاشی
حالات پر کافی گرما گرم ڈسکشن شروع کر دی وہ بابا جی میرے ساتھ والی ٹیبل
پر بیٹھے تھے اور چائے کا غالباً تیسرا کپ نوش کررہے تھے،عمر سے مڈ سیونٹیز
اور شکل و شباہت سے ایک ریٹائرڈ استاد جیسے دکھ رہے تھے لیکن ایک کمال چیز
ان کی شخصیت کا احاطہ کیے ہوئے تھی اور وہ تھا "انتہائی اطمینان"،یہی چیز
ہر آنے جانے والے کو انکی طرف متوجہ کر رہی تھی میں چونکہ گرما گرم ارسطوئی
بحث میں مصروف تھا اسلیے بہت زیادہ انکی طرف متوجہ نہیں تھا لیکن وقتاً
فوقتاً ان پر ایک نظر ضرور ڈال لیتا تھا ،میری کال کے بند ہوتے ہی وہ
انتہائی اطمینان سے مجھ سے گویا ہوئے اور دوستانہ بے تکلفی سے بات " جانی"
کہہ کر شروع کی۔
میرے سوال کے جواب میں وہ دھیرے سے مسکرائے اور بولے "جانی سوال ہی تو
زندگی ہے ،سوال ہی بقا ہے ،بار بارسوال کرنے سے ہی حہالت کی دھندلاھٹ کم
ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی ہے" ،ہمارے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوال
کو آدھا علم اسی لئے کہا ہے۔
دوسری بات، اگر آپ کسی شے کو اپنے تئیں بالکل درست ہی کیوں نہ سمجھتے اور
مانتے ہوں اور ایسے میں کوئی اور آپ کی بات کے مقابلے میں بالکل ہی مختلف
بات کر دے، تو اسے گالی گلوچ کرنے، جذباتی جملے بازی یا غلط سمجھ کر رد کر
دینے کی بجائے سوال کیجیے، ایک لمحے کے لیے یہ خیال اپنے ذہن میں رکھیے کہ
ممکن ہے یہ درست کہہ رہے ہوں۔ سچی اور ستھری نیت کے ساتھ سوال کرو،بار بار
سوال کرو اور آدھے علم کا راستہ ہموار کرو، جواب تلاش کرنے کی کوشش کرو۔
مکمل علم خود بہ خود آپ کو پرنور کرتا چلا جائے گا۔
|