جب ہم ۱۹۵۱ میں لالوکھیت آئے تو اس جگہ پر لہلہاتے کھیت
تھے لیاری ندی کے کنارے یہ زمین سرسبزوشاداب کھیتوں سے بھری ہوئی تھی لیکن
ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجروں کے لیے اس وقت کی حکومت نے یہاں اسی مربع
گزکے پلاٹوں پر ایک جھوپڑی بنا دی تھی باقی کھلا ہوا تھا پبلک ٹوائلٹ کوئی
سو جھونپڑیوں کے درمیان بنے ہوئے تھے۔ یہ آگے پیچھے شاید دس دس تھے۔ درمیان
میں راستہ تھا کہ جمعدار ہر ٹوائلیٹ سے فضلہ نکال کر لے جاتا تھا۔ جن لوگوں
کے لیےیہ آبادی بنائی گئی تھی وہ اس وقت مولوی مسافر خانے کے پاس اور
کوتوال بلڈنگ کے آس پاس وقتی طور پر آباد تھے اکثرلوگ دہلی سے آئے ہوئے تھے
انہوں نے ہندوستان میں اچھے اچھے مکانات چھوڑے تھے ۔ یہ جگہ دکھائی گئی تو
بڑی بیزاری کا اظہار کیا اور یہاں آنے سے منع کردیا آس پاس کی بستیوں میں
شہر کراچی کی آخری بستی پیرالٰہی بخش کا لونی کے نام سے بنائی جا رہی تھی
جو سندہ کے وزیر اٰعلیٰ مرحوم جناب پیر الٰہی بخش کے نام سے موسوم تھی ۔
اسکے نا مکمل مکانوں میں۔ دس دس فیملیاں رکی ہوئی تھیں۔ انہوں نے جب خالی
جھونپڑیوں کو دیکھا توپیر کالونی، اور دوسری جگہوں سے راتوںرات لوگ آکران
جھونپٹریوں میں بس گئے ابھی بھی یہاں پر کچھ مولی گاجر کے کھیت لگے ہوئے
تھے۔ان کھیتوں کے درمیان میں بہت بڑے بڑےدرخت بھی تھے، جن میں املی،
کویٹ(وڈ ایپل)، بادام، جنگل جلیبی کے درخت قابلِ ذکر تھے۔ کراچی میں
شائدبارش کئی سالوں میں ایک بار ہوتی تھی ۔اور مقامی آبادی اس موسم سے بہت
مطمئن تھی ۔ ہمارے سامنے بارش ہوئی تو اسقدر موسلا دھار بارش کہ خدا کی
پناہ۔ مقامی آبادی کے افراد اس سے خوش نظر نہیں آتے تھے۔ بلکہ آنے والے
مہاجرین پر الزام تھا کہیہ لوگ بارش اپنے ساتھ لائے ہیں۔آجکل جو راستہ
عسکری پارک کو جاتا ہےاسکے مشرق میں عیسائیوں کا بڑا گرجاگھر اورایک
عیسٰائی اسکول بھی تھا اور ایک قبرستان جو آج بھی موجودہے اور اسکی آخری حد
سر شاہ سلیمان روڈ تک ہے جہاں برابر میں عیسٰی نگری بھی ہے اس علاقے میں
نالے اور ویران زمین تھی ،ہاں لیاری ندی کی دوسری طرف موجودہ ابوالاصفہانی
روڈ کے پل تک کاشت کاری اور کھیتی باڑی تھی۔ فصلیں کاٹنے اور اٹھانے کیلئے
لیاری ندی میں ٹرک چلتے تھے۔ اس کے نام کی جہ تسمیہ بھی یہ لاری(ٹرک) ہے ۔
یہ لاری سے لیاری ہو گیا۔ وہیں پر درمیان سے پانی بہتا تھا جو بہت صاف اور
شفاف اور اس میں رنگ برنگی مچھلیاں بھی ہوتی تھی اگر ندی میں مشرق کی طرف
جائیں تو کھیتوں کالا متناہی سلسلہ تھا جو آج کے گلشن اقبال تک کی جگہ ہے۔
دوسری طرف کوئی کھیتی باڑی نہیں تھی بلکہ سنسان میدان جنگل خود رو جھاڑیاں
ہوتی تھی اور ندی میں رنگ برنگے پرندے اور سیگل عام ہوتے تھے کھیتوں سے
نیچے کی طرف غار تھے اور برے لوگوں کے شراب اور جوئے کےاڈے تھے جہاں عسکری
پارک ہے یہاں ایک دولت رام مل ہوا کرتا تھا اور یہیں پر ایک ہوٹل بھی تھا
جسکو اس وقت کا ایک آدمی سکھیا چلایاکرتا تھا اس میں بھی شراب ، چرس ، بھنگ
گویا ہر چیز عام طور سے مل جاتی تھی اور اس میں شام کو ہیجڑوں کے ناچنے
گانے کی محفلیں بھی سجتی تھیں جب ہم یہاں آ کر آباد ہوئے تو مقامی آبادی کے
لوگ ہمیں لاوارث سمجھ کر بدنیتی سے ہماری بستیوں میں آتے تھے اسکی وجہ سے
کچھ ناخوشگوار واقعات بھی ہوئے لیکن چونکہ ہم ہندوستان سے آگ اور خون کا
سمندر پار کر کے آئے تھے ہمیں خوب معلوم تھا کہ اس طرح کے لٹیروں ڈاکوؤں سے
کس طرح نمٹا جاتا ہے جب ہم نے ان کو آڑے ہاتھوں لیا تو پھر وہ رفو چکر ہو
گئے۔ یہ علاقہ سرسبزتھا مگر یہاں پر زیادہ تر گھاس پھوس اور دوسرے قسم کی
کاشت ہوتی تھی ندی سے وہاں کھیتوں کی طرف آنے کے لیے مختلف راستے تھے پیر
کالونی سے مغرب کی طرف جو آجکل نفیسٓ اباد کی بستی ہے یہاںبھی کھیت ہوتے
تھے اور پیر کالونی میں جہاں نئی آبادی بنائی گئی تھی وہ حصہ اس زمانے کے
سندھ کےوزیراعلٰی جناب پیر الہی بخش کی حویلی کے ساتھ ساتھ تھا۔ ہم اکثر
پیر صاحب کی حویلی سے گذر کر اسکول جاتے تھے۔تو انسے ملاقات ہو جاتی تھی ہم
بچوں کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے تھے ۔انہوں نے وہاں ایک مدرسہ، مدرسۃ
العلوم بھی بنایا تھا ۔ہماری پرائمری کلاسیں مولی کے کھیتوں میں لگتی تھیں
۔ جس میں ہم اسکول کی پڑھائی کے دوران بھی جاکرمولی نکال کر کھایا کرتے تھے
تین ہٹی کا پل ابھی نہیں بنا تھا لیکن چوتھا راستہ پل کی تعمیر کے بعد لا
لوکھیت کی طرف گیا اور اس طرح تین ہٹی ّ چوراہے میں تبدیل ہو گئی وہ جو
راستہ تھا اس پر ایک بڑی پتھر کی کئی منزلہ عمارت تھی بعد میں جب چوڑا کیا
گیا تو عمارت کو توڑنے کی وجہ سے اس کے نیچے بہت خزانہ نکلا ہم نے بھی
دیکھا اور جو کام کرنے والا عملہ تھا وہ اسے لے گیا ۔ہمارےعلاقے اے
ایریامیں کھیتوں کی سیرابی کیلئے ایک بہت بڑاکنواں تھا جسےسب باؤلی کہتے
تھے جس میں تقریبا 20 فٹ نیچے جاکر موٹر لگی تھی جس سے باؤلی سے پانی اوپر
آنا تھا باؤلی کی دیواروں میں جگہ جگہ سوراخ تھے۔ جس میں سانپ اور دوسرے
حشرات الارض عام تھے۔
یہ کنواں(باؤلی) اسّی گز کے پلاٹ میں آ گیا تھا۔جن صاحب کو یہ پلاٹ ( جسمیں
ایک جھونپڑی تھی ) ملا تھا۔ انکا نام ظفر تھا وہ شائد عامل بھی تھے۔ انہوں
نے اس باؤلی میں ایک چھوٹی دیگ دیکھی تھی جس پر دو عدد (سفید اور
کالا)کوبرا سانپ(ناگ) بیٹھے ہوئے تھے۔مِیںنے اسکے بعدکبھی بھی سفید کوبرا
نہیں دیکھا نَہ فلموں مِیں نَہ حقیقت مِیں۔ بہر حال ظفر صاحب نے کچھ عمل کر
کے دونوں کو دیگ پر سے ہٹا دیا۔ اور وہ جاکر باؤلی کی دیوار کے سوراخ
مِیںگھس گئے۔ بعد مِیں دیگ لے کر چلے گئے۔ سنا تھا کہ اسمیں خزانہ نکلا تھا۔
میری والدہ (مرحومہ) نے مجھے بتایا تھا کہ اس طرح کے خزانے بد نصیبی ساتھ
لا تے ہیں۔ یہاں بھی اسی طرح ہوا ۔ ظفر صاحب کے خاندان پر آفات کا ایک
سلسلہ شروع ہو گیا۔ دو بہوئیں ندی کے بہاؤ کی نظر ہو گئیں۔ ایک لڑکا دماغی
توازں کھو بیٹھا اور بیماریوں کا ڈیرا بھی تھا۔ بعد مِیں ظفر صاحب نے
پی۔آئی۔ بی کالونی بس اسٹاپ کی طرف سے لیاقت آباد آنے والے ندی کےراستے پر
چھوٹا پل بھی بنوا دیا تھا لوگ کہتے تھے کہ انہوں نے اپنی بہوؤں کی یاد
مِیں بنوایا تھا۔ عوام النّاس نے اس پل سے برسوں فائدہ اٹھایا۔ اللہ مرحوم
ظفر صاحب کی مغفرت فر مائے ۔ آمِین۔
پی۔آئی۔بی۔ کالونی مِیں نئی سوسائٹی کے مکانات سیمنٹ اور بجری سے بنائے جا
رہے تھے۔ اور ندی کے کنارے پتھرون اور کھپریل(چھت کیلئے مٹّی کے پکے ہوئے
ٹائل) کے دو منزلہ مکانوں کا ایک گاؤں(گوٹھ) تھا۔ اس گوٹھ مِیں کویٹ( Wood
Apple) کے کئی درخت تھے۔ عمومی طور پر ا ملی کے درخت سے بھی اونچے ہوتے ہیں۔
انکا پھل ٹینس کی گیند کے برابر اور چھلکا لکڑی کی طرح سخت ہو تا ہے۔
اور اندر سے امرود کے بیجوں کی طرح کھٹّےگودے سے بھرا ہوتا ہے۔لوگ اسکی
چٹنی بناتے ہیں اور گرمیوں مِیں اسکا مشروب بھی پیتے ہین، اب تو اڑسٹھ برس
گذر گئے ہیں مگر کیا تعجّب کے وہ گاؤں اور اسکے درخت ابھی بھی موجود ہوں۔
مینا بازار سے مِین سڑک کو کراس کر کے سیدھے ہاتھ کی طرف ذرا آگے جا کر یہ
گاؤں ہوتا تھا۔اور سامنے راجہ صبح صادق کا بنگلہ بھی تھا۔
میں خود اس وقت ماشاءاللہ ۷۴ برس کا ہوں۔ خیال آیا کہ کراچی کی ان یادوں کو
نئی نسل سےشیئر کروں۔
کراچی مِیں ایک جگہ پرانی نمائش ہے ۔ پاکستان بنّے سے پہلے یہاں نمائش لگا
کرتی تھی۔ اسکے بعد ایک چھوٹا سا ٹیلہ تھا جو اب مزار قائد ہے۔ آگے بڑھ کر
الٹے ہاتھ کی طرف گرومندر ہے۔ عمومی طور پر وہاں ایسی کوئی عمارت نظر نہیں
آتی۔ مرحوم قائدِآعظم کے مقبرے کے قریب،پٹرول پمپ کے بعد ایک مسجد ہے سبیل
والی مسجد، یہ مسجد گرو مندر کے پارک مَیں بنی ہوئی ہے اور گرو مندر کی
عمارت پٹرول پمپ اور مسجد کے درمیان مَیں ہے۔ پرانی عمارتوں مِیں آگے
چوراہا پار کر کے ایک پوسٹ آفس تھا ۔اور ساتھ ہی مذبح خانہ تھا جو ابھی تک
تو تھا۔ یہاں سے آگے سڑک سنٹرل جیل کو جاتی ہے۔ جو ابھی بھی ہے۔۱۹۵۱ ہی سے
پروگرام تھا کہ جیل کو شہر سے باہر شفٹ کریں گے۔ جیل اس وقت جنگل میں تھا۔
شہید ملّت روڈ کی ابتدا جہاں سے ہوتی ہے یہاں ایک بڑا پہاڑ تھا جسکو بعد
میں کاٹ کر شہید ملّت روڈ بنائی گئی۔یہ کراچی کواپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کی
انٹری ہے۔جسکو علی اکبرصاحب مرحوم نے قائم کیا تھا۔ سنٹرل جیل سے موجودہ
عسکری پارک کے سامنے سے ایک جگہ جسکو نئی نمائش کہتے تھے آجکل نیو ٹاؤن
کہتے ھیں ۔ شائد ۱۹۵۲میں یہاں ایک نمائش لگی تھی جسمیں مصنوئی ٹھنڈک کا
مظاہرہ کیا گیا تھا اور ٹیلیوژن بھی ہم نے یہیں دیکھا تھا۔ یہاں سےگذرتے
ہوئے آگے جاکر۔ اکسپو سنٹر ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد تیسری بار نمائش لگی
تھی۔ جسمیں سب سے بڑا اسٹال روس کا تھا۔ جسکا سرخ ستارہ اتنی بلندی پر تھا
کہ کراچی مِیں دور دور تک نظر آتا تھا۔ موجودہ عسکری پارک سے لیکر اکسپو
سنٹر تک کوئی تعمیرات نہیں تھیں، یہ سا راجنگل میں تھا۔ اب شہر کی وسعت کی
وجہ سے ضرورت اس بات کی ہے کہ اکسپو سنٹر کراچی مَیں کسی کنارے پر لے جایا
جائے تاکہ ٹریفککی روانی میں فرق نہ پڑے۔ اسی طرح اسٹیڈیم بھی مرکزی شہر
میں بڑی گڑ بڑ پیدا کرتا ہے،
جیل،اسٹیڈیم، ایر پوٹ،اور ایکسپو سنٹر، شہر سے باہر ہونے چاہیئے۔ تا کہ شہر
کی دوسری اہم سر گرمیوں میں رکاوٹ نہ پڑے۔ |