اس نے کہا
کل بات کریں گے ۔
اس نے کہہ تو دیا لیکن وہ یہ بھول گئ کہ کیا " کل" آج تک آئ ہے جو کل آجاے
گی۔
کل کبھی نہیں آتی ۔
نا آنے والی " کل " آتی ہے نہ گزری "کل" نے واپس آنا ہے ۔
یہ " آج " ہی ہے جس نے رہنا ہے ۔
آج کا دن ہی گزارنا ہے اور جس کا آج اچھا ہے وہی اچھا ہے ۔
موجود وقت ہی موجود ہوتا ہے اور اگر وہ اچھا ہے تو سب اچھا ہے۔
اگر حامد کو رکشیلی سے پیار ہوتا تو وہ یہ جملہ برداشت نہ کر پاتا۔ وہ تو
اچھا ہوا کہ اس سے صرف دوستی اور ہمدردی کا رشتہ قائم ہوا تھا جس میں آسانی
ہوتی ہے۔ پیار میں مشکلات ہوتی ہیں ۔ پیار کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ
کل بات کریں گے۔
پیار کرنے والا یہ سن بھی نہیں سکتا کہ کل بات کریں گے ۔
شائد خدا کو بھی انسان سے پیار ہے ۔
وہ ہر وقت بات کرنے اور سنے پر آمادہ رہتا ہے۔
اس وقت رات کا تیسرا پہر تھا جب رکشیلی نے حامد سے کہا کہ
کل بات کریں گے
جب آسمان سے صدا آرہی تھی کہ
ہے کوئ جو بات کرے ، جس کی بات میں آج ہی سنوں اور آج ہی قبول کروں ۔
پیار کرنے والا یہ شکوہ تو کر سکتا ہے کہ
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ، ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ
کل بات کریں گے۔
|