ہماری گلی میں پانچ آچکی ھیں اور ہماری میں سات ارے بھئی
کیا آچکی ہیں! کاشف جو ابھی گھر سے نکلا تھارافع کے کندھے پر ہاتھ رکھتے
ہوئے بولا۔رافع کاشف کی بات نظر انداز کرتے ہوۓ بولا
اب کے بھی ہماری گلی میں سب سے زیادہ گائے آۓگی دیکھ لینااور تگڑی بھی لیکن
سب سے اچھی اور مہنگی ھماری ھوگی دیکھا نہیں تھا پچھلے سال بھی ہمارا سبی
کا بیل آیا تھا کاشف نے بڑے فخر سے کہا۔ہاں یار ہر سال تمہارا اور کامران
انکل کا مقابلہ رہتا ہے کہ کس کا جانور خوبصورت اور مہنگا ھوگا اور ہر سال
ھم ہی جیت جاتے ہیں کاشف خوش ہو کر بولا ۔
جیت سے اسے اچانک یاد آیا کہ صبح ٹیسٹ ہے اور آج ٹیوشن میں اس کی تیاری
کرنی ہے یہ سوچ کر وہ جلدی سے گھر آ گیا کے سر آنے ہی والے ہوں گے۔
سر عاطف قریبی اسکول میں ٹیچر تھے اور محلے کے بچوں کو محبت اور خلوص سے
پڑھایا کرتے تھے اورکاشف کے والد کے اچھے دوست بھی تھے۔سر عاطف بہت خوش تھے
کیونکہ سب بچوں نےٹیسٹ کی تیاری بہت اچھی کرلی تھی۔اور اب وہ بچوں کے ساتھ
خوش گپیوں میں مصروف تھے سر بقر عید کی چھٹیاں کب ہونگی۔کیوں بھئی بارش کی
چھٹیوں سے دل نہیں بھرا آپ کا جو اور چھٹیاں چاہئیں سر خوش دلی سے بولے ۔وہ
۔۔۔۔۔۔دراصل سر۔۔کاشف کچھ کہتے کہتے رک گیا ہاں ہاں بولو بیٹا رک کیوں گئے
سروہ باباکے ساتھ منڈی جانا ہے گائے لینے اس لیے ۔۔اوہ اچھا قربانی کرنا تو
بہت اچھی بات ہے ضرور جاؤ۔جی ہاں سر کامران انکل سے پہلے اور ان کی گائے سے
اچھی گائے لے کرآنی ہے اس لۓ بابا کہہ رہے تھےکہ ماموں سے کچھ ادھار لے کر
اس ہفتے تگڑی سی گاۓ لے آتے ھیں کاشف سر کی شہ پاکر معصومیت اور جوش میں سب
کچھ کہہ گیا۔
اوہ اچھا۔۔۔سر عاطف ساری بات سمجھتے ہوئے بولے۔ٹھیک ہے بچوں پھر کل ملتے
ہیں
جی سر سب بچے جانے لگے تو سر کاشف سے بولے کہ میں آج رات آپ کے باباسے ملنے
آؤں گا۔عشاء کے بعد سر عاطف کاشف کے گھر ڈرائنگ روم میں بیٹھے آصف صاحب سے
باتیں کر رہے تھے اور سناؤ آصف کیسی گزر رہی ہے کاروبار وغیرہ کیسا ہے ۔بس
یار کاروبار ذرا ٹھنڈا ہے مگر اللہ کا کرم ہے کہ اچھی گزر رہی ہے تم سناؤ
بڑے دن بعد ملاقات ہوئی ہماری کاشف تو تنگ نہیں کر رہا پڑھائی میں آصف صاحب
مسکراتے ہوئے بولے۔ارے نہیں کاشف تو بہت محنتی بچہ ہے۔کل بچے جانور لانے کا
ذکر کر رہے تھے سوچا اس سلسلے میں مشورہ ہو جائے ارے کیوں نہیں کہوکیسا
جانور لانا چاہ رہے ہو
میرے دوست کا اپنا باڑا ہے کم دام میں ایک مناسب گائے کا بندوبست ہو سکتا
ہے کچھ پیسے بعد میں دیتے رہنا محلے اور رشتے داروں میں عزت ہو جائے گی آصف
صاحب نے اپنی جانب سے بہترین مشورہ دیتے ہوئے کہا۔ارے نہیں میں نے تو گھر
میں ہی پچھلے سال ایک بکری کا بچہ لے کر پالا تھا بس اس سے ہی قربانی کا
ارادہ ہے۔
اوہ اچھا مگر بڑے جانور کی بات ہی الگ ہوتی ہے ذرا عزت بنی رہتی ہے۔آصف
تمہاری محبت اور نوازش اپنی جگہ مگر مجھے یہ بات بتاؤ کہ کیا اس طرح اللہ
کے سامنے میری عزت بنے گی؟ کیا مطلب !آصف صاحب کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولے ۔
ماشااللہ آصف تم ایک مسلمان ہو اور قربانی کے احکام کا بھی تمہیں علم
ہے۔الحمدللہ مگر عاطف میں ابھی تک تمہاری بات نہیں سمجھاذرا کھل کر کہو کیا
سمجھانا چاہ رہے ہو۔یہ بتاؤ کہ ادھار لے کر قربانی کرنا کیسا ہے اور عزت کے
نام پر بڑا جانور لانا کیا ٹھیک ہے؟عاطف نےزور دیکر کہا۔ ہاں تمہاری بات
کسی حد تک درست ہے مگر اللہ نے ہی کہا ہے کہ اچھے اور تندرست جانور کی
قربانی کیا کرو۔ہاں یہ کہا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں لوگوں کی واہ واہ کے
لیے ریاکاری اور
نمود و نمائش کی جائے میرے دوست اللہ کے پاس لوگوں کا تقوی پہنچتا ہے گوشت
اور خون نہیں اور تقوی حیثیت کے مطابق قربانی کرنے سے بھی مل سکتا ہے بشرط
کے نیت خالص ہو اور ریاکاری نا ہو آصف صاحب ذرا نادم سے نظر آنے لگے تو
عاطف بات آگے بڑھاتے ہوئے بولے کے اس کا ایک بہت بڑا نقصان جو ہمیں نظر
نہیں آرہا ہے ۔
وہ کیا؟ آصف صاحب جلدی سے بولے وہ یہ کہ ہمارے ایسے روئیے اپنے بچوں میں
قربانی کا غلط تاثر پیدا کر رہے ہیں قربانی کا مفہوم جہاں اللہ کی اطاعت
اور والدین کی فرمانبرداری ہونی چاہیے وہاں جھوٹی عزت اور ریاکاری ان
کےمعصوم زہنوں میں جنم لے رہی ہےجو ہمارے ایمان کے لۓ لمحہ فکریہ ہے عاطف
نے افسوس سے کہا ۔
میں بہت شرمندہ ہوں میرے دوست واقعی جس بات کو ہم معمولی سمجھ رہے ہیں اس
نے معاشرے میں بہت بگاڑ کی صورت پیدا کر دی ہے۔اللہ مجھے معاف کرے اب میں
کسی حد تک اس کا ازالہ کروں گا ۔وہ کیسے ؟ یہ تم کل دیکھنا ۔
دوسرے دن آصف صاحب اپنی آمدنی کے مطابق ایک مناسب بکرا قربانی کے لئے لے
آئے سب محلے والے حیران تھے مگر آصف صاحب مطمعن اور پرسکون تھے کے انہوں نے
اصلی قربانی کا مفہوم جان لیا تھا۔کاشف اسکول سے آیا تو بکرے کو دیکھ کر
بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ اسے تو میں بہت آسانی سے گھماسکتا ھوں خدمت
کرسکتا ھوں اس کےوالد بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ بیٹا آپ گاۓ نا لانے
پر
ناراض نہی ہوۓ؟ نہیں باباآج کلاس میں مجھے اصلی قربانی کے بارے میں سر نے
سب کچھ بتادیا ہےکہ قربانی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لۓ کی جاتی ہے لوگوں
کے لۓ نہی۔ اب ھم لوگوں کو نہی بلکہ اللہ کو خوش کریں گے جیتے رھو میرے
بیٹے۔۔ |