جھوٹ‘ جعلی خبریں اور افواہیں پھیلانا مسلمانوں کو دھوکا
دینا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر
مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔ (متفق علیہ)
لہذا ہر مسلمان کو بذات خود یا حکومتی و مذہبی ذمہ دار افراد یا قابل
اعتماد ذرائع ابلاغ وغیرہ کے ذریعے تحقیق و تصدیق کا ٹھوس موقف اپنانا
چاہئے اور کسی بھی خبر یا پیغام کو شیئر کرنے میں جلد بازی سے بچنا چاہئے
کیونکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ
فَتَبَیَّنُوْ ا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا
عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(سورۃ الحجرات ،پ۶۲،آیت:۶)
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ
کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
اسی طرح تصدیق اور تحقیق کرلینے کے حوالے سے ارشاد باری تعالی ٰ ہے :
﴿ يأيها الذين آمنوا إذا ضربتم في سبيل الله فتبينوا ( سورة النساء
،پ۵،آیت:۴۹)
’’اے ایمان والو جب تم جہاد کو چلو تو تحقیق کرلو ‘‘
یادرہے !!
آج سنی سنائی بات آگے کرنا اور پھر سنی سنائی بات پر یقین کرلینے کا
معاملہ بہت تیزی سے پھیل چکا ہے ۔بات گھر کی دہلیز کی ہو،شہر سطح کے حالات
کی معلومات ہویا عالمی پس منظر ہو۔پیشن گویاں ،تجزیہ اور مفروضوں پر مبنی
گفتگو تو معمول بن چکی ہے ۔
ایسے میں غیر مصدقہ اور ناقص معلومات معاشرے میں گردش کرتی ہے اور ایک
اضطرابی اور ہیجانی کیفیت جنم لیتی ہے ۔اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ہمیں
تعلیمات اسلام یہی ہیں کہ ہرسنی سنائی بات کو بلاتحقیق آگےنہ بڑھایاجائے۔
جیسا کہ سرورِ عالم صلي الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِباً اَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَاسَمِعَ۔
انسان کے گنہگار ہونے کیلئے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کر دے ۔
(صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، رقم الحدیث ۵،ص۸)
آج کے پرفتن و پرآشوب دور میں ہم سنی سنائی بات اور بلاتحقیق رائے پر
دوسروں کے بارے میں غلط رائے قائم کرلیتے ہیں ۔پھر فقط سننے کی بنیاد پر
دوسروں کے ناکردہ گناہوں کی سزابھی انھیں دی جاتی ہے ۔
کسی کے گناہ کی صِرف شُہرت ہوجانا اُس کے گنہگار ہونے کی ہرگز دلیل
نہیں۔میرے آقا اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلِسنّت ،مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ
امام احمد رضاخانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن نےفتاوٰی رضویہ جلد 24صَفْحَہ
106تا108پر زبردست حنفی عالم حضرت علّامہ عارِف بِاللّٰہ ناصِح فِی اللّٰہ
سیِّدی عبدالغنی نابُلُسی قُدِّسَ سِرُّہُ القُدسی کا طویل ارشادنَقل کیاہے
اس کے ایک حصّے کاخُلاصہ ہے:کسی کو صِرْف اِس وَجْہْ سے گنہگار کہنا جائز
نہیں کہ بَہُت سارے لوگ اُس کی طرف گناہ مَنسوب کر رہے ہوں اور یوں بھی آج
کل لوگوں میں بُغْض وکِینہ اور حسد و جھوٹ کی کثرت ہے۔ بعض اَوقات آدَمی
جَہالت ولا علمی کے سبب بھی کسی پر الزام رکھ دیتا ہے اور لوگوں میں اِس کا
تذکِرہ بھی کر دیتا ہے اور لوگ بھی اُس کے حوالے سے آگے بیان کر دیتے ہیں۔
شُدہ شُدہ یہ خبر کسی ایسے شخص تک جا پہنچتی ہے جو کہ اپنے علم پرمغرور اور
فضلِ خداوندی سے دُور ہوتا ہے ، وہ لاعلمی کے سبب بیان کردہ اُس’’ گناہ‘‘
کا بِلا کسی تحقیق اس طرح تذکِرہ کرتا ہے کہ مجھے یہ خبر تسَلْسُل کے ساتھ
ملی ہے۔ حالانکہ جس کی طرف گناہ کی نسبت کی جا رہی ہوتی ہے اُس غریب کو
خواب میں بھی اِس بات کی خبر نہیں ہوتی! مزید فرماتے ہیں: ’’جب کسی شخص سے
بطریقِ تواتُر یا مُشاہَدہ (یعنی آنکھوں دیکھا) گناہ ثابت بھی ہو جائے تب
بھی اِس کا اظہار بند کردے کیونکہ لوگوں میں بطورِ غیبت کسی کے گناہ کا
تذکِرہ حرام ہے اِس لئے کہ غیبت سچّی بھی حرام ہے۔
عیبوں کو عیب جُو کی نظر ڈھونڈتی ہے پَر ؕہر خوش نظر کو آتی ہیں اچّھائیاں
نظر
ہمیں دین اسلام میں کوئی بات بغیر تحقیق (اور حوالے) کے خواہ وہ قرآن یا
حدیث کا نام لے کر کہی گئی ہو، اسے ماننے اور اسے آگے پھیلانے سے منع کیا
گیا ہے۔ بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہمیں اگر کئی خبر ملے تو ہم اسے علماء
کے سامنے پیش کر کے اس کا حکم معلوم کریں۔
فرمان باری ہے:
وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-وَ
لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ
لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْؕ-(سورۃ النسأ ،آیت
۸۳،پ۵)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: ’’اور جب اُن کے پاس کوئی بات اطمینان یا ڈر کی آتی
ہے اس کا چرچاکر بیٹھتے ہیں اور اگر اس میں رسول اور اپنے ذی اختیار لوگوں
کی طرف رجوع لاتے تو ضرور ان سے اُس کی حقیقت جان لیتے یہ جو بات میں کاوش
کرتے ہیں اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ضرور تم
شیطان کے پیچھے لگ جاتےمگر تھوڑے۔
قارئین !!!
ایک لمحہ ٹھہرئیے !!اور غور کیجئے !!سنی سنائی بات کرنا اور پھر اسے
پھیلانا اور اس پر یقین کرلینے والی عادت کہیں یہ عادت آپ میں تو نہیں ؟
حدیث مبارکہ پڑھیے اور سبق حاصل کیجئے !!
حضرت سیِّدُنا زید قُمِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:وہ شخص کیسا
عجیب ہے جسے معلوم ہے کہ مجھ میں فُلاں عیب ہے پھر بھی اپنے آپ کو اچّھا
انسان سمجھتا ہے جبکہ اپنے مسلمان بھائی کو صرف شک (یا سنی سنائی بات)کی
بنیاد پر بُرا آدمی تصوُّر کرتا ہے۔ پس عَقْل کہاں ہے؟ (تَنبِیہُ
الْمُغتَرِّیْن ص۱۹۷)
ایک قابل توجہ بات!!
کسی بات کا قلم سے لکھنا بعینہ وہی حکم رکھتاہے جو زبان سے کہنے کاہے،جس
بات کا زبان سے ادا کرنا ثواب ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی ثواب ہے اور جس کا
بولنا گناہ ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی گناہ ہے،بلکہ لکھنے کی صورت میں ثواب
اورگناہ دونوں میں ایک زیادتی ہو جا تی ہے، کیوں کہ تحریر ایک قائم رہنے
والی چیز ہے،مدتوں تک لوگوں کی نظر سے گزرتی رہتی ہے، اس لیے جب تک وہ دنیا
میں موجود رہے گی اور لوگ اس کے اچھے یابرے اثر سے متاثر ہوتے رہیں گے اس
وقت تک کاتب کے لیے اس کا ثواب یا عذاب جاری رہے گا۔
بغیر تصدیق خبروں کو آگے پھیلانا شرعی طور پر منع ہے، فطرت اور عرفِ عام
دونوں کے اعتبار سے ناپسندیدہ بھی ہے، کتنی ہی ایسی خبریں ہیں جو بغیر کسی
ثبوت و تصدیق کے پھیلائی گئی اور انکی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا،
اسی لئے ہر مسلمان کو تصدیق کے بغیر کوئی بھی خبر نشر کرنے سے یکسر منع کیا
گیا ہے۔
بھائیو!!
آپ تصدیق اور تحقیق کا منہج اپناؤ، کہ آپ بے بنیاد، غیر موثوق ذرائع سے
حاصل ہونے والی خبروں کو پھیلانے میں جلدی مت کریں۔
افواہیں پھیلانے کا رجحان معاشروں کیلئے ناسور بن چکا ہے، جو کہ معاشروں
کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، بلکہ آجکل بسا اوقات افواہوں کو سوچی سمجھی
سازشوں کے تحت منظم طریقے سے خاص اہداف حاصل کرنے کیلئے ایسے مواصلاتی
ذرائع کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے جو بھوسے میں آگ اور روشنی و آواز کی
رفتار سے بھی زیادہ تیزی کیساتھ باتوں کو نشر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس لئے تمام مسلم اقوام کو متحد ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ
تعلیمات کے مطابق افواہوں کا مقابلہ اور جڑ سے انکا خاتمہ کرنے کی ضرورت
ہے۔
جھوٹ‘ جعلی خبروں اور افواہوں جیسے فتنوں سے اور ان فتنوں کی وجہ کر پھیلنے
والے فحاشی‘ فسادات‘ بغاوت و دہشتگردی وغیرہ سے اپنے آپ کو‘ اپنے اہل و
عیال کو اور ملک و ملت کو بچانے کیلئے کتاب و سنت کی ان جامع تعلیمات کو
سیکھنے‘ سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
قارئین کرام:میں آپ کا بھائی ہوں آپکا خیرخواہ ہو !!میری کوشش ہوتی ہے
آپ تک وہ بات پہنچاوں جو حقیقت بھی ہے اور صداقت بھی !!
ہماراعزم ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لیے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے
‘‘
تو ایسے میں سنی سنائی بات کرنے اور اس پر یقین کرنے ،افواہیں سننے اور
پھیلانے کے معاملے میں !!
پوری کوشش کریں ۔جھوٹی باتوں ،جھوٹی افواہوں سے بچیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دے رہے ہیں دعوت حق جو چاہے ہمارے ساتھ چلے ہم روک رہے ہیں باطل کوجو
چاہے ہمارے ساتھ چلے ۔۔
نوٹ:قارئین :آپ ہم سے کیرئیر پلاننگ ،،کونسلنگ ،،،ٹریننگز ۔۔طبی معاملات
اور شرعی مسائل کے حوالے سے بروز اتوار شام ۵ بجے سے رات ۱۲ بجے تک رابطہ
کرسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ہم فی سبیل للہ آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط ہمارے حق میں دعا کردیجئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ |