پس آئینہ
ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کا دریا تھا اور وہ کہہ رہے تھے وہ عظیم شخص ہے
کروڑوں افراد ان کے چاہنے والے اور لاکھوں افراد ان کی ایک صدا پر اپنا سب
کچھ قربان کردینے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن جب ان کی بیٹی کی شادی کا دعوت
نامہ دیکھا تو میں حیران رہ گیا کیونکہ وہ پانچ سو روپے والا کارڈ نہیں تیس
پیسے کے کاغذ پر مشتمل ایک پیپر تھا اور رخصتی کے پروگرام کے آخر میں ایک
چھوٹا سا نوٹ تحریر تھا کہ کسی قسم کا گفٹ قبول نہیں کیا جائے گا اپنی بیٹی
کو صرف دعاؤں کے ساتھ رخصت کریں اور پھر ا س بیٹی کی رخصتی ہوجاتی ہے اور
کچھ دن بعد جب وہ اپنے اس والد کے گھر آکر بتاتی ہے کہ بابا مجھے شادی پر
اٹھارہ سونے کے سیٹ گفٹ ملے ہیں حقیقت میں دراصل وہ میرے بابا کو ملے ہیں
تو جواب ملتا ہے بیٹی کیا وہ تمھارے بابا کو ملے ہیں تو عظیم باپ کی عظیم
بیٹی کہ جس کی تربیت کرنے والی ماں بھی عظیم اور باپ بھی عظیم فوراً کہتی
ہے کہ نہیں بابا یہ گفٹ امیر جماعت اسلامی پاکستان کو ملے ہیں تو بابا سوال
کرتا ہے کہ پھر یہ کس کی ملکیت ہوئے تو بیٹی فوراً کہتی ہے کہ بابا یہ
جماعت اسلامی کے بیت المال کی ملکیت ہوئے اور پھر لاکھوں روپے مالیت سونے
کے سیٹ بیت المال میں جمع ہوجاتے ہیں۔پھر اس بزرگ شمس الرحمن سواتی نے اپنی
سفید داڑھی کو صاف کیا جو اس کے آنسوؤں سے تر تھی اور پھر مجمع سے مخاطب
ہوا جب وہ عظیم شخص کراچی کا امیر تھا تو ایک مکان خریدا تو اجتماع ارکان
میں اس کا حسا ب دیتے ہوئے بتایا کہ مجھے وراثت میں حصہ ملا اس سے میں نے
مکان خریدا اور اسی مالیت سے میں حج پر بھی جارہا ہوں پھر جب وہ مرکز جماعت
منصورہ منتقل ہوئے تو ان کی رہائش واحد ایک کمرہ ہے جو کئی دہائیوں سے ان
کے زیر استعمال ہے اور آج وہ بین الاقوامی اسلامی تحریک جماعت اسلامی کے
سربراہ ہیں تو آج بھی ان کی رہائش وہی ایک کمرہ ہے یہ سب بیان کرتے ہوئے نہ
صرف ان کی بلکہ پنڈال اور سٹیج پر موجود بیسیوں ارکان کی آنکھوں سے بھی ایک
سیل رواں بہہ رہا تھا اور وہ ذکر کر رہے تھے سید منور حسن کا جو حقیقت میں
نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا پر حکمرانی کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں جماعت
اسلامی کے ڈیڑھ سو سے زائد ارکان وکارکنان مختلف اوقات میں اسمبلی کے ممبرز
رہے لیکن بڑے سے بڑا نقاد اور مخالف بھی ان پر انگلی نہ اٹھا سکا کہ ان میں
کسی ایک نے بھی کرپشن کی ہے اور خیبر پختونخواہ میں حکومت کی اہم وزارتوں
پر فائز رہنے والے جماعت اسلامی کے وزراء نے صرف خدمت میں ریکارڈ قائم کئے
دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان کی طرح کرپشن میں عالمی ریکار ڈ
قائم نہیں کئے اور پھر اطاعت نظم کا یہ عالم ہے کہ مرکزی مجلس شوری ٰ فیصلہ
کرتی کہ انتخابات کا بائیکاٹ کرنا ہے تو کنفرم سیٹ کا حامل شخص قائد اسلام
آبا د میاں محمد اسلم اعلان کرتا ہے کہ میرے لیے اسمبلی کی رکنیت سے زیادہ
اہم جماعت اسلامی کی رکنیت ہے حقیقت میں یہی بے داغ اور کرپشن سے پاک قیادت
ہی انقلاب لانے اور عوا م کی قربانیوں کے نتیجے میں آنے والے اسلامی انقلاب
کے حقیقی ثمرات عوام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ لندن میں بیٹھ
کر کراچی کی روشنیوں کو گل کرنےکے بعد پنجاب کی روشنیوں کے دشمن ویسا ہی
انقلاب لائیں گے جیسے ان کے آقا چاہیں گے۔ |