نجات کا واحد راستہ۔۔۔۔۔

پاکستان میں نہ ختم ہونے والے خود کش حملوں کا لامتناہی خون آشام سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ پہلے سے زیادہ تیز ہوگیا ہے۔جمعرات کے روز جنوبی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں جرگے پر حملے کے بعد تو گویا ریکارڈ ہی توڑ دیا گیا اور ایک ہی دن میں بارہ ڈرون حملوں میں 80افراد کی ہلاکتوں نے نہ صرف جی ایچ کیو کو متحریک کر دیا بلکہ دفتر خارجہ کے درو دیوار بھی ہلا دیئے، نتیجہ یہ ہوا کہ غیر معمولی طور پر امریکی سفیر کیمرون منٹر کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور ان سے نہ صرف ان حملوں پر وضاحت طلب کی گئی بلکہ احتجاج اتنا شدید تھا کہ خود منٹر کو واشنگٹن جاکر اپنے بڑوں کو آگاہ کرنے کا بیان بھی جاری کرنا پڑا۔اس غیر متوقع پاکستانی اقدام کے بعد جہاں ڈرون حملوں کے سلسلہ میں امریکی موقف تبدیل ہونے کے آثار واضح ہیں وہیں یہ خدشات بھی سامنے آنے لگے ہیں کہ پاکستان کا غیر متوقع دو ٹوک لہجہ پاک امریکی تعلقات میں دراڑ بھی ڈال سکتا ہے۔یہ خدشات امریکی امداد پر عیاشیاں کرنے والوں کے بھلے ہی باعث تشویش ہوں لیکن ملکی حالات اور امریکی دوستی کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اس موقع کو تائید غیبی قرار دے رہے ہیں کہ ان کے نزدیک یہی دوستی تو ہمارے بگاڑ کی اصل وجہ ہے اور اگر بقول حمید گل اس سے نجات مل جائے تو پھر ستے ای خیراں والی صورتحال یقینی ہوجائے گی۔

امریکی دوستی سے نجات میں فلاح صرف تجزیہ کاروں ہی کو نہیں بلکہ اس ملک کے عام آدمی کو بھی دکھائی دے رہی ہے لیکن حکومت کی جانب سے کیا جانے والا پراپیگنڈہ کسی حد تک ان کے خیالات متزلزل کئے ہوئے ہے، لہٰذا ایسے متزلزل خیال ہم وطنوں کے لئے پاک امریکہ دوستی اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کے سر پڑنے والے خمیازے کی تاریخ پر مختصر نظر ہی ہمارا آج کا موضوع ہے تاکہ انکل سام کی دوستی کا دم بھرنے والوں کے پراپیگنڈے کے حقائق سے پردہ اٹھ سکے ۔ نام نہاد دوستی کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ساٹھ کی دہائی میں وزیر اعظم لیاقت علی خان روس جاتے جاتے امریکہ جا پہنچے تھے اس کے بعد یہ رسم چل نکلی کہ جب بھی کوئی امداد ملتی اور اس کے بعد کوئی امریکی عہدیدار پاکستان آتا تو اونٹوں کے گلوں میں ''تھینک یو امریکہ'' کے کتبے لٹکا کر ان کے ساتھ گھنٹیاں باندھ دی جاتیں اور جب یہ اونٹ چلتے تو گھنٹیاں بجنا شروع ہو جاتیں۔ گویا یہ''تھینک یو امریکہ'' کو نمایاں کرنے کا ایک طریقہ تھا جو ہماری بیورو کریسی کے ''شہ دماغوں'' نے ایجاد کیا تھا۔ ان دنوں بیورو کریسی گوروں کو خوش کرنے کے اور بھی نت نئے طریقے اختیار کیا کرتی تھی۔ ''صاحب'' لوگ خوش ہو جاتے اور امریکہ جاکر بتاتے کہ پاکستانی بہت مہمان نواز ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ جب ان پر یہ عقدہ کھلا کہ یہ ساری چاپلوسی ڈالروں کے لئے کی جاتی ہے تو انہوں نے سیاستدانوں ' جرنیلوں اور بیورو کریٹوں کو قابو کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرنا شروع کر دیئے اور ان حربوں کے نتیجے میں پاکستانی سیاستدانوں اور بیورو کریٹس نے امریکہ جا جا کر کیا گل کھلائے وہ ایک لمبی اور الگ داستان ہے۔

سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان ' امریکہ کا سرگرم اتحادی رہا جبکہ بھارت بائیں بازو کے سوویت یونین کے ساتھ مضبوطی سے چمٹا رہا۔ پاکستان خود کو امریکہ کا دوست قرار دیتا رہا جبکہ بھارت کو روس کے ساتھ دوستی کا دعویٰ تھا۔ پاکستان کے دوست نے اسے اپنا دست نگر رکھنے کے لئے قرضوں اور امدادوں کی راہ پر ڈال دیا جبکہ بھارت کے دوست نے اسے خود کفالت کا راستہ دکھایا۔ یہ دونوں فصلیں ایک ہی وقت میں بوئی گئیں اور ان کا پھل بھی ایک ساتھ ہی سامنے آیا۔ پاکستان کی حالت اس نکمے لڑکے کی سی ہوگئی جو کام کرنے اور خود کمانے کے بجائے ماں باپ کے ٹکڑوں پر ہی پڑا رہتا ہے جبکہ بھارت ایک ایسے لائق بیٹے کے طور پر سامنے آیا جو ماں باپ کے لئے راحت ہوتا ہے۔سوویت یونین نے بھارت کے ساتھ ہر موقع پر دوستی کا حق ادا کیا جبکہ امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ اپنا غلام اور بندہ بے دام سمجھا۔ اس نے شروع سے ہی یہ فلسفہ اپنایا کہ پاکستان کے عوام کے بجائے پاکستان کے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات بناﺅ اور ان سے کام لو۔ بڈھ بیر کے اڈے سے شروع ہونے والی کہانی شہباز ائیربیس تک پہنچنے میں کئی عشرے لگے اور اس عرصے میں پاکستان مکمل طور پر امریکہ کا دست نگر بن گیا۔ سیاستدانوں کے دماغوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ حکمران عوام نہیں امریکہ عطا کرتا ہے اس لئے جیسے بھی ممکن ہو واشنگٹن کو خوش رکھو۔ اس کے نتیجے میں جتنے بھی لوگوں کو حکمرانی ملی انہوں نے یا تو ملکی وسائل کو لوٹا ' انہیں بے دردی سے ضائع کیا یا پھر امریکی قرضوں پر انحصار کیا۔ امریکہ کے علاوہ جن ڈونرز سے قرضے حاصل کیے جاتے وہ بھی صرف اسی صورت مل پاتے جب امریکہ کی طرف سے ڈونرز کو گرین سگنل مل جاتا۔

امریکی امداد کو انتہائی ناگزیر قرار دینے والے یہ حقائق سامنے رکھیں کہ پاکستان میں تیل کے وسیع تر ذخائر ہیں۔ گیس کے بے حساب ذخائر ہیں اور صرف تھرکول کا کوئلہ اتنا ہے کہ جو بقول ڈاکٹر ثمر مبارک مند پاکستان کی پانچ سو سال کی ضرورت کے لئے کافی ہے۔ مالیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کی مالیت تمام تیل پیدا کرنے والی عرب ریاستوں کے تمام تر تیل کے ذخائر کا نصف بنتی ہے۔ عرب ریاستیں جتنی مالیت کا تیل سالانہ پوری دنیا کو بیچتی ہیں۔ اگر پاکستان ہر سال اتنی ہی مالیت کا کوئلہ پوری دنیا کو فروخت کرے تو ساٹھ سال تک اس کی کمائی کھا سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں صرف ابتدائی چند سالوں میں دنیا کی چند مضبوط ترین معیشتوں میں شامل ہوسکتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ بیل تبھی منڈے چڑھ سکتی ہے جب پاکستان امریکہ کی غلامی سے نجات حاصل کر لے اور اونٹوں کے گلوں میں ''گڈ بائے امریکہ'' کے کتبے لٹکا کر انہیں پورے ملک میں گھمایا جائے تاکہ پاکستانی عوام کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو پتہ چل جائے کہ ''تھینک یو امریکہ'' سے شروع ہونے والی کہانی گڈ بائے ''امریکہ'' پر ختم ہوگئی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ ''اونٹ'' کے گلے میں یہ گھنٹی باندھے کون؟ صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی یہ سوچ کر اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالیں گے کہ امریکہ نواز شریف اور جنرل کیانی کے ساتھ معاملات کر لے گا۔ نواز شریف شاید یہ سوچ کر اس نیک کام کو شائد انجام نہ دیں کہ اگر انہوں نے امریکہ کو ٹھینگا دکھایا تو وہ اپنے دیگر مہروں کو حرکت میں لے آئے گا، ہماری سیاسی قیادت کے ان خدشات سے امریکہ بھی بخوبی آگاہ ہے اور اب تک اسی کمزوری کا فائدہ بھی اٹھا رہا ہے جبکہ ”بغاوت“ کرنے والے پاکستانی لیڈروں کا انجام بھی باغی بننے کی خواہش کو دبانے کا ایک اہم سبب بنا ہوا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو فطرتاً نڈر آدمی تھے۔ امریکہ سے نفرت کرتے تھے اور اس کا توڑ کرنے کے لئے اسلامی بلاک بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس کار عظیم کے لئے شاہ فیصل شہید ' کرنل قذافی ' حافظ الاسد اور بعض دیگر اسلامی سربراہوں کو تیار کرلیا تھا اور قریب تھا کہ صرف ہمیں ہی نہیں پوری اسلامی دنیا کو امریکہ کے چنگل سے نجات مل جاتی کہ امریکہ نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کے ساتھ معاملات طے کرلیے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کے اقتدار سے بے دخل کیا۔ ان پر مقدمہ چلایا اور بالآخر انہیں اپنے لئے ایک خطرناک شخص سمجھتے ہوئے تختہ دار پر لٹکا دیا۔بھٹو کے انجام نے ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو ڈرا دیا اور انہوں نے اپنی سیاست میں باپ والا انداز اختیار کرنے کے بجائے امریکہ سے بنا کر رکھی۔ شاہ فیصل کے انجام نے ان کے بھائیوں کو محتاط کر دیا اور شاہ خالد ' شاہ فہد نے کبھی شاہ فیصل بننے کی کوشش نہ کی،ادھر برسوں بعد نواز شریف جیسے مشکل اور پیچیدہ راہنما نے امریکی خواہش کے برعکس ایٹمی دھماکے کیے تو امریکہ نے ان پر سرخ دائرہ کھینچ دیا۔ ان کو جو سزا ملی اور جلاوطنی کا جو عذاب انہوں نے کاٹا اس سے اوروں کے ساتھ ساتھ خود نواز شریف بھی ڈر گئے۔ ضیا الحق کے انجام نے مرزا اسلم بیگ ' جنرل کاکڑ اور جنرل مشرف کو ڈرائے رکھا اور وہ اپنی اپنی سپہ سالاری میں امریکہ کے ساتھ بنا کے رکھنے پر مجبور ٹھہرے، اب امریکہ جس حد تک ہمارے ملک میں پنجے گاڑ چکا ہے وہ بہت گہرائی تک پیوست ہیں۔لیکن ان خونیں پنجوں سے نجات ممکن ہے ، شرط ہے تو صرف اتنی کہ قوم کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت بھی حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے ڈرنے کے بجائے ایسے ہی رد عمل کا مظاہرہ کریں جو حالیہ ڈرون حملوں کے جواب میں سامنے آیا ہے کہ نجات کا واحد راستہ یہی ہے۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58342 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.