سوچتے ہیں کیا لکھیں اور کیا نہ
لکھیں،کہاں سے شروع کریں اور کیسے شروع کریں،ذہن ماؤف اور عقل حیران وششدر
ہے،رہ رہ کر افتخار عارف کی نظم”خوں بہا“ شدت سے یاد آرہی ہے،”اپنے
شہسواروں کو....قتل کرنے والوں سے....خوں بہا طلب کرنا....وارثوں پہ واجب
تھا....قاتلوں پہ واجب تھا....خوں بہا ادا کرنا....واجبات کی تکمیل....منصفوں
پہ واجب تھی....منصفوں کی نگرانی....قدسیوں پہ واجب تھی....وقت کی عدالت
میں....ایک سمت مسند تھی....ایک سمت خنجر تھا....تاج زر نگار اک سمت....
ایک سمت لشکر تھا....اک طرف مقدر تھا....طائفے پکار اٹھے....”تاج و تخت
زندہ باد!....ساز و رخت زندہ باد“....خلق ہم سے کہتی ہے،سارا ماجرا لکھیں....کس
نے کس طرح پایا،اپنا خوں بہا لکھیں.... چشم نم سے شرمندہ....ہم قلم سے
شرمندہ،سوچتے ہیں کیا لکھیں ....“۔
الجھی ہوئی سوچ اور گڈمڈ خیالات کا المیہ یہی ہوتا ہے کہ وہ فکری انتشار
پیدا کر کے طبیعت میں ہیجان برپا کردیتی ہے اور ذہن کو یکسو نہیں ہونے
دیتی،کئی دنوں سے طبیعت کا یہی ہیجان قلب و روح میں کچوکے لگا رہا ہے کہ دو
بے گناہ پاکستانی سپوتوں کا قاتل ریمنڈ ڈیوس فہیم کی بیوہ شمائلہ کے بستر
مرگ پر ادا کئے گئے الفاظ ”مجھے انصاف چاہیے ....انصاف .... خون کا بدلہ
خون“ کی گونج چھوڑ کر چلا گیا،الفاظوں کے یہ نشتر پوری قوم سمیت ہماری بھی
رگ و پے میں چبھ رہے ہیں،زخم لگ رہے ہیں،خون بہہ رہا ہے،لیکن سوائے کف
افسوس ملنے کے اور کیا بھی کیا جاسکتا ہے،ریمنڈ ڈیوس کی اچانک رہائی کی خبر
قوم کے اعصاب پر بجلی بن کر گری ہے،ریمنڈ ڈیوس تو چلا گیا،اب تک وہ امریکہ
بھی پہنچ چکا ہوگا،مگر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اپنے پیچھے بہت سی تلخ اور
ناقابل تردید حقیقتیں چھوڑ گئی ہے،ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارے ارباب
اقتدار امریکی خوف کے آسیب کا شکار ہیں،اُن کے دل ایمان و یقین کی دولت سے
خالی اور پیر آج بھی بلا سوچے سمجھیں دلدار کے اشاروں پر رقص کرنے کیلئے بے
تاب ہیں،وہ اپنے آقا امریکہ بہادر کی کلغی اونچی کرنے کیلئے اپنے اصول،اپنے
نظریات،اپنی شناخت اور اپنی خودی کو کچلتے ہیں،اپنی قومی غیرت کا سودا کرتے
ہیں اور اپنے آقاؤں کیلئے وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جس کا ہم اور آپ تصور بھی
نہیں کرسکتے ہیں ۔
واقعی غلامی کا خوف آدمی کو کسی کام کا نہیں چھوڑتا،آج ثابت ہوگیا کہ
بزدلی،بے حمیتی اور طوق غلامی قبول کرنے کا جرم صرف سابق فوجی آمر نے ہی
نہیں کیا تھا بلکہ اِس جرم میں موجودہ حکمران اور پاکستان کے تمام ریاستی
ادارے و عناصر بھی شامل ہیں،آج یقین ہوگیا کہ مسند اقتدار پر چاہے مشرف
براجمان ہو یا صدر آصف علی زرداری،کچھ بھی نہیں بدلا،جب قاعدے اور ضابطے
حکمرانوں کی جنبش ابرؤ کے تابع ہوں اور وہ آئین و دستور اور عوامی خواہشات
و احساسات سے زیادہ اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی چاہیں،اُن کے سامنے
جوابدہ ہوں،تو بدل بھی کیسے سکتا ہے،جہاں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارے
حکمرانوں کی نظر میں اپنے عوام کی جانوں کی کیا قدر و قیمت ہے،وہیں یہ
حقیقت بھی سامنے آچکی ہے کہ ملک اور قوم سے زیادہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے
والے حکمرانوں میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ 45دن سے زیادہ امریکی قاتل کو قید
رکھ سکیں،نہ ہی ہمارے مدعیان اتنے حوصلہ مند ہیں کہ اداروں کا دباؤ برداشت
کرسکیں اور نہ صاحبان استغاثہ،نہ ہی ہمارا نظام انصاف اتنا طاقتور اور
توانا ہے کہ مجرم خوف کھائیں اور نہ ہی ہمارے قانون کے دست و بازو اتنے قوی
ہیں کہ وہ امریکی قاتل کو ملکی قانون کے مطابق سزا دے سکیں ۔
قوم لاکھ یکسو اور یک زبان سہی لیکن امریکی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے
حکمرانوں کی ترجیحات عوامی خواہشات سے مختلف اور جدا ہیں،حکمرانوں نے جس
غلامانہ اطاعت کا مظاہرہ کیا اُس نے پوری قوم کو دل گرفتہ کردیا ہے،عدالتی
فیصلے کا سہارا لے کر جس سرعت سے ریمنڈ ڈیوس کو نکالا گیا،اُس نے حکمرانوں
کے سارے خدوخال اپنی پوری جزیات کے ساتھ قوم کے سامنے عیاں کردیئے ہیں،جو
روشنی اور تاریکی میں امتیاز کرنے کیلئے کافی ہیں،اِس ڈرامے نے ملک کی
آزادی،خودمختاری،قومی غیرت و حمیت،آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کے
بول بالا ہونے سے متعلق بھی کئی سوالات اٹھائے ہیں جن کے جوابات اگر سامنے
آئے تو بہت سے مقدس چہرے بے نقاب اور کئی پس پردہ کردار منظرعام پر آسکتے
ہیں ۔
ریمنڈ ڈیوس کا کیس بلاشبہ ملک کی خودمختاری اور انصاف کی عملداری کے حوالے
سے ایک ٹیسٹ کیس تھا جس نے قوم کا اپنے قائدین،حکمرانوں اور آئینی اداروں
پر قائم بھرم ہی نہیں توڑا بلکہ غلاظت کے جوہڑ میں آج سب ننگے نظر آرہے
ہیں،وفاقی حکومت تو شروع دن سے ہی ریمنڈ کو سفارتی استثنیٰ دلوا کر بچانے
کی کوششوں میں مصروف تھی لیکن ریمنڈ ڈیوس کیخلاف پہلے دن سے ہی سامنے
آنیوالے سخت عوامی ردعمل نے وفاقی حکمرانوں کے ہاتھ باندھ دئیے تھے اور وہ
بظاہر یہی تاثر دیتے رہے کہ استثنیٰ سمیت ریمنڈ سے متعلق ہر ایشو کا فیصلہ
عدالت کریگی،گزشتہ روز ریمنڈ کی رہائی کے بعد بھی وفاقی حکومت کی جانب سے
وزیر اطلاعات اور صدارتی ترجمان نے بھی یہی بیان دیا کہ ریمنڈ کی رہائی سے
وفاقی حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے،مگر کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے
کہ ریمنڈ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے سمیت اسکی امریکہ حوالگی کے
تمام معاملات متعلقہ وفاقی اداروں ہی نے طے نہیں کئے تھے،اگر وفاقی حکومت
سامنے آنیوالے حقائق و شواہد کی بنیاد پر ریمنڈ کو مملکت کا ملزم سمجھتی
اور اسکے خلاف جاسوسی کے الزام میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بھی مقدمہ درج
ہوتا تو کیا وہ سزا سے بچ سکتا تھا ۔
یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ریمنڈ کے معاملہ میں پنجاب حکومت کا کردار
بھی قابل ستائش نہیں،جبکہ صوبائی تفتیشی ایجنسیوں نے ریمنڈ کیخلاف دہشت
گردی کا مقدمہ درج کرنے کی بجائے محض تعزیرات پاکستان کے تحت قتل کا مقدمہ
درج کرنے پر اکتفا کیا،اگر اسکے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوتا اور اسکا
چالان عام عدالت کے بجائے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوتا تو اسکی
سزا کا تعین بھی انسداد دہشت گردی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت ہوتا جس میں
قانونِ شریعت کے مطابق دیت کی رعائت حاصل ہونے کے باوجود جرم کی نوعیت کا
جائزہ لیکر ملزم کو دیت کی رعائت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ ٹرائل کورٹ نے
کرنا ہوتا ہے،اسی طرح ملزم کو جیل میں حاصل سہولتیں،امریکی حکام سے روزانہ
ملاقاتیں،فیصلہ سے ایک روز قبل وزیراعلیٰ پنجاب کی لندن روانگی،وزیر اعظم
کا ملک سے باہر ہونا،صدر مملکت کا کراچی جانا،مدعیان کا غائب ہوجانا،ایک ہی
دن میں کیس کا فیصلہ،رہائی اور خفیہ روانگی اور اس عمل میں حساس اداروں کا
کردارجیسے معاملات پر عوام کی جانب سے پنجاب اور مرکزی حکومت پر انگلی
اٹھانا ایک فطری امر ہے ۔
ان سب عوامل میں بطور قوم ہماری جگ ہنسائی کا سامان موجود ہے اور بطور آزاد
و خودمختار مملکت ہماری ذلت و ہزیمتوں کے تذکرے کھل کر سامنے آئے
ہیں،عدالتی کاروائی کی آڑ میں جس طرح ایک دہشت گرد اور قاتل کی رہائی کے
لئے پورے حکومتی اور ریاستی نظام نے حصہ لیا ہے اور اس کا ملبہ مقتولوں کے
وارثوں پر ڈالا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں،قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے
کہ حکومت نے بے گناہ پاکستانیوں کے لہو کا ہی سودا نہیں کیا بلکہ قانون دیت
کا سہارا لے کر شعائر اسلامی کا مذاق اڑایا اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث
جاسوس کو رہائی دیکر ملکی تحفظ اور سا لمیت کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے ۔
ریمنڈ ڈیوس کے معاملے نے آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کے بول بالا
ہونے پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے،آج ایک عام آدمی کی حصولِ
انصاف کیلئے ایڑیاں رگڑتے عمر گزر جاتی ہے اور وہ انصاف کی امید لئے قبر
میں جا اترتا ہے لیکن اسے انصاف نہیں ملتا،مگر امریکہ کے ایک سفاک قاتل کو
ایک ہی دن میں تمام قانونی،عدالتی اور انتظامی مراحل سے گزار کر نام نہاد
انصاف فراہم کردیا جاتا ہے اور اسے ملزم سے معزز بنا کر امریکہ کے حوالے
کردیا گیا جبکہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کیخلاف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں
اپیل دائر کرنے کے قانونی تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے،حقیقت یہ ہے کہ ریمنڈ
ڈیوس کیس نے جہاں حکمرانوں کے دہرے کردار کو بے نقاب کیا ہے،وہیں اُس نظام
عدل کو بھی مشکوک بنا دیا ہے،جس کی آزادی کیلئے قوم نے صبرآزما تحریک چلائی
تھی،ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پاکستان کی تاریخ کا ہولناک جرم ہے،اس عاجلانہ
فیصلے نے ملک کی آزادی اور خودمختاری پر ہی بدنما داغ نہیں لگائے بلکہ پوری
قوم کے سر بھی شرم سے جھکا دئیے ہیں ۔
آج وفاقی حکومت اورصوبائی حکومت نے وہی کیا جو ایک امریکی وکیل نے
پاکستانیوں کے بارے میں کہا تھا کہ پاکستانی وہ قوم ہے جو چند ڈالر کے عیوض
اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں،آج ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر شرم آرہی
ہے،حکومت نے ہماری خودداری غیرت انا حب الوطنی اور خودمختاری کا جنازہ نکال
کر ثابت کردیا کہ ہم ایک خودمختار اور آزاد قوم نہیں ہیں،سابقہ فوجی آمر نے
تو ہماری خودمختاری گروی رکھی تھی مگر موجودہ حکمرانوں نے تو اُسے بیچ بھی
دیا ہے،آج جذبہ حب الوطنی،آئین و قانون کی پاسداری، جمہوریت اور آزاد عدلیہ
کے لبادوں میں لپٹے سب چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں،دو پاکستانی سپوتوں کا قاتل
ہمارے قومی وقار،عزت و ناموس کو اپنے پاﺅں تلے روند کر واپس جاتے ہوئے یہ
ثابت کر گیا ہے کہ دنیا میں انسان اور شرف انسانیت پر سرفراز رہنے کا حق
صرف امریکیوں کو حاصل ہے،آج ہم اس تلخ حقیقت سے کیسے دامن چھڑاسکتے ہیں کہ
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے امریکہ کامیاب ہوا اور پاکستان کے اٹھارہ کروڑ
عوام اپنے غلام حکمرانوں کی وجہ سے ناکام و نامراد اور اپنے آپ سے شرمسار و
شرمندہ،حقیقت ہے جب ظلم و جبر کی قوتوں کے ہاتھ گریبانوں تک پہنچ جائیں تو
اُس وقت صرف ایک ہی سند کام آتی ہے،شمائلہ جیسی عزت و وقار کی موت،شمائلہ
ہم اپنی بے بسی پر شرمندہ ہیں،تیرے آخری الفاظوں کی گونج زندگی بھر ہمارا
پیچھا کرتی رہے گی ۔ |