عید قربان کا پیغام

آج مقبوضہ کشمیر میں شدید مظالم اور فوجوں کے حصار میں عید منائی جا رہی ہے۔ بندشوں اور پابندیوں میں کیسی عید۔ غلامی اور محکومی میں کیسی عید۔ صرف نعرہ بازی، احتجاج ، بیان بازی سے کشمیریوں کی غلامی ختم نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کی بقا کے لئے کشمیر کی آزادی انتہائی لازمی ہے۔ کشمیر آزاد ہو گا تو کشمیری بھی آزادی سے عید منا سکیں گے۔ عید نے جو قربانی اور ایثار کا سبق سکھایا ہے۔ اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہمارے سامنے ایک کروڑ کشمیری عید کے موقع پر بھی قید میں ہیں تو ہماری کیسی عید ۔ عید کے موقع پر فضول اخراجات سے یہ بہتر ہو گا کہ جنگ بندی لائن پر بھارتی گولہ باری اور کلسٹر بموں کے شکارعوام کو جنگی تربیت اور مسلح کرنے کے لئے قومی فنڈ قائم کیا جائے تا کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنا دفاع اور بھار تی غلامی سے نجات کی منصوبہ بندی کر سکیں۔
عید قربان کاعظیم فلسفہ ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی عزیز ترین اور اکلوتی اولاد حضرت اسماعیل ؑکو اﷲ تعالیٰ کے حکم پر قربان کرنے کا عزم کر لیا۔ حضر ت اسماعیل ؑ نے اﷲ کے حکم اور والد کی خواہش کے سامنے بخوشی سر تسلیم خم کیا۔اﷲ کی راہ میں قربان کرنے اور ہونے والی یہ ادا بے مثال تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے اسے تا قیامت سنت بنا دیا ۔ جس کے پاس استطاعت اور توفیق ہو ۔ وہ ہر حال میں قربانی کرے۔کہاں اپنی عزیز ترین اولاد کی قربانی اور کہاں ایک جانور کی قربانی۔کہاں پیغمبر کی قربانی اور کہاں ایک عام مسلمان کی قربانی۔ اﷲ تعالیٰ صرف نیت دیکھتے ہیں۔ جانور میں کوئی کھوٹ ، نقص نہ ہو۔ خوبصورت ہو۔ خرید کر اس کی خدمت کی جائے۔ اس سے لگاؤ پیدا ہو۔ آج مہنگائی سے عوام کی قوت خرید متاثر ہے۔ ڈالر اڑان بھر چکا ہے۔ پٹرول ڈیزل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ہر چیز مہنگی ہے۔ منڈیوں میں لوگ جیسے خالص کاروبارکے بجائے زیادہ منافع کی لالچ میں آرہے ہیں۔جیسے ہر کوئی موقع کی تلاش میں ہو۔حکومتی ویٹرنری ڈاکٹرز سے جانور کی صحت کے بارے میں این او سیبھی نہیں لی جاتی۔ اس کی فٹنس کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جاتا۔ تحصیل یا ضلعی انتظامیہ قیمتوں کا تعین کرنے کی جانب متوجہ نہیں ہوتی۔ انتظامیہ کا منڈی پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا۔ سب بے لگام ہو جاتے ہیں۔ جیسے متعلقہ لوگ من مانیوں کا کمیشن نما رشوت وصول کرتے ہیں۔ عید کے بعد حالات مزید خراب ہوتی ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر۔ ندی نالوں ، سڑک کناروں پر تعفن۔ جانوروں کی آلائشیں پھینکنے کا مسلہ زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔اس سے آلودگی اور بیماریاں پھیلتی ہیں۔ یہ حفظان صحت کا مسلہ ہے۔ میونسپل اور بلدیہ حکام اس بارے میں بروقت اقدام یقینی بنا نے میں سستی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ٹرانسپورٹ کرایوں میں بھی عید سے قبل ہی من مانا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ مسافر گاڑیوں کی مصنوعی کمی پیدا کر دی جاتی ہے۔ یا بکنگ کا بہانا بنا یا جاتا ہے۔دیہی علاقوں کے لاکھوں لوگ بڑے شہروں میں کاروبار، ملازمت یا تعلیم کے سلسلے میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ لوگ عید پر اپنے گھروں کو جاتے ہیں۔ دور دور سے گھر آنے والے یہ لوگ لاری اڈوں اور پلیٹ فارموں پر درماندہ ہو جاتے ہیں۔شام کے بعد یہی لوگ ڈاکوؤں کے نرخے میں آ کرلوٹ لئے جاتے ہیں۔ لازمی سروسز میں امن و قانون قائم کرنے والے ادارے، محکمہ صحت کے اہلکار و طبی عملہ میونسپل اور بلدیہ جیسے ادارے آتے ہیں۔ عوام الناس خود بھی احساس سے جیسے عاری بن رہی ہے۔ ہر کوئی اپنی کوتاہی دوسرے کے سر ڈالنے اور دوسرے کی کارکردگی کا کریڈٹ خود لینے کی مکاری کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لوگ خود بھی احتیاطی تدابیر سے کام لیں، سب کام سرکار پر نہ چھوڑیں۔ اس طرح اس مسلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ٹرانسپورٹ مافیاکا کردار ہر عید پر سامنے آتا ہے۔ لاری اڈوں پر مسافر یرغمال بن جاتے ہیں۔ منہ مانگے اور اضافے کرائے۔ یہ معمول بن چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے متعلقہ لوگ اس مافیا سے کمیشن وصول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی آنکھیں موند لیتے ہیں۔ اس موقع پر اگر متعلقین سنجیدہ ہوں تو اضافی مسافر گاڑیاں اور ٹرینیں چلا سکتے ہیں۔احساس اور ضمیر نام کی کوئی شے ہو تو عوام کی بہتری اور آسانی کے لئے ہر کا م کیا جا سکتا ہے۔ آرام دہ اور مناسب کرایوں پر عوام کو سفری سہولیات بہم پہنچانا بھی حکومت کا کام تھا۔تعلیم اور صحت کی طرح اب اسے بھی نجی سیکٹرپر ڈال دیا گیا ہے۔ عوام پر ٹیکسوں پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ جب مفت علاج اور مفت تعلیم نہیں تو یہ ٹیکس کیسے۔

نجی سیکٹر کا مقصدخدمت خلق کے بجائے صرف منافع کمانا بن جائے تو پھر اﷲ ہی حافظ۔ وہ ہر کام میں پنا نفع و نقصان دیکھتا ہے۔ یہ کاروباری مقاصد ہیں۔ اگر چہ نجی سیکٹر کے بعض شعبوں کا کردار خوش آئیند ہے۔ اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیئے۔ لیکن حکومت ہر ادارے کی نج کاری کر کے خود بری االزمہ نہیں بن سکتی ہے۔ حکومت کا کام منافع کمانا نہیں بلکہ عوام کو سہولیات دینا ہے۔ عوام کی فلاح کے لئے کام کرنا ہے۔حکومتیں عوام کی خدمت کے لئے ہوتی ہیں ، اگر حکومتیں عوام کو اپنی خادم بنا دیں تو یہ نظام تباہی کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔ خدمت خلق کا تصور نجی سیکٹر میں پیدا ہو جائے تو یہ دنیا رہنے کی بہترین جگہ بن سکتی ہے۔ لیکن اب حکمرانوں نے اپنی کمپنیاں قائم کر لی ہیں۔ یہ گھوسٹ کمپنیاں ہیں۔ منافع بخش ادارے ان کمپنیوں کو فروخت کر کے قومی خزانہ کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مسابقت کے لئے ہر شعبہ میں سرکاری سروسز کی موجودگی لازمی ہے۔ اگر حکام میں خدمت خلق کا جذبہ ہو۔ موت اور آخرت میں جزا و سزا کی فکر ہو تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ عید ہی نہیں بلکہ کسی بھی وقت عوام کو مافیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ عیدپر خصوصی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ امن و امان۔ صحت و صفائی۔ پولیس کا گشت۔ اضافی مسافر گاڑیا ں اور ٹرینیں۔ قربانی کے جانوروں کی آلائیشیں ٹھکانے لگانے کا مسلہ۔ بازاروں کا معائینہ۔ اضافی دام وصول کرنے والوں کے خلاف کارروائی۔

غیر مسلموں کے تہوار آتے ہیں تو وہ لوگ قیمتیں کم کر دیتے ہیں۔ ہر چیز نمبر ون ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے تہوار آتے ہیں تو ناجائز منافع خوری ہوتی ہے جیسے یہی ایام کمائی اور عوام کو لوٹنے کے ہیں۔ اس موقع پر ہر شعبہ زندگی میں لوٹ مار ہوتی ہے۔عید پر اشیاء سستی اور سہولتیں دینے کے بجائے مہنگائی اور زخیرہ اندوزی سے عوام کو پریشان کرنے والے یاد رکھیں۔ ان بطش ربک لشدیداً۔بے شک اﷲ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485254 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More