کوئی انقلاب یوں ہی رونما نہیں ہوجاتا،بلکہ اس کے لیے
مدتوں پہلے سے چھوٹی چھوٹی مہم چلتی رہتی ہے۔ لوگ آتے رہتے ہیں اور کارواں
بنتا چلا جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے دہلی اسٹیٹ کانٹریکٹ ایمپلائز
اسوسی ایشن کا،جس کی مہم مثالی بھی ہے اور’ہم ہوں گے کامیاب‘جیسے نعروں کے
ساتھ اس کے کارکنان ابھی بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ کانٹریکٹ
خصوصاً سرکاری اسپتال کے غیر مستقل ملازمین کے لیے جو مہم چلی تھی، وہ ابھی
مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئی، البتہ کامیابی کی دہلیز پر ہے۔ سب سے بڑی
بات یہ ہے کہ 2003 میں اس معاملے کے لیے جو انقلابی جوش تھا،وہ اب بھی
موجودہے۔ اس ادارے کے کارکنوں میں جو جنون تنظیم بنائے جانے کے ابتدائی وقت
میں تھا، وہ آج بھی باقی ہے۔ یہی جنون وجذبہ کامیابی کی علامت ہے۔ کوئی
سترہ اٹھارہ برس پر محیط اس سفر میں کئی نشیب وفراز آئے۔ کئی میٹنگ ہوئیں۔
سرکاری دفتروں کے چکر کاٹے گئے۔ دھرنا مظاہرہ کا سلسلہ شروع ہوا۔ سیاست
دانوں کو اس مسئلے پر نرم کرنے کی کوشش کی گئی، جس کے نتیجے میں کامیابی تو
ملی مگر ادھوری ․․․!
بات کچھ یوں ہے کہ 2003 میں ان غیر مستقل ملازمین(ہیلتھ) نے گلاب ربانی(لیب
ٹیکنیشین،جی ٹی بی ہاسپٹل دہلی سرکار) کی قیادت میں ایک تنظیم بنائی اوربڑی
تگ دو کے بعد ان سب کو دہلی کی عدالت میں بڑی کامیابی ہاتھ آئی۔ 22مئی
2009کو دہلی ہائی کورٹ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ(WP(C)No 8844/2009 میں)سنایا
جس کے نتیجے میں محکمہ صحت نے 19نومبر 2012کو ’’برابر کام برابر تنخواہ‘‘کا
حکم نامہ جاری کیا، جس سے تقریباً 2ہزار نرسنگ اور پیرا میڈیکل کے ملازمین
کو فوری راحت تو ملی مگر ان ملازمین کی چند ساتھیوں کی کارستانیوں کی وجہ
سے پھر حکومت نے ان کی تنخواہ کم کردی۔ اس کی مخالفت میں غیر مستقل
ملازمین(شعبہ طب) نے اپنا مظاہرہ شروع کیا۔ بالآخر دہلی ہائی کورٹ نے اپنا
سابقہ فیصلہ برقراررکھا۔ ان مہم جوئی کے علاوہ دہلی اسٹیٹ کانٹریکٹ
ایمپلائز اسوسی ایشوشن کے کارکنوں نے تن من دھن کی بازی لگادی۔ اس کا اتنا
فائدہ تو ہوا کہ دہلی حکومت نے غیر مستقل ملازمین(ہیلتھ) کے حق میں کیبنٹ
سے فیصلہ صادر کردیا کہ انھیں ایک ماہ کے اندر اندر مستقل کیا جائے۔
دہلی اسٹیٹ کانٹریکٹ ایمپلائز اسوسی ایشوشن کے سفر پر سرسری نظر ڈالنے کے
بعد چند ایک سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ ہیلتھ سیکٹر کے غیر
مستقل ملازمین کو مستقل کیوں نہیں کیا جارہا ہے؟ حالاں کہ بہت سے ایسے
ملازمین ہیں جو تقریباً بیس بیس برسوں سے دہلی کے سرکاری اسپتالوں میں اپنی
خدمات انجام دے رہیں۔غیر مستقل ملازمین کے متعلق کئی ایسے قوانین اور شقیں
بھی موجود ہیں، جن کی موجود گی میں دس برس مسلسل کام کرنے والے غیر مستقل
ملازمین کو مستقل کردیا جاتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ آخر ہیلتھ سیکٹر کے
ملازمین کا کیا قصور ہے کہ وہ دودہائیوں سے کام کرنے کے باوجود مستقل نہیں
ہوپارہے ہیں؟دوسرا سوال یہ ہے کہ پیرا میڈیکل اور نرسنگ اسٹاف کے 17نکلات
کو 11 جولائی 2019کو دہلی کیبنٹ نے منظوری دے دی ہے،جس کی کاپی ایل جی آفس
سمیت متعدد آفسز میں بھیجی جاچکی ہے۔ خاص طور پر دہلی کے ہیلتھ محکمہ سے
کہا گیا کہ ان غیر مستقل ملازمین کو ایک ماہ کے اندر مستقل کردیا جائے، مگر
محکمہ صحت نے اس پر توجہ نہ دیتے ہوئے مستقل ملازمین کے لیے الگ سے اشتہار
جاری کردیا۔ محکمے(DSSSB) کے اس رویے سے ایسا لگتا ہے کہ وہ یا تو دہلی
کیبنٹ کے فیصلے سے باخبر نہیں یا پھر وہ موجودہ غیر مستقل ملازمین کے
معاملے میں غیر سنجیدہ ہے۔ حالاں کہ ڈی ایس ایس ایس کو دہلی کیبنٹ کے فیصلے
پر غور وفکر کرنا چاہیے تھا، تاکہ غیر مستقل ملازمین مستقل ہوجائیں اور اس
کے بعد بقیہ جگہوں پرنئی بحالی کے لیے اشتہار نکالا جائے، مگر اس محکمے نے
ایسا نہیں کیا۔اس معاملے میں دہلی اسٹیٹ کانٹریکٹ ایمپلائز ایسوسی ایشن کے
جنرل سکریٹری گلاب ربانی سے بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ اس ایشو پر دہلی
کیبنٹ کا فیصلہ بہت اہم ہے۔ اس کے بعد ہم اس پر لیفٹیننٹ گورنر سے مل کر
بات کرنا چاہتے ہیں مگر ہمیں اس کاموقع نہیں دیا جارہا ہے۔ ہماری ٹیم نے
اپنے حقوق کی بحالی کے لیے دھرنے مظاہرے کیے، مگر 17برسوں کی مسلسل محنت کے
بعد بھی ہمیں خاطر خواہ کوئی کامیابی نہیں ملی۔دہلی کی کجریوال حکومت یعنی
لیبرل بورڈ نے اس معاملے کو سنجیدگی سے ضرورلیا، مگر دہلی کی قانونی صورت
حال دیگر ریاستوں سے کچھ الگ ہے، اس لیے اب بھی ہمیں کئی اور لڑائی لڑنی
ہوگی، تب ہمیں کامیابی مل سکتی ہے۔ اس لڑائی میں ہمیں غیر مستقل ملازمین کے
ساتھ باشعور سیاست دانوں اور ملک کے ہمدرد لوگوں کی مدد کی بھی ضرورت ہے۔
‘‘
دہلی حکومت اور غیر مستقل ملازمین کے ضمن میں کہا جاسکتا ہے کہ کجریوال
حکومت اس معاملے میں کسی حد تک سنجیدہ ہے۔ کیوں کہ اس حکومت نے نہ صرف اس
معاملے پر کیبنٹ کا فیصلہ صادر کیا ،بلکہ مذکورہ ادارے کے جنرل سکریٹری
گلاب ربانی کو لیبر بورڈ کا خصوصی ممبر بھی نامزد کیا ۔ ظاہر ہے کہ بورڈ کا
ممبر بننے سے’’دہلی اسٹیٹ کانٹریکٹ ایمپلائز ایسوسی ایشوشن ‘‘ کو کچھ تقویت
ملی ہے۔ کیوں کہ بورڈ کی میٹنگ میں مسٹر ربانی نہ صرف ہیلتھ سیکٹر کے
ملازمین کی وکالت کریں گے،بلکہ دہلی میں دیگر غیر مستقل ملازمین کے حقوق کے
لیے بھی آواز اٹھائیں گے۔ کیوں کہ وہ غیر مستقل ملازمین کے دکھ درد سے آشنا
ہیں اور سڑکوں پر اتر کر حقوق کی لڑائی لڑنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں ۔
ہیلتھ سیکٹر کے غیر مستقل ملازمین کے ضمن میں یہاں ایک سوال یہ بھی ہوتاہے
کہ نچلے درجے کے ملازمین کے ساتھ ہی ناانصافی کیوں ؟دہلی میں 529ڈاکٹروں کی
مثال موجود ہے جنھیں UPSCکے سفارشات اور دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کی منظور ی
کے بعد غیر مستقل سے مستقل کیا گیا ۔ ( جس کاآرڈر نمبر کچھ اس طرح ہے،
w.e.f.23/12/2009 vided order dated20/8/2014)۔
اسی طرح ایک اور مثال 2015کی ہے کہ لیفٹننٹ گورنر کی رضامندی اور دہلی ہائی
کورٹ کے فیصلے کے بعد تہاڑ جیل میں کام کرنے والے پیڑامیڈیکل کے غیر مستقل
ملازمین کو مستقل کردیا گیا۔ایسا ہونا بھی چاہیے تھا، مگر سوال یہ ہے کہ اب
دہلی ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق سونیا گاندھی بنام دہلی سرکار کے معاملے
کو نظر انداز کیوں کیا جارہا ہے؟ کیا یہ عدالت کی توہین نہیں ہے؟ کیا یہ
ملازمین کی حق تلفی نہیں ہے؟
ظاہر ہے ان مثالوں کی موجود گی اور دہلی کیبنٹ کے فیصلے کے بعد پیرا میڈیکل
اور نرسنگ اسٹاف کو مستقل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔اس کے باوجود ٹال
مٹول کا کھیل سمجھ سے بالاتر ہے۔’’دہلی اسٹیٹ کانٹریکٹ ایمپلائز ایسوسی
ایشوشن ‘‘کئی نکات اور معاملات کے مدنظر کورٹ میں ہے۔ اس لیے ابھی اس پر
زیادہ کچھ کہنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتاہے کہ بیس بیس
برسوں سے غیر مستقل حیثیت سے کام کرنے والوں کو مستقل نہ کرناخود قانون کا
مذاق اڑاناہے۔ کیوں کہ ان ملازمین کی بحالی کا طریقہ قانونی ہے۔ملازمت کے
حصول جوقانونی طریقہ ہے،یعنی اشتہارات اور دیگر کارروائیاں۔ اسی کے مدنظر
ان ملازمین کی تقرری ہوئی ہے۔ اس طرح اوما دیوی مقدمے کی نوعیت سے ان
ملازمین کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔اس لیے حکومتی اداروں سمیت کورٹ کو بھی
اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔تاکہ غیر مستقل ملازمین(ہیلتھ)
کے مستقل ہونے سے نہ صرف کمزور طبقوں کا بھلا ہوسکے،بلکہ قانون بھی مذاق
بننے سے محفوظ رہے اور عدالتوں پر لوگوں کا اعتماد مزید بحال ہوجائے۔امید
ہے کہ غیر مستقل ملازمین (ہیلتھ) کامیاب ہوں گے۔ کیوں کہ انھوں نے بے
سروسامانی اور پریشان کن حالات میں ہمت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ گویا وہ وہ کہہ
رہے ہوں :
انجام اس کے ہاتھ ہے آغاز کرکے دیکھ
بھیگے ہوئے پروں سے ہی پرواز کرکے دیکھ
|