ممتاز عالمِ دین، ادیب اورماہرِ لسانیات و ادبیاتِ اردو،
فارسی و عربی حضرت مفتی حافظ امیر علی صاحب 18/مارچ 1941ء میں پیدا ہوئے
اوراپنے وصال 20/اگست2018ء تک علمی و تحقیقی کاموں میں مصروف رہے۔ انہیں
عربی، فارسی، پنجابی اور اردو زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ فاضلِ مدینہ
یونیورسٹی تھے۔لاہور کی معروف اور تاریخی دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ سے
بحیثیت مفتی منسلک رہے اور مختلف مسائل پر کئی فتوے جاری کیے۔مفتی صاحب بلا
کے خطیب بھی تھے اور اس خوبی کی بدولت گلبرگ لاہور کی جامع مسجد میں بطور
خطیب خدمات سر انجام دیں۔مطالعہ کلام اقبالؒ سے خصوصی شغف رکھتے تھے اور
میرا ان سے تعارف اسی حوالے سے ہوا۔
دسمبر 2017ء اور جنوری 2018ء میں اپنی کتاب ”در برگ ِ لالہ و گل-جلد اوّل“
کی تقاریب ِ رونمائی و پذیرائی کے سلسلے میں پاکستان گیا تو اکادمی ابیات ِ
پاکستان اور ادارہ خیال وفن کے اشتراک سے پہلی تقریب اکادمی کے لاہور آفس
کے ملحقہ ہال میں منعقد کی گئی۔ تقریب کے منتظم ممتاز راشد تھے جب کہ صدارت
معروف مصور اسلم کمال نے کی اورمفتی امیر علی مرحوم و مغفور مہمانِ اعزازی
تھے۔اسی تقریب میں ایک عرصے بعدگورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہورکے سابق
پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق خان سے بھی میری ملاقات ہوئی جو میرے اسا تذہ میں
سے ہیں۔اس تقریب میں جہاں دیگر مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا وہیں
محترم مفتی صاحب نے نہایت عالمانہ خطاب فرمایا اورعلامہ اقبال ؒ پر کیے گئے
میرے تحقیقی کام کو خوب سراہا۔ بعد ازاں ایک اور تقریب جو ایوانِ اقبال
لاہور میں منعقد ہوئی اس میں بھی تشریف لاکر انہوں نے علامہ اقبال ؒ سے
اپنی قلبی محبت کا ثبوت دیا اوراپنے صدارتی خطاب میں پھر جچے تلے الفاظ میں
راقم الحروف کی پذیرائی کی۔ یہی نہیں بلکہ بعدا ازاں ”در برگ ِ لالہ و
گل-جلد اوّل“ کے تفصیلی مطالعے کے بعد”در برگِ لالہ و گُل: ایک پُرمغز اور
دلچسپ تحقیق“ کے عنوان سے تبصرہ بھی رقم فرما دیا۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
”حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ عالمِ اسلام کے ایک عظیم شاعرِ فطرت، ایک
ممتاز فلسفی،ایک مفکرِ ملک و قوم، ایک مدبرِ کائنات، ایک سیّاح عالمِ کون
مکاں، ایک آفاقی اور افلاکی فکر کے امین اور سب سے بڑھ کر ایک عاشقِ
رسولﷺاور رخِ مصطفی ﷺ کے پروانے تھے۔ان کی سرکارِ دوعالم ﷺ سے محبت کا
اندازہ ان کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے کہ:
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ ا و نرسیدی تمام بولہبی است!
علامہ نے جہاں دیگر بہت سے موضوعات پر قلم اٹھایا وہاں انہوں نے فطرت کی
گلکاریوں کو نظر انداز نہیں کیا اور مظاہرِ فطرت کے ایسے ایسے مرقعے پیش
کیے کہ ہر دور کا محقّق اس پر عش عش کر تا ہے۔۔۔حال ہی میں مجھے ماہرِ
تعلیم، ماہرِ اقبالیات اورصاحبِ اسلوب ادیب جناب افضل رضویؔ صاحب سے نہ صرف
ملنے کا شرف حاصل ہوا بلکہ ان کو سننے اور اور ان کے خیالاتِ عالیہ سے بھی
مستفید ہونے کا موقع میسر آیا۔۔۔جب ان کی کتاب مجھ تک پہنچی تومیں ”دربرگِ
لالہ و گل“ کو دیکھتا جاتا تھا اور جیسے جیسے صفحات پر صفحات پڑھتا جاتا
تھا، جناب افضل رضوی کی محنت، لگن اور ان کے مطالعے نیز اندازِ تحریر پر عش
عش کر تا جاتا تھا۔۔۔ آسٹریلیا کے نیلگوں ماحول میں رہنے والے اس مردِ حق
شناس، مردِ خود شناس، مردِاقبال شناس اور علامہ اقبالؒ کے فکر و فلسفہ کی
پیروی کرنے والے نے ”در برگِ لالہ و گل“ کی صورت میں برگِ لالہ و گل ہی کو
اپنی دل چسپی کا سامان بنالیا ہے اور اس کو کچھ اس طرح سے وضاحت و صراحت کے
ساتھ پیش کیا ہے کہ قاری کی دلچسپی کہیں کم ہونے نے نہیں پاتی“۔
لیکن میں قبلہ مفتی امیر علی صابری صاحب سے مستفیض ہونے سے محروم رہا
کیونکہ وہ اگلی ملاقات سے پہلے ہی گزشتہ سال اس جہانِ فانی کو خیر آباد کہہ
کرحق تعالیٰ سے جاملے(انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ایوانِ اقبال لاہور میں جب
مفتی صاحب نے صدارتی خطبہ دیا تو مجھے ان کے بارے کچھ جاننے کا اشتیاق ہوا
چنانچہ جو معلومات میسر آئیں ان کی بنیاد پر میں بلاشبہ یہ بات کہہ سکتا
ہوں کہ ایسے مخلص اور پابندِ شریعت اللہ والے آج کے دور میں خال خال ہی نظر
آتے ہیں نیز یہ ایسے باکمال لوگ ہوتے ہیں کہ کوئی ان سے چند نشستوں ہی میں
متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مفتی امیر علی انتہائی سادہ، بے ضرر، لیکن گفتار اور کردار دونوں کے غازی
تھے۔علومِ دینیہ کو گہرائی اور گیرائی سے سمجھتے تھے اور ہمیشہ اس بات کی
تلقین اور نصیحت کرتے تھے کہ اس دنیا سے رخصت ہونے پہلے اپنی اصلاح کی کوشش
کرتے رہنا چاہیے تاکہ روزِ محشر آقا ﷺ کے سامنے شرمندگی سے بچا جاسکے۔مفتی
صاحب کو علامہ اقبالؒ کی وہ رباعی جو ”رمضان عطائی“ صاحب نے علامہؒ سے
تحفۃًلے لی تھی، خوب یاد تھی اور غالباً اس رباعی کو پڑھ کر ان پر بھی وہی
کیفیت طاری ہوتی ہو گی جس کیفیت سے گزر کر رمضان عطائی نے وہ رباعی علامہ ؒ
سے انہیں عطا کردینے کی درخواست کی تھی اور جو علامہ نے عطائی مرحوم کے نام
کر دی تھی۔گزشتہ دنوں میں میلبورن ایک تقریب میں شرکت کے لیے گیا تو تقریب
کے بعد ایک خاتون میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ میرا نام سمین اقبال ہے
اور میں ”رمضان عطائی“ کی پوتی ہوں۔ پس پھر کیا تھا ایک لمحے میں علامہ
اقبال ؒ کی وہ رباعی بھی ہونٹوں پر آگئی اور اقبال قریشی صاحب نے اس واقعے
کو جس طرح بیان کیا ہے وہ بھی نظروں میں گھوم گیا۔وہ رباعی جس نے بے شمار
اللہ والوں کو متاثر کیا آج بھی اہل اللہ اور عشاقِ رسول ﷺ کی آنکھوں کو نم
کردیتی ہے، ذیل میں درج کی جارہی ہے۔
تو غنی از ہردو عالم من فقیر
روزِ محشرعذر ہائے من پذیر
در حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
بلند مقام عطا فرمائے، آمین!
حافظ مفتی امیر علی صاحب کو شاعری سے بھی شغف تھا اور وہ ”حافظ“ اور ”عاجز“
تخلص کرتے تھے۔ان کی طبیعت میں عاجزی کا عنصر نہایت نمایاں تھا لیکن
انتہائی ملنسار، ہر دلعزیز، خوش گفتار اور خوش الحان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک
شفیق استاد بھی تھے۔ ان کے ایک شاگرد کلیم اختر قیصرانی نے اپنے تاثرات کو
کچھ یوں بیان کیا ہے:
حضرت صابری صاحب کے ؒ کے ہاں میں نے وسعت علمی کا جو خزانہ دیکھا ہے وہ
کہیں شاذ ونادر ہی نظر آتا ہے۔آپ کو انگریزی، عربی،فارسی، اردو اور پنجابی
سمیت مختلف زبانوں پر نہ صرف مکمل عبور تھا بلکہ ان زبانوں کی تمام علمی
وادبی جہتوں پر بھر پور عبور بھی حاصل تھا“۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ”جب میں
جامعہ نعیمیہ میں شعبہ علومِ عصریہ میں تدریسی فرائض سر انجام دیتا تھا، ان
دنوں میری ملاقات حضرت صابری صاحب سے ہوئی“ اور میں نہ صرف ان کی فارسی
دانی کا قائل ہو گیا بلکہ ان سے زانوئے تلمذ طے کرنے کی درخواست بھی کر
ڈالی جسے انہوں نے کمال شفقت سے قبول کر لیا اور یوں میں نے ان سے فارسی
زبان کے رموز واوقاف سیکھنا شروع کر دیے۔ اس دوران ”میں نے محسوس کیا کہ
میرے ذہن میں ان کی علمی استعداد اور صلاحیت کا جو نقشہ موجود تھا وہ اس سے
کہیں زیادہ صاحبِ علم وکمال ہیں“۔
مفتی امیر علی صابری صاحب علومِ دینیہ کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم مثلاً:
تاریخ و جغرافیہ کا بھی کماحقہٗ علم رکھتے تھے یہی نہیں تصوف بھی ان کے رگ
و پے میں تھا چنانچہ اس کے زیرِ اثر وہ ضرورت ِبعیت کو دورِ حاضرمیں بہت
اہم سمجھتے تھے اور شاید ایسا اس لیے بھی تھا کہ وہ خود بھی آستانہ عالیہ
”کلس شریف“ ملکوال ضلع سرگودھا کے سجادہ نشین کے ہاتھ پر بعیت تھے اور
پیرانِ کلس کو بڑی قدر و منزلت کی نگا ہ سے دیکھتے تھے۔
مفتی امیر علی صاحب کی نگرانی میں کئی ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ ڈی کے مقالے لکھے
گئے، جو بجائے خود بہت بڑا اعزاز ہے۔وہ ایک اچھے مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ
بہترین رائٹر بھی تھے۔ان کی تصانیف میں؛ رسالہ حقیقت و مجاز، کل کیا ہو گا،
روشن راستہ، سیرتِ بابا فرید گنجِ شکر، ضرورتِ بعیت، لغاتِ پنجابی اور حضرت
محمد ﷺ کی اخلاقی تعلیمات اور اور عصرِ حاضر اہم، ہیں۔دعا ہے کہ اللہ
تعالیٰ مرحوم کے گناہِ کبیرہ وصغیرہ معاف فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں
بلند مقام عطا فرمائے، آمین!
|