اچھا ہوا کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت
تعیناتی میں مزید تین سال کی توسیع کر دی گئی ہے۔یہ بھی اچھا ہوا کہ اس بار
'' جانے کی باتیں جانے دو'' کے عوامی جذبات کو طویل سڑکوں پہ بینروں کی
صورت آویزاں نہیں کیا گیا کیونکہ پہلے عوام کی کون سے دعا پوری ہوئی جو ''
جانے کی باتیں جانے دو'' والی دعا پوری ہو جاتی۔اچھا کیا کہ عوامی دعا کی
بد شگونی کو رد کر دیا گیا۔
جنرل ایوب خان نے تو قوم میں ایوبی روح پھونکنے کے لئے تمام وسائل اور تمام
زور لگا دیا لیکن بقول شاعر
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
جنرل ضیاء الحق کی صورت عالم اسلام کو ایسی عظیم سربراہی نصیب ہوئی کہ
عیسائی اور یہودی طاقتیں بھی اس مرد مجاہد سے بھر پور تعاون پر مجبور
رہیں۔عوام کا کیا کہنا، انہیں تو ایسا '' مرد مومن مرد حق'' نصیب ہوا کہ
مسلم دنیا میں سقوط بغداد کی شکست کے وقت سے چلا آ رہا رنج و الم کا طویل
دور اسلامی نشاط ثانیہ میں تبدیل ہوا ۔ روس کو افغانستان میں شکست دینے کے
بعد دنیا بھر میں اسلام کے نام پر جہاد کے نت نئے اصول اور طریقے وضع کئے
گئے۔''مرد مومن مرد حق'' شہید ہو گئے لیکن عالم اسلام آج بھی ان کے کارہائے
نمایاں کی برکات سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ پھر عوام میں سے چند انتہائی محب
وطن افراد کیوں نہ '' ضیاء حمایت تحریک'' نامی تنظیم بناتے؟
اللہ کا خصوصی کرم ہے کہ اس پاک سرزمین میں'' مرادن مجاہد'' کی آمد کا
سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ ایک کے بعد ایک مرد مجاہد اس پاک سرزمین کے بدبخت اور
کم ظرف عوام کا مقدر ،نصیب بدلنے کے لئے میسر آتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ ہر
نئے مرد مجاہد کو اللہ تعالی نے خصوصی فضائل سے نوازا ہوتا ہے اور وہ اپنی
منفرد خصوصیا ت میں اپنے سے پہلے والوں سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔عوام کی
مستیاں جب عروج کو پہنچیں تو قدر ت کو جوش آیا اور ملک کو ایسا دلیر رہنما
نصیب ہوا کہ جس نے '' مرد مومن مرد حق'' کی ملک اور عالم اسلام کے لئے
شاندار خدمات کے مضر اثرات کو ختم کرنے کا کٹھن بیڑا اٹھایا۔جس طرح کسی
کتاب کا اگلا ایڈیشن گزشہ ایڈیشن کی غلطیوں سے پاک ہوتا ہے ، اسی طرح ملک
کے دلیر کمانڈو قائد نے ملک کو از سرنو ترتیب دینے کا عظیم کام شروع کیا۔
پھر آخر عوام میں سے چند محب وطن ترین افراد نے'' مشرف حمایت تحریک '' نامی
تنیظم قائم کی تو کیا برا کیا؟
یہ بھی اس قائد کاایک اعزاز کہئے کہ قائد کے نہ چاہنے کے باوجود قو م نے
اسے پورے اعزاز اور پروٹوکول کے ساتھ وداع کیا۔ جس طرح جنرل ایوب خان کے
جانے کے بعد ٹرک والے بھی اپنے ٹرک کے پیچھے جنرل ایوب کی تصویر کے ساتھ''
تیری یاد آئی تیری جانے کے بعد'' لکھوا کر جنرل ایوب کا سنہری دور یاد کرتے
تھے، اسی طرح اب قوم اپنے کمانڈو قائد کو ڈھونڈتی پھرتی ہے لیکن وہ عظیم
قائد '' گیا نصیب پھر لوٹ کر آتا نہیں '' کے مصداق کسی کے ہاتھ نہیں آتا۔
پاکستانی ہی نہیں بلکہ دنیااس حقیقت سے آگاہ ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے
ساتھ تعلقات ابھی ابھی اچھائی کی پٹڑی پر گامزن ہوئے ہیں۔افغانستان میں امن
لانے کا عالمی مسئلہ پاکستان نے ہی حل کرانا ہے۔ چین کے' سی پیک' منصوبے
اور ایران کے خلاف امریکی گھیرابندی کے معاملات درپیش ہیں۔انڈیا کے ساتھ
کسی وقت بھی جنگ ہونے کے سنگین خطرات ہیں ، کشمیر کو آزاد کرانے کا وقت بھی
قریب ہے ۔کیا ایسے میں کوئی اپنا سپہ سالار تبدیل کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے؟
یہی نہیں بلکہ عوامی مستیوں اور بداعمالیوں سے ملک کو ہونے والے ناقابل
بیان نقصانات کی صورتحال میں عوام اور ملک کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کا
کام ابھی زیر تکمیل ہے۔ مدینہ ریاست کے عظیم تصور کے ساتھ نئے پاکستان کی
بنیادوں پر کام جاری ہے۔ ایسے قومی اہداف پر کام جاری ہے جو نہ عوام کو
بتائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی پارلیمنٹ کو اس کی بھنک بھی ملنی چاہئے
۔پاکستان سماجی، معاشی،اقتصادی،حکومتی اور دفاعی حوالوں سے بھی حالت جنگ
میں ہے۔ ایسے خطرناک اورایسے تاریخ ساز اقدامات کی صورتحال میں کیا کوئی
اپنی قیادت کو تبدیل کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟
عوام ایسے کم بخت ہیں کہ ابھی تک وہ ایک عظیم ملک برطانیہ کے اس مقولے کو
سمجھ نہیں سکے کہ '' بادشاہ مر گیا،بادشاہ زندہ باد''۔عوام کا کام ہوتا ہے
کہ وہ تابعداری ،وفاداری اور اطاعت کریں۔ جس دن عوام اس برطانوی مقولے کے
ظاہری اور پوشیدہ فضائل پر ایمان لے آئے،اسی دن پاکستان بدل جائے گا۔
اس سے پہلے کہ میں عظیم تر لیکن پوشیدہ مقاصد کی حامل مدینہ ریاست کی طرز
کے نئے پاکستان کا منکر ہونے کے ناطے کسی بھی من مانی کاروائی کا نشانہ بنا
دیاجائوں، بہتر یہی ہے کہ میں بھی نظرئیہ ضرورت کی افادیت اور آفاقیت پر
ایمان لاتے ہوئے آج کے دور کی ایک'' ۔ ۔ ۔ حمایت تحریک'' نام تنظیم کی داغ
بیل ڈال دوں۔اس کا اجر اللہ تو دے گا ہی تاہم دنیا میں بھی نیک نامی ہمارا
مقدر ہو گی۔
|