گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے گویا
یوں کہنا چاہیے کہ اس زرد صحافت نے آج کے نام نہاد”سوشل میڈیا“ کے ذریعے تو
اپنی جڑیں اور شاخیں دونوں ہی مضبوط کر لی ہیں اور اب تو اس کا استعمال
گویا محاورے سے نکل کر روز مرےمیں داخل ہو گیا ہے۔ پس سید محمدناصر علی
صاحب نے صحافت پر مضامین لکھ کر ایک ایسے ناسور کی طرف اشارہ کر دیا ہے جس
کو شاید فوری سرجری کی ضرورت ہے۔ ”بہ زبانِ قلم“کا پہلا مضمون ”نقطے کا
نکتہ“دلچسپ پیرائے میں لکھا گیا ہے اور دونوں نقطوں کی وضاحت نکتہ دانی سے
کی گئی ہے۔ دوسر ے مضمون میں مصنف نے دورِ حاضر کے اہم موضوع بچوں کی جبری
مشقت کو موضوع بنایا ہے اور بقول سروہا صاحب ”اس کتاب میں موصوف نے میرے
اصراراور تجویز پر دورحاضر کے گرما گرم موضوع Child Labour پر اپنا مضمون
”بچہ مزدور“ بھی شامل اشاعت کرلیا ہے۔“
”سرسید کا قومی مشن“کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں تعلیم کی اہمیت پر
روشنی ڈالی گئی ہے جب کہ ”تعلیم-- ذریعہ فروغِ امن“ میں معاشرے میں امن کے
لیے تعلیم کو بنیادی ضرورت قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس حقیقت سے کوئی مفر
مکر نہیں کہ ہمارے معاشرے کی بیشتر برائیاں بشمول دہشت گردی جہالت کی بدولت
ہیں۔ تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں رونما ہو
سکتی ہیں۔اس سے اگلے مضمون میں امنِ عالم کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے اس
کی ذمہ داریاں نوجوانوں کے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں۔ یہ مضمون عصری تقاضوں
کا مرہونِ منت ہے۔”عوام اور رائے عامہ“ میں مصنف نے لفظ”عوام“ اور”رائے
عامہ“کی وضاحت مختلف حوالہ جات سے کی ہے۔
مندرجہ بالا مضامین کے علاوہ ایک اور مضمون نہایت ہی اہم موضوع یعنی
پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اس حوالے سے بانئ پاکستان قائدِ اعظم کے مطمع
نظر پر رقم کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں 14/جولائی 1947ء کو کی گئی پریس
کانفرنس کا حوالہ تاریخی ہے جس میں بابائے قوم نے فرمایا، ”اقوامِ عالم کے
ساتھ دوستانہ تعلقات اور دنیا میں قیام امن کے لیے دوست ممالک کے ساتھ مل
کر کام کریں گے۔ اس کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔“اس سلسلے میں انہوں نے
بہت سے تاریخی حوالے دیے ہیں۔ اسی طرح اس سے اگلے دو مضامین میں پاکستان کی
خارجہ پالیسی کے مقاصداورایشیا میں پاکستان کے کردار کو زیرِ بحث لاکر قومی
خدمت کی ہے۔
”اپنی شخصیت کو پہچانئے“میں شخصیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں،”سچ یہ ہے
کہ جس شخصیت کے بارے میں پوچھا جارہا ہے وہ کہیں باہر سے درآمد نہیں کی
جاتی بلکہ اس کا ضمیر وظہور انسان کے اندر سے ہوتا ہے۔خارجی اثرات شخصیت کے
بنانے اور بگاڑنے میں البتہ اثرانداز ہوتے ہیں۔“دیگر مضامین میں
”شطرنج-کھیل یا تربیتِ حرب و سیاست“اور”کامی“شامل ہیں۔”کامی“ میں کاملہ
انجم جو ایک ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں اور بقول ناصر صاحب کامی کی شاعری ابھی
ابتدائی مراحل میں ہے لیکن ان کے اشعار میں بلا کی جذبات نگاری ہے۔ انہوں
نے کامی کی شاعری کے نمونے بھی درج کیے ہیں۔ طوالت سے اجتناب کرتے ہوئے محض
ایک دو اشعار ہی کا بطور حوالہ پیش کیے جارہے ہیں۔
کسے خبر ہے کہ تیری رفاقتوں کا لہو
رچا ہے ہاتھ میں کامی کے اب حنا کی طرح
اور
شہرہ کامی کی وحشت کا ہے شہر میں
کون جانے یہ سچ ہے کہ الزام ہے
ان طبع زاد مضامین کے بعد سات مضامین ترجمہ کیے گئے ہیں جن کے عنوانات یہ
ہیں؛ ”قرآن کا اعجاز“، ”آبِ شفا زم زم“، ”سبز باغ“، ”چمنستانِ
خیال“،”قیامتِ صغریٰ“، ”انوکھی وصیت“ اور ”کیا محبت اسی کو کہتے ہیں؟“ ان
میں ”سبز باغ“ قدرے طویل ہے جس میں ولیم ہیری ہڈسن کے ”گرین مینشن“کی کہانی
کو ”سبز باغ“ کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سیّد محمد ناصر علی کی یہ تصنیف انہیں ایک
کامیاب مضمون نگار کے طور پر منظرِ عام پر لائی ہے۔میں انہیں ان کی اس کاوش
پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
|