تحریر: انیلہ افضال
تمام مسلمانوں کا اس بات پر مکمل ایمان ہے کہ ایک دن جب قیامت قائم کر دی
جائے گی تو ہم سب کو اﷲ کے حضور پیش ہونا ہے جہاں پر ہمیں ہمارے اعمال کا
پورا پورا بدلہ ملے گا۔ اﷲ کے انصاف کا ترازو ہمارے اعمال کو پورا پورا
تولے گا۔ اور پھر ’’جن کے اعمال کا وزن بھاری ہو گا وہ دل پسند زندگی میں
ہوں گے اور جن کے اعمال کا وزن ہلکا ہو گا ان کی منزل ھاویہ ہے‘‘۔ (القرآن)
قرآن کریم فرقان حمید میں اﷲ تعالیٰ نے دل پسند زندگی کو جنت کی زندگی
فرمایا ہے۔ جنت! کیا خوش گوار احساس ہے! یقیناً جنت میرے رب کی بہترین نعمت
ہے۔ یہ تو وہ جنت ہے جس کا وعدہ نیک اعمال کے بدلے میں میرے رب نے بار بار
کیا ہے اور جو آسمانوں میں کہیں موجود ہے لیکن زمین پر جو جنتیں اﷲ تعالیٰ
نے ہم مسلمانوں کو عطا فرمائی ہیں ایک نظر ان پر بھی ڈالی جائے کہ ایمان
تازہ اور روح سرشار ہو جائے۔
اس روئے زمین پر موجود جنتوں میں سب سے افضل ہے جنت البقیع۔ بقیع اس جگہ کو
کہتے ہیں جہاں جنگلی پیڑ پودے بکثرت پائے جاتے ہوں اور چوں کہ بقیع قبرستان
کی جگہ میں پہلے جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹے عوسج یعنی غرقد کے پیڑ بکثرت تھے اس
لیے اس قبرستان کا نام بھی بقیع غرقد پڑ گیا، یہ قبرستان مدینہ منورہ کی
آبادی سے باہر مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں واقع ہے۔ اس کے ارد گرد
مکانات اور باغات تھے اور مسجد نبوی کی آخری توسیع میں اس قبرستان اور مسجد
نبوی کے درمیان جو مکانات تھے ان سب کو منہدم کر دیا گیا، اب یہ بقیع
قبرستان مسجد نبوی کے خارجی صحن سے مل چکا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم اور حضرات مہاجرین رضوان اﷲ اجمعین نے جب مدینہ منورہ کو ہجرت کر کے
اپنا مسکن و وطن بنایا، تو اس شہر مبارک میں مزید تعمیری و تمدنی ترقی ہونے
لگی۔ اس وقت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ کوئی مناسب
جگہ مسلمانوں کی اموات کی تدفین کے لیے متعین ہو جائے، اسی مقصد کے پیش نظر
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس (بقیع کی) جگہ تشریف لائے، تو ارشاد فرمایا،
’’مجھے اس جگہ (یعنی بقیع) کا حکم (قبرستان کے لیے) دیا گیا ہے۔ (مستدرک
امام حاکم 11/193) اس روایت سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول سیدنا
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اس (بقیع کی) جگہ مسلمانوں کا
قبرستان بنانے کا حکم فرمایا تھا اور یہیں سے اس جگہ یعنی بقیع قبرستان کی
فضیلت کی ابتدا ہوتی ہے۔ جو عمرہ زائرین یا حج زائرین مدینہ منورہ میں وفات
پاتے ہیں وہ اس ارضی جنت میں دفن ہوتے ہیں۔ یہاں دفن ہونا ہر مسلمان کی
خواہش ہے۔
کرہ ارض پر موجود دوسری عظیم ترین جنت، جنت المعلیٰ ہے۔ یہ ارضی جنت
’’الحجون‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ مکہ معظمہ کا خاص قبرستان ہے جو جنت
البقیع کے بعدجَنَّتْ المعلیٰ دنیا کا سب سے افضل ترین قبرستان ہے جو کعبہ
سے جنوب مشرقی جانب قریب ہی واقع ہے۔ اس قبرستان میں سرورِ کونین حضرت
محمدصلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے رشتے داروں، ام المومنین حضرت خدیجہ
الکبریٰؓ، صحابہ وتابعین اور اولیاء وصالحین رضی اﷲ عنھم کے مزارات مقدسہ
ہیں۔ یہ قبرستان بیت اﷲ شریف کے مغربی جانب تقریبا ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے
فاصلے پر واقع ہے یہاں پر عام حجاج کرام اور مقامی لوگوں کو بھی دفن کرنے
کی اجازت ہے۔ عالم اسلام میں اس شخص کو خوش نصیب مانا جاتا ہے جس کو یہاں
دفن ہونے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔
روئے زمین پر موجود تیسری جنت کو ریاض الجنہ کہا جاتا ہے۔ ریاض الجنہ یہ وہ
مبارک جگہ ہے جو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر یعنی حجرہ عائشہ رضی اﷲ
عنہاسے منبر شریف کے درمیان میں ہے، اس کا نام ریاض الجنۃ ہے (جنت کا
باغیچہ)۔ یہ نام اس لیے پڑا کہ حدیث شریف میں رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا،
’’میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ
ہے‘‘۔ (رواہ البخاری:1196ومسلم :1391)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مقام کی بڑی فضیلت ہے، اگر مسجد نبوی آنے کا
موقع ملے تو یہاں عبادت، ذکر، اﷲ سے دعا اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار
کرنا چاہیے۔ اس جگہ پہ نبیﷺ سے بھی خاص طور سے عبادت کرنا ثابت ہے۔ یزید بن
ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ میں سلمہ بن اکوع رضی اﷲ تعالی کے ساتھ آتا اور
وہ مصحف والے ستون کے پاس یعنی روضہ شریف میں آکر نماز ادا کرتے، تومیں نے
انہیں کہا ’’اے ابو مسلم میں دیکھتا ہوں کہ آپ اس ستون کے پاس ضرور نماز
ادا کرتے ہیں‘‘۔ تووہ فرمانے لگے، ’’میں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو
دیکھا کہ آپ بھی یہاں خاص کرنماز ادا کیا کرتے تھے‘‘۔ (بخاری:502 ومسلم:509
) اﷲ تعالی ہم سب کو اس مقدس جگہ ریاض الجنہ میں عبادت کرنے اور کچھ دیر
سعات حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔
مندرجہ بالا جنتیں تو خوش نصیبوں کو ہی حاصل ہوتی ہیں مگر مزید دو جنتیں
ایسی ہیں جو ہر مسلمان کو حاصل ہیں۔ اگرچے ان کا حصول بھی سراسر خوش نصیبوں
کے حصے میں ہی آتا ہے۔
حدیث نبویﷺ ہے کہ ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
’’ماں کے بغیر گھر قبرستان لگتا ہے‘‘۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک
شخص نے عرض کیا کہ: ’’یارسول اﷲﷺ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون
ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیری ماں‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ’’پھر کون؟‘‘ آپﷺ نے
فرمایا، ’’تیری ماں‘‘۔ ’’پھر کون؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’تیری ماں‘‘۔ چوتھی
مرتبہ سوال کیا ’’پھر کون؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیرے والد‘‘۔ ماں ہستی ہی
ایسی ہے جو دنیا کی ساری مشکلات اور تکالیف خود سہتی ہے لیکن اپنی اولاد پر
آنچ نہیں آنے دیتی، انہیں اپنے پروں میں چھپا کر رکھتی ہے۔ اسی لیے کسی نے
کیا خوب کہا ہے کہ ’’ماواں ٹھنڈیاں چھاواں‘‘۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول ا ﷲﷺ نے ارشادفرمایا ’’میں جنت گیا
تو میں نے دیکھا کہ اس میں کوئی قرآن پڑھ رہاہے؟ فرشتوں نے جواب دیا حارثہ
بن نعمانؓ ہیں‘‘۔ (حارثہ بن نعمانؓ اپنی ماں کی خدمت اور حسن سلوک کے حوالے
سے خاص شہرت رکھتے ہیں)۔ اسی طرح اویس قرنیؓ کو بھی اسلام کی تاریخ میں
اطاعت، خدمت اور حسن سلوک سے شہرت حاصل ہے۔ ماں کی شفقت، محبت، خلوص، پیار
اور ایثار و مروت کسی تعارف کی محتاج نہیں کیوں کہ ماں کی محبت و پیار بے
لوث ہوتا ہے۔ ماں کے لیے کوئی مخصوص دن، مخصوص وقت، مخصوص لمحہ نہیں ہوتا
بلکہ ہر روز، ہر لمحہ، ہر گھڑی ماں کا وقت ہوتا ہے۔ ماں کے ساتھ گزرا ہوا
وقت یقیناً جنت میں گزرتا ہے۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، ’’جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو
خوب چرو‘‘۔ صحابی کرام نے عرض کیا، ’’یا رسول اللّٰہﷺ! جنت کے باغ کیا
ہیں؟‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’دین کے حلقے‘‘۔ یعنی دینی محافل،
ذکر واذکار کی محافل اور وہ تمام جگہیں جہاں یہ محافل منعقد کی جائیں جنت
کے باغ ہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے کہ، ’’اپنے گھروں
کو قبرستان نہ بناؤ‘‘۔ یعنی ہمیں اپنے گھروں عبادات کا اہتمام کرنا چاہیے۔
ذکر واذکار کی محافل کا انعقاد کرنا اور عبادات میں مشغول ہونا گویا گھروں
کو جنت کے باغ بنانے کے مترادف ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اﷲ تعالیٰ نے
اپنے دین کی تعمیر کے لیے چن لیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اسکول، کالج، مدرسے،
دفتر، دکان، مارکیٹ، گھر غرض جہاں کہیں بھی ہوں اﷲ کا ذکر کرتے ہیں اور
اذکار کی محافل کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو بھی جنت کے ان
باغوں میں چرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
|