من اجل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمیعا ۔ ترجمہ “ اس وجہ سے ( حکم) لکھ دیا ہم نے بنی اسرائیل پر کہ جس نے
قتل کیا کسی انسان کو سوائے قصاص کے اور زمیں میں فساد برپا کرنا ‘ تو گویا
اس نے قتل کر دیا تمام انسانوں کو اور جس نے بچا لیا کسی جان کو تو گویا
پچا لیا اس نے تمام لوگوں کو“ ( المآئدہ - ٣٢)
ہتھیار بند ڈاکوؤں اور رہزنوں کی سزائیں ( جمہور علما کا یہ خیال ہے کہ سزا
جرم کے مطابق ہوگی ۔ جتنا جرم سنگین ہوگا اتنی ہی سزا سخت ہوگی ۔ چناچہ
احناف نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ اگر انہوں نے قتل کیا تو انہیں قتل
کیا جائے گا اور مقتول کے وارثوں کو بخشش دینے سے بھی معاف نہ ہو گا اور
اگر قتل کیا اور مال بھی لوٹا تو پر انہیں سولی دے دیا جائے گا اور ان کی
لاشیں لٹکی رہیں اور اگر انہوں نے قتل نہ کیا صرف مال لوٹا تو انکا دایاں
ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے گا اور اگر انہوں نے نہ قتل کیا نہ مال
لوٹا صرف لوگوں کو دہشت زدہ اور ہراساں کیا تو پھر انہیں قید کیا جائے گا)
( المآئدہ ٣٣)
“ سحت“ کا لغوی معنی ہلاکت و بربادی کے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے اس کے
معنی فیصلہ کرتے وقت رشوت لینے کو بھی بتایا ہے ۔ تشریح ( رشوت اس مال کو
کہتے ہیں جو کسی کا حق ضائع کرنے کے لئے اور ناحق کوئی چیز خود لینے کے لئے
کسی حاکم کو دیا جائے ۔ لیکن اپنے دین ‘ جان اور مال کی حفاظت کےلئے دی
جائے تو حرام نہیں‘ یہاں لینے والا گناہ گار ہوگا۔ بقول امام اعظم ابو
حنیفہ رحمت اللہ ) ( المآئدہ ٤٢)
رب کا معنی ہے آہستہ آہستہ کسی چیز کو اس کی استعداد کے مطابق نقص سے کمال
کی طرف‘ کمزوری سے قوت کی طرف پہچانے والا ( المآئدہ ٧٢)
رضی اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ العظیمہ ۔ ترجمہ “ راضی ہو گیا اللہ تعالیٰ ان
سے اور راضی ہو گئے وہ اللہ تعالیٰ سے ۔ یہی ہے بڑی کامیابی “ ( المآئدہ
١١٩) |