مولانا محمد الیاس گھمن
مرکزی ناظم اعلی اتحاد اہل السنة والجماعة پاکستان
تغیر کا زمانہ ہے، آئے روز کوئی نہ کوئی ایسی خبر سننے کو ملتی ہے جو
سرتاپا انسان کو غمگین کردیتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو کچھ عرصہ قبل پاکستانی
شہریوں کے قتل کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ بعد ازاں صاحب بہادر امریکہ کی
جانب سے مسلسل اس کی باعزت رہائی کے مطالبات رہے۔ اولاً تو پنجاب حکومت پر
دباﺅ ڈالا گیا لیکن پنجاب حکومت نے کھل کر کہا کہ یہ فیصلہ عدالت کرے گی
پھر وفاقی حکومت کے سامنے سفارشات پیش کی جانے لگیں اور....
اور.... ....دیکھتے ہی دیکھتے ریمنڈ ڈیوس کی باعزت طور پر رہا کر کے خصوصی
طیارہ کے ذریعے وطن بھیج دیا گیا۔ اس کا رد عمل کیا ہوگا؟ یہ آنے والا وقت
ہی بتلائے گا لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اس کا انجام کچھ” اچھا“ نہیں ہوگا ۔
موجودہ حکومت عوامی رد عمل کا سامنے کرتے وقت اپنی کرسی بچا لے تو یہ ان کی
واقعی ”کامیاب سیاست “ ہو گی۔
ایک طرف تو ملکی حالات اس حد تک نازک ہیں تو دوسری جانب ہماری کسمپرسی بھی
مت پوچھیے!!!! ہم نے اپنے مورچے جب نااہل ہاتھوں میں دیے تو انجام بخیر
نہیں ہوسکتا ۔اسی بارے میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
اذا وسد الامر الی غیر اہلہ فانتظر الساعة جب معاملہ نااہل کے سپرد کردیا
جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔
ہم نے اپنے جنگی ہتھیار....میڈیا کی جنگ میں....غیروں کے سپرد کر رکھے ہیں
الیکٹرانک میڈیا ہو خواہ پرنٹ میڈیا ؛لادین لوگ یا کہہ لیجئے کہ دین دشمن
لوگ آج کھل کر اس میدان میں آئے ہوئے ہیں ۔افسوس کہ ہمیں ابھی تک اس کا
ادراک تک نہیں ہورہا....کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے چلا ہے!!!!!
ورنہ ملا جیون رحمة اللہ کے زمانہ میں جب بادشاہ نے اہل اسلام کے عقائد
ونظریات ان کی تہذیب وثقافت ان کے کلچر اور تمدن کو ختم کرنے کے لیے فوج
کشی کا ارادہ کیا تو بادشاہ کو بتلایا گیا کہ ”بادشاہ! تجھے معلوم ہونا
چاہیے کہ تیرے سپاہیوں کی تلوار اس مقام تک بعد میں پہنچے گی ملاجیون کا
قلم اس کو پہلے فتح کر چکا ہو گا ۔“
اکابر نے قلم کو تھاما تھا اور اس کا حق ادا کیا تھا دشمن پر تلوار کا خوف
تو اپنی جگہ !ان کی قلم کی کاٹ بھی اس قدر مضبوط تھی کہ ایک تحریر سے ”چرخِ
کہن“ کانپ اٹھتا تھا ۔حضور علیہ السلام نے بھی علم کی حفاظت کا ذریعہ کتابت
کو قرار دیا ہے قیدوا العلم بالکتابة علم کو محفوظ کرو تحریر کے ذریعے ۔
آج قحط الرجال کے اس دور میں اچھا لکھنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں اس لیے
ہمیں ان مسائل پر بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا بلکہ غور وفکر کرنے کا وقت
تو کب کا ختم ہوچکا۔ حضرت والا مفتی رشید احمد صاحب نوراللہ مرقدہ نے اس کے
تمام زاویوں کا بغور جائزہ لے کر میڈیا میں اپنی ٹیم شامل کی تھی، حضرت
مفتی عبدالرحیم صاحب المعروف استاد صاحب نے اس کو جس خوش اسلوبی سے پروان
چڑھایا حقیقت یہ ہے کہ یہ استاد صاحب ہی کا کام ہے۔
حضرت استاد صاحب کے معتمد خاص برادرم مفتی ابولبابہ شاہ منصور ،مفتی
محمدصاحب، مولانا محمد افضل، مولانا فیصل احمد، مولانا انور غازی، مولانا
عدنان کاکاخیل ،عزیزم مولانا عبدالمنعم فائز اور ان کے دیگر رفقاء کار نے
اس کونپل کو شجر سایہ دار بنانے کے لیے جس انتھک محنت کا مظاہرہ کیا ہے اسے
حضرت والا کے اخلاص کے علاوہ دوسرا نام دینا ناانصافی ہوگی۔
میرے بارے میں ملک بھر میں ایک طبقہ جوادلہ کی روشنی میں مسلک اہل السنة
والجماعة میں داخل نہیں نے ایک منفی پروپیگنڈہ کیا اور کہا کہ روزنامہ
اسلام نے23 جنوری 2010 کی اشاعت میں کہا ہے کہ یہ ایجنسیوں کا آدمی غیرمضر
مدرسی اختلافات کو ہوا دے رہا ہے اور اس کو جیل سے اسی شرط پر رہا کیا گیا
کہ یہ فرقہ واریت کو فروغ دے گا پھر کدورت اور عداوت کی حد ملاحظہ کریں جس
شہر میں میرا کہیں بیان ہوتا پورے شہر میں23 جنوری 2010 کے اخبار کے پرچے
کی کاپیاں کرا کر آویزاں کردیتے۔ اگر انصاف کو ملحوظ رکھا جاتا تو یہ ایک
محض غلط فہمی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ کیونکہ27جنوری 2010کو ادارہ(روزنامہ
اسلام) نے اپنی اخلاقی فرض کی ادائیگی کردی تھی اور اعتذار لگایا جس میں یہ
تھا کہ یہ نادانستہ طور پر ایسا ہوگیا۔ ادارہ اس پر معذرت خواہ ہے ایک سوچے
سمجھے منصوبے کے مطابق میرے اور جامعة الرشید[ متعلقہ شعبہ جات سے وابستہ
افراد] کے مابین دوریاں پیدا کرنے کی سازشیں کی جانے لگیں لیکن ....
ایں خیال است ومحال است وجنوں
نہ پہلے ایسا ہوا تھا اور انشاءاللہ آئندہ کبھی ایسا ہوگا۔ اللہ کا شکر
میرے اکابر نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا ہوا ہے نہ تو میں ان سے بدظن ہوں
اورنہ ہی وہ مجھ سے بدگمان!
مزید یہ کہ میرے ادارے مرکز اہل السنة والجماعة87جنوبی لاہور روڈ سرگودھا
جو ایک دیہی علاقہ شمار ہوتا ہے اس میں عروس البلاد کراچی سے روزنامہ اسلام
کی ٹیم تشریف لائی۔ اور میرے پاس تخصص کرنے والے تقریباً70 علماء کو کالم
نگاری کا کورس کرایا۔ جس پر میں ان تمام حضرات کا بے حد ممنون ہوں۔
میں تمام اہل السنة والجماعة کے مدارس اورعصری علوم کے اداروں کے ارباب
اہتمام وانتظام سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ جامعة الرشید کے اساتذہ نے
جو انقلابی کام کی داغ بیل ڈالی ہے اور چند ایک اہم شعبہ جات متعارف کرائیں
ان کے ساتھ ہمیں بھر پور تعاون کرنا چاہیے اور اس کے فوائد میں سے سب سے
اہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے طلباء اور علماء میں چھپی صلاحیتیں اجاگر
ہوں گی اور تمام میدانوں میں آکر بخوبی اپنے فرائض کو انجام دے سکیں گے تین
دن کے صحافت کورس کا فائدہ میں اپنے طلبا میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ ہمارے
یہ بچے بہت اچھا لکھ سکتے ہیں اگر ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی ماہر قلم
ہو تو ....اور پھر اس کے فوائد طلباء کرام مدارس اور وفاق المدارس میں
امتحان کے موقع پر محسوس کریں گے کہ مدعا کو بیان کیسے کیا جاتا ہے جس سے
ان طلبا کو رزلٹ پہلے سے کہیں اچھا ہو گا۔باقی آزمائش شرط ہے ....اللہ
تعالیٰ حضرت والا کے اس لگائے ہوئے گلشن[جامعة الرشید اور
دارالافتاءوالارشاد] کو ہمیشہ خوشبودار رکھے اس کی آبیاری کرنے والوں کو
اپنی حفظ وامان میں رکھے ۔اللہ رب العزت تمام حضرات کو اشاعت دین اور حفاظت
دین کے لیے قبول فرمائے۔ |