خلیفہ ہارون الرشیدکی بیوی ملکہ زبیدہ بنت جعفر
فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ آئیں۔انہوں نے جب اہل مکہ اور حْجاج
کرام کو پانی کی دشواری اور مشکلات میں مبتلا دیکھا تو انہیں سخت افسوس ہوا۔
چنانچہ انہوں نے اپنے اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے کر
ایک ایسا فقید المثال کارنامہ انجام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔ملکہ
زبیدہ کی خدمت کیلئے ایک سو نوکرانیاں تھیں جن کو قرآن کریم یاد تھا اور وہ
ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ ان کے محل میں سے قرات کی آواز
شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آتی رہتی تھی۔ملکہ زبیدہ نے پانی کی قلت
کے سبب حجاج کرام اور اہل مکہ کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا اپنی آنکھوں
سے مشاہدہ کیا تو انہوں نے مکہ میں ایک نہر نکلوانے کا ارادہ کیا۔ اب نہر
کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف علاقوں سے ماہر انجینئرز بلوائے
گئے۔ مکہ مکرمہ سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے ’’ جبال طاد ‘‘
سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ (
17,00,000 ) دینار خرچ ہوئے۔جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس
منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا : آپ نے جس کام کا حکم دیا ہے اس
کے لئے خاصے اخراجات درکار ہیں، کیونکہ اس کی تکمیل کیلئے بڑے بڑے پہاڑوں
کو کاٹنا پڑے گا، چٹانوں کو توڑنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا
پڑے گا، سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنی پڑے گی۔ تب کہیں جا کر اس
منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
یہ سن کر ملکہ زبیدہ نے چیف انجینئر سے کہا : اس کام کو شروع کر دو، خواہ
کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو۔اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل
کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی
خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں
تھیں۔ ملکہ نے وہ تمام کاغذات لئے اور انہیں کھول کر دیکھے بغیر دریا برد
کر دیا اور روتے ہوئے کہنے لگیں :
’’ الٰہی! میں نے دنیا میں کوئی حساب کتاب نہیں لینا، تْو بھی مجھ سے قیامت
کے دن کوئی حساب نہ لینا ‘‘(البدایہ والنہایہ !!سے ماخوذ) ۔۔۔یہ تو ایک عشق
ِ حقیقی کی لازوال داستان تھی اب عشق ِ مچازی کی کہانی پڑھئے اور سر دھنئے
کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ،
ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا
’’کس قدر ویران گاؤں ہے،.۔.؟
‘‘طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ھے‘‘
جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ،
عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا،
اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،
تم لوگ اس گاؤں میں مسافرلگتے ہو،
آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،
میرے ساتھ کھانا کھاؤ،
اْلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اْلو
کی دعوت قبول کرلی،کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی،تو
اْلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ..
تم کہاں جا رہی ہو؟
طوطی پریشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے ،
میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔۔۔،
الو یہ سن کر ہنسا.. اور کہا .. یہ تم کیا کہہ رہی ہوتم تو میری بیوی ہو.
اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی، دونوں میں جب
بحث و تکرار زیادہ بڑھی تواْلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے
ہوئے کہا ’’ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے
سامنے پیش کرتے ہیں، قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا‘‘ اْلو کی تجویز
پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ، ،قاضی نے
دلائل کی روشنی میں اْلو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی، طوطا اس
بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اْلو نے اسے آواز دی ،
’’بھائی اکیلے کہاں جاتے ہواپنی طوطی کو تو ساتھ لیتے جاؤ‘‘
طوطے نے حیرانی سے اْلو کی طرف دیکھا اور بولا ’’اب کیوں میرے زخموں پر نمک
چھڑکتے ہو، یہ اب میری بیوی کہاں ہے عدالت نے تو اسے تمہاری بیوی قرار دے
دیا ہے‘‘ اْلو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا، نہیں دوست طوطی میری
نہیں تمہاری ہی بیوی ہے- میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو
ویران نہیں کرتے بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے …… |