لوگ کسی کو پینڈو کہہ دیں تو ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے
مگر مجھے کوئی پینڈوکہہ دے توخوشی ہوتی ہے ہربات کے پیچھے کوئی بات ہوتی ہے
۔میں ایک دن بائیک پرجارہا تھاتوسگنل بندتھا یہ توہرکوئی سمجھے گا کہ سگنل
بندہوتولوگ چپ رہتے ہیں مگرسگنل کھلتے ہیں ہارن پے ہارن میری بائیک کے آگے
سے ایک عورت گزررہی تھی تومیں نے رکنے کوترجیح دی مگرپیچھے کھڑے کاروالے
بھائی سے برداشت نہ ہواوہ ہارن پہ ہارن بجائے جارہا تھا
اورپینڈوگنوارناسمجھ پتا نہیں کیاکیا کہا تو میں نے اسے ساری صورت حال
بتائی اتنے میں بھیڑجمع ہوگئی لوگ سمجھ رہے تھے ابھی ہاتھاپائی ہوگی توایک
آدمی نے مجھ سے پوچھا کہاں کے رہنے والے ہیں آپ تومیں نے فخرکے ساتھ اپنے
پینڈ کانام بتایا تومجھ سے پوچھا لاہورمیں کتنا عرصہ ہوگیاتومیں نے کہا
کراچی تقریباًدس سال گزارے اوردس سال لاہورمیں ہوگئے ہیں تواس بھیڑمیں کھڑے
آدمی نے کہایعنی اپنی آدھی عمرآپ نے شہرمیں گزاردی میں نے کہا جی ہاں
مگرلوگوں کواوران کے حقوق کو کچلنا نہیں سیکھاتومیں نے اس کاروالے آدمی سے
پوچھا آپ شہری ہو اس نے ہاں میں جواب دیامیں نے اسکے باپ کا پو چھا کہ آپ
کے والدمحترم کہاں پیدا ہوئے تو اس نے کہاکسی گاؤں میں تو میں نے کہا آپ کا
داداتواس نے کہاں یقیناً وہ بھی گاؤں میں اور اسکا دادا تو کہا وہ بھی گاؤں
میں تو میں نے کہا اگر وہ بھی گنوار ہیں ناسمجھ ہیں تومیں بھی گنوارنہ سمجھ
ہوں تو اسی وقت مجھے اس آدمی کی آنکھوں میں شرمندگی نظر آئی تومیں نے اس
آدمی کواپنانام بتایا اورجوکام کرتاہوں وہ بھی بتایااورمیں نے کوشش کی کہ
ایسے لفظوں کاچناؤ کروں کہ اس کی دل آزاری نہ ہوکیونکہ لفظ اورلہجے میں
اثرہوتاہے وہ پہلے تیکھے مزاج میں بات کرتارہا مگرمیں پیارسے بات
کرتارہاپھرمیں نے کہامیرامقصد آپکو شرمندہ کرنا نہیں تھا آپکویہ بات سمجھ
لینی چاہیے کہ شہرگاؤں کا بیٹاہوتا ہے کیونکہ شہرجہاں بھی آبادہوگااس جگہ
پہلے کوئی نہ کوئی گاؤں ہوگاکیونکہ ہرشہرکی جڑگاؤں ہی ہوتا ہے (زراعت )کسان
کو ملک کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے کیونکہ جب سے دنیا بنی کسان کھیتی
باڑی کرتا رہاہے چاول کی ہی بات کرلیں اسے بننے میں کتناوقت لگتا ہے 120دن
اور یہ120دن کسان اپنا پسینہ ملا ملا کر اس کی حفاظت کرتاہے تبھی جا کر فصل
پکتی ہے ۔آج کل اتنی زیادہ ہاؤسنگ سوسائٹیز بن گئی ہیں کہ کھیت کھلیان کم
ہی نظرآتے ہیں ۔ہم کھانا برباد نہیں کرتے مگرکسان اور گاؤں کوبرباد کررہے
ہیں۔پاکستان میں آج بھی70فیصدلوگ زراعت سے مردعورت،بچے بڑھے مشتمل ہیں ملکی
معشیت میں اس طبقے کا بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ضرورہوتا ہے ہماراملک آج
بھی معاشی بدحالی اور کئی قرضوں میں مبتلا ہے کئی دہائیوں سے ہماری حکومتیں
کسانوں کی بہتری کیلئے اصلاحات کے زبانی دعوے کرتے آئے ہیں مگرآج تک ان
باتوں کو تکمیل تک نہیں پہنچایاالیکشن قریب آتے ہیں کبھی کسانوں کوسبسڈی دے
دی جاتی ہے توکبھی انہیں قرضے دیئے جاتے ہیں تاکہ ان کے ووٹ حاصل کرالیکشن
جیت سکیں مگراپنی جیت کے بعد اس شعبہ کو بالکل ہی نظراندازکردیتے ہیں زرعی
پیداواربڑھانے کیلئے ہمیں نئی پالیسیوں کی ضرورت ہے اورپرانی پالیسیوں میں
تبدیلی کی ضرورت ہے اگرہم پیدوارترقی کے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں
نچلی سطح پرچھوٹے کسانوں کومالکانہ حقوق دینے کی ضرورت ہے۔ﷲ پاک نے ہمارے
پیارے ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں رکھی جس میں ٹھاٹھیں مارتا
سمندر،معدنیات سے مالا مال فلک بوس پہاڑ،بہترین نہری نظام،جفاکش
کاشتکاراورچاروں موسم عطیہ خداوندی ہے زراعت کے شعبہ کو مضبوط کرنے کیلئے
چھوٹے کسانوں کو مالکانہ حقوق دینے ہوں گے اورملک کومعاشی طورپرمضبوط بنانے
کیلئے کمزورطبقہ کو حقوق دے کرزمین سمیت قدرتی وسائل پرحصہ داربنانا ہوگایہ
توحقیقت ہے کہ نچلے حصہ کی غربت کرنے کازرعی اشیاء،اجناس اور مصنوعات سے
براہ راست تعلق ہے مگرایک لمحہ فکریہ ہے کہ چھوٹے کسانوں سے انکی زمینیں
ہتھیانے کی تعدادمیں مسلس اضافہ ہورہا ہے فارم ہاؤسز کے شوقین دولت
مندحضرات ان کسانوں سے ان کی زمینیں اونے پونے داموں میں خریدکرانہیں ان کی
زمینوں سے محروم کررہے ہیں چھوٹے طبقے کے کسانوں کی زمینیں یہ رہائشی
سکیمیں بھی لے کرزراعت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اس سے قبل بہت دیرہوجائے اس
کوسمجھنے اورپالیسیوں کوتبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زراعت کو بربادہونے سے
بچایا جاسکے غریب لوگ زراعت اور زرعی صنعت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے سرسبز
فصلوں سے محتاج ہورہے ہیں جن کی وجہ سے صنعتی شعبہ میں ٹیکسٹائل
ملزاوردیگرپیداورای ملیں چلتی ہیں اوران میں کام کرنے والے مزدوروں کی
زندگی کا پہیہ رواں دواں ہے ہمارے ہاں کپڑے کی صنعت کے فروغ اور ہماری
برآمدات کا انحصاربھی اسی زراعت کے مرہون منت ہے کس قدرتکلیف کی بات ہے کہ
70سال سے کوششوں کے باوجود ہم ملک کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں
ہوئے حالانکہ ہمارے پاس محنت کش افرادی قوت اوروسیع زراعی رقبہ موجود ہے ہم
وزیراعظم عمران خان سے امیدکرتے ہیں کہ زراعت کی ترقی کیلئے اقدامات کریں
گے اورکسانوں کے مسائل حل کریں گے اورجوہماری ریڑھ کی ہڈی (زراعت)کونقصان
پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں ان کے خواب کبھی پورے نہ ہوں ۔TVبنانے والے
کروڑوں پتی ہیں مگر فصل تیارکرنے والے گاؤں آئے روزغریب ہوتاجارہا ہے گاؤں
کی قسمت میں آج بھی چندسکول،ہسپتال اورکچی سڑکیں ہیں۔فیکٹریاں اور ہاؤسنگ
سوسائیٹیاں لگانا غلط نہیں مگراس نام نہادترقی سے گاؤں ختم کرہورہا ہے
اورگاؤں ختم ہوگیا تو باپ ختم ہوجائے گا جب باپ ہی نہیں رہے گا تولاورث
بیٹا کیاکرے گا۔
|